قرآن مجید کی محفوظیت اور رضاعت کی منسوخ آیات

حدیث کا متن

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:
عن عائشة أنها قالت كان فيما أنزل من القرآن عشر رضعات معلومات يحرمن ثم نسخن بخمس معلومات فتوفي رسول الله صلى الله عليه وسلم وهن فيما يقرأ من القرآن“
حضرت عائشہ سے منقول ہے کہ ”اللّٰه نے قرآن میں پہلے یہ نازل کیا تھا کہ دس رضعات سے حرمت ثابت ہوتی ہے۔ (دس بار دودھ پینے سے)۔ پھر اسے پانچ رضعات سے منسوخ کر دیا گیا۔ اور جب رسول اللّٰه کی وفات ہوئی تو یہ الفاظ قرآن میں قراءت کئے جا رہے تھے۔“
(صحیح مسلم، کتاب الرضاع، باب التحریم بخمس رضعات، حدیث: 3597)

اعتراض اور اس کا پس منظر

اس روایت کی بنیاد پر یہ خیال پیش کیا جاتا ہے کہ پانچ رضعات سے متعلق آیات، جو رسول اللہ ﷺ کی وفات تک تلاوت کی جاتی تھیں، بعد میں قرآن کے نسخوں میں شامل نہیں رہیں۔
اس حوالے سے بعض معترضین یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ جیسے قرآن مجید میں کوئی کمی واقع ہوئی ہو۔

قرآن کی محفوظیت اور خبرِ واحد

قرآن مجید کی ہر آیت خبرِ متواتر اور اجماعِ امت کے ذریعے ہم تک پہنچی ہے۔
مذکورہ حدیث خبرِ واحد ہے، اور قرآن مجید کی کسی آیت کو شامل یا ثابت کرنے کے لیے خبرِ واحد کافی نہیں ہوتی۔
امام نووی رحمہ اللہ نے واضح کیا:
”قرآن کے متعلق کسی بات کو خبر واحد سے ثابت نہیں کیا جا سکتا“
(شرح النووی، 183/5)۔

روایت میں الفاظ کا اختلاف

روایت کے وہ الفاظ جو سب سے زیادہ توجہ طلب ہیں:
”فتوفی رسول اللہ وهن فیما یقرأ من القرآن“
"رسول اللہ ﷺ کا وصال اس حال میں ہوا کہ وہ قرآن میں سے (یہ آیات) پڑھ رہے تھے۔”

عبداللہ بن ابی بکر نے یہ الفاظ نقل کیے، لیکن دیگر روایات میں یہ الفاظ موجود نہیں۔
مثال کے طور پر:
◈ القاسم بن محمد بن ابی بکر اور یحییٰ بن سعید نے یہی حدیث نقل کی، مگر ان میں یہ الفاظ شامل نہیں:
(ابن ماجہ، السنن، 1/625/1942؛ مشکل الآثار، 3/6)
(صحیح مسلم، 2/513/1452؛ مشکل الآثار، 3/7؛ السنن الکبری، 7/454)

عبداللہ بن ابی بکر کا وہم

امام طحاوی رحمہ اللہ نے کہا:
”یہ الفاظ عبداللہ بن ابی بکر کے علاوہ کسی اور نے نقل نہیں کیے۔ یہ سراسر راوی کا وہم ہے۔“
(مشکل الآثار، 5/73، حدیث 1740)
شیخ ابن عربی رحمہ اللہ نے بھی اسے راوی کا گمان قرار دیا۔
(عاردۃ الأحوذی، 5/92)

رضاعت سے متعلق حکم کا تدریجی خاتمہ

باقاعدہ دلائل سے ثابت ہے کہ پانچ رضعات والی آیت اور اس کا حکم رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں ہی منسوخ ہو گئے تھے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:
”لقد كان في كتاب الله عز وجل عشر رضعات، ثم رد ذلك إلى خمس، ولكن من كتاب الله ما قبض مع النبي صلى الله عليه وسلم“
دس رضعات سے حرمت ثابت ہونے کا ذکر قرآن میں موجود تھا پھر اسے پانچ سے بدل دیا گیا اور پھر کچھ نہیں تھا مگر وہ آپﷺ کی موجودگی میں منسوخ ہوگیا تھا ۔
(مصنف عبدالرازق، حدیث: 13928)
مفتی تقی عثمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”یہ روایت بتاتی ہے کہ پانچ رضعات والی آیت آپ ﷺ کی وفات سے پہلے ہی منسوخ ہو چکی تھی۔“
(تکملہ فتح الملہم، 46/1)

تاریخی اور عقلی شواہد

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا مقام

آپ رضی اللہ عنہا قرآن و حدیث کے بڑے علماء میں سے تھیں۔
اگر یہ آیت منسوخ نہ ہوتی تو حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہما کے دور میں قرآن کی تدوین کے وقت اس کا ذکر ضرور ہوتا۔

قرآنی حکم کی شہرت

رضاعت سے متعلق حکم چونکہ نکاح پر اثر انداز ہوتا تھا، اس لیے یہ مسئلہ عام شہرت رکھتا۔
اگر یہ آیت قرآن کا حصہ رہتی تو دیگر صحابہ بھی اس سے واقف ہوتے، لیکن ایسا کوئی ثبوت نہیں۔

رضاعت کے حکم میں تدریجی تبدیلی

ابتدائی طور پر حکم یہ تھا کہ دس بار دودھ پینے سے حرمت ثابت ہوتی ہے۔
پھر یہ حکم پانچ بار دودھ پینے سے تبدیل کر دیا گیا۔
بعد میں حکم مزید سخت کرتے ہوئے ایک بار دودھ پینے سے بھی حرمت ثابت کر دی گئی۔

روایات کی تائید

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت:
”پہلے لوگ کہتے تھے کہ ایک یا دو دفعہ دودھ پینا نکاح حرام نہیں کرتا، لیکن اب ایک بار سے ہی نکاح حرام ہو جائے گا۔“
(احکام القرآن، 224/4)
مصنف عبدالرازق کی روایت:
”پہلے ایک مخصوص تعداد (پانچ یا دس) کے ذریعے حرمت ثابت ہوتی تھی، پھر بعد میں کم مقدار سے بھی حرمت ثابت ہونے کا حکم آ گیا۔“
(مصنف عبدالرازق، حدیث: 13914)

حکم میں تدریجی تبدیلی کی حکمت

اس وقت عرب معاشرے میں دائیوں کے ذریعے دودھ پلانے کا رواج عام تھا۔
نکاح پر اس کے اثرات کی وجہ سے حکم کو آہستہ آہستہ تبدیل کیا گیا تاکہ معاشرے میں تنازع اور دقت پیدا نہ ہو۔

خلاصہ

◈ مذکورہ حدیث قرآن مجید کی محفوظیت پر کوئی اعتراض وارد نہیں کرتی۔
◈ دس اور پانچ رضعات سے متعلق آیات رسول اللہ ﷺ کی حیات مبارکہ میں ہی منسوخ ہو چکی تھیں۔
◈ روایت کے وہ الفاظ جن میں وفات کے بعد ان آیات کی تلاوت کا ذکر ہے، راوی کا وہم ہیں۔
◈ قرآن مجید اپنی اصل حالت میں محفوظ ہے اور اس میں کسی قسم کی کمی یا تبدیلی کا دعویٰ بے بنیاد ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے