قبر پر نشانی رکھنے کا جواز
تحریر: عمران ایوب لاہوری

قبر پر پتھر یا اس جیسی کوئی نشانی رکھی جا سکتی ہے
ایک روایت میں مذکور ہے کہ جب حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کو دفن کیا گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو پتھر لانے کا حکم دیا جب وہ اسے نہ اٹھا سکا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پتھر اٹھانے میں خود اس کی مدد کی اور اسے میت کے سر کی جانب رکھا اور فرمایا:
أتـعـلـم بهـا قبـر أخـى وأدفن إليه من مات من أهلى
”میں اس کے ذریعے اپنے بھائی کی قبر کو پہچانوں گا اور اپنے گھر والوں میں سے فوت ہونے والوں کو اس کے قریب دفن کروں گا۔“
[حسن: صحيح أبو داود: 2745 ، كتاب الجنائز: باب فى جمع الموتي فى قبر والقبر يعلم ، أبو داود: 3206]
امام ابو داودؒ نے اس حدیث پر یہ باب قائم کیا ہے: ”ایک قبر میں زیادہ مردوں کو جمع کیا جا سکتا ہے اور قبر کی علامت مقرر کی جاسکتی ہے۔“
امام بیہقیؒ نے یہ باب قائم کیا ہے إعلام القبر بصخرة أو علامة ما كانت ”پتھر یا کسی بھی علامت کے ذریعے قبر کی نشانی کو مقرر کرنا ۔ “
شیخ البانیؒ رقمطراز ہیں کہ اس روایت کے دو شاہد ہیں جن کے ساتھ یہ قوی ہو جاتی ہے۔
[أحكام الجنائز: ص/ 197]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1