وَعَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِهِ، أَنَّ النَّبِيَّ مَا قَالَ: ( (مَنْ قَتَلَ مُتَعَمِّدًا دُفعَ إِلَى أَوْلِيَاءِ الْقَتِيلِ، فَإِنْ شَاؤُوا قَتَلُوهُ، وَإِنْ شَاؤُوا أَخَذُوا الدِّيَّةَ وَهُوَ: ثَلَاثُونَ حِقَّةٌ، وَثَلَاثُونَ جَذْعَةٌ، وَثَلاثُونَ خَلِفَةٌ، وَذَلِكَ عَقْلُ الْعَمَدِ) وَمَا صَالَحُوا عَلَيْهِ فَهُوَ لَهُمْ، وَذَلِكَ تَشْدِيدٌ فِي الْعَقْلِ )) – لَفَظُ رِوَايَةِ الْبَيْهَقِيِّ
عمرو بن شعیب اپنے باپ سے اور اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: جس نے کسی کو جان بوجھ کر قتل کیا اسے مقتول کے ورثاء کے سپرد کر دیا جائے گا اگر چاہیں اسے قتل کر دیں اور چاہیں تو اس سے دیت لے لیں اور وہ دیت اس طرح ہوگئی تیس تین سالہ اونٹ میں چار سالہ اور تیس خلفہ اور یہ ہوگی قتل عمد کی دیت اور جس پر ان کی مصالحت ہو جائے تو بہتر یہ تشدید ہے دیت ہیں ۔ لفظ بیہقی کی روایت کے ہیں۔
تحقيق و تخریج:
حدیث حسن ہے۔
[الامام احمد: 2/ 183، ابوداؤد: 3506، ترمذي: 1387، بيهقي: 8/ 8]
فوائد:
➊ قتل کی تین قسمیں ہیں۔ ① قتل عمد ② قتل شبه عمد ③ قتل خطا ۔ ان تینوں کی تعریفیں اور شروط و احکام میں فرق ہے۔
➋ قتل عمد میں سب سے پہلے تو قصاص ہے۔ قصاص کا یہ طریقہ ہے کہ اس کو مقتول کے ورثاء کے سپرد کر دیا جائے وہ خود بدلہ لیں لیکن ظلم و زیادتی اور مثلہ سے گریز کریں۔
➌ ورثاء کو یہ حق حاصل ہے کہ چاہیں تو قاتل کو مقتول بنادیں چاہیں تو قاتل کو ممنون بنادیں۔
➍ ورثاء قاتل کو معاف کردیں تو پھر ورثاء کو دیت دینا ہوگی قتل عمد کی دیت میں اونٹ تین تین سالہ اور تیس اونٹ چار چار سالہ اور چالیس اونٹیاں جو کہ حاملہ ہوں۔