عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک مجلس ہے، جلیل القدر صحابہ کرام مثلاَ ابوبکر، عمر، ابو ہریرہ اور انس بن مالک وغیرھم رضی اللہ عنہم اجمعین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد ہالہ بنائے تشریف فرما ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پیارے صحابہ سے دریافت فرماتے ہیں: "وہ کون سا درخت ہے جس کے (سارے) پتے (خزاں میں بھی) نہیں گرتے؟” مسلمان کی مثال اس درخت جیسی ہے۔

اولیاء الرحمٰن کی اس مقدس محفل میں خاموشی چھا جاتی ہے۔ صرف ایک لڑکا ایسا ہے جس کے دل میں خیال گزرتا ہے کہ یہ کھجور کا درخت ہے مگر وہ اپنی کم سنی کی وجہ سے اور بڑوں کا ادب کرتے ہوئے حیا کے سبب خاموش رہتا ہے۔ آخرکار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جانباز ساتھی آپ سے پوچھتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی بتادیں کہ یہ کون سا درخت ہے؟ خاتم النبینﷺ کی کوثر و تسنیم سے دھلی ہوئی زبان سے موتی بکھرتے ہیں:” یہ "کھجور کا درخت ہے۔

بعد میں یہ ہونہار لڑکا اپنے عظیم المرتبت والد کو ساری بات بتا دیتا ہے۔ اسکا مجاہد باپ فرماتا ہے: اگر تو یہ کہہ دیتا کہ یہ کھجور کا درخت ہے تو مجھے فلاں فلاں چیز سے زیادہ محبوب ہوتا صحیح بخاری: 6144، صحیح مسلم 2811

یہ عظیم الشان لڑکا تاریخ اسلام میں سیدنا عبداللہ بن عمر (رضی اللہ عنہ) کے نام سے مشہور ہے۔ آپ کی کنیت ابو عبدالرحمٰن ہے۔ آپ کی سخاوت ظرب المثل تھی۔

ایک دفعہ آپ نے کہا: میرا دل آج مچھلی کھانے کا ہے۔ آپ کے گھر والوں نے مچھلی پکا کر تیار کی اور آپ کے سامنے رکھ دی، اتنے میں ایک سائل آیا۔ آپ نے وہ مچھلی اسے دے دی۔ الطبقات الکبری لابن سعد 108/4 واسنادہ صحیح

میمون بن مہران سے روایت ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی بیوی کو لوگوں نے برا بھلا کہا کہ تم ان کی خدمت صحیح کیوں نہیں کرتی؟ وہ کہنے لگی: میں کیا کروں، ان کے لیے جو کھانا تیار کیا جاتا ہے وہ اپنے ساتھ دوسروں کو بھی کھلاتے ہیں۔ اس کے بعد آپ کی بیوی نے ان مسکینوں کو جو راستہ میں بیٹھے تھے بلا بھیجا اور انہیں کھانا کھلا کر کہا: آج آپ لوگ اُن کے راستہ میں نے بیٹھیں، اور دوسرے مسکینوں کے گھر پہلے ہی کھانا بھیج دیا اور کہہ دیا کہ: تمہں اگر ابن عمر بلائیں تو نہ آنا۔ اتنے میں ابن عمر رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور مسکینوں کو بلایا تو وہ نہ آئے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی سے فرمایا: کیا تمہارا یہ ارادہ ہے کہ میں آج رات کا کھانا نہ کھاوں؟ اس کے بعد آپ نے اس رات کھانا نہ کھایا۔  ابن سعد 166/4 واسناہ صحیح

آپ عشاء کا کھانا اکیلے نہ کھاتے  ابن سعد 158/4 و اسنادہ صحیح

ایک دفعہ آپ بیمار تھے۔ آپ کے لئے انگور خریدے گئے۔ اتنے میں ایک سائل آیا تو آپ نے وہ انگور اسے دے دئیے۔ ابن سعد 185/4 واسناد صحیح

آپ کو جو چیز زیادہ پسند ہوتی اس کو اللہ کی راہ میں دے دیتے۔ حلیۃ الاولیاء: 295/1 اسناد صحیح

امام مالک رحمہ اللہ نے کہا: آپ رضی اللہ عنہ آئمہ دین میں سے تھے۔ المعرفۃ و التاریخ 491/١

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل
ٹیلی گرام

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!