صحابہ کے ناموں سے پہلے حضرت نہ لکھنے پر 5 وضاحتیں

غلط فہمی اور اس کا ازالہ: "حضرت” کا لفظ صحابہ کرام کے ناموں سے ہٹانے پر اعتراض

غلط فہمی:

بعض افراد نے بیت السلام کی شائع کردہ کتاب میں یہ بات محسوس کی کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ناموں سے پہلے "حضرت” کا لفظ حذف کر دیا گیا ہے۔ ان کا مؤقف ہے کہ یہ عمل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بے ادبی ہے۔
ان افراد کے مطابق صحابہ کرام کے ساتھ "حضرت” کا لاحقہ نہ لگانا زیدی فرقے سے وابستگی کی علامت ہے۔

ازالہ:

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس امت کے بہترین افراد ہیں۔

جنگ بدر اور صلح حدیبیہ میں شامل ہونے والے صحابہ کرام کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ:
ان میں سے کوئی بھی جہنم میں داخل نہیں ہوگا۔
(صحیح مسلم)

رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے منہج کو فرقہ ناجیہ کی علامت قرار دیا ہے۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت ایمان کا حصہ ہے، اور صرف منافق ہی ان سے بغض رکھتا ہے۔

سوال یہ ہے:

محبت کے اظہار کے لیے "حضرت” کا لفظ استعمال کرنا کب سے شرط بن گیا ہے؟

اس اصول کی علمی حیثیت:

اگر یہ اصول واقعی درست ہے کہ "حضرت” نہ کہنے والا بے ادب ہے، تو براہ کرم ائمہ اہل سنت سے یہ اصول ثابت کریں:

◈ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ
◈ امام ابو یوسف رحمہ اللہ
◈ امام محمد رحمہ اللہ
◈ امام مالک رحمہ اللہ
◈ امام شافعی رحمہ اللہ
◈ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ

ان کسی امام نے صحابہ کرام کے نام کے ساتھ "حضرت” کا لفظ استعمال نہیں کیا۔

ائمہ حدیث نے اپنی کتب میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے روایات نقل کیں۔
حدیث کی کسی بھی کتاب میں کسی صحابی کے نام سے پہلے "حضرت” کا لفظ موجود نہیں ہے۔

امہات المؤمنین کے نام پر اعتراض:

اگر کسی نے امی عائشہ کی بجائے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا لکھا، اور اس پر کوئی شخص اسے بے ادب، گستاخ یا بد ذوق قرار دے، تو یہ انداز انتہائی عجیب ہے۔

کتاب کے صفحات 26 اور 36 پر غسل کے بیان میں یہی الفاظ استعمال ہوئے ہیں:
"ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا”
اگر کسی کو یہ گستاخی لگے، تو یہ اس کی اپنی سوچ ہے۔

تسلیم شدہ اصلاح:

عبدالجبار حفظہ اللہ کی ایک عبارت میں سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا نام غلطی سے حذف ہو گیا تھا،
جو کہ خطا تھی۔

ان شاء اللہ اگلے ایڈیشن میں اس کی اصلاح کر دی گئی ہے۔

اس نشاندہی پر اللہ آپ کو جزائے خیر دے اور ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے۔
(آمین)

"حضرت” کا اضافہ: اصل کتاب اور دارالسلام کا فرق

دارالسلام کی شائع کردہ "نماز نبوی” میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نام کے ساتھ "حضرت” کا اضافہ ان کی طرف سے کیا گیا ہے۔

یہ اضافہ اصل مصنف کی کتاب کے متن میں تحریف ہے۔

یہ اضافہ بغیر اطلاع اور اجازت کے کیا گیا، جس کا اخلاقاً اور شرعاً کوئی حق نہیں بنتا۔

اگست 2008 میں "حضرت” کو کاٹ کر "سیدنا” کا اضافہ کیا گیا، لیکن ساتھ ہی متن میں مزید تبدیلیاں بھی کر دی گئیں۔

نتیجہ:

اگر آپ ان تمام باتوں کو یکجا کرنا چاہیں تو یہ ایک بڑا موضوع بن سکتا ہے۔

لیکن مصنف اپنی حیثیت کو ایک طالب علم کے طور پر رکھتے ہوئے مشورہ دیتے ہیں کہ:

"اصل رد شرک و کفر کا ہونا چاہیے،
اور ہماری پوری توانائی اللہ، اس کے رسول ﷺ اور آخرت پر ایمان کو مضبوط کرنے میں صرف ہونی چاہیے۔”

اگر "نماز نبوی” کے بجائے میری اصل کتاب
"حبِّ رسول کی آڑ میں مشرکانہ عقائد”
کا علمی رد کیا جاتا،
تو مجھے زیادہ خوشی ہوتی۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1