قربانی کے جانوروں کے چمڑے کی خرید و فروخت جائز نہیں
تحریر : حافظ فیض اللہ ناصر

الْحَدِيثُ الرَّابِعُ: عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ { أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَقُومَ عَلَى بُدْنِهِ ، وَأَنْ أَتَصَدَّقَ بِلَحْمِهَا وَجُلُودِهَا وَأَجِلَّتِهَا ، وَأَنْ لَا أُعْطِيَ الْجَزَّارَ مِنْهَا شَيْئًا . وَقَالَ: نَحْنُ نُعْطِيهِ مِنْ عِنْدِنَا } .
سیدنا علی بن ابی طالب رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانی پر کھڑا رہوں اور اس کا گوشت ، اس کی کھال اور اس کا جھول صدقہ کر دوں اور یہ (بھی حکم دیا ) کہ میں قصاب کو اس سے کوئی چیز نہ دوں ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم اسے اپنی طرف سے دیا کرتے تھے۔
شرح المفردات:
أجلة: یہ جُل کی جمع ہے، اس سے مراد کپڑے یا رسیوں وغیرہ سے بناہوا وہ جھول ہے جو اونٹ کی پیٹھ پر رکھا جاتا ہے۔
جُلُود: جلد کی جمع ، مراد چمڑے کھالیں۔
الجزار: قصاب، جانور ذبح کرنے والا پیشہ ور شخص ۔
شرح الحديث:
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ قربانی کے جانوروں کے چمڑے یا ان کی کسی بھی چیز کی خرید و فروخت جائز نہیں ہے، برابر ہے کہ وہ نفلی ہو یا واجب۔ البتہ نفلی میں اتنی سی رخصت ہے کہ ان کا چھڑا لباس وغیرہ کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ [شرح مسلم للنووى: 65/9]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے