قوموں پر اللہ کا عذاب کیوں آتا ہے؟
تحریر: ڈاکٹر ابو جابر عبداللہ دامانوی

قوموں پر اللہ کا عذاب کیوں آتا ہے؟

➊ ارشاد باری تعالی ہے:
وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ آمِنَةً مُّطْمَئِنَّةً يَأْتِيهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّن كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللَّهِ فَأَذَاقَهَا اللَّهُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ ‎﴿١١٢﴾‏ وَلَقَدْ جَاءَهُمْ رَسُولٌ مِّنْهُمْ فَكَذَّبُوهُ فَأَخَذَهُمُ الْعَذَابُ وَهُمْ ظَالِمُونَ ‎﴿١١٣﴾
اور اللہ تعالیٰ لوگوں کے لئے ایک بستی کی مثال بیان کرتا ہے جو پورے امن واطمینان سے (زندگی بسر کر رہی) تھی، پھر اس نے اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں سے کفر کا رویہ اختیار کیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے بھوک اور خوف کا مزہ چکھا دیا (ان پر بھوک اور خوف کو مسلط کر دیا) ان کرتوتوں کے بدلے میں جو وہ کر رہے تھے۔ اور البتہ ان کے پاس ایک رسول ان ہی میں سے آیا تھا تو انھوں نے اسے جھٹلادیا پھر انھیں اللہ کے عذاب نے پکڑ لیا، اس حال میں کہ وہ ظالم تھے۔
(النحل: ۱۱۲ ۱۱۳)

➋ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَمَا أَرْسَلْنَا فِي قَرْيَةٍ مِّن نَّبِيٍّ إِلَّا أَخَذْنَا أَهْلَهَا بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّهُمْ يَضَّرَّعُونَ ‎﴿٩٤﴾‏ ثُمَّ بَدَّلْنَا مَكَانَ السَّيِّئَةِ الْحَسَنَةَ حَتَّىٰ عَفَوا وَّقَالُوا قَدْ مَسَّ آبَاءَنَا الضَّرَّاءُ وَالسَّرَّاءُ فَأَخَذْنَاهُم بَغْتَةً وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ ‎﴿٩٥﴾‏وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَىٰ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِم بَرَكَاتٍ مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَلَٰكِن كَذَّبُوا فَأَخَذْنَاهُم بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ ‎﴿٩٦﴾‏ أَفَأَمِنَ أَهْلُ الْقُرَىٰ أَن يَأْتِيَهُم بَأْسُنَا بَيَاتًا وَهُمْ نَائِمُونَ ‎﴿٩٧﴾‏ أَوَأَمِنَ أَهْلُ الْقُرَىٰ أَن يَأْتِيَهُم بَأْسُنَا ضُحًى وَهُمْ يَلْعَبُونَ ‎﴿٩٨﴾‏ أَفَأَمِنُوا مَكْرَ اللَّهِ ۚ فَلَا يَأْمَنُ مَكْرَ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْخَاسِرُونَ ‎﴿٩٩﴾‏ أَوَلَمْ يَهْدِ لِلَّذِينَ يَرِثُونَ الْأَرْضَ مِن بَعْدِ أَهْلِهَا أَن لَّوْ نَشَاءُ أَصَبْنَاهُم بِذُنُوبِهِمْ ۚ وَنَطْبَعُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لَا يَسْمَعُونَ ‎﴿١٠٠﴾‏ تِلْكَ الْقُرَىٰ نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنبَائِهَا ۚ وَلَقَدْ جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَمَا كَانُوا لِيُؤْمِنُوا بِمَا كَذَّبُوا مِن قَبْلُ ۚ كَذَٰلِكَ يَطْبَعُ اللَّهُ عَلَىٰ قُلُوبِ الْكَافِرِينَ ‎﴿١٠١﴾‏ وَمَا وَجَدْنَا لِأَكْثَرِهِم مِّنْ عَهْدٍ ۖ وَإِن وَجَدْنَا أَكْثَرَهُمْ لَفَاسِقِينَ ‎﴿١٠٢﴾
’’اور ہم نے کسی بستی میں کوئی نبی بھی نہیں بھیجا مگر وہاں کے رہنے والوں کو ہم نے سختی ، تکلیف اور مصائب و مشکلات میں مبتلا کر دیا تا کہ وہ ہمارے سامنے عاجزی و انکساری اختیار کریں (اور ہماری طرف رجوع کریں) پھر ہم نے ان کی بدحالی کو خوشحالی سے بدل دیا یہاں تک کہ وہ لوگ خوب آسودہ حال ہو گئے تو وہ کہنے لگے کہ ہمارے آباء و اجداد کو بھی یہ مصائب و مشکلات پیش آتی رہی ہیں (یعنی وہ کہتے تھے یہ لیل و نہار کی الٹ پھیر اور گردش ہے ) تو ہم نے ان کو اچانک (عذاب میں) پکڑ لیا اور ان کو خبر تک نہ ہوئی۔ اور اگر ان بستیوں کے رہنے والے ایمان لے آتے اور پرہیز گاری اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتیں کھول دیتے لیکن انھوں نے تکذیب کی تو ان کی بد اعمالی کی وجہ سے ان کو پکڑ لیا۔ کیا پھر بھی ان بستیوں کے رہنے والے (ہمارے عذاب سے) بے فکر ہو گئے ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب رات کے وقت آپڑے جس وقت کہ وہ سوتے ہوں اور کیا ان بستیوں کے رہنے والے اس بات سے بے فکر ہو گئے ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب دن چڑھے آجائے اس حال میں کہ وہ کھیلوں میں مشغول ہوں ، کیا وہ اللہ کی پکڑ سے بے فکر ہو گئے ہیں اور اللہ کی پکڑ سے ان لوگوں کے علاوہ کہ جن کی شامت آگئی ہو کوئی بھی بے فکر نہیں ہوتا اور کیا ان لوگوں کو جو زمین کے وارث بنے وہاں کے لوگوں کی ہلاکت کے بعد (ان واقعات مذکورہ نے) یہ بات نہیں بتلائی کہ اگر ہم چاہیں تو ان کے جرائم کے سبب ان کو ہلاک کر ڈالیں اور ہم ان کے دلوں پر مہر لگا دیں پھر وہ نہ سن سکیں ، ان بستیوں کے کچھ کچھ قصے ہم آپ سے بیان کر رہے ہیں اور ان سب کے پاس ان کے پیغمبر دلائل ومعجزات لے کر آئے پھر انھوں نے جس چیز (دین حق) کو ابتدا میں جھوٹا کہہ دیا یہ بات ممکن نہ ہوئی کہ پھر اس کو مان لیتے ۔ اللہ تعالیٰ اسی طرح حق کو جھٹلانے والوں کے دلوں پر مہر لگا دیتا ہے اور اکثر لوگوں میں ہم نے وفائے عہد نہ دیکھا اور ہم نے اکثر لوگوں کو فاسق و نا فرمان ہی پایا۔‘‘
(الاعراف: ۹۴ تا ۱۰۲)

➌ نیز فرمایا:
فَكُلًّا أَخَذْنَا بِذَنبِهِ ۖ فَمِنْهُم مَّنْ أَرْسَلْنَا عَلَيْهِ حَاصِبًا وَمِنْهُم مَّنْ أَخَذَتْهُ الصَّيْحَةُ وَمِنْهُم مَّنْ خَسَفْنَا بِهِ الْأَرْضَ وَمِنْهُم مَّنْ أَغْرَقْنَا ۚ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلَٰكِن كَانُوا أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ ‎﴿٤٠﴾‏
’’پھر ہم نے ان سب کو ان کے گناہوں کے سبب پکڑ لیا ان میں سے بعض پر ہم نے پتھروں کی بارش برسائی اور بعض کو سخت زور دار آواز نے دبوچ لیا اور ان میں سے بعض کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور بعض کو ہم نے (پانی میں) ڈبو دیا اور اللہ تعالیٰ نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ ان لوگوں نے اپنی جانوں پر خود ہی ظلم کیا تھا۔‘‘
(العنکبوت: ۴۰)

معلوم ہوا کہ اللہ اور رسول کے انکار اور دین حق سے منہ موڑنے اور بد اعمالیوں میں مبتلا ہونے کی وجہ سے ان قوموں کو اللہ تعالیٰ نے دنیا سے مٹا ڈالا اور آج امت مسلمہ کی بھی یہی حالت ہو چکی ہے قرآن مجید اور احادیث کی موجودگی کے باوجود یہ امت، اللہ کے احکامات پر عمل پیرا ہونے کے لئے تیار نہیں ہے اور نہ قرآن وحدیث کے روشن قوانین کو یہ اپنے اوپر نافذ کرنے کے لئے تیار ہے بلکہ اکثریت نے کتاب وسنت کا راستہ چھوڑ کر اپنی مرضی کی پگڈنڈیوں اور شرک و بدعات کو سینے سے لگایا ہوا ہے۔
[الحدیث:۶۴]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے