تین رکعات وتر کیسے پڑھی جائے
تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

تین رکعات وتر تقسیم کر کے پڑھنا
سوال : کیا وتروں کا یہ طریقہ درست ہے کہ دو پڑھ کر سلام پھیر دیا جائےاور پھر الگ سے ایک رکعت پڑھی جائے؟ اور کیا یہ سنت سے ثابت ہے؟
جواب : نمازِ وتر کی تین رکعات اس طرح ادا کرنا کہ دو پڑھ کر سلام پھیر دیں پھر ایک رکعت الگ ادا کر لیں، بالکل صحیح اور سنتِ نبوی کے مطابق ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قولی و فعلی احادیث اس کی مؤید ہیں۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رات کی نماز کے متعلق سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
صلاة الليل مثنى مثنى فاذا خشي يا احدكم الصبح صلى ركعة واحدة توتر له ما قد صلي [ بخاري، ابواب الوتر : باب ما جاء فى الوتر 990 ]
”رات کی نماز دو دو رکعت ہے، جب تم میں سے کسی ایک کو صبح کا ڈر ہو تو وہ ایک رکعت ادا کرے، جو نماز اس نے ادا کی ہے وہ اسے وتر بنا دے گی۔“
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے :
ان النبى صلى الله عليه وسلم يصلي من الليل احدى عشرة ركعة واحدة فاذا فرغ منها اضطجع على شقه الايمن [ ابو داود، كتاب التطوع باب صلاة الليل1335، مسلم 736، ترمذي 440، 441، نسائي 1697 ]
”بلاشبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کو گیارہ رکعات نماز ادا کرتے، ان میں سے ایک رکعت وتر ادا کرتے، جب اس سے فارغ ہو جاتے تو اپنے دائیں پہلو پر لیٹ جاتے۔“
انس بن سیرین رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا: ”صبح کی نماز سے پہلے دو رکعتوں کے بارے میں مجھے بتاؤ، ہم ان میں لمبی قرأت کرتے ہیں ؟“ تو انہوں نے کہا:
كان النبى صلى الله عليه وسلم يصلي من الليل مثني مثني ويوتر بركعة ويصلي ركعتين قبل صلاة الغداة [بخاري، كتاب الوتر : باب ساعات الوتر 995 ]
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کو دو دو رکعت پڑھتے تھے اور ایک رکعت وتر ادا کرتے تھے اور صبح کی نماز سے پہلے دو رکعت پڑھتے تھے۔“
اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی طویل حدیث میں بھی ایک رکعت وتر کا ذکر ہے۔ [أبوداؤد 1353، 1355، مسلم 763 ]
ان قولی اور فعلی احادیث سے واضح ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول یہی تھا کہ رات کو دو دو رکعت نماز پڑھتے پھر آخر میں ایک رکعت وتر ادا کر لیتے، لہٰذا یہی صورت افضل معلوم ہوتی ہے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے :
ان النبى صلى الله عليه وسلم كان يؤتر بركعة وكان يتكلم بين الركعتين والركعة
[مصنف ابن أبى شيبة 291/2، إرواء الغليل 150/2 ]
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو شیخین کی شرط پر صحیح کہا ہے۔
”بلاشبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک رکعت وتر ادا کرتے تھے اور دو رکعتوں اور ایک رکعت کے درمیان کلام کیا کرتے تھے “۔
ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں :
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي فى كل ثنتين ويوتر بواحدة [ ابن ماجه كتاب اقامة الصلاة : باب ما جاء فى الوتر بركعة 1177، 1358 ]
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر دو رکعت پر سلام پھیر دیتے تھے اور ایک رکعت وتر ادا کرتے تھے۔“
اس روایت کے متعلق علامہ بوصیری فرماتے ہیں :
هٰذَا اِسْنَادٌ صَحِيْحَةٌ رِجَالُهُ ثِقَاتٌ
یہ سند صحیح ہے اس کے رجال ثقہ ہیں۔ [زوائد ابن ماجه ص : 180، رقم : 386 ]
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے :
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يفصل بين الوتر والشفع بتسليمة ويسمعناها
[أحمد 333/9، صحيح ابن حبان 2433، طبراني أوسط 757، تاريخ بغداد 314/12، شرح معاني الآثار 278/1]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ عسقلانی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو قوی کہا ہے۔ [فتح الباري 482/2]
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر اور جفت میں سلام کے ذریعے فصل کرتے تھے اور آپ سلام ہمیں سناتے تھے۔“
نافع رحمہ اللہ سے روایت ہے :
ان عبدالله بن عمر كان يسلم بين الركعة والركعتين فى الوتر حتٰي يأمر ببعض حاجته [ بخاري، كتاب الوتر : باب ما جآء فى الوتر 991، شرح معاني الآثار 279/1، مؤطا ص/121، مسند شافعي 109/1 ]
”بلاشبہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما وتر کی ایک اور دو رکعت کے درمیان سلام پھیر دیتے تھے حتیٰ کہ اپنی کسی حاجت کے لیے حکم کر دیتے۔“
بکر بن عبداللہ المزنی رحمہ اللہ سے روایت ہے :
ان ابن عمر صلٰي ركعتين ثم سلم ثم قال ادخلوا الي ناقتي فلانة ثم قام فاوتر بركعة [ ابن أبى شيبة 292/2 ]
”بے شک ابن عمر رضی اللہ عنہما نے دو رکعت نماز ادا کی پھر سلام پھیر دیا پھر کہا: ”میرے پاس میری فلاں اونٹنی لے آؤ۔“ پھر کھڑے ہو گئے اور ایک رکعت وتر ادا کیا۔“
علامہ البانی رحمہ اللہ اس روایت کے متعلق فرماتے ہیں :
هٰذَا اِسْنَادٌ صَحِيْحٌ
”یہ سند صحیح ہے۔“ [إرواء الغليل 14/2]
امام طحاوی رحمہ اللہ نے سعید بن منصور کے طریق سے بیان کیا ہے کہ بکر بن عبداللہ المزنی نے کہا:
صلى ابن عمر ركعتين ثم قال يا غلام ! ارحل لنا ثم قام فاوتر بركعة [ شرح معاني الآثار 279/1 ]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
”سعید بن منصور نے 2 صحیح سند سے روایت کیا ہے۔“ [فتح الباري 482/2 ]
”ابن عمر رضی اللہ عنہما نے دو رکعت نماز ادا کی پھر کہا: ”اے لڑکے ! ہماری سواری لاؤ۔ “ پھر کھڑے ہو گئے اور ایک رکعت وتر ادا کیا۔ “
مذکورہ بالا تفصیل سے معلوم ہوا کہ تین وتر اس طرح ادا کرنا کہ دو پڑھ کر سلام پھیر دیں، پھر ایک رکعت ادا کر لیں بالکل صحیح اور درست ہے۔
امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وقد صح وترالنبي صلى الله عليه وسلم بثلاث عشرة و احدي عشرة و تسع و سبع و خمس وثلاث وواحدة واصحها وتره صلى الله عليه وسلم بركعة واحدة [مستدرك حاكم 610/1، رقم/119 ]
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تیرہ، گیارہ، نو، سات، پانچ، تین اور ایک رکعت وتر ثابت ہیں اور صحیح ترین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک رکعت وتر ادا کرنا ہے۔“
بہرکیف صحیح احادیث سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ وتر کی ایک رکعت علیحدہ ادا کرنا بالکل صحیح اور درست ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قولی اور فعلی احادیث سے ثابت ہے اور اس پر طعن کرنا صحیح احادیث اور صحابہ کرام پر طعن کرنے کے مترادف ہے اور اس کا انکار کرنا بجز جہالت کے اور کچھ نہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: