قرآن اور بائبل میں مشترکہ واقعات کی حقیقت
چونکہ تمام آسمانی کتابیں ایک ہی ماخذ یعنی اللہ تعالیٰ سے نازل کی گئی ہیں، اس لیے ان میں کچھ واقعات کا بیان مشابہ نظر آتا ہے۔ یہاں یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ اگر ایک واقعے کی تفصیل دو کتابوں میں یکساں ہے، تو کیا اسے سرقہ تصور کیا جانا چاہیے؟ کیوں یہ فرض کر لیا گیا کہ ایک ہی واقعہ کی تفصیل ہر کتاب میں مختلف ہونی چاہیے، جبکہ واقعہ تو ایک ہی رہا ہے؟
قرآن اور بائبل میں مشترکہ باتوں کا یہ مطلب نہیں لیا جا سکتا کہ قرآن نے بائبل سے نقل کیا ہے۔ ہم نے اس موضوع پر دلائل گزشتہ مباحث میں پیش کیے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ مشابہت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ دونوں کا منبع ایک ہی ہے، یعنی اللہ تعالیٰ۔ یہود و نصاریٰ کی کتب اور دیگر قدیم صحائف میں کچھ حصے باوجود تحریفات کے، محفوظ رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ مختلف مذاہب میں کئی مشترکہ باتیں پائی جاتی ہیں۔
قرآن پر بائبل سے نقل کرنے کا الزام
یہ درست ہے کہ قرآن میں کچھ ایسے واقعات کا تذکرہ ہے جو بائبل میں بھی موجود ہیں، لیکن محض اس بنیاد پر نبی محمد ﷺ پر یہ الزام عائد نہیں کیا جا سکتا کہ انہوں نے بائبل سے مواد نقل کیا۔ اگر اس منطق کو درست مان لیا جائے تو یہی الزام دیگر مذاہب پر بھی عائد کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً پیغمبر نوح کو دیے گئے احکامات بعد میں پیغمبر موسیٰ کو بھی دیے گئے۔ اگر نوح کے پیروکار موسیٰ کی تعلیمات کو اپنی تعلیمات کا سرقہ قرار دیں تو موسیٰ کے پیروکار اس اعتراض کا کیا جواب دیں گے؟ اسی طرح یہ دعویٰ بھی کیا جا سکتا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے عہد نامہ عتیق سے مواد نقل کیا، جو کہ سراسر غلط ہے۔
مستشرق ٹسڈل کا اعتراض اور یہودی اعتراضات کا موازنہ
مستشرق ٹسڈل نے قرآن کے حوالے سے جو اعتراضات اٹھائے ہیں، ویسے ہی اعتراضات یہود پہلے سے انجیل پر کر چکے ہیں کہ اس میں موجود اچھی باتیں یہودی تعلیمات سے ماخوذ ہیں۔ اسی طرح، انجیل پر یونانی اور مجوسی تعلیمات سے مواد لینے کا بھی الزام لگایا گیا۔ یہ دلیل دی جاتی ہے کہ اس دور میں یونانی اور مجوسی علوم عام تھے اور ایسے میں کسی کا ان سے متاثر ہونا عین ممکن تھا۔
عیسائی مشنری کا جواب اور اس کی بنیاد پر قرآن کا دفاع
ایک عیسائی مشنری نے اپنی کتاب "حل الاشکال” میں یہودیوں کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس اعتراض کی کوئی حقیقت نہیں۔ یہی جواب ہم بھی دے سکتے ہیں کہ قرآن کے متعلق عیسائی مستشرقین کے تعصب بھرے الزامات کی کوئی حیثیت نہیں۔ ان الزامات کے علمی و تحقیقی جوابات واضح کرتے ہیں کہ یہ محض تعصب پر مبنی ہیں۔
قرآن کی بیان کردہ تفصیلات کا انفراد
ہم پہلے بھی اس پر تفصیل سے بحث کر چکے ہیں کہ قرآن نے انبیاء اور پچھلی اقوام کے متعلق جو تفصیلات فراہم کی ہیں، وہ پرانی کتب میں موجود نہیں ہیں۔ قرآن نے نہ صرف پرانی کتب کی غلطیوں کو درست کیا بلکہ ایسی تفصیلات بھی بیان کیں جو پہلی کسی کتاب میں موجود نہیں تھیں۔
علم حاصل کرنے اور سرقہ کے الزام پر سوالات
نبی کریم ﷺ پر یہ الزام لگانے والے سوالات کا سامنا کرتے ہیں جیسے:
- نبی کریم ﷺ کی زندگی پر اتنا تاریخی مواد ہونے کے باوجود کوئی ایسا استاد کیوں نہ مل سکا جس سے آپ ﷺ نے تعلیم حاصل کی؟
- تیرہ سال تک قریش نے نبی کریم ﷺ کا مذاق اڑایا اور مخالفت کی۔ کیا یہ ممکن نہ تھا کہ ان پر الزام ثابت کیا جاتا کہ انہوں نے وحی کو خود سے بنایا ہے؟
- صحرا کی کھلی قبائلی زندگی میں آپ ﷺ کے ہم عصر، خاص کر قریبی رشتہ دار، آپ ﷺ کی سچائی پر کیسے یقین کر سکتے تھے اگر انہیں شبہ ہوتا کہ آپ ﷺ نے یہ تعلیم کسی استاد سے لی ہے؟
- اگر کوئی مبینہ استاد تھا تو اس نے یہودیت اور عیسائیت کو ایسی جامع تعلیم کیوں نہ سکھائی جو کہ بعد میں تاریخ کا رخ موڑ سکتی؟
- بہت سے عیسائی اور یہودی آپ ﷺ کی سچائی پر ایمان لے آئے؛ اگر وہ جانتے کہ آپ ﷺ نے ان کی کتابوں سے نقل کیا ہے تو ایسا کیوں ہوتا؟
- قرآن کی وحی کبھی لوگوں کی موجودگی میں نازل ہوئی۔ 23 سالوں میں موقع اور ضرورت کے تحت آیات نازل ہوئیں۔ اگر کوئی خفیہ استاد تھا تو وہ اتنے عرصے تک پوشیدہ کیسے رہ سکتا تھا؟
نبی کریم ﷺ کی زندگی اور مخالفین کا تعصب
نبی کریم ﷺ کی زندگی کو ایمانداری سے پڑھنے والے لوگ اس بات کو واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ آپ ﷺ کی سچائی اور ایمانداری کسی نقل یا سرقہ سے انکار کرتی ہے۔ اس حقیقت کو خود مغربی محققین نے بھی تسلیم کیا ہے۔
کیرن آرم سٹرانگ اپنی کتاب "A History of God” میں لکھتی ہیں:
"610ء کے دور میں حجاز کے ایک شہر مکہ کے ایک تاجر جس نے کبھی بائبل نہیں پڑھی اور جس نے کبھی عیسیٰ، جرمیا اور ازکائیل کے بارے میں نہیں سنا، اس نے ایک ایسا تجربہ پیش کیا جو کہ بالکل ان کے مماثل تھا۔” (Karen Armstrong, A History Of God, 1993, Ballantine Books, New York, p.132)
سوئس محقق روجر ڈو پاسکیئر لکھتے ہیں:
"مسلم مخالف مصنفین کا تعصب اس دن تک کوئی بھی قابلِ دفاع وضاحت پیش نہیں کر سکا کہ ایک ان پڑھ شخص، جو کہ ساتویں صدی کے قافلے کا مسافر ہے، کس طرح ایک ایسی شاہکار تحریر تخلیق کر سکا جو جذبات میں طلاطم پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور علم و دانائی سے بھرپور ہے، جو اپنے ہم عصروں سے بلند ہے۔ مغرب میں کی جانے والی تحقیق جس نے آپ ﷺ کے استعمال کردہ مبینہ وسائل کا تعین کرنے کی کوشش کی، اس کا مقصد مسلم مخالف تعصب کو تقویت دینا تھا۔” (Roger DuPasquier, Unveiling Islam, 1992, The Islamic Texts Society, Cambridge, p.53)