سوال : ایسی مساجد جہاں قبریں ہوں، نماز پڑھنا جائز ہے ؟ کیا نماز ادا ہو جائے گی؟
جواب : ایسی مسجدیں جہاں قبریں ہوں وہاں نماز ادا کرنے سے اجتناب برتنا چاہیے۔
قبروں والی جگہ یا قبروں کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرنے کے متعلق پہلے چند احادیث ملاحظہ فرمایئے :
➊ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ام حبیبہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہما نے حبشہ کے ایک گرجے اور اس میں لگائی گئی تصویروں کا ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إن اولئك إذا كان فيهم الرجل الصالح فمات، بنوا على قبره مسجدا وصوروا فيه تلك الصور، فاولئك شرار الخلق عند الله يوم القيامة [ بخاري، كِتَاب الصَّلَاةِ، بَابُ هَلْ تُنْبَشُ قُبُورُ مُشْرِكِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَيُتَّخَذُ مَكَانَهَا مَسَاجِدٌَ، مسلم 528، نسائي 705 ]
”بے شک جب ان میں کوئی نیک آدمی مر جاتا تو وہ اس کی قبر پر مسجد بنا لیتے اور اس میں تصویریں بناتے، یہ لوگ قیامت کے دن مخلوق میں سے اللہ کے ہاں بدترین ہوں گے۔“
➋ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لعن الله اليهود والنصارى، اتخذوا قبور انبيائهم مساجد [بخاري، كتاب الجنائز، باب ما جاء فى قبر النبى صلى الله عليه وسلم وأبي بكر وعمر رضي الله عنهما 1390، مسلم 1186 ]
”اللہ تعالیٰ یہود و نصاریٰ پر لعنت کرے کہ انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو مساجد بنا لیا۔“
➌ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
قاتل الله اليهود والنصارى، اتخذوا قبور انبيائهم مساجد [ مسلم، كتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب النهي عن بناء المساجد على القبور —– ]
”اللہ یہودیوں کو تباہ کرے جنھوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو مسجد بنا لیا۔“
➍ سیدنا جندب رضی اللہ عنہ سے طویل روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے قبل فرمایا :
الا وإن من كان قبلكم، كانوا يتخذون قبور انبيائهم وصالحيهم مساجد، الا فلا تتخذوا القبور مساجد، إني انهاكم عن ذلك [ مسلم، كتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب النهي عن بناء المساجد على القبور 1188 ]
”خبردار ! جو لوگ تم سے پہلے تھے (یہود و نصاریٰ)وہ اپنے نبیوں اور نیک لوگوں کی قبروں کو مسجد بنا لیتے تھے۔ خبردار ! تم قبروں کو مسجدیں نہ بنانا، میں تمہیں اس کام سے روکتا ہوں۔ “
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ قبروں پر مسجدیں بنانا شرعاً حرام و ممنوع ہے تو ایسی مساجد میں نماز ادا کرنا بالاولیٰ منع ہے۔ اسے اس مثال سے سمجھیں کہ شراب کی خرید و فروخت منع ہے۔ اسی منع کے اندر شراب پینے کی حرمت بھی موجود ہے کیونکہ شراب کی خرید و فروخت ذریعہ ہے اور اس کا مقصود شراب نوشی کرنا ہے اور شرعی اصول یہ ہے کہ وسیلے کی حرمت اس ذریعے کے مقصود کو بھی شامل ہوتی ہے۔
اسی طرح مسجد بنانا ذریعہ ہے اور مقصود نماز ادا کرنا ہے۔ جب قبروں پر مسجدیں بنانا حرام ہے تو ان مساجد کے اندر نماز ادا کرنا بھی حرام ٹھہرے گا۔ مسجدیں بنانے کا جب شریعت نے حکم دیا ہے تو اس ضمن میں نماز پڑھنے کا حکم بھی موجود ہے کیونکہ مسجد بنانے کا مقصد نماز ادا کرنا ہی ہوتا ہے۔ اس لیے امام ابن حزم رحمہ اللہ نے امام احمد رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا :
من صلٰي فى مقبرة او الٰي قبر اعاد ابدا [المحلي لابن حزم 27/4، 28 ]
”جس نے قبروں والی جگہ یا قبر کی طرف نماز ادا کی، وہ اپنی نماز کو ضرور لوٹائے۔“
سیدنا ابومرثد غنوی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :
لا تصلوا الي القبور ولا تجلسوا عليها [ مسلم، كتاب الجنائز : باب النهي عن الجلوس على القبر والصلاة عليه 972، أبويعلي 1514، أحمد 135/4، ترمذي 1050، أبوداؤد 3229، نسائي 761، ابن خزيمة 793، ابن حبان 2311 ]
”قبروں کی طرف نماز ادا نہ کرو اور نہ ان پر بیٹھو۔“
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
الارض كلها مسجد الا المقبرة والحمام [ ترمذي، أبواب الصلاة : باب ما جآء أن الأرض كلها مسجد 317، أبوداؤد 492، ابن ماجه 745، أحمد 83/3، دارمي 1397، كتاب الأم492/1، ابن خزيمة 791، ابن حبان 338، حاكم 251/1 ]
”ساری زمین مسجد ہے سوائے قبروں والی جگہ اور حمام کے۔“
اس حدیث کو ابن خزیمہ، ابن حبان، حاکم اور ذہبی رحمۃ اللہ علیہم نے صحیح کہا ہے۔ بعض ائمہ نے اسے معلل قرار دیا ہے، لیکن صحیح یہ ہے کہ مرسل اور موصول دونوں طرح سے مروی ہے اور موصول بیان کرنے والا راوی ثقہ ہے۔ جب مرسل و موصول کا جھگڑا ہو حکم موصول کا ہوتا ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے شرح مسلم میں خاص طور پر امام بخاری رحمہ اللہ اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیہما کا قول نقل کیا ہے کہ ان کے نزدیک جب مرسل و موصول میں جھگڑا ہو تو حکم موصول کا ہوگا۔ [شرح مسلم 256/1۔ 282 ]
اسی طرح علامہ عراقی نے بھی یہی بات کی ہے۔ [شرح الفيه 83/1 ]
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
ان النبى صلى الله عليه وسلم نهيٰ ان يصلي بين القبور [موارد الظمآن 345، مسند بزار 441، مجمع الزوائد 30/2، طبراني أوسط 5627]
امام ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اسے امام بزار نے روایت کیا ہے اور اس کے راوی صحیح کے راوی ہیں۔ اس کا ایک شاہد عبداللہ بن عمرو سے صحیح ابن حبان میں موجود ہے۔ [موارد الظمآن 342، تلخيص الحبير 277/1]
اور دوسرا شاہد حضرت على رضى اللہ عنہ سے أبوداؤد 490، بیہقی 1451/2 اور تلخیص الحبیر 277/1 میں موجود ہے۔
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کے درمیان نماز پڑھنے سے منع کیا ہے۔ “
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اجعلوا فى بيوتكم من صلاتكم، ولا تتخذوها قبورا [بخاري،كتاب الصلاة، باب كراهية الصلاة فى المقابر 432، ترمذي 451، مسلم، كتاب صلاة المسافرين وقصرها 208، مسند أحمد 16/2، أبوداؤد 1448، ابن ماجه 1377 ]
”اپنی نماز کا کچھ حصہ گھروں میں ادا کیا کرو، انہیں قبرستان مت بناؤ۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لا تجعلوا بيوتكم مقابر، إن الشيطان ينفر من البيت الذى تقرا فيه سورة البقرة [مسلم، كتاب صلاة المسافرين وقصرها، باب استحباب صلاة النافلة فى بيته وجوازها فى المسجد و سواء فى هذا الراتبة وغيرها 780 ]
”اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ، بے شک شیطان اس گھر سے بھاگتا ہے جس میں سورۂ بقرہ پڑھی جاتی ہے۔ “
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ قبروں والی جگہ نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے اور حدیث ابن عمرو اور ابی ہریرہ رضی اللہ عنہما میں جو گھروں کو قبرستان بنانے سے منع کیا ہے اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ قبروں والی جگہ نماز نہیں پڑھی جاتی اور نہ قرآن پڑھا جاتا ہے، اس لیے تم گھروں کو قبرستان نہ بناؤ بلکہ نفل نمازیں گھروں میں پڑھ لیا کرو تاکہ یہ قبرستان نہ بنیں۔
امام سیوطی رحمہ اللہ حاشیہ نسائی میں فرماتے ہیں :
وَلَا تَتَّخِذُوْهَا قُبُوْرًا کا مفہوم امام کرمانی رحمہ اللہ نے یہ ذکر کیا ہے :
”انہیں قبروں کی طرح نہ بناؤ کیونکہ قبروں میں نماز نہیں پڑھی جاتی۔ “ [ حاشية سندهي مع سيوطي على النسائي 219/3 ]
اور اسی مقام پر علامہ سندھی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں :
اي كالقبور فى الخلو عن ذكر الله والصلاة
”گھروں کو قبروں کی طرح نہ بناؤ جہاں اللہ کا ذکر اور نماز نہیں ہوتی۔ “
ان احادیث میں قبروں والی جگہ نماز پڑھنے کی ممانعت عام ہے خواہ قبر دائیں طرف ہو یا بائیں طرف، آگے ہو یا پیچھے اس لیے کہ منع کی حدیث عام ہے اور جب تک عموم کی تخصیص کتاب وسنت کی کسی دلیل سے نہ ہو عام کی دلالت باقی رہتی ہے۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
”نہ تو قبر والی جگہ اور نہ قبر کی طرف نماز صحیح ہوتی ہے اور اس سے ممانعت کی وجہ شرک کا ذریعہ بند کرنا ہے۔ ہمارے بعض اصحاب نے یہ بات ذکر کی ہے کہ ایک یا دو قبریں نماز سے مانع نہیں، اس لیے کہ ان پر مقبرہ کا لفظ نہیں بولا جاتا۔ مقبرہ تین یا تین سے زائد قبروں کو کہتے ہیں۔ امام احمد رحمہ اللہ اور ان کے عام اصحاب میں یہ فرق نہیں ہے، بلکہ ان کا کلام علت اور استدلال کی عمومیت ایک قبر کے پاس بھی نماز پڑھنے کو مانع ہے اور یہی بات درست و برحق ہے اور مقبرہ ہر وہ جگہ ہے جس میں قبر بنائی جائے نہ کہ قبروں کا مجموعہ۔ “ [ الاختيارات العلمية لابن تميمة 25 ]
ہمارے اصحاب نے کہا ہے قبروں کے ماحول میں ہر وہ جگہ جو مقبرہ کے نام کے تحت آتی ہے اس میں نماز نہ پڑھی جائے۔ یہ بات اسے متعین کر دیتی ہے کہ نماز کی ممانعت ایک قبر کو بھی شامل ہے۔
قرآن وسنت کے مذکورہ بالا دلائل اور ائمہ ومحدثین کی توضیحات سے معلوم ہوا کہ قبر والی جگہ نماز نہیں ہوتی، لہٰذا اس سے اجتناب نہایت ضروری ہے۔