عورت کی آواز کا پردہ ہے
یہ تحریر علمائے حرمین کے فتووں پر مشتمل کتاب 500 سوال و جواب برائے خواتین سے ماخوذ ہے جس کا ترجمہ حافظ عبداللہ سلیم نے کیا ہے۔

سوال :

ٹیلی فون یا دیگر ذرائع رابط پر اجنبی شخص کے لئے کسی عورت کی آواز سنے کا شرعاً کیا حکم ہے ؟

جواب :

صحیح قول کی رو سے اجنبی (غیر محرم) لوگوں کے لیے عورت کی آواز پردہ ہے۔ اس لئے دوران نماز اگر امام کسی غلطی کا ارتکاب کرے تو عورتیں مردوں کی طرح سبحان اللہ نہیں کہتیں بلکہ تالی بجاتی ہیں۔ عورت اذان بھی نہیں کہہ سکتی کہ اس میں آواز بلند کرنا پڑتی ہے، اسی طرح وہ دوران احرام تلبیہ بھی اتنی آواز میں کہہ سکتی ہے کہ اس کے ساتھ والی سن لے۔ لیکن بعض علماء نے عورت کے لیے بقدر ضرورت مردوں سے گفتگو کو جائز قرار دیا ہے۔ مثلاً کسی سوال کا جواب دینا بشرطیکہ ماحول شک سے پاک ہو اور شہوت بھڑکنے کا خطرہ بھی نہ ہو۔ اس کی دلیل اللہ کا یہ ارشاد ہے :
«فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ» [33-الأحزاب:32]
”تم نرم لہجے سے بات نہ کرو کہ جس کے دل میں روگ ہو وہ کوئی خیال کرے۔“
کیونکہ جب کوئی خاتون ملائمت سے گفتگو کرے یا میاں بیوی کے مابین ہونے والی گفتگو کا سا انداز اپنائے تو اس کے دل میں شہوانی خیالات ابھرتے ہیں۔ لہٰذا اضطراری حالت میں بقدر ضرورت ایک خاتون ٹیلی فون وغیرہ پر غیر مردوں سے گفتگو کر سکتی ہے، وہ خود بھی رابطہ کر سکتی ہے اور فون کا جواب بھی دے سکتی ہے۔
(دار الافتاء کمیٹی)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے