جواب: محراب میں کھڑے ہو کر امامت کرانا جائز اور درست ہے ،
خواہ کوئی دشواری نہ بھی ہو ۔
محراب مسجد کا حصہ ہے ، جو شرعی ضرورت کے پیش نظر بنایا گیا ہے ۔
محراب کا وہی حکم ہے ، جو مسجد کا ہے ۔
کہا گیا ہے:
ويكره قيام الإمام وحده فى الطاق وهو المحراب ولا يكره سجوده فيه إذا كان قائما خارج المحراب هكذا فى النبيين وإذا ضاق المسجد بمن خلف الإمام فلا بأس بأن يقوم فى الطاق .
”محراب میں اکیلا کھڑا ہونا امام کے لئے مکروہ ہے ۔ البتہ محراب میں سجدہ کرنا جائز ہے ، جب نماز محراب سے باہر کھڑے ہو کر ادا کر رہا ہو ۔ تبیین میں ایسا ہی لکھا ہے ۔ مسجد تنگ پڑ جائے تو امام محراب میں کھڑا ہو سکتا ہے ، یہ جائز ہے ۔“ [فتاوي عالمگيري: 108/1]
مفتی محمود صاحب لکھتے ہیں:
”امام کا محراب میں کھڑا ہونا مکروہ ہے ، یعنی کراہت تنز یہی ہے ۔ جگہ کی قلت اور جگہ کی دشواری اور نمازیوں کی کثرت کے وقت خود محراب میں کھڑا ہونا مکروہ نہیں ہے ۔“ [فتاويٰ محمودية: ٥٠٦ ، ٥٠٤/٦]
کراہت پر کوئی دلیل شرعی نہیں ۔ ابن امیر الحاج حنفی اپنی کتاب حِلْيَةُ المُحَلى شَرْحُ مَنِيَّةِ الْمُصَلِّي میں لکھتے ہیں:
فأما المساجد التى بنيت ، وفيها الطاق ابتداء ، فهو من جملة المسجد ، فلا يكره للإمام الوقوف فيه ، والطاق هو المحراب .
”جن مساجد میں ابتدا سے ہی محراب بنے ہوں ، وہ مسجد کے حکم میں ہوں گے ، لہٰذا اس میں امام بلا کراہت کھڑا ہو سکتا ہے ۔“ [الفوائد البهية فى تراجم الحنفية لعبد الحي اللكهنوي ، ص ١٧]
دلائل ملاحظہ ہوں:
➊ رفاعہ بن مسلم رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
رأيت سويد بن غفلة يصلي فى الطاق .
”میں نے سوید بن غفلہ رحمہ اللہ کو محراب میں نماز پڑھتے دیکھا ۔“ [مصنف ابن أبى شيبة: ٥٩/٢ ، وسنده حسن]
➋ موسی بن نافع ابوشهاب رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
رأيت سعيد بن جبير يصلي فى الطاق .
”میں نے سعید بن جبیر رحمہ اللہ کو محراب میں نماز پڑھتے دیکھا ۔“ [مصنف ابن أبى شيبة: ٥٩/٢ ، سنده حسن]
➌ فطر بن خلیفہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
رأيت أبا رجاء يصلي فى المحراب .
”میں نے ابور جاء عطاردی رحمہ اللہ کو محراب میں نماز پڑھتے دیکھا ۔ “ [مصنف ابن أبى شيبة: ٥٩/٢ ، سنده حسن]
اسحاق بن منصور کوسج رحمہ اللہ کہتے ہیں:
قلت: تكره المحراب فى المسجد؟ قال: ما أعلم فيه حديثا يثبت ، ورب مسجد يحتاج إليه يرتفق به ، قال إسحاق كما قال .
”میں نے پوچھا کیا آپ مسجد میں محراب مکروہ سمجھتے ہیں؟ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرمانے لگے: اس سلسلے میں کوئی صحیح حدیث میرے علم میں نہیں ، کتنی مساجد ہیں کہ جن میں سمت قبلہ معلوم کرنے کے لیے محراب کی ضرورت ہوتی ہے ۔ امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ نے بھی یہی فرمایا ۔ “
[مسائل الإمام أحمد وإسحاق بن راهويه: ١٥١/١]
تنبیہ نمبر: 1
➊ سیدنا عبداللہ بن عمرو بن رضی اللہ عنہا بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اتقوا هذه المذابح ، يعني: المحاريب
”محراب بنانے سے بچیں ۔“
[المعجم الكبير للطبراني: ٥٤٠/١٣ ، ح: ١٤٤٣٣ ، المستدرك على الصحيحين للحاكم: ٤٣٩/٢ ، السنن الكبرى للبيهقي: ٤٣٩/٢ ، وسنده صحيح]
امام علقمہ رحمہ اللہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے بارے میں بیان کرتے ہیں ْ:
إنه كره الصلاة فى المحراب وقال: إنما كانت الكنائس فلا تشبهوا بأهل الكتاب ، يعني: أنه كره الصلاة فى الطاق
”آپ رضی اللہ عنہ محراب میں نماز پڑھنا پسند نہیں کرتے تھے اور فرماتے کہ یہ گرجوں کی طرح ہیں ، اہل کتاب سے مشابہت اختیار نہ کریں ۔“ [مسند البزار: ١٥٧٧]
تبصره:
سند ضعیف ہے ۔
میمون ابوحمزہ اعور ضعیف ہے ۔
ابراہیم نخعی مدلس ہیں ۔
➌ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
اتقوا هذه المحاريب
”محراب بنانے سے بچیں ۔ “ [مصنف ابن أبى شيبة: ٥٨/٢]
تبصره:
سند انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے ۔
ابراہیم نخعی رحمہ اللہ نے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے نہیں سنا ۔
➍ سالم بن ابی جعد رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
كان أصحاب محمد يقولون: إن من أشراط الساعة أن تتخذ المدائح فى المساجد يعني الطاقات
”صحابہ رضی اللہ عنہم فرماتے تھے: قیامت کی نشانیوں میں سے ہے کہ مساجد میں محراب بنائے جائیں گے ۔ “ [مصنف ابن أبى شيبة: ٥٨/٢]
تبصره:
سند ضعیف ہے ۔
عبیدہ بن معتب ضبی ”ضعیف اور مختلط“ ہے ۔ [تقريب التهذيب لابن حجر: ٤٤١٦]
➎ سالم بن ابی جعد رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
لا تتخذوا المنابح فى المساجد
”مساجد ميں محراب مت بنائيں ۔ “ [مصنف ابن أبى شيبة: ٥٨/٢ ، وسنده حسن]