صرف ہفتے والے دن کے نفلی روزے کا حکم؟
سوال
صرف ہفتے والے دن کے نفلی روزے کا کیا حکم ہے؟
(نوید شوکت، ڈربی ۔ برطانیہ)
الجواب
سیدنا عبد الله بن بسرؓ اور ان کی بہن صماء المازنیہ وغیر ہما سے مروی ایک حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
ہفتے کے دن کا روزہ نہ رکھو سوائے اس دن کے جس میں تم پر روزہ فرض ہو اور اگر تمھیں صرف انگور کی ٹہنی کا چھلکا یا کسی درخت کی لکڑی ہی (کھانے کے لئے) ملے تو اسے چبالو۔
(سنن ابی داود : ۲۴۲۱ سنن ترمذی: ۷۴۴ وقال: «حسن»، سنن ابن ماجہ (۱۷۲۶)
اس حدیث کی سند حسن لذاتہ ہے اور اسے ابن خزیمه (۲۱۶۴) ابن حبان (بسند آخر : ۳۶۰۶) حاکم (۱/ ۴۳۵ ۱۵۹۲۷) اور ذہبی نے صحیح قرار دیا ہے لیکن امام ابوداود نے فرمایا:
هذا الحديث منسوخ
یہ حدیث منسوخ ہے۔
کئی علماء نے اس دعوی نسخ کا انکار کیا ہے۔
ایک حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات سے پہلے یوم السبت والأحد ہفتے اور اتوار کا روزہ رکھتے تھے اور آپ نے فرمایا : یہ مشرکین (یہود و نصاریٰ) کی عید کے دن ہیں اور میں اُن کی مخالفت کرنا چاہتا ہوں۔
(صحیح ابن خزیمہ: ۲۱۶۷ صحیح ابن حبان: ۱۳۵۱۲۱۳۶۰۷)
اس حدیث کی سند حسن لذاتہ ہے اور اسے ابن خزیمہ، ابن حبان، حاکم (۱/ ۴۳۶ ح ۱۵۹۳) اور ذہبی نے صحیح قرار دیا ہے۔
اس حدیث کے راوی عبداللہ بن محمد بن عمر بن علی بن ابی طالب کو درج ذیل محدثین نے ثقہ و صدوق قرار دیا ہے:
➊ دار قطنی قال:
ثقة
(سوالات البرقانی: ۸۵ ملخصاً)
➋ ابن خزیمہ
(بتصحیح حدیثہ)
➌ ابن حبان (ایضاً)
➍ حاکم (ايضاً)
➎ ذہبی (ايضاً)
وقال في الكاشف (۱۱۴/۲) :
ثقة
محمد بن عمر بن علی بن ابی طالب کو درج ذیل محدثین نے ثقہ و صدوق قرار دیا:
➊ ابن حبان
(ذكره في الثقات)
➋ ذہبی
قال في الكاشف (۷۳/۳ ) :
ثقة
➌ دار قطنی
قال: ثقة
(سوالات البرقانی: ۸۵ملخصاً)
➍ ابن خزیمہ
(بتصحیح حدیثہ)
➎ حاکم (ايضاً)
➏ ابن حجر العسقلانی،
قال: صدوق
(تقریب التہذیب: ۶۱۷۰)
باقی سند بالکل صحیح ہے۔
اس حدیث کو شیخ البانی کا محمد بن عمر بن علی کی وجہ سے ضعیف قرار دینا (الضعیفۃ : ۱۰۹۹) بہت ہی عجیب و غریب اور غلط ہے۔
اس حسن لذاتہ حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ جو شخص اتوار کے دن کا نفلی روزہ رکھنا چاہے تو اس کے لئے ہفتے کے دن کا روزہ رکھنا بھی جائز ہے اور ابن خزیمہ، ابن حبان وابن شاہین وغیر ہم نے یہی مفہوم سمجھا ہے۔
چونکہ واؤ ترتیب کے لئے ضروری نہیں لہذا اگر کوئی شخص صرف ہفتہ یا صرف اتوار کا روزہ رکھنا چاہے تو بھی اس حدیث کی رو سے جائز ہے۔
حاکم نیشا پوری نے اس حدیث کو سابق حدیث کے معارض قرار دیا ہے، لہذا معلوم یہی ہوتا ہے کہ وہ اسی دوسری بات کے قائل ہیں۔ واللہ اعلم
محمد بن اسماعیل الامیر الصنعانی نے بھی لکھا ہے :
”و ظـاهـره صــوم كـل عـلـى الانفراد والاجتماع “
اور اس کا ظاہر یہ ہے کہ ان دونوں دنوں کا انفرادی اور اجتماعی روزہ رکھنا جائز ہے۔
(سبل السلام ص ۴۷۶ ح۶۸۳)
ایک حدیث میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسندیدہ روزہ داودؑ کا روزہ ہے، آپ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن افطار کرتے تھے۔
(صحیح بخاری :۱۱۳۱۲،صحیح مسلم: ۱۱۵۹ ملخصاً)
اس حدیث سے صرف ہفتے کے دن روزہ رکھنے کا جواز ثابت ہے، اور بعض علمائے معاصرین نے بھی اس سے ایسا ہی استدلال کیا ہے۔
ایک روایت میں آیا ہے کہ امام زہری نے ہفتے کے دن کے بارے میں فرمایا :
اس کے روزے میں کوئی حرج نہیں۔
(شرح معانی الآثار للطحاوی ۸۱/۲)
اس روایت کی سند دو وجہ سے ضعیف ہے:
➊ طحاوی کے استاد محمد بن حمید بن ہشام کا ثقہ و صدوق ہونا ثابت نہیں۔
➋ عبداللہ بن صالح کا تب اللیث سے صرف وہی روایت صحیح یا حسن ہوتی ہے جو حدیث کے ماہر ثقہ اماموں(حذاق) نے بیان کی ہو اور یہ ان روایات میں سے نہیں۔
ایک روایت میں آیا ہے کہ سیدنا عبداللہ بن بسرؓ کی حدیث کے بارے میں امام زہری نے فرمایا :یہ حمصی حدیث ہے۔
(المستدرک ۴۳۶/۱)
یہ سند محمد بن اسماعیل بن مہران النیسا بوری کے اختلاط کی وجہ سے مشکوک ہے۔
تمام دلائل مذکورہ کا خلاصہ یہ ہے کہ صرف ہفتے کے دن کا روزہ نہ رکھا جائے اور یہی بہتر ہے، اگر کوئی شخص مخالفت یہود وغیرہ کی وجہ سے یہ روزہ رکھ لے تو جائز ہے۔ واللہ اعلم
(۵ اگست ۲۰۱۳ء)