فتنوں سے متعلق چالیس صحیح احادیث
تحریر: ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی، کتاب کا پی ڈی ایف لنک

إن الحمد لله نحمده، ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له ، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله . أما بعد:

بَابُ ظُهُورِ الْفِتَنِ

فتنوں کے ظہور ک بیان

قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ
(2-البقرة:191)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”اور فتنہ قتل سے زیادہ سخت (گناہ) ہے۔“
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ ۚ وَاللَّهُ عِندَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ ‎﴿١٥﴾
(64-التغابن:15)
❀ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”تمہارے مال اور تمہاری اولاد تو محض ایک آزمائش ہیں اور جو اللہ ہے اسی کے پاس بہت بڑا اجر ہے۔“

حدیث: 1

عن أسامة بن زيد قال: أشرف النبى صلى الله عليه وسلم على أطم من الآطام المدينة فقال: هل ترون ما أرى؟ قالوا: لا، قال: فإني لأرى الفتن تقع خلال بيوتكم كواقع القطر
صحیح بخاری، کتاب الفتن، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم: ویل للعرب من شر قد اقترب، رقم: 7060
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کہتے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ کے محلات میں سے ایک محل پر چڑھے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے پوچھا: ”جو میں دیکھتا ہوں کیا تم دیکھتے ہو؟“ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: ”نہیں!“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں فتنوں کو تمہارے گھروں میں بارش کے قطروں کی طرح گرتا دیکھ رہا ہوں۔“

حدیث: 2

وعن معاوية قال: سمعت النبى صلى الله عليه وسلم يقول: لم يبق من الدنيا إلا بلاء وفتنة
سنن ابن ماجه، کتاب الفتن، باب شدة الزمان، رقم: 4035۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ: ”(قیامت کے قریب) دنیا میں سوائے مصیبتوں اور فتنوں کے کچھ باقی نہیں رہ جائے گا۔“

حدیث: 3

وعن الزبير بن عدي قال: أتينا أنس بن مالك فشكونا إليه ما نلقى من الحجاج فقال: اصبروا فإنه لا يأتى عليكم زمان إلا والذي بعده أشر منه حتى تلقوا ربكم، سمعته من نبيكم صلى الله عليه وسلم
صحیح بخاری، کتاب الفتن، باب لا يأتي زمان إلا الذي بعده شر منه، رقم: 7068
اور حضرت زبیر بن عدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، ہم حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حجاج کی طرف سے جو مصیبتیں ہمیں پہنچی تھیں ان کا شکوہ کیا تو حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”صبر کرو، تم پر ایسا زمانہ آنے والا ہے جس میں ہر آنے والا دن تمہارے آج سے بدتر ہو گا حتی کہ تم اپنے رب سے جا ملو گے۔ میں نے یہ بات تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے۔“

بَابٌ شِدَّةِ الْفِتَنِ

فتنوں کی شدت کا بیان

حدیث: 4

وعن أبى هريرة عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: لا تقوم الساعة حتى يمر الرجل بقبر الرجل فيقول: يا ليتني مكانه
صحیح بخاری، کتاب الفتن، باب لا تقوم الساعة حتى يغبط أهل القبور، رقم: 7115
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت قائم نہیں ہوگی حتی کہ ایک آدمی دوسرے آدمی کی قبر پر گزرے گا تو کہے گا: کاش! اس کی جگہ میں ہوتا۔“

حدیث: 5

وعن أبى هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ستكون فتن القاعد فيها خير من القائم، والقائم فيها خير من الماشي، والماشي فيها خير من الساعي، ومن تشرف لها تستشرفه، فمن وجد ملجأ أو معاذا فليعذ به
صحیح بخاری، کتاب الفتن، باب تكون فتنة القاعد فيها خير من القائم، رقم: 7081, 7082
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عنقریب ایسے فتنے پیدا ہوں گے کہ بیٹھا ہوا کھڑے شخص سے بہتر ہوگا۔ کھڑا شخص چلنے والے سے بہتر ہوگا۔ چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہوگا۔ جو شخص دور سے بھی ان فتنوں کی طرف جھانکے گا وہ ان میں مبتلا ہو جائے گا۔ اس وقت جو شخص جہاں کہیں پناہ کی جگہ پائے، پناہ حاصل کر لے۔“

حدیث: 6

وعن عبد الله بن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن من ورائكم أيام الصبر، الصبر فيهن كقبض على الجمر، للعامل فيها أجر خمسين، قالوا: يا رسول الله أجر خمسين منهم أو خمسين منا؟ قال: خمسين منكم
مسند بزار، رقم: 3370، معجم کبیر للطبرانی، رقم: 10394، مجمع الزوائد، الجزء السابع، رقم الحدیث: 12216۔ سیمی نے کہا: بزار کے راوی صحیح کے راوی ہیں، سوائے سہل بن عامر الجلی کے، اسے ابن حبان نے ثقہ قرار دیا ہے۔
اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے بعد صبر کرنے کے دن آئیں گے۔ ان میں صبر کرنا ایسا ہی (مشکل) ہوگا جیسا آگ کا انگارہ مٹھی میں لینا۔ اس وقت صبر کرنے والے کے لیے پچاس آدمیوں کے برابر اجر ہوگا۔“ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: ”یا رسول اللہ! کیا پچاس آدمی ان میں سے یا ہم میں سے؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے۔“

بَابُ ذَهَابِ الْعِلْمِ

علم کے اٹھ جانے کا بیان

حدیث: 7

وعن أبى موسى قال: قال النبى صلى الله عليه وسلم: إن بين يدي الساعة لأياما ينزل فيها الجهل ويرفع فيها العلم ويكثر فيها الهرج، والهرج القتل
صحیح بخاری، کتاب الفتن، باب ظهور الفتن، رقم: 7062 و 7063
اور حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت سے پہلے ایسے دن آئیں گے جن میں جہالت چھا جائے گی، علم (دین) اٹھ جائے گا اور ہرج یعنی خونریزی عام ہو جائے گی۔“
بَابُ عَقُوقِ الْوَالِدَيْنِ

والدین کی نافرمانی کا بیان

قَالَ اللهُ تَعَالَى:وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۚ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا ‎﴿٢٣﴾
(17-الإسراء:23)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”اور آپ کے رب نے فیصلہ کر دیا کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو، اور والدین سے اچھا سلوک کرو۔ اگر ان دونوں میں سے ایک یا دونوں تمہارے ہاں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو تم ان سے اف تک نہ کہو اور انہیں مت جھڑکو، اور ان سے نرم لہجے میں ادب و احترام سے بات کرو۔“
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ‏ إِنَّ اللَّهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ ‎﴿٣٤﴾‏
(31-لقمان:34)
❀ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”بے شک اللہ، اسی کے پاس قیامت کا علم ہے اور وہ بارش برساتا ہے اور وہ جانتا ہے جو کچھ ماؤں کے پیٹوں میں ہے۔ اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کمائی کرے گا اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کس زمین میں مرے گا۔ بے شک اللہ سب کچھ جانے والا، پوری خبر رکھنے والا ہے۔“

حدیث: 8

وعن أبى هريرة رضى الله عنه قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما بارزا للناس فأتاه رجل فقال: يا رسول الله متى الساعة؟ فقال: ما المسئول عنها بأعلم من السائل ولكن سأخبرك عن أشراطها، إذا ولدت الأمة ربتها فذلك من أشراطها، وإذا كانت الحفاة العراة رؤوس الناس فذلك من أشراطها، وإذا تطاول رعاء الغنم فى البنيان فذلك من أشراطها فى خمس لا يعلمهن إلا الله، فتلا رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن الله عنده علم الساعة وينزل الغيث ويعلم ما فى الأرحام
سنن ابن ماجه، کتاب الفتن، باب اشراط الساعة، رقم: 4044۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ تشریف فرما تھے، ایک آدمی حاضر ہوا اور پوچھنے لگا: ”یا رسول اللہ! قیامت کب آئے گی؟“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا: ”قیامت کے بارے میں جس سے پوچھا گیا ہے وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا (یعنی تمہاری طرح مجھے بھی اس کا علم نہیں) لیکن میں تجھے اس کی بعض نشانیاں بتا دیتا ہوں۔ جب عورت اپنا مالک (یعنی نافرمان اولاد) جنے تو یہ قیامت کی نشانیوں میں سے ہے۔ جب ننگے پاؤں ننگے بدن والے لوگوں کے سردار بنیں تو یہ قیامت کی نشانیوں میں سے ہے۔ اور جب بکریوں کے چرواہے بلند و بالا عمارتیں تعمیر کریں تو یہ قیامت کی نشانیوں میں سے ہے۔ قیامت کا وقت ان پانچ چیزوں میں سے ہے جن کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی: ”بے شک قیامت کا علم اللہ ہی کے پاس ہے، بارش وہی برساتا ہے (یعنی اسی کو علم ہے کہ بارش کب ہوگی)، ماؤں کے رحموں میں جو کچھ ہے اسے بھی وہی جانتا ہے، کوئی شخص نہیں جانتا کل وہ کیا کرے گا (اللہ جانتا ہے)، نہ ہی کوئی شخص یہ جانتا ہے کہ وہ کس جگہ فوت ہوگا (اللہ جانتا ہے)۔“

بَابُ فُقْدَانِ الْعَمَلِ

عمل کے ناپید ہونے کا بیان

قَالَ اللهُ تَعَالَى:يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ ‎﴿٢﴾‏ كَبُرَ مَقْتًا عِندَ اللَّهِ أَن تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ ‎﴿٣﴾‏
(61-الصف:2، 3)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو! کیوں کہتے ہو جو تم نہیں کرتے؟ اللہ کے نزدیک ناراض ہونے کے اعتبار سے بڑی بات ہے کہ تم وہ کہو جو تم نہیں کرتے۔“

حدیث: 9

وعن زياد بن لبيد قال: ذكر النبى صلى الله عليه وسلم شيئا فقال: ذاك عند أوان ذهاب العلم، قلت: يا رسول الله كيف يذهب العلم ونحن نقرأ القرآن ونقرئه أبناءنا ويقرئه أبناؤنا أبناءهم إلى يوم القيامة؟ قال: ثكلتك أمك زياد إن كنت لأراك من أفقه رجل بالمدينة أوليس هؤلاء اليهود والنصارى يقرءون التوراة والإنجيل لا يعملون بشيء مما فيهما
سنن ابن ماجه، کتاب الفتن، باب ذهاب القرآن والعلم، رقم: 4048، المشكاة، رقم: 245، 277 ۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
اور حضرت زیاد بن لبید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کسی بات کا ذکر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ اس وقت ہوگا جب علم اٹھ جائے گا۔“ میں نے عرض کیا: ”یا رسول اللہ! علم کیسے اٹھ جائے گا جبکہ ہم قرآن پڑھتے ہیں، اپنی اولاد کو قرآن پڑھاتے ہیں اور وہ آگے اپنی اولاد کو قرآن پڑھائیں گے اور یہ سلسلہ قیامت تک چلتا رہے گا؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”زیاد! تجھے تیری ماں گم پائے، میں تو تمہیں مدینہ کے فہیم لوگوں میں شمار کرتا تھا۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ یہود و نصاریٰ تورات اور انجیل کو پڑھتے ہیں لیکن ان میں جو کچھ ہے اس میں سے کسی چیز پر عمل نہیں کرتے؟“

بَابُ رَفْعِ الْأَمَانَةِ

امانت کے اٹھ جانے کا بیان

حدیث: 10

وعن حذيفة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ينام الرجل النومة فتقبض الأمانة من قلبه فيظل أثرها مثل أثر الوكت، ثم ينام النومة فتقبض فيبقى أثرها مثل أثر المجل كجمر دحرجته على رجلك فنفط فتراه منتبرا وليس فيه شيء، ويصبح الناس يتبايعون فلا يكاد أحد يؤدي الأمانة فيقال: إن فى بني فلان رجلا أمينا، ويقال للرجل: ما أعقله وما أظرفه وما أجلده وما فى قلبه مثقال حبة خردل من إيمان، ولقد أتى على زمان ولا أبالي أيكم بايعت لئن كان مسلما رده على الإسلام وإن كان نصرانيا رده على ساعيه وأما اليوم فما كنت أبايع إلا فلانا وفلانا
صحیح بخاری، کتاب الفتن، باب: إذا بقي في حثالة من الناس، رقم: 7086۔
اور حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک اچھا بھلا (ایماندار) آدمی (رات کو) سوئے گا اور اس کے دل سے امانت نکال لی جائے گی۔ بس ایک سیاہ داغ کی طرح امانت کا نشان باقی رہ جائے گا۔ اگلے روز سوئے گا تو (رہی سہی) امانت بھی اس کے دل سے اٹھا لی جائے گی اور صرف آبلہ کی طرح ایک ہلکا سا نشان باقی رہ جائے گا۔ جس طرح (آگ کا) ایک انگارہ اپنے پاؤں پر لگانے سے آبلہ پھول جاتا ہے جس کا نشان تو ہوتا ہے لیکن اس کے اندر کچھ نہیں ہوتا۔ (قیامت کے قریب) لوگ خرید و فروخت کریں گے لیکن ان میں امانت نہیں ہوگی۔ یہاں تک کہ (امانت دار آدمی کی صرف مثال باقی رہ جائے گی۔) لوگ کہیں گے کہ فلاں خاندان میں ایک امانت دار آدمی موجود ہے۔ (اور حال یہ ہوگا) کہ ایک آدمی کے بارے میں لوگ کہیں گے کہ فلاں بڑا عقلمند ہے، بڑے ظرف والا ہے، بڑا بہادر ہے، ليكن اس كے دل ميں رائي كے دانے كے برابر بهي ايمان نهيں هوگا.“ حضرت حذيفه رضى الله عنه بيان كرتے هيں: ”مجھ پر ايک ايسا وقت گزر چكا ہے كه مجهے اس بات كي قطعاً پرواه نهيں تھی كہ كس سے تجارت كروں، كس سے نہ كروں. اگر مسلمان ہوتا تو اسلام اسے مجبور كرتا كہ وه بے امانی نہ كرے، عيسائی ہوتا تو اس كے حاكم اسے مجبور كرتے كہ وه بے اماني نہ كرے، ليكن اب تو ميں صرف فلاں فلاں كے سات ہی تجارت كرتا ہوں.“
بَابُ شَهَادَةِ الزُّورِ

جھوٹی گواہی کا بیان

قَالَ اللهُ تَعَالَى:‏ وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا ‎﴿٧٢﴾
(25-الفرقان:72)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”اور وہ جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے، اور جب کسی لغو اور بیہودہ کام سے ان کا گزر ہو تو وہ عزت و وقار سے گزر جاتے ہیں۔“

حدیث: 11

وعن طارق بن شهاب قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن بين يدي الساعة تسليم الخاصة وفشو التجارة حتى تعين المرأة زوجها على التجارة وقطع الأرحام وشهادة الزور وكتمان شهادة الحق وظهور القلم
مسند احمد، رقم الحدیث: 3869 ۔ احمد شاکر نے اسے صحیح کہا ہے۔
اور حضرت طارق بن شہاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت سے پہلے یہ نشانیاں ظاہر ہوں گی: جان پہچان کے لوگوں کو سلام کہنا، تجارت کا عام ہونا حتی کہ بیوی اپنے شوہر کی تجارت میں مددگار ہوگی، قطع رحمی، جھوٹی گواہی دینا، سچی گواہی کو چھپانا اور قلم کا ظاہر ہونا۔“
بَابُ ضِيَاعِ الْعَهْدِ

وعدہ کو ضائع کرنے کا بیان

قَالَ اللهُ تَعَالَى:‏ الَّذِينَ يَنقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِن بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَن يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ ‎﴿٢٧﴾
(2-البقرة:27)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”وہ لوگ جو اللہ کے عہد کو، اسے پختہ کرنے کے بعد توڑ دیتے ہیں اور اس چیز کو قطع کرتے ہیں جس کے متعلق اللہ نے حکم دیا کہ اسے ملایا جائے اور زمین میں فساد کرتے ہیں، یہی لوگ خسارہ اٹھانے والے ہیں۔“

حدیث: 12

وعن عبد الله بن عمرو قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: كيف بكم وبزمان يوشك أن يأتى يغربل الناس فيه غربلة ويبقى حثالة من الناس قد مرجت عهودهم وأماناتهم فاختلفوا وكانوا هكذا وشبك بين أصابعه، قالوا: كيف بنا يا رسول الله إذا كان ذلك؟ قال: تأخذون بما تعرفون وتدعون ما تنكرون وتقبلون على خاصتكم وتذرون أمر عوامكم
سنن ابن ماجه، ابواب الفتن، باب التثبت في الفتنة، رقم: 3957 ۔ سلسلة الصحيحة، رقم: 205۔
اور حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارا کیا حال ہوگا جب ایسا وقت آئے گا کہ (نیک) لوگ برے لوگوں سے الگ کر دیے جائیں گے، اور صرف برے ہی باقی رہ جائیں گے؟ وعدہ اور امانت خلط ملط ہو جائیں گے (یعنی ان کی پروا نہیں کی جائے گی)، لوگ بالکل بگڑ جائیں گے، اچھے اور برے لوگ آپس میں یوں گھل مل جائیں گے۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر دکھائیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: ”اگر ایسا وقت ہم پر آجائے تو ہم کیا کریں؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جسے نیکی سمجھو اس پر عمل کرنا، جسے برا سمجھو اسے چھوڑ دینا، اور اس وقت اپنے قابل اعتماد لوگوں کے پاس چلے آنا اور دوسروں کو ان کے حال پر چھوڑ دینا۔“
بَابُ قَطِيعَةِ الرَّحِمِ

قطع رحمی کا بیان

قَالَ اللهُ تَعَالَى:فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِن تَوَلَّيْتُمْ أَن تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ ‎﴿٢٢﴾‏
(47-محمد:22)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”پھر یقیناً تم قریب ہو اگر تم حاکم بن جاؤ کہ زمین میں فساد کرو اور اپنے رشتوں کو بالکل ہی قطع کر دو۔“

حدیث: 13

وعن عبد الله بن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: بين يدي الساعة تسليم الخاصة وتفشو التجارة حتى تعين المرأة زوجها على التجارة وتقطع الأرحام
مسند الامام احمد، رقم الحدیث: 3869۔ احمد شاکر نے اسے صحیح کہا ہے۔
اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت سے پہلے جان پہچان والوں کو سلام کرنا، تجارت کا عام ہونا، حتی کہ تجارت میں بیوی اپنے شوہر کی معاون ہوگی اور قطع رحمی عام ہو جائے گی۔“
بَابُ كِتْمَانِ الْحَقِّ

حق کو چھپانے کا بیان

قَالَ اللهُ تَعَالَى: لِمَ تَلْبِسُونَ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ ‎﴿٧١﴾‏
(3-آل عمران:71)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”تم حق کو باطل کے ساتھ کیوں خلط ملط کرتے ہو؟ اور تم جانتے بوجھتے حق کو کیوں چھپاتے ہو؟“

حدیث: 14

وعن عبد الله بن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن بين يدي الساعة شهادة الزور وكتمان الحق
مسند احمد، رقم: 60۔ احمد شاکر نے اسے صحیح کہا ہے۔
اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت سے پہلے جھوٹی گواہی دینے والے اور حق کو چھپانے والے ہوں گے۔“
بَابُ سُوءِ الْمُجَاوَرَةِ

ہمسایہ سے برا سلوک کرنے کا بیان

قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ۖ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا ‎﴿٣٦﴾‏
(4-النساء:36)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”اور تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو اور رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، رشتہ دار پڑوسی، اجنبی پڑوسی، پہلو کے ساتھی اور مسافر کے ساتھ اور اپنی زیر ملکیت کنیزوں اور غلاموں سے بھی نیکی کرو۔ بے شک اللہ ہر اترانے والے، فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔“

حدیث: 15

وعن عبد الله بن عمرو قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن الله لا يحب الفحش والتفحش أو يبغض الفاحش والمتفحش ولا تقوم الساعة حتى يظهر الفحش والتفاحش وقطيعة الرحم وسوء المجاورة وحتى يؤتمن الخائن ويخون الأمين
مسند احمد، رقم الحدیث: 6511 . احمد شاکر نے اسے صحیح کہا ہے۔
اور حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک اللہ تعالیٰ بے حیائی اور فحش گو کو پسند نہیں فرماتا یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بے حیا اور فحش گو سے بغض رکھتا ہے۔ قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ بے حیائی اور فحش گوئی عام ہو، قطع رحمی کی جائے، ہمسایہ سے برا سلوک کیا جائے، خائن کو امانت دار کہا جائے اور امانت دار کو خائن کہا جائے۔“
بَابُ الشُّحِ

خود غرضی کا بیان

قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ‎﴿٩﴾‏
(59-الحشر:9)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”اور جو کوئی اپنے نفس کی حرص سے بچا لیا گیا تو وہی لوگ ہیں جو کامیاب ہیں۔“

حدیث: 16

وعن أبى هريرة عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: يتقارب الزمان وينقص العمل ويلقى الشح وتظهر الفتن ويكثر الهرج، قالوا: يا رسول الله أيما هو؟ قال: القتل القتل
صحیح بخاری، کتاب الفتن، باب ظهور الفتن، رقم: 7061۔
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وقت جلدی جلدی گزرے گا، (نیک) عمل کم ہو جائے گا، خود غرضی پیدا کر دی جائے گی، فتنے ظاہر ہوں گے اور ہرج بڑھ جائے گا۔“ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: ”یا رسول اللہ! ہرج کیا ہے؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قتل، قتل۔“
بَابُ عُلُوِّ السُّفَلَةِ

اخلاقی اقدار کی پامالی کا بیان

قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَمِنَ النَّاسِ مَن يُعْجِبُكَ قَوْلُهُ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيُشْهِدُ اللَّهَ عَلَىٰ مَا فِي قَلْبِهِ وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصَامِ ‎﴿٢٠٤﴾‏ وَإِذَا تَوَلَّىٰ سَعَىٰ فِي الْأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ ۗ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ ‎﴿٢٠٥﴾
(2-البقرة:204، 205)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”اور (اے نبی!) لوگوں میں کوئی تو ایسا ہے کہ آپ کو اس کی بات دنیا کی زندگی میں بہت بھلی لگتی ہے اور جو کچھ اس کے دل میں ہے اس پر وہ اللہ کو گواہ ٹھہراتا ہے، حالانکہ وہ سخت جھگڑالو ہے۔ اور جب وہ پلٹتا ہے تو کوشش کرتا ہے کہ زمین میں فساد پھیلائے، کھیتوں اور نسل کو تباہ کرے اور اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا۔“

حدیث: 17

وعن حذيفة بن اليمان قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا تقوم الساعة حتى يكون أسعد الناس بالدنيا لكع ابن لكع
سنن ترمذی، ابواب الفتن، باب ما جاء في اشراط الساعة، رقم: 2209، المشكاة، رقم: 2365 ۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
اور حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک دنیا کے اعتبار سے سب سے بڑا خوش نصیب اسے سمجھا جائے گا جو خاندانی کمینہ اور احمق ہوگا۔“
بَابُ حُبِّ النَّاسِ الْأَئِمَّةَ الْخَلُوقَ

عوام کا ناکاہل حکمرانوں کو پسند کرنے کا بیان

قَالَ اللهُ تَعَالَى:فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ ۖ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا ‎﴿٥٩﴾‏
(19-مريم:59)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”پھر ان کے بعد ناخلف (نالائق) ان کے جانشین ہوئے، جنہوں نے نماز ضائع کی اور خواہشات کی پیروی کی، چنانچہ جلد ہی (آگے) وہ ہلاکت اور گمراہی (کے انجام) سے دوچار ہوں گے۔“

حدیث: 18

وعن أبى هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا ضيعت الأمانة فانتظر الساعة، قال: كيف إضاعتها يا رسول الله؟ قال: إذا أسند الأمر إلىٰ غير أهله فانتظر الساعة
صحیح بخاری، کتاب الرقاق، باب رفع الأمانة، رقم: 6496۔
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب امانت ضائع کی جائے اس وقت قیامت کا انتظار کرو۔“ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا: ”یا رسول اللہ! امانت کیسے ضائع کی جائے گی؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب حکومت ان لوگوں کو دی جائے جو اس کے اہل نہ ہوں، تو قیامت کا انتظار کرو۔“
بَابٌ حُبِّ الدُّنْيَا وَكَرَاهِيَةِ الْمَوْتِ

دنیا سے محبت اور موت سے نفرت کا بیان

قَالَ اللهُ تَعَالَى:كَلَّا بَلْ تُحِبُّونَ الْعَاجِلَةَ ‎﴿٢٠﴾‏ وَتَذَرُونَ الْآخِرَةَ ‎﴿٢١﴾‏
(75-القيامة:20، 21)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”ہرگز نہیں، بلکہ تم جلدی ملنے والی کو پسند کرتے ہو اور بعد میں آنے والی کو چھوڑ دیتے ہو۔“

حدیث: 19

وعن ثوبان قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يوشك الأمم أن تداعىٰ عليكم كما تداعى الأكلة إلىٰ قصعتها، فقال قائل: ومن قلة نحن يومئذ؟ قال: بل أنتم يومئذ كثير ولكنكم غثاء كغثاء السيل ولينزعن الله من صدور عدوكم المهابة منكم وليقذفن الله فى قلوبكم الوهن، فقال قائل: يا رسول الله وما الوهن؟ قال: حب الدنيا وكراهية الموت
سنن ابو داود، کتاب الملاحم، باب في تداعي الأمم على الإسلام، رقم: 4297، سلسلة الصحيحة، رقم: 956
اور حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عنقریب (کافر) امتیں تمہارے اوپر چڑھ دوڑنے کے لیے ایک دوسرے کو اس طرح بلائیں گی جس طرح کھانے والے ایک دوسرے کو دستر خوان کی طرف بلاتے ہیں۔“ ایک آدمی نے عرض کیا: ”شاید اس وقت ہم تعداد میں کم ہوں گے؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں! بلکہ تم کثرت میں ہو گے لیکن تمہاری حیثیت پانی کے اوپر بہنے والی جھاگ کی مانند ہوگی۔ اللہ تعالیٰ تمہارے دشمن کے دلوں سے تمہارا رعب ختم کر دیں گے اور تمہارے دلوں میں وہن پیدا فرما دیں گے۔“ ایک آدمی نے عرض کیا: ”یا رسول اللہ! وہن کا کیا مطلب ہے؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دنیا کی محبت اور موت سے نفرت۔“
بَابُ كَثْرَةِ الشِّرْكِ

شرک کی کثرت کا بیان

قَالَ اللهُ تَعَالَى:وَإِذْ قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ وَهُوَ يَعِظُهُ يَا بُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللَّهِ ۖ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ ‎﴿١٣﴾‏
(31-لقمان:13)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”اور جب لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا، جب کہ وہ اسے نصیحت کر رہا تھا: اے میرے چھوٹے بیٹے! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنانا، بے شک شرک یقیناً بہت بڑا ظلم ہے۔“

حدیث: 20

وعن أبى هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لا تقوم الساعة حتى تضطرب أليات نساء دوس علىٰ ذي الخلصة
صحیح بخاری ، کتاب الفتن، باب تغير الزمان حتى تعبد الأوثان، رقم: 7116.
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت قائم نہ ہوگی جب تک دوس قبیلے کی عورتیں ذوالخلصہ کے بت خانہ میں چکر نہ لگا لیں۔“

بَابُ كَثرَةِ البِدُعات

بدعات کی کثرت کا بیان

حدیث: 21

وعن أسماء بنت أبى بكر عن النبى قال: أنا على حوضي أنتظر من يرد على فيؤخذ بناس من دوني فأقول: أمتي فيقول: لا تدري مشوا على القهقرى قال: ابن أبى مليكة: اللهم إنا نعوذ بك أن نرجع على أعقابنا أو نفتن.
صحیح بخاری، کتاب الفتن، باب قول الله تعالى:﴿واتقوا فتنة لا تصيبن الذين ظلموا منكم خاصة﴾ (8-الأنفال:25)، وما كان النبي يحذر من الفتن، رقم: 7048۔
اور حضرت أسماء بنت أبي بكر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں اپنے حوض پر ہوں گا اور انتظار کروں گا کہ کون میرے پاس آتا ہے۔ کچھ لوگ میرے پاس آنے سے پہلے ہی پکڑ لیے جائیں گے، میں کہوں گا: یہ تو میرے امتی ہیں۔ فرشتے کہیں گے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں جانتے، یہ لوگ الٹے پاؤں پھر گئے تھے۔“ (حدیث کے راوی) ابن أبي مليكة نے (حدیث بیان کرنے کے بعد) یہ دعا مانگی: ”اے اللہ! ہم تیری پناہ مانگتے ہیں کہ اپنی ایڑیوں کے بل پلٹ جائیں یا کسی فتنے میں مبتلا ہو جائیں۔“

بَابُ كَثرَةِ الكِذب

جھوٹ کی کثرت کا بیان

حدیث: 22

وعن أبى هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لا تقوم الساعة حتى تطهر الفتن ويكثر الكذب ويتقارب الأسواق ويتقارب الزمان ويكثر الهرج قيل: وما الهرج؟ قال: القتل.
مسند الإمام أحمد: 2/59، مجمع الزوائد: 7/327۔ أحمد شاكر نے اسے صحیح کہا ہے۔
اور حضرت أبو هريرة رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت قائم نہیں ہوگی جب تک فتنے ظاہر نہ ہوں، جھوٹ کی کثرت نہ ہو جائے، تجارتی مراکز عام نہ ہو جائیں، وقت نہ گھٹ جائے، ہرج بہت زیادہ نہ بڑھ جائے۔“ عرض کیا گیا: ہرج کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قتل کرنا۔“
بَابُ كَثرَةِ الخَدَّاعات

کثرت فریب کا بیان

قَالَ اللهُ تَعَالَى: يُخَادِعُونَ اللَّهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ ‎﴿٩﴾
(2-البقرة:9)
اللہ تعالى نے فرمایا: ”وہ اللہ سے دھوکا بازی کرتے ہیں اور ان لوگوں سے جو ایمان لائے، حالانکہ وہ اپنی جانوں کے سوا کسی کو دھوکا نہیں دے رہے اور وہ شعور نہیں رکھتے۔“

حدیث: 23

وعن أبى هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: سيأتي على الناس سنوات خداعات يصدق فيها الكاذب ويكذب فيها الصادق ويؤتمن فيها الخائن ويخون فيها الأمين وينطق فيها الرويبضة قيل: وما الرويبضة؟ قال: الرجل التافه فى أمر العامة.
سنن ابن ماجه، کتاب الفتن، باب شدة الزمان، رقم: 4036، سلسلة الصحيحة، رقم: 1887۔
اور حضرت أبو هريرة رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عنقریب لوگوں پر ایسا وقت آئے گا جس میں ہر طرف دھوکا ہی دھوکا ہوگا۔ جھوٹے کو سچا سمجھا جائے گا اور سچے کو جھوٹا سمجھا جائے گا۔ خائن کو امانت دار اور امانت دار کو خائن سمجھا جائے گا، اور رویبضہ خوب بولے گا۔“ عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! رویبضہ کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عامۃ الناس کے معاملات پر اختیار رکھنے والا کمینہ آدمی۔“
بَابُ كَثرَةِ الأَغاني والمَعازِف

گانوں اور آلات موسیقی کی کثرت کا بیان

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ‏ وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا ۚ أُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ ‎﴿٦﴾‏
(31-لقمان:6)
❀ اللہ تعالى نے فرمایا:
”اور لوگوں میں سے بعض وہ ہیں، جو دلفریب کلام خریدتے ہیں تا کہ وہ علم کے بغیر اللہ کی راہ سے گمراہ کریں اور اس کا مذاق اڑائیں، یہی لوگ ہیں جن کے لیے رسوا کن عذاب ہے۔“

حدیث: 24

وعن أبى مالك الأشعري قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ليشربن ناس من أمتي الخمر يسمونها بغير اسمها يعزف على رؤوسهم بالمعازف والمغنيات يخسف الله بهم الأرض ويجعل منهم القردة والخنازير.
سنن ابن ماجه، کتاب الفتن، باب العقوبات، رقم: 4020، سلسلة الصحيحة: 1/138-139۔
اور حضرت أبو مالك الأشعري رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت کے کچھ لوگ شراب پئیں گے لیکن اس کا نام کچھ اور رکھ دیں گے، ان کے سروں پر باجے بجیں گے، گانے والیوں کے گانے ہوں گے، اللہ تعالى انہیں زمین میں دھنسا دے گا اور بعض کو بندر اور خنزیر بنا دے گا۔“
بَابُ كَثرَةِ الفُحْشِ والتَّفَحُّش

بے حیائی اور فحش گوئی کی کثرت کا بیان

قَالَ اللهُ تَعَالَى: إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَن تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۚ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ‎﴿١٩﴾‏
(24-النور:19)
❀ اللہ تعالى نے فرمایا:
”بے شک جو لوگ یہ پسند کرتے ہیں کہ ایمان لانے والوں میں بے حیائی پھیلے، ان کے لیے دنیا اور آخرت میں درد ناک عذاب ہے اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔“

حدیث: 25

وعن عبد الله بن عمرو قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن الله لا يحب الفحش والتفحش أو يبغض الفاحش والمتفحش ولا تقوم الساعة حتى يظهر الفحش والتفاحش وقطيعة الرحم وسوء المجاورة وحتى يؤتمن الخائن ويخون الأمين.
مسند أحمد، رقم الحدیث: 6511۔ أحمد شاكر نے اسے صحیح کہا ہے۔
اور حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک اللہ تعالى بے حیائی اور فحش گوئی کو پسند نہیں کرتا، یا یوں فرمایا کہ اللہ تعالى بے حیا اور فحش گو سے بغض رکھتا ہے۔ قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ بے حیائی اور فحش گوئی عام نہ ہو جائے، قطع رحمی نہ کی جائے، ہمسائے سے برا سلوک نہ کیا جائے، خائن کو امانت دار نہ کہا جائے اور امانت دار کو خائن نہ کہا جائے۔“
بَابُ كَثرَةِ الزِّنا والخَمْر

کثرت زنا اور شراب کا بیان

قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَىٰ ۖ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا ‎﴿٣٢﴾‏
(17-الإسراء:32)
❀ اللہ تعالى نے فرمایا:
”اور تم زنا کے قریب نہ جاؤ، یقیناً وہ بے حیائی اور بری راہ ہے۔“
قَالَ اللهُ تَعَالَى: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ‎﴿٩٠﴾
(5-المائدة:90)
❀ اور اللہ تعالى نے فرمایا:
”اے ایمان والو! بے شک شراب اور جوا، آستانے اور فال نکالنے کے تیر، سب گندے کام ہیں اور شیطان کے عمل سے ہیں، پس تم ان سے بچو، تاکہ تم فلاح پاؤ۔“

حدیث: 26

وعن أنس بن مالك قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من أشراط الساعة أن يرفع العلم ويثبت الجهل ويشرب الخمر ويظهر الزنا.
صحیح مسلم، کتاب العلم، باب رفع العلم في آخر الزمان، رقم: 267/9۔
اور حضرت أنس بن مالك رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”علم کا اٹھ جانا، جہالت کا پھیل جانا، شراب کا پیا جانا اور کھلم کھلا زنا ہونا قیامت کی نشانیوں میں سے ہے۔“
بَابُ كَثرَةِ الهَرْج

خونریزی کی کثرت کا بیان

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ثُمَّ أَنتُمْ هَٰؤُلَاءِ تَقْتُلُونَ أَنفُسَكُمْ وَتُخْرِجُونَ فَرِيقًا مِّنكُم مِّن دِيَارِهِمْ تَظَاهَرُونَ عَلَيْهِم بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَإِن يَأْتُوكُمْ أُسَارَىٰ تُفَادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْرَاجُهُمْ ۚ أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ ۚ فَمَا جَزَاءُ مَن يَفْعَلُ ذَٰلِكَ مِنكُمْ إِلَّا خِزْيٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرَدُّونَ إِلَىٰ أَشَدِّ الْعَذَابِ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ ‎﴿٨٥﴾‏
(2-البقرة:85)
❀ اللہ تعالى نے فرمایا:
”پھر تم ہی وہ لوگ ہو کہ اپنے آپ کو قتل کرتے ہو اور اپنے میں سے ایک گروہ کو ان کے گھروں سے نکالتے ہو، ان کے خلاف ایک دوسرے کی مدد گناہ اور زیادتی کے ساتھ کرتے ہو، اور اگر وہ قیدی ہو کر تمہارے پاس آئیں تو ان کا فدیہ دیتے ہو، حالانکہ ان کا نکالنا تم پر حرام ہے۔ پھر کیا تم کتاب کے بعض حصوں پر ایمان لاتے ہو اور بعض کے ساتھ کفر کرتے ہو؟ تو اس شخص کی جزا جو تم میں سے یہ کرے، دنیا کی زندگی میں رسوائی اور قیامت کے دن سخت ترین عذاب کی طرف لوٹائے جانے کے سوا کیا ہے؟ اور اللہ اس سے غافل نہیں جو تم کرتے ہو۔“

حدیث: 27

وعن أبى موسى قال: حدثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن بين يدي الساعة لهرجا قال: قلت يا رسول الله ما الهرج؟ قال: القتل فقال: بعض المسلمين يا رسول الله إنا نقتل الآن فى العام الواحد من المشركين كذا وكذا فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ليس بقتل المشركين ولكن يقتل بعضكم بعضا حتى يقتل الرجل جاره وابن عمه وذا قرابته.
سنن ابن ماجه، کتاب الفتن، باب الثبت في الفتنة، رقم: 3959، سلسلة الصحيحة، رقم: 1682۔
اور حضرت أبو موسى رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت سے پہلے ہرج ہوگا۔“ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہرج کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قتل۔“ بعض صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! قتل تو اب بھی ہوتا ہے، ہم ایک سال میں کتنے مشرکوں کو قتل کر دیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہرج سے مراد مشرکوں کا قتل نہیں، بلکہ تم آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرو گے، حتیٰ کہ آدمی اپنے پڑوسی، اپنے چچا زاد بھائی اور اپنے دیگر اعزہ و اقارب کو قتل کرے گا۔“
بَابُ فِتَنِ البُطُونِ والفُرُوج

پیٹ اور شرمگاہ کے فتنوں کا بیان

قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَاللَّهُ يُرِيدُ أَن يَتُوبَ عَلَيْكُمْ وَيُرِيدُ الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الشَّهَوَاتِ أَن تَمِيلُوا مَيْلًا عَظِيمًا ‎﴿٢٧﴾
(4-النساء:27)
❀ اللہ تعالى نے فرمایا:
”اور اللہ چاہتا ہے کہ تم پر توبہ کا دروازہ کھولے، جبکہ وہ لوگ جو خواہشات کی پیروی کرتے ہیں، چاہتے ہیں کہ تم حق سے بہت دور ہو جاؤ۔“

حدیث: 28

وعن أبى برزة الأسلمي عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: إنما أخشى عليكم شهوات الغي فى بطونكم وفروجكم ومضلات الفتن.
مسند أحمد: 4/429، مجمع الزوائد: 7/595، كتاب الفتن، رقم الحديث: 12347۔ شیخ حمزہ زین نے اسے صحیح کہا ہے۔ بیشمی نے کہا: اسے أحمد نے روایت کیا اور اس کے راوی صحیح کے راوی ہیں۔
اور حضرت أبو برزة الأسلمي رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے تمہارے بارے میں تمہارے پیٹوں اور شرمگاہوں کی گمراہ کرنے والی خواہشات اور گمراہ کرنے والے فتنوں سے بہت زیادہ ڈر ہے۔“

بَابُ فِتْنَةِ بَيْعِ الدِّينِ بِعَرَضِ الدُّنْيا

دین کو دنیا کی دولت کے بدلے بیچنے کا فتنہ

حدیث: 29

وعن أنس بن مالك عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: تكون بين يدي الساعة فتن كقطع الليل المظلم يصبح الرجل فيها مؤمنا ويمسي كافرا ويمسي مؤمنا ويصبح كافرا يبيع أقوام دينهم بعرض من الدنيا.
سنن الترمذي، أبواب الفتن، باب ما جاء في ستكون فتنة كقطع الليل المظلم، رقم: 2197، سلسلة الصحيحة، رقم: 758، 810۔
اور حضرت أنس بن مالك رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت سے پہلے شب تاریک کے ٹکڑوں کی مانند فتنے ظاہر ہوں گے، ایک آدمی صبح کو مومن ہوگا اور شام کو کافر ہو جائے گا، شام کو مومن ہوگا اور صبح کو کافر ہو جائے گا، کچھ لوگ اپنا دین دنیا کی دولت کے بدلے بیچ ڈالیں گے۔“
بَابُ فِتْنَةِ كَسْبِ الحَرام

حرام کمائی کے فتنے کا بیان

قَالَ اللهُ تَعَالَى: يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ ‎﴿١٦٨﴾
(2-البقرة:168)
❀ اللہ تعالى نے فرمایا:
”اے لوگو! زمین میں جو حلال اور پاکیزہ چیزیں ہیں، انہیں کھاؤ اور شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرو، بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔“

حدیث: 30

وعن أبى هريرة عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: يأتى على الناس زمان لا يبالي المرء ما أخذ منه أمن الحلال أم من الحرام.
صحیح بخاری، کتاب البيوع، باب من لم يبال من حيث كسب المال، رقم: 2059۔
اور حضرت أبو هريرة رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا کہ آدمی پرواہ نہیں کرے گا کہ اس نے مال حلال طریقے سے کمایا یا حرام طریقے سے۔“

بَابُ فِتْنَةِ الكاسِياتِ العارِيات

لباس کے باوجود ننگی عورتوں کے فتنے کا بیان

حدیث: 31

وعن أبى هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: صنفان من أهل النار لم أرهما قوم معهم سياط كأذناب البقر يضربون بها الناس ونساء كاسيات عاريات مميلات مائلات رؤوسهن كأسنمة البخت المائلة لا يدخلن الجنة ولا يجدن ريحها وإن ريحها ليوجد من مسيرة كذا وكذا.
صحیح مسلم، كتاب صفة الجنة ونعيمها، رقم: 7194۔
اور حضرت أبو هريرة رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جہنم میں جانے والی دو قسمیں ایسی ہیں جو میں نے ابھی تک نہیں دیکھیں۔ ایک وہ لوگ ہیں جن کے پاس بیل کی دموں کی طرح کے کوڑے ہوں گے جن سے وہ لوگوں کو ماریں گے۔ دوسری قسم عورتوں کی ہے جو کپڑے پہننے کے باوجود ننگی ہوں گی، مردوں کو بہکائیں گی اور خود بہکیں گی، ان کے سر بختی اونٹوں کی کوہان کی طرح ایک طرف جھکے ہوں گے۔ ایسی عورتیں جنت میں نہ جائیں گی اور نہ جنت کی خوشبو سونگھ سکیں گی، حالانکہ جنت کی خوشبو طویل مسافت سے آتی ہے۔“
بَابُ فِتْنَةِ الكَذَّابِينَ والدَّجَّالِين

جھوٹے اور فریبی پیشواؤں کے فتنے کا بیان

قَالَ اللهُ تَعَالَى: مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَٰكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا ‎﴿٤٠﴾
(33-الأحزاب:40)
❀ اللہ تعالى نے فرمایا:
”محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں، لیکن وہ اللہ کے رسول اور تمام نبیوں کے خاتم ہیں، اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔“

حدیث: 32

وعن أبى هريرة عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: لا تقوم الساعة حتى يبعث دجالون كذابون قريب من ثلاثين كلهم يزعم أنه رسول الله.
صحیح مسلم، كتاب الفتن وأشراط الساعة، رقم: 7342۔
اور حضرت أبو هريرة رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت قائم نہیں ہوگی جب تک تیس کے قریب دھوکے باز جھوٹے پیدا نہ ہوں، جن میں سے ہر ایک دعویٰ کرے گا کہ وہ اللہ کا رسول ہے۔“

بَابُ فِتْنَةِ إِمارَةِ المَرْأَة

عورتوں کی حکمرانی کے فتنے کا بیان

حدیث: 33

وعن أبى بكرة قال: لقد نفعني الله بكلمة أيام الجمل لما بلغ النبى صلى الله عليه وسلم أن فارسا قد ملكوا ابنة كسرى قال: لن يفلح قوم ولوا أمرهم امرأة.
صحیح بخاری، کتاب الفتن، باب الفتنة التي تموج كموج البحر، رقم: 7049۔
اور حضرت أبو بكرة رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جنگ جمل کے موقع پر اللہ تعالى نے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک قول سے بہت فائدہ پہنچایا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ ایرانیوں نے کسرى کی بیٹی کو اپنا بادشاہ بنا لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ قوم کبھی فلاح نہیں پا سکتی جو عورت کو اپنا حاکم بنائے۔“

بَابُ فِتْنَةِ الأَئِمَّةِ المُضِلِّين

گمراہ کرنے والے حکمرانوں کے فتنے کا بیان

حدیث: 34

وعن حذيفة بن اليمان قلت: يا رسول الله إنا كنا بشر فجاء الله بخير فنحن فيه فهل من وراء هذا الخير شر؟ قال: نعم قلت: هل وراء ذلك الشر خير؟ قال: نعم قلت: فهل وراء ذلك الخير شر؟ قال: نعم قلت: كيف؟ قال: يكون بعدي أئمة لا يهتدون بهداي ولا يستنون بسنتي وسيقوم فيهم رجال قلوبهم قلوب الشياطين فى جثمان إنس قال: قلت: كيف أصنع يا رسول الله إن أدركت ذلك؟ قال: تسمع وتطيع للأمير وإن ضرب ظهرك وأخذ مالك فاسمع وأطع.
صحیح مسلم، كتاب الإمارة، باب وجوب ملازمة جماعة المسلمين عند ظهور الفتن، رقم: 4785۔
اور حضرت حذيفة بن اليمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم لوگ برائی میں مبتلا تھے، اللہ تعالى نے ہمیں خیر عطا فرمایا، کیا اس خیر کے بعد شر آئے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“ میں نے عرض کیا: کیا اس شر کے بعد پھر خیر ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“ میں نے عرض کیا: کیا اس خیر کے بعد پھر شر آئے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“ میں نے عرض کیا: وہ کیسے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے بعد ایسے حاکم ہوں گے جو میری ہدایت پر نہ چلیں گے اور نہ میری سنت پر عمل کریں گے، اور ان میں ایسے لوگ کھڑے ہوں گے جن کے دل شیطانوں کے دل ہوں گے لیکن جسم انسانی ہوں گے۔“ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اگر میں اس وقت کو پاؤں تو کیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو حاکم کی بات سن اور اطاعت کر، خواہ تیری پیٹھ ماری جائے یا تیرا مال لے لیا جائے، بہر حال سن اور اطاعت کر۔“

بَابُ فِتْنَةِ اتِّباعِ اليَهُودِ والنَّصارَى

یہود و نصاریٰ کی پیروی کے فتنے کا بیان

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ‏ تَرَىٰ كَثِيرًا مِّنْهُمْ يَتَوَلَّوْنَ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَهُمْ أَنفُسُهُمْ أَن سَخِطَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَفِي الْعَذَابِ هُمْ خَالِدُونَ ‎﴿٨٠﴾‏
(5-المائدة:80)
❀ اللہ تعالى نے فرمایا:
”آپ ان میں سے بہتوں کو دیکھیں گے کہ وہ کافروں سے دوستی کرتے ہیں۔ بہت برا ہے جو ان کے نفسوں نے ان کے لیے آگے بھیجا کہ اللہ ان سے ناراض ہو گیا اور وہ ہمیشہ عذاب میں رہنے والے ہیں۔“

حدیث: 35

وعن أبى هريرة عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: لا تقوم الساعة حتى تأخذ أمتي بأخذ القرون قبلها شبرا بشبر وذراعا بذراع فقيل: يا رسول الله كفارس والروم؟ فقال: ومن الناس إلا أولئك.
صحیح بخاری، کتاب الاعتصام بالكتاب والسنة، باب قول النبي صلى الله عليه وسلم لتتبعن سنن من كان قبلكم، رقم: 7319۔
اور حضرت أبو هريرة رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت قائم نہیں ہوگی جب تک میری امت پہلی امتوں کے طور طریقے اختیار نہ کر لے، اگر وہ ایک بالشت چلیں گے تو تم بھی ایک بالشت چلو گے، اگر وہ ایک ہاتھ چلیں گے تو تم بھی ایک ہاتھ چلو گے۔“ عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! کیا اگلی امتوں سے مراد پارسی اور رومی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر اور کون؟“
بَابُ فَضْلِ اجْتِنابِ الفِتَن

فتنوں سے بچنے کی فضیلت کا بیان

قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَّا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنكُمْ خَاصَّةً
(8-الأنفال:25)
❀ اللہ تعالى نے فرمایا:
”اور اس فتنے سے ڈرو جو تم میں سے خاص طور پر صرف ان لوگوں کو نہیں پہنچے گا جنہوں نے ظلم کیا۔“

حدیث: 36

وعن معقل بن يسار رده إلى النبى صلى الله عليه وسلم قال: العبادة فى الهرج كالهجرة إلي.
سنن الترمذي، أبواب الفتن، باب ما جاء في الهرج والعبادة فيه، رقم: 2201، سنن ابن ماجه، رقم: 3985۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
اور حضرت معقل بن يسار رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک بات پہنچائی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہرج کے فتنے میں عبادت کرنا میری طرف ہجرت کرنے کے مانند ہے۔“

بَابٌ ماذا يُفْعَلُ فى الفِتَن

فتنوں کے دوران کیا کیا جائے؟

حدیث: 37

وعن حذيفة بن اليمان قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: تكون فتن على أبوابها دعاة إلى النار فأن تموت وأنت عاض على جذل شجرة خير لك من أن تتبع أحدا منهم.
سنن ابن ماجه، كتاب الفتن، باب العزلة، رقم: 3981، سلسلة الصحيحة، رقم: 1791۔

اور حضرت حذيفة بن اليمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کچھ فتنے ہوں گے جن کے دروازوں پر آگ کی طرف بلانے والے کھڑے ہوں گے۔ اس وقت ان کی پکار پر لبیک کہنے کے بجائے تیرے لیے بہتر ہے کہ تو درخت کی چھال چبا کر تنہائی میں جان دے دے۔“

بَابُ الإِسْتِعاذَةِ مِنَ الفِتَن

فتنوں سے پناہ مانگنے کی دعا کا بیان

حدیث: 38

وعن عائشة قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يدعو فى الصلاة يقول: اللهم إني أعوذ بك من عذاب القبر وأعوذ بك من فتنة المسيح الدجال وأعوذ بك من فتنة المحيا والممات اللهم إني أعوذ بك من المأثم والمغرم.
متفق عليه: اللؤلؤ والمرجان، الجزء الأول، رقم الحديث: 345۔
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں درود شریف کے بعد یہ دعا مانگتے تھے: ”اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں عذاب قبر سے، مسیح دجال کے فتنے سے، زندگی اور موت کے فتنوں سے، گناہ اور قرض سے۔“

بَابُ أَمْواتِ العُلَماء

علماء کی اموات کا بیان

حدیث: 39

وعن عبد الله بن عمرو بن العاص قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إن الله لا يقبض العلم انتزاعا ينتزعه من العباد ولكن يقبض العلم بقبض العلماء حتى إذا لم يبق عالم اتخذ الناس رؤوسا جهالا فسئلوا فأفتوا بغير علم فضلوا وأضلوا.
صحیح بخاری، کتاب العلم، باب كيف يقبض العلم؟ رقم: 100۔
اور حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”اللہ تعالى دین کا علم بندوں سے چھین کر ختم نہیں کرے گا، بلکہ علماء کی موت سے علم ختم کر دے گا، حتیٰ کہ جب ایک بھی عالم نہ بچے گا تو لوگ جاہلوں کو اپنا راہنما بنا لیں گے۔ ان سے مسائل پوچھے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے فتوے دیں گے، خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔“

 

بَابُ ظُهُورِ مَسِيحِ الدَّجَّال

مسیح دجال کے ظہور کا بیان

حدیث: 40

وعن النواس بن سمعان قال: ذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم الدجال ذات غداة قلنا: يا رسول الله وما إسراعه فى الأرض؟ قال: كالغيث استدبرته الريح فيأتي على القوم فيدعوهم فيؤمنون به ويستجيبون له فيأمر السماء فتمطر والأرض فتنبت فتروح عليهم سارحتهم أطول ما كانت ذرى وأسبغه ضروعا وأمده خواصر ثم يأتى القوم فيدعوهم فيردون عليه قوله فينصرف عنهم فيصبحون ممحلين ليس بأيديهم شيء من أموالهم ويمر بالخربة فيقول لها: أخرجي كنوزك فتتبعه كنوزها كيعاسيب النحل.
صحیح مسلم، کتاب الفتن وأشراط الساعة، باب ذكر الدجال، رقم: 7373۔
اور حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک صبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کا ذکر فرمایا۔ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! زمین میں اس کا گھومنا کس تیزی سے ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس بارش کی طرح جسے ہوا پیچھے سے دھکیلتی ہے۔ وہ ایک قوم کے پاس آئے گا اور انہیں اپنے آپ پر ایمان لانے کی دعوت دے گا، وہ ایمان لے آئیں گے اور اس کی بات مان لیں گے۔ وہ آسمان کو حکم دے گا تو وہ بارش برسائے گا، زمین کو حکم دے گا تو وہ نباتات اگائے گی۔ شام کے وقت ان کے جانور چراگاہوں سے واپس آئیں گے تو ان کی کوہانیں پہلے سے بڑی، تھن کشادہ اور پسلیاں خوب بھری ہوں گی۔ پھر وہ دوسری قوم کے پاس جائے گا اور انہیں اپنے آپ پر ایمان لانے کی دعوت دے گا، لیکن وہ اس کی دعوت کا انکار کر دیں گے۔ وہ وہاں سے چلا جائے گا اور ان پر قحط سالی مسلط ہو جائے گی، ان کے مالوں میں سے کچھ بھی ان کے ہاتھ نہ رہے گا۔ وہ ویران جگہ سے گزرے گا اور زمین کو کہے گا: اپنے خزانے نکال دے، تو زمین اپنے خزانے اس طرح نکال کر جمع کر دے گی جیسے شہد کی مکھیاں بڑی مکھیوں کے گرد ہجوم کرتی ہیں۔“
وصلى الله تعالى على خير خلقه محمد وآله وصحبه أجمعين

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1