طہارت اور غسل سے متعلق احکام صحیح احادیث کی روشنی میں
یہ تحریر محترم ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی کی کتاب نماز مصطفیٰ علیہ الصلوۃ والسلام سے ماخوذ ہے۔

طہارت کا بیان

طہارت نماز کے لیے شرط ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
«لا تقبل صلاة بغير طهور»
’’طہارت کے بغیر نماز قبول نہیں ہوتی۔“
صحیح مسلم، كتاب الطهارة، باب وجوب الطهارة، رقم : ٢٢٤

اور طہارت دو چیزوں سے حاصل ہو سکتی ہے :
① پانی سے
② مٹی سے اگر پانی میسر نہ ہو۔

● پانی کے احکام و مسائل :

پانی پاک ہے، اور پاک کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ چنانچہ سیدنا ابوسعید خدریؓ فرماتے ہیں : رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا گیا : کیا ہم بر بضاعہ سے وضوء کر سکتے ہیں؟ یہ ایسا کنواں ہے جس میں بدبودار اشیاء پھینکی جاتی ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :
«الماء طهور لا ينجسه شي.»
’’پانی پاک ہے، اور دوسری چیزوں کو پاک کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اسے کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی۔‘‘
سنن ابو داؤد، کتاب الطهارة، رقم : ٦٦- سنن ترمذى، كتاب الطهارة، رقم : ٦٦- المشكاة، رقم : ٤٧٨

↰ نوٹ

بر بضاعہ ڈھلوان پر تھا اور جب بارش ہوتی تو پانی ان تمام بد بودار چیزوں کو بہا کر کنویں سے لے جاتا تھا۔ جس سے پانی صاف ہو جاتا۔ مزید برآں جب صحابہ کرامؓ نے رسول اللہ ﷺ سے سمندری پانی کے ساتھ وضوء کرنے کے متعلق دریافت کیا تھا، تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
«هو الطهور ماء، الحل ميتته.»
’’سمندر کا پانی پاک ہے، اور پاک کرنے والا ہے، اور اس کا مردار حلال ہے۔“
سنن ابوداؤد، كتاب الطهارة، رقم: ۸۳ سنن ترمذی، کتاب الطهارة، رقم : ٦٩- سنن ابن ماجه، رقم : ۳۸۶-۱۳۸۸

● پانی کب نا پاک ہوتا ہے؟

درج ذیل صورتوں میں پانی ناپاک ہو جاتا ہے، اس سے طہارت حاصل نہیں ہو سکتی :
① جب پانی قلیل ہو، اور اس میں نجاست گر جائے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
«إذا كان الماء قلتين فإنه لا ينجس»
’’جب پانی دو قلے ہو تو ناپاک نہیں ہوتا۔‘‘
سنن ابوداؤد، كتاب الطهارة، باب ما ينجس الماء، رقم : ٦٥

↰ فائدہ

اہل حجاز ’’قلہ‘‘ ایک ایسے مٹکے کو کہتے تھے جو پانی رکھنے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ چنانچہ امام ترمذی حدیث قلتین کو بیان کرنے کے بعد محمد بن اسحاق کے حوالے سے لکھتے ہیں :
«القلة هي الجرار التى يستسقى فيها»
’’قلہ ایک ایسا مٹکا تھا جس میں پینے کے لیے پانی رکھا جاتا تھا۔‘‘
جامع ترمذی مع تحفه : ۷۰/۱ بحواله اسلامی اوزان، ص : ٦٥.

دو قلوں میں موجودہ حساب سے پانچ مشکوں کے برابر پانی ہے، جیسا کہ امام ترمذیؒ نے حدیث قلتین ذکر کرنے کے بعد امام شافعی، احمد اور اسحاقؒ کے نام ذکر کر کے لکھا ہے :
«قالوا يكون نحوا من خمس قرب»
’’انہوں نے کہا کہ دو قلے کی مقدار تقریبا پانچ مشکیں ہیں۔‘‘

علامہ عبدالرحمن مبارکپوریؒ اس روایت کی شرح میں رقمطراز ہیں :
«مقدار القلتين قريبا من خمس قرب وذلك نحو خمس مائة رطل»
’’دو قلوں کی مقدار تقریباً پانچ مشکیں پانی ہے جو پانچ سو رطل کے قریب ہے۔“
تحفه الأحودي : ۷۱/۱

علامہ ابن قدامہ نے بھی اس کے قریب قریب بات لکھی ہے۔
المغني : ٣٦/١.

پانی مذکورہ مقدار سے زیادہ ہو تو اس وقت ناپاک ہوگا جب کسی نجاست کے گرنے کی وجہ سے اس کے اوصاف ثلاثہ (رنگ، بو اور ذائقہ) میں سے کوئی ایک وصف تبدیل ہو جائے۔
سنن ابن ماجه ، کتاب الطهارة، رقم : ٥٢١

اس مسئلہ پر علمائے کرام کا اجماع ہے۔
التلخيص : ١٥/١

② جس پانی میں کتا پی لے تو وہ ناپاک ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
«إذا ولغ الكلب فى إناء أحدكم فلبرقه، ثم ليغسله سبع مرار»
’’جب تمہارے کسی برتن میں کتا منہ ڈال دے تو اس چیز کو بہادو، پھر اسے سات مرتبہ دھو ڈالو۔“
صحیح مسلم، كتاب الطهارة، رقم : ٢٧٩.

● رفع حاجت کے آداب و مسائل :

① رفع حاجت کے لیے دور جائیں، جہاں آپ کو کوئی دیکھ نہ سکے، رسول اللہ ﷺ قضائے حاجت کے لیے دور جاتے اور چھپ کر بیٹھتے کہ کوئی آپ کو دیکھ نہ سکتا۔
صحیح بخاری، کتاب الصلاة، رقم : ٣٦٣- صحيح مسلم، رقم : ٢٧٤/٧٧

↰ نوٹ

دور حاضر کے مسائل اور ضروریات کے تحت باتھ رومز استعمال کیے جاتے ہیں، جہاں انسان چھپ کر بیٹھتا ہے، پس یہ بھی اس سنت نبوی ﷺ کی اتباع ہے، جس میں یہ بیان ہے کہ آپ قضائے حاجت کے لیے دور جاتے۔

② ایسی جگہ بیٹھیں، جہاں پیشاب کے چھینٹے آپ کے جسم پر نہ پڑیں۔ رسول اللہ ﷺ قضائے حاجت کے لیے صحرا میں تشریف لے جاتے تو ایک نیزا ساتھ ہوتا۔
صحیح بخاری الوضوء، رقم : ١٥٢ صحیح مسلم، کتاب الطهارة، رقم : ٢٧١.

↰ نوٹ

نیزا زمین کو نرم کرنے کے لیے لے جاتے، تاکہ پیشاب کے چھینٹے جسم اطہر پر نہ پڑھیں۔

③ قبلہ کی طرف منہ یا پیٹھ کر کے نہ بیٹھیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ”جب تم قضائے حاجت کے لیے جاؤ تو قبلہ کی طرف منہ کرو نہ پیٹھ۔‘‘
صحيح بخاري، كتاب الصلاة، رقم : ٣٩٤۔ صحیح مسلم، كتاب الطهارة، رقم : ٢٦٤.

④ گزرگاہ اور جہاں سایہ دار درختوں کے نیچے لوگ مجلس کرتے ہیں، وہاں قضائے حاجت سے پرہیز کیا جائے۔ چنانچہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ”دو باعث لعنت امور سے بچو۔‘‘ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا، وہ کون سے امور ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ”لوگوں کے راستے میں اور سایہ دار درختوں کے نیچے قضائے حاجت کرنا‘‘۔
صحيح مسلم، کتاب الطهارة، رقم : ٢٦٩

⑤ قضائے حاجت کے وقت بات کرنا ممنوع ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :’’جب دو آدمی قضائے حاجت کے لیے بیٹھیں تو ایک دوسرے سے چھپ کر بیٹھیں اور وہ آپس میں گفتگو بھی نہ کریں، کیونکہ اس سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے۔‘‘
سلسة الصحيحة، رقم : ٣١٢٠.

● بیت الخلاء میں داخل ہونے کی دعا :

سیدنا انسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب رفع حاجت کے لیے بیت الخلاء میں داخل ہونے کا ارادہ فرماتے تو یہ دعا پڑھتے :
«اللهم إني أعوذ بك من الخبث والخبائث»
”اے اللہ ! میں خبیث جنوں اور خبیث جنیوں کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔“
صحيح بخاري، كتاب الوضوء، رقم : ١٤٢ – صحیح مسلم : الحيض، رقم : ٣٧٥.

● بیت الخلاء سے باہر نکل کر یہ دعا پڑھیں :

سیدہ عائشہؓ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ بیت الخلاء سے باہر نکلتے تو یہ دعا پڑھتے :
«غفرانك»
سنن ابو داؤد، کتاب الطهارة، رقم : ٣٠ سنن ترمذى، كتاب الطهارة، رقم : ٧-كتاب الطهارة رقم : ٣٠٠- مستدرك حاكم : ١٥٨/١

● استنجا کے مسائل :

① پانی موجود ہونے کی صورت میں صرف پانی کے ساتھ استنجا کرنا کافی ہے۔

سیدنا انس بن مالکؓ فرماتے ہیں :
«كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يستنجى بالماء»
’’رسول اللہ ﷺ پانی کے ساتھ استنجا کیا کرتے تھے۔“
صحیح بخاری، کتاب الوضوء، رقم : ١٥٢- صحیح مسلم، رقم : ۲۷۱

② پانی کی عدم موجودگی میں پتھر یا مٹی کے ڈھیلوں سے استنجا درست ہے۔
صحیح بخاری، کتاب الوضوء، رقم : ١٥٦.

رسول اللہ ﷺ نے تین ڈھیلوں سے کم کے ساتھ استنجا کرنے سے منع فرمایا۔
صحیح مسلم، کتاب الطهارة، رقم : ٢٦٢.

نبی کریم ﷺ نے پتھر یا مٹی کے طاق ڈھیلوں سے استنجا کا حکم فرمایا۔
صحيح بخاري، كتاب الوضوء، رقم : ١٦١-١٦٢.

③ رسول اللہ ﷺ نے گوبر اور ہڈی کے ساتھ استنجا کرنے سے منع فرمایا اور اسی طرح دائیں ہاتھ کے ساتھ استنجا کرنے سے بھی منع فرمایا ہے۔
صحيح بخاري كتاب الوضوء رقم : ١٥٤،١٥٣ – صحیح مسلم، كتاب الطهارة، رقم : ٢٦٢.

④ استنجا کے بعد زمین کے ساتھ ہاتھ ملنا مستحب عمل ہے۔ سیدنا ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ ایک دفعہ قضائے حاجت سے فارغ ہوئے تو آپ ﷺ نے پانی کے ایک برتن سے استنجا کیا، پھر اپنا دایاں ہاتھ زمین کے ساتھ ملا۔
سنن ابوداؤد، كتاب الطهارة، رقم : ٤٥- سنن ابن ماجه، كتاب الطهارة، رقم: ٣٥٨

↰ نوٹ

صابن موجود ہو تو زمین پر ہاتھ ملنے کی ضرورت نہیں ہے۔

ایک مسلمان کو نماز کے لیے تین طرح کی پاکیزگی حاصل کرنا ضروری ہے :
⟐ کپڑے پاک ہونا۔
⟐ بدن پاک ہونا۔
⟐ نماز کی جگہ پاک ہونا۔

بدن کی طہارت دو چیزوں میں سے کسی ایک کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے :
⟐ غسل
⟐ وضوء

● غسل کب واجب ہوتا ہے؟

غسل حدث اکبر کے لاحق ہونے کی وجہ سے کیا جاتا ہے، یعنی جنابت، حیض یا نفاس کے خون کے بند ہو جانے کے بعد غسل کرنا واجب ہو جاتا ہے۔

● جنابت سے غسل :

جنابت دو چیزوں سے ہوتی ہے۔
⟐ جماع
⟐ احتلام

● جماع سے غسل :

جماع سے غسل فرض ہو جاتا ہے، اگرچہ انزال نہ بھی ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
«إذا جلس بين شعبها الأربع ثم جهدها فقد وجب عليه الغسل، وإن لم ينزل»
’’جب مرد عورت کی چار شاخوں کے درمیان جماع کے لیے بیٹھے اور کوشش کرے تو ان دونوں پر غسل واجب ہو جاتا ہے، اگر چہ انزال نہ ہو۔“
صحيح بخاري، كتاب الغسل، رقم: ۲۹۱ – صحیح مسلم، كتاب الحيض، رقم: ٤٨

● احتلام سے غسل :

⟐ احتلام یہ ہے کہ سوتے یا جاگتے میں شہوت سے جوش کے ساتھ منی خارج ہو جائے۔
⟐ احتلام مردوں اور عورتوں دونوں کو ہوتا ہے۔ لیکن مردوں کو منسبت عورتوں کے زیادہ ہوتا ہے۔
⟐ کپڑوں پر احتلام کے نشانات دیکھ کر غسل کرنا چاہیے، اگرچہ احتلام یاد نہ ہو۔
⟐ نیند میں احتلام محسوس ہوا، لیکن کپڑوں پر منی کے نشانات نہیں تو غسل فرض نہیں ہوگا۔ چنانچہ سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں : ’’نبی کریم ﷺ سے اس شخص کے متعلق پوچھا گیا جو کپڑوں پر تری دیکھے جب کہ اسے احتلام یاد نہ ہو، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اسے غسل کرنا چاہیے۔ پھر اس شخص کے متعلق پوچھا گیا جسے نیند میں احتلام محسوس ہو لیکن کپڑوں پر تری نہ دیکھے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اس پر غسل نہیں۔‘‘
سنن ابو داؤد، کتاب الطهارة، رقم: ٢٣٦- سنن الترمذى، كتاب الطهارة، رقم: ۱۱۳- سنن ابن ماجہ، رقم : ٦١٢
⟐ اس غسل کے احکام بھی ’’جماع سے غسل‘‘ والے ہیں۔

● مذی اور ودی کا حکم :

مذی: وہ لیس دار پانی ہے جو شہوت کے وقت نکلتا ہے۔
ودی : وہ گاڑھا سفید پانی ہے جو پیشاب سے پہلے یا بعد میں خارج ہوتا ہے، یہ ایک بیماری ہے جسے عرف عام میں قطرے نکلنے کا نام دیا جاتا ہے۔

⟐ ’’مذی اور ودی“ نکلنے سے استنجاء اور وضو کرنا چاہیے، ان سے غسل فرض نہیں ہوتا۔
صحیح بخاری، صحیح مسلم، کتاب الحيض، رقم: ۳۰۳
⟐ اگر یہی بیماری عورتوں کو ہو تو اُسے حکمت کی زبان میں لیکوریا کہتے ہیں۔ اُس کا بھی یہی حکم ہے۔

● دیگر غسل :

غسل جنابت کے بعد ان احوال کا ذکر کیا جاتا ہے جن میں غسل کرنا واجب، مسنون یا مستحب ہے۔

● قبول اسلام کے لیے غسل :

سیدنا قیس بن عاصمؓ سے روایت ہے کہ جب وہ مسلمان ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ پانی اور بیری کے پتوں سے غسل کریں۔
سنن ابوداؤد، كتاب الطهارة، رقم: ۳۵۵- سنن ترمذی، ابواب الجمعة، رقم : ٦٠٤- صحيح ابن خزیمه: ٢٦/١، رقم: ١٥٤ – ١٥٥- صحيح ابن حبان، رقم: ٢٣٤

● میت کو غسل دینے والے کا غسل :

سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو شخص مردے کو غسل دے اُسے چاہیے کہ وہ خود بھی غسل کرے۔
سنن ابو داؤد، كتاب الجنائز، رقم : ٣١٦١- ٣١٦٢- سنن ترمذی، کتاب الجنائز، رقم : ٩٩٤- سنن ابن ماجه، کتاب الجنائز، رقم : ١٤٦ صحيح ابن حبان، رقم: ۷۵۱۔ محلی ابن حزم: ۲/۲۳۔

اور سیدنا ابن عمرؓ بیان فرماتے ہیں : ہم میت کو غسل دیتے (پھر) ہم میں سے بعض غسل کرتے اور بعض نہ کرتے تھے۔
السنن الكبرى للبيهقي : ٣٠٦/١۔

↰ نوٹ

میت کو غسل دینے کی صورت میں غسل نہ کرنا تو جائز ہے، مگر غسل کرنا افضل ہے۔

● جمعہ کے لیے غسل :

سیدنا عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
«إذا جاء أحدكم الجمعة فليغتسل»
’’جب تم میں سے کوئی شخص جمعہ کے لیے آئے تو اسے غسل کرنا چاہیے۔“
صحيح بخاري، كتاب الجمعة، رقم: ۸۷۷ صحیح مسلم، کتاب الجمعة، رقم: ٨٤٤

بوجہ مجبوری کوئی شخص غسل کے بجائے صرف وضو کر لے تو بھی جائز ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
«من توضأ فبها ونعمت ، ومن اغتسل فهو أفضل»
’’جو شخص جمعہ کے دن وضو کرے تو یہ صحیح اور اچھا ہے، اور جو غسل کرے تو یہ افضل ہے۔“
سنن أبو داؤد، كتاب الطهارة رقم ٣٥٤- سنن ترمذی، کتاب الجمعة، رقم: ٤٩٧ – سنن نسائی، کتاب الجمعة، رقم: ۱۳۸۱

● عیدین کے روز غسل :

امام نافعؒ فرماتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ عید الفطر کے دن غسل کیا کرتے تھے۔
مؤطا مالك: ۱۷۷/۱

سیدنا علیؓ فرماتے ہیں : جمعہ، عرفہ ، قربانی اور عید الفطر کے دن غسل کرنا چاہیے۔
الكبرى للبيهقي : ٣/ ٢٧٨، رقم: ٦١٢٤.

● احرام کے لیے غسل :

سیدنا زید بن ثابتؓ فرماتے ہیں :
«أنه رأى النبى تجرد لا هلاله واغتسل»
’’بے شک میں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے احرام باندھنے سے پہلے غسل کیا۔‘‘
سنن ترمذی، کتاب الحج، رقم: ۸۳۰- إرواء الغليل، رقم : ١٤٦۔

● مکہ میں داخل ہونے کے لیے غسل :

امام نافعؒ فرماتے ہیں : ”سیدنا عبداللہ بن عمرؓ مکہ میں داخل ہونے سے پہلے وادی ذی طوی میں رات بسر کرتے حتی کہ صبح کی نماز پڑھتے اور غسل کرتے، پھر مکہ میں دن کے وقت داخل ہوتے اور فرماتے : ”نبی کریم ﷺ نے ایسا ہی کیا تھا۔‘‘
صحيح مسلم، کتاب الحج، رقم: ١٢٥٩ – صحیح بخاری، کتاب الحج، رقم: ١٥٧٣

● غسل واجب کا طریقہ :

سیدہ میمونہؓ بیان فرماتی ہیں کہ رسول مقبول ﷺ نے غسل کا ارادہ فرمایا تو سب سے پہلے دونوں ہاتھ دھوئے، پھر شرمگاہ کو دھویا، پھر بایاں ہاتھ، جس سے شرمگاہ کو دھویا تھا، زمین پر رگڑا پھر اس کو دھویا، پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا، پھر چہرہ دھویا، پھر کہنیوں تک ہاتھ دھوئے، پھر سر پر پانی ڈالا اور بالوں کی جڑوں تک پانی پہنچایا۔ تین بار سر پر پانی ڈالا، پھر تمام بدن پر پانی ڈالا، پھر جہاں آپ نے غسل کیا تھا اس جگہ سے ہٹ کر پاؤں دھوئے۔
صحيح بخاري، كتاب الغسل، رقم : ٢٥٧- صحیح مسلم، كتاب الحيض ، رقم: ۳۱۷

● عورت کا غسل :

عورت کا غسل بھی مرد ہی کی طرح ہے سوائے اس کے کہ اگر وہ حیض سے طہارت کا غسل کر رہی ہو تو اپنے سر کے بال کھولے جب کہ بال کھولنا ضروری نہیں۔ ام المؤمنین ام سلمہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے کہا : اے اللہ کے رسول! میں اپنے سر کے بال بڑے سخت کر کے باندھتی ہوں تو کیا غسل جنابت کے لیے انہیں کھولا کروں؟ اور ایک روایت میں جنابت کے ساتھ ساتھ حیض سے طہارت کے غسل کا بھی ذکر آیا ہے۔ آپ ﷺ نے جواباً ارشاد فرمایا : نہیں ! تمہارے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اپنے سر پر تین لپ پانی ڈال لیا کرو۔
صحیح مسلم، كتاب الحيض، رقم: ٣٣٠

● حیض و نفاس کا بیان :

⟐ حیض وہ سیاہی مائل خون ہے جو بالغ عورتوں کو ہر ماہ آتا ہے، عام طور پر اس کی مدت تین سے سات دن تک ہوتی ہے۔
⟐ نفاس وہ خون ہے جو بچے کی پیدائش کے بعد جاری ہوتا ہے۔ صحابہ کرامؓ اور تابعین عظامؒ کے نزدیک نفاس کے خون کی زیادہ سے زیادہ مدت چالیس دن ہے۔
سنن ابوداؤد، كتاب الطهارة، رقم: ۳۱۲
⟐ حیض اور نفاس سے غسل فرض ہو جاتا ہے غسل خون بند ہونے پر کرنا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
«فإذا أقبلت الحيضة فدعى الصلاة، وإذا أدبرت فاغتسلي وصلى.»
’’پس جب حیض شروع ہو جائے تو نماز چھوڑ دے۔ اور جب چلا جائے تو غسل کر اور نماز پڑھ۔۔‘‘
صحیح بخاری، کتاب الحيض، رقم: ۳۲۰.

● حیض و نفاس میں ممنوع کام :

حیض اور نفاس میں مندرجہ ذیل چار کام ممنوع قرار دیئے گئے ہیں :
⟐ نماز پڑھنا۔
⟐ روزہ رکھنا۔
⟐ جماع کرنا۔ اور
⟐ طواف کرنا۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
’’جب عورت حیض سے ہوتی ہے تو نماز پڑھتی ہے نہ روزہ رکھتی ہے.‘‘
صحیح بخاری، کتاب الحيض، رقم: ۳۰۴

⟐ رسول اللہ ﷺ نے سیدہ عائشہؓ سے فرمایا : ”تو طواف نہ کرحتی کہ پاک ہو جائے۔‘‘
صحیح بخاری، کتاب الحيض، رقم: ۳۰۵.

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ (البقرة : ٢٢٢)
”عورتوں سے حالت حیض میں کنارہ کشی کرو۔“

● حيض و نفاس كے ضروري مسائل :

⟐ حیض و نفاس والی عورت باقی تمام کام کر سکتی ہے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمايا :
«إن المؤمن لا ينجس.»
’’تحقیق مومن ناپاک نہیں ہوتا۔“
صحیح بخاری، کتاب الغسل، رقم: ۲۸۳ صحیح مسلم، کتاب الحيض، رقم : ۳۷۱

⟐ فرض روزہ اور فرض طواف کی قضا دی جائے گی، جب کہ نماز کی قضا نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے سیدہ عائشہؓ سے فرمایا :
«أن لا تطوفى بالبيت حتى تطهرى»
’’تو طواف نہ کرحتی کہ پاک ہو جائے۔‘‘
صحیح بخاری، کتاب الحيض، رقم : ٣٠٥.

ایک عورت معاذہؒ نے سیدہ عائشہؓ سے دریافت کیا، کیا وجہ ہے کہ حائضہ عورت روزے کی قضا تو دیتی ہے، نماز کی نہیں ؟ سیدہ عائشہؓ نے فرمایا : ”رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ہمیں حیض آیا کرتا تھا تو ہمیں روزے کی قضا کا حکم تو دیا جاتا مگر نماز کی قضا کا حکم نہیں دیا جاتا تھا۔“
صحيح مسلم، کتاب الحيض، رقم : ٣٣٥/٩٩

⟐ حیض یا نفاس کا خون ختم ہو جائے تو تمام پابندیاں ختم ہو جائیں گی اور نماز و روزہ فرض ہو جائے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ”جب حیض شروع ہو جائے تو نماز چھوڑ دے اور جب چلا جائے تو غسل کر اور نماز پڑھ۔‘‘
صحیح بخاری، کتاب الحيض، رقم: ۳۲۰ صحیح مسلم، کتاب الحيض، رقم: ٣٣٤/٩٥

● کیا حائضہ عورت قرآن مجید کی تلاوت کر سکتی ہے؟

شیخ ابن بازؒ فرماتے ہیں :
’’حیض اور نفاس والی خواتین کے لیے دوران حج دعاؤں پر مشتمل کتابیں پڑھنا جائز ہے اور صحیح مذہب کی رو سے ایسی عورتیں قرآن کو ہاتھ لگائے بغیر اس کی تلاوت بھی کر سکتی ہیں۔ کوئی صحیح اور صریح نص ایسی نہیں ہے جو ایسی عورتوں کو تلاوت قرآن مجید سے روکتی ہو۔ اس بارے میں جو حدیث حضرت علیؓ سے منقول ہے، وہ صرف جنبی کے بارے میں ہے کہ وہ جنابت کی حالت میں قرآن مجید نہ پڑھے۔‘‘

جہاں تک حیض یا نفاس والی عورت کا تعلق ہے تو اس بارے میں سیدنا ابن عمرؓ کی یہ روایت منقول ہے :
«لا تقرأ الحائض ولا الجنب شيئا فى القرآن.»
’’حائضہ اور نفاس والی عورت قرآن سے کچھ نہ پڑھے۔“
سنن ترمذی، ابواب الطهارة، رقم: ۱۳۱.

لیکن یہ حدیث ضعیف ہے، کیوں کہ اسماعیل بن عیاش کی یہ روایت اہل حجاز سے نقل کی گئی ہے، اور اہل حجاز سے اس کی روایت ضعیف ہوتی ہے۔

لیکن حائضہ عورت قرآن کو ہاتھ لگائے بغیر زبانی طور پر پڑھ سکتی ہے، جہاں تک جنبی کا تعلق ہے تو اس کے لیے قرآن مجید کو ہاتھ لگانا یا زبانی طور پر اس کی تلاوت کرنا ناجائز ہے۔ دونوں میں فرق اس لیے ہے کہ جنابت کا وقت مختصر ہے۔ لہذا جنبی شخص کے لیے فراغت کے فوراً بعد غسل کرنا ممکن ہوتا ہے اس کی مدت لمبی نہیں ہوتی وہ جب چاہے غسل کر سکتا ہے، اور اگر پانی کے استعمال پر قادر نہ ہو تو تیمم کر کے نماز پڑھ سکتا ہے اور تلاوت قرآن مجید بھی کر سکتا ہے، مگر حائضہ اور نفاس سے دو چار عورت کے لیے یہ ممکن نہیں، کیوں کہ مسئلہ ان کے ہاتھ میں نہیں بلکہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ حیض اور نفاس کی مدت کئی دنوں پر محیط ہوتی ہے، لہذا ان کے لیے قرآن مجید کی تلاوت کو جائز قرار دیا گیا تا کہ وہ اسے بھول نہ جائیں اور تلاوت کلام کے ثواب سے محروم نہ رہیں۔ جب ان کے لیے کتاب اللہ کی تلاوت اور کتاب اللہ سے شرعی احکام کا سیکھنا جائز ہے تو قرآن وحدیث پر مبنی دعاؤں پر مشتمل کتابوں کا پڑھنا بطریق اولیٰ جائز ہوگا۔ یہی رائے صاحب علم علماءؒ کے اقوال میں سے صحیح تر ہے۔
فتاوی برائے خواتین ہیں: ۹۰ ۹۱ طبع دار السلام

علامہ نووی فرماتے ہیں : ’’جنبی کے لیے تسبیح وتحمید، تکبیر اور دیگر دعائیں اور اذکار بالا جماع جائز ہیں۔‘‘
المجموع

سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں : میں حج کے دنوں میں حائضہ ہوگئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’بیت اللہ کے طواف کے علاوہ باقی ہر وہ کام کرو جو حاجی کرتا ہے۔‘‘
صحيح بخاري، كتاب الحيض، رقم ٢٩٤ كتاب الحج، رقم: ١٦٥۔ صحیح مسلم، کتاب الحج، رقم: ١٢١١.

سیدہ ام عطیہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حیض والی عورتوں کو بھی عید کے روز عید گاہ جانے کا حکم دیا تا کہ وہ لوگوں کی تکبیروں کے ساتھ تکبیریں کہیں اور اُن کی دعا کے ساتھ دعا کریں لیکن نماز نہ پڑھیں۔
صحیح بخاری، کتاب العيدين، رقم: ٩٧٤ – صحيح مسلم، کتاب صلاة العيدين، رقم: ۸۹۰

● خونِ استحاضہ کا مسئلہ :

خون استحاضہ وہ خون ہے جو حیض کے معتاد دنوں کے بعد خاکی یا زرد رنگ کا جاری ہوتا ہے۔ یہ ایک بیماری ہے۔

● استحاضہ کے اہم مسائل :

⟐ مستحاضہ پاک عورت کی طرح ہے۔ ایام حیض کے بعد غسل کر کے نماز شروع کر دے۔ سیدہ عائشہؓ سے روایت ہے کہ فاطمہ بنت ابی حبیشؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئیں اور عرض کیا : اے اللہ کے رسول ! مجھے استحاضہ کا خون آتا ہے اور میں خونِ استحاضہ کے سبب پاک نہیں ہوتی ہوں۔ تو کیا میں نماز چھوڑ دوں؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : نہیں ، خون استخاصہ ایک اندرونی رگ سے بہتا ہے اور یہ خون حیض نہیں ہے۔ پس جب تجھے حیض کا خون آئے تو نماز چھوڑ دے اور جس وقت خون حیض بند ہو جائے اور خون استحاضہ شروع ہو تو اپنے استحاضہ کے خون کو دھو اور نماز پڑھ۔
صحیح بخاری، کتاب الحيض، رقم: ۳۳۱،۳۲٥،٣٢٠٠٣٠٦۔ صحیح مسلم، کتاب الحيض، رقم: ٣٣٣.

⟐ مستحاضہ عورت ہر نماز کے وقت خون صاف کرے اور وضو کرے۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک مستحاضہ عورت فاطمہ بنت ابی حبیشؓ سے فرمایا :
«توفني لكل صلوة.»
’’ہر نماز کے لیے وضو کر لیا کرو۔“
صحیح بخاری، کتاب الوضوء، رقم: ۲۲۸

⟐مستحاضہ عورت ہر نماز کے وقت خون صاف کرے اور وضو کرے۔
صحیح بخارى، كتاب الحيض، رقم: ٣٠٦ صحیح مسلم، کتاب الحيض، رقم: ٣٣٣۔

⟐مستحاضہ عورت دو نمازوں کے لیے ایک غسل کرنا چاہے تو دو نمازیں جمع کرے، یعنی ظہر کو لیٹ کرے اور عصر کو مقدم کرے، اسی طرح مغرب کو لیٹ کرے اور عشاء کو مقدم کر کے جمع کرلے اور فجر کی نمازا الگ پڑھ لے۔
سنن ابوداؤد، كتاب الطهارة، رقم: ٢٩٤ – سنن ترمذی، کتاب الطهارة، رقم: ۱۲۸

● مسواک کا اہتمام :

مؤکدہ سنن مبارکہ میں منہ کی بدبو کو دور کرنا، اور مسواک سے دانتوں کو صاف رکھنا بھی شامل ہے، اور یہ بات رسول ﷺ سے ثابت ہے۔ سیدنا ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’اگر میں اپنی اُمت کے لیے مشکل نہ جانتا تو اپنی امت کو عشاء کی نماز میں تاخیر کرنے اور ہر نماز سے پہلے مسواک کرنے کا حکم دیتا۔‘‘
صحيح بخاري، كتاب الجمعة، رمق : ۸۸۷ صحیح مسلم، كتاب الطهارة، رقم: ٢٥٢.

سیدنا حذیفہؓ فرماتے ہیں : ’’رسول اللہ ﷺ جب رات کو تہجد کے لیے اٹھتے تو مسواک کرتے۔‘‘
صحيح بخاري كتاب الوضوء، رقم: ٢٤٥ صحیح مسلم، كتاب الطهارة، رقم: ٢٥٥

● مسواک رضائے الہی کے حصول کا ذریعہ :

’’أم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’مسواک منہ کے لیے طہارت کا سبب، اور اللہ کی رضا مندی کا ذریعہ ہے۔‘‘
سنن نسائى، كتاب الطهارة، رقم:۵۔ ارواء الغلیل، رقم: ٦٥.

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

One Response

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے