قسطوں پر حرام بیع کی ایک صورت
سوال: کوئی گاڑی شو روم پر آتی ہے، پھر شو روم کا مالک وہ گاڑی کsی شخص کو بیچ دیتا ہے، وہ شخض گاڑی تیسرے شخص کو قسطوں پر دے دیتا ہے، گاڑی کا مالک، جس نے اسے خریدا تھا، اسے بیچ دیتا ہے اور گاڑی پھر نئے سرے سے شو روم میں لوٹ آتی ہے، بلکہ کبھی گاڑی شو روم کے مالک کے پاس ایک سے زیادہ مرتبہ لوٹ آتی ہے، اس موضوع کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟
جواب: میری رائے یہ ہے کہ یہ معاملہ جائز نہیں کہ کوئی شخص تاجر کے پاس آئے اور کہے: میں آپ سے قسطوں پر گاڑی خریدنا چاہتا ہوں، پھر تاجر اس سے کہتا ہے کہ آپ شو روم میں چلے جائیں اور جو گاڑی چاہے پسند کر لیں، وہ تاجر کے پاس دوبارہ آتا ہے اور کہتا ہے کہ میں فلاں گاڑی پسند کرتا ہوں، تاجر شو روم سے وہ گاڑی خریدتا ہے اور اس ضرورت مند کو بیچ دیتا ہے، یہ حرام ہے اور بلاشبہ حیلہ ہے، یہ تاجر اس کے بدلے کہ اس آدمی کو گاڑی کی نقد قیمت دیتا، وہ کہتا ہے گاڑی کی قیمت تیرے ذمے اتنی نقد ہے اور اتنی زیادہ ایک سال تک۔ اس بات کے درمیان اور یہ کہنے کے درمیان کوئی فرق نہیں کہ جا، جا کر میرے لیے گاڑی خرید، پھر وہ میں تجھے بیچ دوں گا۔
یہ بھی علم ہونا چاہیے کہ حیلہ سازی کے ذریعے سے معاملات میں صریح معاملات کی نسبت زیادہ گناہ ہے کیونکہ جو حرام کام میں حیلہ سازی کرتا ہے وہ ایسے ہے جیسے اس نے حرام کا ارتکا ب کیا ہے، یا اسلام کو دھوکا دے کر یہودیوں کی مشابہت اختیار کی ہے۔ فرمان نبوی ہے:
”جو کام یہودیوں نے کیا تم وہ کام نہ کرنا، کہ چھوٹے چھوٹے حیلوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ اشیا کو حلال کرنے لگو۔“ [ضعيف: غاية المرام، رقم الحديث 11]
مثال بالکل واضح ہے، اس آدمی کو شو روم سے گاڑی خریدنے کی ضرورت تھی جس کی قیمت 50 ہزار ریال تھی، یہ تاجر کے پاس گیا اور کہنے لگا: مجھے گاڑی کی ضرورت ہے جس کی قیمت 50 ہزار ریال ہے، مجھے قسطوں پر پچاس ہزار ریال دو، میں ہر مہینے دو ہزار اس کی قسط ادا کر دوں گا، وہ اس کو نقد پچاس ہزار ریال دے دیتا ہے، جس کی میعاد یہ ہے کہ ہر مہینے وہ دو ہزار ادا کرتا ہے، پھر یہ آدمی گاڑی خرید لیتا ہے اور چلا جاتا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ معاملہ حرام ہے کیونکہ یہ درہم کے بدلے درہم ہیں، جن میں اضافہ اور تاخیر ہے۔ اب اس صورت میں اور تاجر کے اس قول میں کیا فرق ہے کہ میں تیرے لیے گاڑی پچاس ہزار میں نقد خرید رہا ہوں پھر میں وہ گاڑی شو روم کو دے دیتا ہوں، پھر میں وہ گاڑی تمھیں ستر ہزار میں تین سال کے لیے قسطوں پر بیچ دیتا ہوں؟ !
ان دونوں باتوں میں معاملے کی صورت میں کیا فرق ہے؟ حقیقت میں کوئی فرق نہیں، خدا کے لیے ہمیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کھلواڑ کرنے سے معاف رکھو۔ بالکل کوئی فرق نہیں بلکہ یہ زیادہ خبیث معاملہ ہے کیونکہ یہ سود کے لیے حیلہ ہے اور پہلی صورت صریح سود ہے، صریح سود کھانے والا محسوس کرتا ہے کہ وہ نافرمانی کا مرتکب ہو رہا ہے، وہ اللہ تعالیٰ سے شرمندہ بھی ہوتا ہے، اور توبہ کی کوشش بھی کرتا ہے اور یہ جو اللہ تعالیٰ کو دھوکا دیتا ہے، سمجھتا ہے کہ جو وہ کر رہا ہے وہ حلال ہے، تو وہ اللہ تعالیٰ سے شرمندہ نہیں ہوتا اور اپنے کام پر کار بند رہتا ہے۔ دونوں صورتوں میں کوئی فرق نہیں، لہٰذا لوگوں کا بکثرت یہ کام کرنا تمھیں دھوکے میں نہ ڈال دے کیونکہ اکثر لوگوں کا کوئی کام کرنا حجت نہیں ہوتا، کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
«وَيَوْمَ يُنَادِيهِمْ فَيَقُولُ مَاذَا أَجَبْتُمُ الْمُرْسَلِينَ» [القصص: 65]
”اور جس دن وہ انہیں آواز دے گا، پس کہے گا: تم نے رسولوں کو کیا جواب دیا؟“
نیز فرمایا:
«وَلَن يَنفَعَكُمُ الْيَوْمَ إِذ ظَّلَمْتُمْ أَنَّكُمْ فِي الْعَذَابِ مُشْتَرِكُونَ» [الزخرف: 39]
”اور آج یہ بات تمھیں ہگز نفع نہ دے گی، جبکہ تم نے ظلم کیا کہ بے شک تم (سب) عذاب میں شریک ہو۔“
یہ مسئلہ بالکل واضح ہے اور حرام ہے، اگر کسی نے اس کے حلال ہونے کا فتوی دیا ہے تو یہ غلط ہے، رانا آدمی بخوبی جانتا ہے کہ اس حیلے یا اس حیلے میں کونسا حیلہ زیادہ عظیم اور خطرنا ک ہے جو یہودیوں نے اس وقت اختیار کیا تھا
جب ان پر چربی حرام کی گئی تو انہوں نے اسے پہلے پگھلا لیا، پھر اسے بیچا اور اس کی قیمت کھائی، یہ حیلہ جس کا میں نے ذکر کیا ہے، یہودیوں کے حیلے سے زیادہ سخت ہے، کیونکہ یہودیوں نے چربی کھائی نہیں اور بیچی بھی نہیں بلکہ اسے پگھلایا پھر اسے بیچا اور پھر اس کی قیمت کھائی۔
بہر حال اس انداز میں بیع حرام ہے اور جائز نہیں، اگر انسان کو اونٹ کے پائے بھی کھانے پڑ جائیں پھر بھی یہ معاملہ نہ کرے۔
[ابن عثيمين: نور على الدرب: 18/205]