لبرل ازم کا دعویٰ: ریاست کی مداخلت کی مخالفت
لبرل ریاستوں کا پالیسی فریم ورک معاشیات کے مباحث سے ماخوذ ہوتا ہے، اور معاشیات کی اکثر کتابیں یہ تاثر دیتی ہیں کہ ریاست کو نجی سیکٹر کے معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ یہ سوچ عام طور پر ان طلباء اور قارئین میں پھیلائی جاتی ہے جو معاشیات یا لبرل سیاسی فلسفے کا مطالعہ کرتے ہیں۔ بعد ازاں، یہ نظریہ اسلامی ریاست کی مذہبی مداخلتوں کے خلاف بطور دلیل استعمال کیا جاتا ہے، اور اسے "عدل و عقل” کے خلاف قرار دیا جاتا ہے۔
حقیقت: مکمل مسابقت کا تصور اور مداخلت کا جواز
پرفیکٹ کمپٹیشن (مکمل مسابقت):
- ➊ لبرل معاشی فکر "ریاست کی عدم مداخلت” کی دلیل کو ایک خیالی حالت یعنی مکمل مسابقت کے تناظر میں پیش کرتی ہے، جو نہ صرف غیر موجود ہے بلکہ ممکن بھی نہیں۔
ریاست کی لازمی مداخلت:
- ➋ معاشیات خود یہ تسلیم کرتی ہے کہ جہاں مکمل مسابقت نہ ہو، وہاں ریاست کو مداخلت کرنی چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ معاشی نظریات ریاست کی مداخلت کو رد نہیں کرتے بلکہ یہ بتاتے ہیں کہ ریاست کب اور کیسے مداخلت کرے۔
لبرل ازم کا اصل مقصد
لبرل سیاسی فلسفے اور معاشی نظریات کا مقصد ریاست اور معاشرے کو سرمایہ دارانہ اصولوں پر استوار کرنا ہے۔ لبرل فکر کا یہ دعویٰ کہ ریاست کو فرد کی ذاتی زندگی میں مداخلت کا حق نہیں، دراصل حقیقت کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کا نتیجہ ہے۔
ایڈم سمتھ اور ریاستی مداخلت
دھوکہ دہی کا طریقہ:
- ➊ ایڈم سمتھ نے واضح طور پر یہ کہنے کے بجائے کہ "ریاست کو مذہبی بنیادوں پر مداخلت نہیں کرنی چاہیے”، صرف یہ کہا کہ "ریاست کی مداخلت نہیں ہونی چاہیے”۔
- ➋ اس بیان کو آج بھی معاشیات کی نصابی کتب میں بغیر کسی تنقیدی جائزے کے پیش کیا جاتا ہے، اور ہمارے لبرل مفکرین اسے حقیقت سمجھتے ہیں۔
لبرل ریاست اور فرد کی ذاتی زندگی
ذاتی زندگی میں مداخلت کا اصول:
- ➊ لبرل فکر میں ذاتی زندگی ایک خوشنما پردہ ہے، جبکہ حقیقت میں لبرل ریاست جب اور جہاں ضروری سمجھے، اس میں مداخلت کرتی ہے۔
ریاستی کنٹرول کی مثالیں:
- ➊ بچوں کی تعلیم: والدین کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اسکول بھیجیں جہاں لبرل ریاست کے منظور شدہ نصاب کے مطابق تعلیم دی جاتی ہے۔
- ➋ ماں باپ کی تحویل کا مسئلہ: اگر والدین لبرل ریاست کی ترجیحات کے مطابق عمل نہ کریں تو ریاست بچوں کو ان سے چھین لیتی ہے۔
لبرل ریاست کی افادیت پسندی
لبرل ازم میں ریاستی اصول "ایفیشنسی” (utility and efficiency) پر مبنی ہوتے ہیں، نہ کہ قرآن و سنت کے احکامات پر۔ سوال یہ ہے کہ اسلامی ریاست کو ایسی تحدیدات کیوں ماننی چاہییں جو اسلامی اصولوں کے بجائے لبرل نظریات سے اخذ کی گئی ہوں؟
ذاتی زندگی میں مداخلت: اسلامی اور لبرل نقطۂ نظر
لبرل ازم کی تضاد بیانی:
- ➊ لبرل مفکرین ذاتی زندگی میں مداخلت کو "عظیم گناہ” قرار دیتے ہیں اور ہر قسم کے منکرات کو جواز دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
- ➋ قرآن و سنت میں اس حوالے سے کوئی ایسی نص موجود نہیں جو اس جرم کو عظیم ترین جرم قرار دے۔
اسلامی ریاست کا موقف:
اسلامی تعلیمات کے مطابق، اگر کوئی منکر کھلے عام ہو تو وہ نجی معاملہ نہیں رہتا۔ اس پر خاموشی اختیار کرنا یا اسے "ذاتی زندگی” کے پردے میں چھپانا درست نہیں۔
ایک عملی صورتحال:
اگر کسی شخص کے سامنے کوئی خاتون کی عزت پر حملہ کرے، تو کیا وہ اسے روکنے کے بجائے پولیس کو اطلاع دینے دوڑے گا، حالانکہ وہ جانتا ہے کہ پولیس کچھ نہیں کرے گی؟ اس قسم کے حالات میں فوری مداخلت نہ کرنا خود ایک جرم بن جاتا ہے۔
جمہوری نظام اور مداخلت
جدید جمہوری نظام میں ریاست اور این جی اوز مل کر عوامی معاملات میں مداخلت کرتے ہیں، جسے "پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ” کہا جاتا ہے۔
- ➊ خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے این جی اوز اکثر وہ کردار ادا کرتی ہیں جو ریاستی ادارے نہیں کرتے، اور پولیس ان کے سامنے مجبور ہوتی ہے۔
خلاصہ: اسلامی ریاست کے لیے سوال
لبرل ازم کے اصول، جو "ایفیشنسی” پر مبنی ہیں، اسلامی ریاست پر نافذ نہیں کیے جا سکتے۔ قرآن و سنت کے اصولوں کو چھوڑ کر لبرل نظریات پر عمل کرنا نہ صرف ناقابلِ قبول ہے بلکہ فکری اور عملی تضادات کا باعث بنتا ہے۔