ڈاکٹر اشرف آصف جلالی (بریلوی) اور جھوٹی روایت
الحمد لله ربّ العالمين والصلوة والسلام على رسوله الأمين ، أما بعد:
ڈاکٹر اشرف آصف جلالی صاحب جو کہ بریلوی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں، انھوں نے قبروں پر عمارتیں بنانے کے جواز میں ایک روایت ابن شبہ کی کتاب تاریخ المدینہ سے پیش کی ہے کہ یزید بن سائب کہتے ہیں:
مجھے میرے دادا نے خبر دی کہ جب عقیل بن ابی طالب نے اپنے گھر میں کنواں کھودا تو نیچے سے ایک نقش و نگار والا پتھر نکلا جس پر لکھا ہوا تھا: ام حبیبہ بنت صخر بن حرب کی قبر ۔
تو عقیل نے کنویں کو بند کر دیا اور اس پر ایک عمارت بنائی۔ یزید بن سائب کہتے ہیں کہ میں اس عمارت میں داخل ہوا، پس میں نے اس (کمرے) میں قبر کو دیکھا۔
یہ واقعہ بیان کر کے ڈاکٹر صاحب نے کہا:
’’اس سے پتا چلتا ہے کہ اہل سنت اپنی طرف سے مسلک گھڑنے والے نہیں بلکہ یہ دور صحابہ کی بات ہے اور یہ فعل صحابی ہے ۔“
تو آئیے اس روایت کی حقیقت کیا ہے؟ تاریخ المدینہ میں اس کی سند اس طرح ہے:
’’حدثنا محمد بن يحيى قال : أخبرني عبد العزيز بن عمران عن يزيد بن السائب قال : أخبرني جدي. “ (۱۲۰/۱)
اس سند میں ایک راوی عبدالعزیز بن عمران ہے جو کہ متروک ہے۔
① امام بخاری نے فرمایا:
’’منكر الحديث، لا يكتب حديثه‘‘
(کتاب الضعفاء: ۲۲۵، التاريخ الكبير للبخاری۲۹/۶)
② امام دارقطنی نے فرمایا:
”ضعیف“ (تحت حدیث ۴۱۵۸، کتاب الضعفاء والمتروکین : ۳۴۹)
③ امام عبد الرحمٰن بن ابی حاتم الرازی کہتے ہیں:
میں نے اپنے والد سے اس کے بارے میں پوچھا: انھوں نے فرمایا:
’’متروك الحديث، ضعيف الحديث منكر الحديث جدا‘‘ إلخ
(کتاب الجرح والتعدیل ۳۹۱/۵ت ۱۸۱۷)
④ ابوزرعہ الرازی نے اس کی روایات کو ترک کر دیا تھا۔
(الجرح والتعدیل ایضاً)
⑤ امام یحییٰ بن معین نے فرمایا:
’’ليس بثقة .‘‘ (ایضاً)
⑥ امام عقیلی نے فرمایا:
’’حديثه غير محفوظ‘‘
اس کی حدیثیں غیر محفوظ ہیں۔
(الضعفاء الکبیر۱۳/۳، ترجمہ: ۹۶۹)
⑦ امام ترمذی نے فرمایا:
” ضعيف فى الحديث “
حدیث میں ضعیف ہے۔
(ترمذی تحت حدیث : ۸۷۰)
⑧ حافظ ابن حبان نے فرمایا:
’’يروي المناكير عن المشاهير“
مشہور راویوں سے منکر روایتیں بیان کرتا ہے۔
(کتاب المجر وحین ج ۲ ص ۱۳۹، دوسرانسخہ ۱۲۲/۲)
⑨ امام نسائی نے فرمایا:
’’مشروك الحديث .‘‘
(الضعفاء والمتر وكين ۳۹۳)
⑩ حافظ ذہبی نے فرمایا:
’’تركوه‘‘ محدثین نے اس کو ترک کر دیا تھا۔
(المغنی فی الضعفا ۶۲۲/۲۰ ت ۳۷۴۷)
⑪ ابن الجوزی نے الضعفاء والمتر وکین میں اسے نقل کیا۔
(جا اص ااات ۱۹۵۷)
اس روایت میں عبدالعزیز بن عمران کا استاد یزید بن سائب نامعلوم یعنی مجہول ہے اور اس سے یزید بن سائبؓ اور صحابی ہرگز مراد نہیں کیونکہ ابن عمران کی ان سے ملاقات ناممکن ہے۔
یہ ہے وہ جھوٹی روایت جس کو ڈاکٹر صاحب نے قبروں پر گنبد اور عمارتیں بنانے کے جواز میں پیش کیا ہے اور عوام کو دھوکا دیا ہے ۔ ڈاکٹر صاحب کو چاہیے کہ اس روایت کو صحیح ثابت کریں یا پھر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگیں اور اس طرح کی جھوٹی روایات کو بیان کر کے لوگوں کو گمراہ نہ کریں کیونکہ جھوٹی روایات کو بغیر جرح کے بیان کرنا جائز نہیں، چہ جائیکہ ان سے استدلال اور مسائل اخذ کئے جائیں!!
اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح روایات بیان کرنے اور ان پر عمل پیرا ہونے ضعیف اور مردود دروایات سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
(۳۱/ جولائی ۲۰۱۳ء)