اعتراض:
جدید سائنس کے مطابق آسمان کوئی مادی وجود نہیں رکھتا، بلکہ یہ ایک خلا ہے جس میں زمین، ستارے اور سیارے موجود ہیں۔
جبکہ قرآن میں زمین اور آسمان کا ذکر کیا گیا ہے، جس پر یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ کیا قرآن سائنسی حقائق سے ہم آہنگ ہے؟
قرآن اور سائنس کا تعلق
➊ قرآن سائنسی کتاب نہیں:
یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ قرآن مجید کوئی سائنسی کتاب نہیں ہے، بلکہ اس کا مقصد انسانوں کی ہدایت ہے۔
اس کی زبان اور اندازِ بیان ایسے ہیں کہ چودہ سو سال پہلے کے انسانوں کے لیے بھی قابل فہم ہو، اور آج کے جدید انسانوں کے لیے بھی۔
- قرآن کا مقصد سائنسی حقائق بیان کرنا نہیں، لیکن جو سائنسی اشارے قرآن میں موجود ہیں، وہ حقیقت پر مبنی ہیں۔
- قرآن کے مخاطبین میں ہر طبقے کے افراد شامل تھے، لہٰذا اس کی زبان سادہ اور عام فہم ہے۔
آسمان کا مطلب قرآن کی روشنی میں:
قرآن میں "آسمان” کا ذکر مختلف مقامات پر مختلف معانی میں ہوا ہے۔ عام طور پر آسمان سے مراد زمین کے اوپر کی فضا لی جاتی ہے، جس میں:
- ستارے اور سیارے شامل ہیں۔
- بادل اور خلا کا ذکر بھی موجود ہے۔
قرآن مجید میں آسمان، ستاروں، سیاروں، اور برجوں کے حوالے سے بات کی گئی ہے۔
یہ سمجھنے میں غلطی تب پیدا ہوتی ہے جب قرآن کی اصطلاح کو جدید سائنسی اصطلاحات کے ساتھ موازنہ کیا جائے۔
➋ عوامی زبان اور قرآن:
آج بھی دنیا بھر میں لوگ "آسمان” کے لیے وہی الفاظ استعمال کرتے ہیں جو قرآن نے کیے ہیں، مثلاً:
- آسمان میں سورج نکلا ہوا ہے۔
- آسمان پر چاند اور ستارے چمک رہے ہیں۔
یہ اصطلاحات عوامی زبان میں عام ہیں، چاہے وہ سائنسی طور پر درست نہ ہوں، لیکن قرآن کا مقصد انہی عام فہم اصطلاحات کے ذریعے بات کو سمجھانا ہے۔
➌ آسمان کے مختلف معانی:
قرآن مجید نے لفظ "سماء” (آسمان) کو مختلف مقامات پر مختلف معانی میں استعمال کیا ہے۔ مثلاً:
- کائنات:
"پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جبکہ وہ دھویں کی شکل میں تھا۔”
(سورۃ فصلت: 11)یہاں آسمان سے مراد کائنات ہے، جیسا کہ سیاق و سباق سے واضح ہے۔
- بارش کا آنا:
"اور ہم نے آسمان سے بابرکت پانی نازل کیا۔”
(سورۃ ق: 9) - فضا:
"بابرکت ہے وہ ذات جس نے آسمان میں برج بنائے اور اس میں چراغ اور چمکتا ہوا چاند رکھا۔”
(سورۃ الفرقان: 61) - سات آسمان:
"جس نے سات آسمان اوپر تلے پیدا کیے۔”
(سورۃ الملک: 3)
قرآن میں آسمان کا ذکر بادلوں، کائنات اور چھت کے معنوں میں بھی آیا ہے۔ ہر جگہ اس کے معنی سیاق و سباق سے واضح ہوتے ہیں۔
سات آسمان اور سات زمینیں
➊ سات آسمان:
قرآن مجید میں سات آسمانوں کا ذکر کیا گیا ہے:
"اللہ ہی ہے جس نے سات آسمان بنائے اور اسی طرح سات زمینیں بھی بنائیں۔”
(سورۃ الطلاق: 12)
سات آسمانوں کے بارے میں علماء کا کہنا ہے کہ یہ مختلف طبقات یا تہیں ہوسکتی ہیں، جیسا کہ زمین کی فضائی تہیں ہوتی ہیں۔
➋ سات زمینیں:
سات زمینوں کے بارے میں مفسرین نے مختلف رائے دی ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ یہ زمین کی مختلف تہیں یا سطحیں ہوسکتی ہیں، جبکہ دیگر مفسرین کے مطابق کائنات میں ایسی زمینیں بھی ہوسکتی ہیں جو ہماری زمین جیسی ہیں۔
حوالہ: "معارف القرآن، سید مودودیؒ”
زمین فلیٹ ہے یا گول
اعتراض:
ملحدین یہ اعتراض کرتے ہیں کہ قرآن زمین کو فلیٹ قرار دیتا ہے، اور دلیل کے طور پر یہ آیت پیش کی جاتی ہے:
"والارض مددناھا”
"ہم نے زمین کو پھیلایا۔”
(سورۃ الحجر: 19)
جواب:
قرآن کی اس آیت میں زمین کی سطح کا ذکر ہے، اس کی شکل یا ہیئت کا نہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین کو وسیع اور قابل رہائش بنایا۔
اسی طرح ایک اور آیت ہے:
"والارض بعد ذلک دحاھا”
"پھر اس نے زمین کو بچھایا۔”
(سورۃ النازعات: 30)
"دحاھا” کے معنی ہیں بچھانا یا پھیلانا۔ یہ کسی گول یا مستطیل چیز کے لیے بھی ہوسکتا ہے۔ اس سے مراد زمین کے قابل استعمال ہونے کا ذکر ہے، نہ کہ زمین کی شکل کی وضاحت۔
خلاصہ:
- قرآن کا مقصد سائنسی اصطلاحات بیان کرنا نہیں بلکہ ہدایت دینا ہے۔
- "آسمان” اور "زمین” جیسے الفاظ قرآن میں عام فہم زبان میں استعمال ہوئے ہیں۔
- قرآن کے سائنسی حقائق اپنے دور کی عام فہم زبان میں بیان ہوئے ہیں، جو آج بھی درست ہیں۔
- سات آسمان اور سات زمینوں کے بارے میں تفصیلات ہمیں قرآن و حدیث میں نہیں دی گئیں، اس پر قیاس آرائی کی ضرورت نہیں۔