غزوہ تبوک اور غار ثور میں حضرت ابوبکرؓ کی فضیلت

تاریخی پس منظر: روم اور ایران کی طاقت

رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں روم اور ایران دو بڑی عالمی طاقتیں تھیں۔ 9 ہجری کے غزوہ تبوک میں مسلمانوں کا سامنا رومی سلطنت سے تھا۔ اس غزوے کے دوران مسلمانوں کو طویل سفر، شدید گرمی، اور کھجوروں کی فصل کی کٹائی کے چیلنجز کا سامنا تھا۔ اس آزمائش میں جہاں منافقین کا نفاق ظاہر ہوا، وہیں کچھ مخلص مسلمان بھی وقتی طور پر جھجھک کا شکار ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان مسلمانوں کی اصلاح کے لیے قرآن میں عتاب آمیز الفاظ استعمال کیے، مگر ان کی عزت و مقام کو برقرار رکھتے ہوئے۔

عتاب آمیز خطاب

اللہ تعالیٰ نے سورہ توبہ میں فرمایا:

"اے ایمان والو! تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ جب تمہیں اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے کہا جاتا ہے تو تم زمین کی طرف جھکنے لگتے ہو؟ اگر تم جہاد کے لیے نہ نکلو گے تو اللہ تمہیں عذاب دے گا اور تمہاری جگہ کسی اور قوم کو لے آئے گا۔”
(سورہ توبہ: 39)

یہ خطاب عمومی انداز میں کیا گیا تاکہ اصلاح کا پہلو غالب رہے اور شرمندگی سے بچا جا سکے۔

حضرت ابوبکر صدیقؓ کی فضیلت اور معیتِ الٰہیہ

غارِ ثور کا واقعہ

ہجرت کے دوران غار ثور میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ صرف حضرت ابوبکر صدیقؓ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر فرمایا:

"اگر تم ان (نبی ﷺ) کی مدد نہیں کرو گے تو اللہ نے ان کی مدد کی، جب انہیں کافروں نے نکال دیا اور وہ دو میں سے دوسرے تھے، جب وہ دونوں غار میں تھے اور وہ اپنے ساتھی (حضرت ابوبکرؓ) سے فرما رہے تھے: غم نہ کرو، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔”
(سورہ توبہ: 40)

معیتِ الٰہیہ کی خصوصیت

رسول اللہ ﷺ کے الفاظ "إن اللہ معنا” میں جمع کی ضمیر استعمال کی گئی، جو اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کو بھی معیتِ الٰہیہ کا حصہ عطا ہوا۔ یہ فضیلت قرآن مجید میں کسی اور صحابی کے لیے ثابت نہیں ہے۔

اعتراضات اور ان کے جوابات

➊ طبعی خوف اور حزن کا مقام

حضرت ابوبکر صدیقؓ کے غار میں غمگین ہونے پر بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ یہ خوف یا کمزوری تھی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ طبعی خوف یا حزن غیر اختیاری ہوتا ہے اور یہ قابلِ مذمت نہیں۔ قرآن مجید میں انبیاء کرام کے بارے میں بھی خوف و حزن کے واقعات موجود ہیں:

  • حضرت موسیٰ علیہ السلام کا خوف: "انہوں نے خوف محسوس کیا۔”
    (سورہ طٰہ: 67)
  • حضرت یعقوب علیہ السلام کا غم: "مجھے ڈر ہے کہ یوسف کو بھیڑیا کھا جائے گا۔”
    (سورہ یوسف: 13)

➋ "لا تحزن” کا مفہوم

قرآن میں "لا تحزن” کے الفاظ ہمیشہ تسلی اور دلاسے کے لیے استعمال ہوئے ہیں، نہ کہ ملامت یا ڈانٹ کے لیے۔ مثالیں:

  • حضرت مریمؑ سے کہا گیا:”غم نہ کرو، تمہارے رب نے تمہارے نیچے ایک چشمہ جاری کیا ہے۔”
    (سورہ مریم: 24)
  • حضرت موسیٰؑ کی والدہ سے کہا گیا: "غم نہ کرو، ہم موسیٰ کو تمہارے پاس واپس لائیں گے۔”
    (سورہ قصص: 7)

➌ حضرت ابوبکر صدیقؓ کا رتبہ

غارِ ثور میں حضرت ابوبکرؓ کا رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہونا اور "لا تحزن” کے الفاظ کے ذریعے ان کی تسلی دینا ان کے اعلیٰ ایمان اور مقرب ہونے کی دلیل ہے۔

➍ سکینت کا نزول

آیت کے الفاظ "فأنزل اللہ سکینتہ علیہ” میں ضمیر رسول اللہ ﷺ کی طرف ہو یا حضرت ابوبکرؓ کی طرف، دونوں صورتوں میں ان کے بلند مقام کی وضاحت ہوتی ہے۔ اگر سکینت براہِ راست رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوئی، تو حضرت ابوبکرؓ کو بھی آپؐ کے توسط سے سکون عطا ہوا۔

ہجرت کا راز اور حضرت علیؓ کا کردار

رسول اللہ ﷺ نے ہجرت کی رات حضرت علیؓ کو اپنے بستر پر لٹایا تاکہ کفار کو دھوکہ دیا جا سکے۔ اس دوران حضرت ابوبکرؓ کو اپنی معیت میں شامل فرمایا، کیونکہ قریش کو معلوم تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے رازدان اور یار غار حضرت ابوبکرؓ ہی ہیں۔

حضرت ابوبکر صدیقؓ: بعد از انبیا بلند ترین مقام

تمام انبیاء کرام میں نبوت مشترک ہونے کے باوجود ان کے درجات مختلف ہیں:

"ہم نے بعض رسولوں کو بعض پر فضیلت دی ہے۔”
(سورہ بقرہ: 253)

اسی طرح تمام صحابہ کرام ایمان اور صداقت میں بلند ہیں، لیکن حضرت ابوبکرؓ کا مقام صدیقیت کبریٰ سب سے افضل ہے۔

نتیجہ

حضرت ابوبکر صدیقؓ کی معیتِ الٰہیہ، غارِ ثور کا واقعہ، اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ان کے قرب نے ان کے عظیم مرتبے کو واضح کر دیا۔ یہ مقام انہیں دیگر تمام صحابہ کرام سے ممتاز کرتا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1