سیدنا ابو بکر صدیق نے کوئی صحیفہ نہیں جلایا تھا
تحریر: محمد زبیر صادق آبادی

قارئین کرام ! ہو سکتا ہے کہ آپ نے بھی تبلیغی جماعت والوں سے یہ سنا ہو کہ ہر ایک کو حدیث نہیں بیان کرنی چاہئے ، کیونکہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس پانچ سو احادیث کا ایک صحیفہ تھا جو انھوں نے احتیاط کی وجہ سے جلا دیا تھا۔ اس بات کا تبلیغی جماعت والوں کو فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے خلاف حدیث بیان کرنے والا ڈر جائے کہ کہاں میں اور کہاں سید نا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ؟ جب وہ اتنی احتیاط کرتے تھے تو مجھے بھی خاموش رہنا چاہئے، تو پھر تبلیغی جماعت والوں کو جھوٹے اور شرکیہ قصے سنانے کا خوب موقع مل جاتا ہے۔ دراصل یہ سبق انھیں ان کے شیخ الحدیث زکریا کاندھلوی نے پڑھایا ہے:
چنانچہ محمد زکریا کاندھلوی تبلیغی نے لکھا ہے:

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا مجموعہ کو جلا دینا:

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میرے باپ حضرت ابو بکر صدیق نے پانچ سو احادیث کا ایک ذخیرہ جمع کیا تھا۔ ایک رات میں نے دیکھا کہ وہ نہایت بے چین ہیں۔ کروٹیں بدل رہے ہیں۔ مجھے یہ حالت دیکھ کر بے چینی ہوئی ۔ دریافت کیا کہ کوئی تکلیف ہے یا کوئی فکر کی بات سننے میں آئی ہے غرض تمام رات اس بے چینی میں گزری اور صبح کو فرمایا کہ وہ احادیث جو میں نے تیرے پاس رکھوا رکھی ہیں، اُٹھالا میں لے کر آئی، آپ نے ان کو جلا دیا۔ میں نے پوچھا کہ کیوں جلا دیا۔ ارشاد فرمایا کہ مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں مر جاؤں اور یہ میرے پاس ہوں ان میں دوسروں کی سنی ہوئی روایتیں بھی ہیں کہ میں نے معتبر سمجھا ہو اور واقع میں وہ معتبر نہ ہوں اور اس کی روایت میں کوئی گڑبڑ ہو جس کا وبال مجھ پر ہوئے۔
”حضرت ابو بکر صدیق کا یہ تو علمی کمال اور شغف تھا کہ اُنہوں نے پانچ سو احادیث کا ایک رسالہ جمع کیا اور اس کے بعد اس کو جلا دینا یہ کمال احتیاط تھا۔ اکا بر صحابہ رضی اللہ عنہم کا حدیث کے بارے میں احتیاط کا یہی حال تھا۔ اس وجہ سے اکثر صحابہ رضی اللہ عنہم سے بہت کم روایتیں نقل کی جاتی ہیں۔ ہم لوگوں کو اس واقعہ سے سبق لینے کی ضرورت ہے جو ممبروں پر بیٹھ کر بے دھڑک احادیث نقل کر دیتے ہیں ۔“
(فضائل اعمال ص 100 کتب خانہ فیضی لاہور پاکستان، کے تذکرۃ الحفاظ )
قارئین کرام ! یہی حکایت سرفراز صفدر دیوبندی کے بقول کسی منکر حدیث برق صاحب نے اپنی کتاب میں لکھی تھی۔ اس کے بعد کی کہانی سنیے سرفراز صفدر کی زبانی:

سرفراز صفدر نے لکھا ہے:

ہمارے خیال میں یہ کسی طرح قرین انصاف نہیں کہ ہم برق صاحب کی دیگر علمی تاریخی اور تنقیدی تحقیق و تدقیق سے آپ کی ضیافت طبع کا سامان نہ کریں اگر چہ جو گو ہر افشانی انہوں نے دور اسلام میں کی ہے وہ بہت زیادہ ہے ہم سب کچھ عرض کرنے سے تو یقیناً قاصر ہیں۔ لیکن مشہور ہے کہ
مَا لَا يُدْرَكُ كُلُّهُ لَا يُتْرَكُ كُلُّه
”یعنی اگر سب کچھ نہ ہو سکے تو سب کچھ چھوڑا بھی نہیں جا سکتا۔ “
اس لیے ہم چند نمونے عرض کر دیتے ہیں ملاحظہ کیجئے۔

حوالہ نقل کرنے میں خیانت کرنا:

1: علامہ ذہبی تذکرۃ الحفاظ میں لکھتے ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیق نے پانچ سو احادیث کا ایک مجموعہ تیار کیا ہوا تھا (ظاہر ہے کہ حضرت صدیق کے مجموعے سے زیادہ قابل اعتماد اور کون سا مجموعہ ہو سکتا تھا) لیکن ایک صبح اُٹھ کر اُسے جلا دیا۔
(انتھی بلفظہ دو اسلام طبع اوّل ص 42 و ص 51 طبع ششم )

جواب: اولا ۔

اس جگہ بھی برق صاحب نے خیانت کا ثبوت دیا ہے ۔ اس روایت کے نقل کرنے کے بعد علامہ ذہبی لکھتے ہیں۔ فهذا لا يصح (تذكرة الحفاظ ج 1ص5) یہ روایت صحیح نہیں ہے اور تذکرہ کے بعض مطبوعہ نسخوں میں فهذا لا يصلح ہے یعنی یہ روایت استدلال کے لئے صلاحیت نہیں رکھتی ، چونکہ علامہ ذہبی رحمہ اللہ کا روایت مذکورہ کے متعلق فیصلہ مخالف پڑتا تھا۔ اس لیے برق صاحب نے اس کو نقل کرنے کی تکلیف نہ فرمائی تا کہ قلعی نہ کھل جائے۔

ثانیا۔

اگر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے واقعی ایسا کیا ہوتا اور ان کے نزدیک احادیث حجت نہ ہوتیں تو وہ ایک حدیث بھی بیان نہ کرتے حالانکہ ان سے متعدد حدیثیں مروی ہیں۔ اگر ان کی دیگر احادیث سے قطع نظر کر کے صرف یہی پیش نظر رکھا جائے کہ وراثت جدہ کے متعلق ابو بکر صدیق نے صحابہ کرام سے دریافت کیا کہ کسی کو حدیث معلوم ہے تو بتلائے محمد بن مسلمہ اور مغیرہ بن شعبہ نے حدیث بیان کی ۔ اور صدیق نے خلافت سنبھالنے کے بعد خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مال مترو کہ میں قانون وراثت کے جاری نہ ہونے پر روایت اور حديث نحن معاشر الانبياء لا نورث پیش کی اور صحابہ کرام نے اس سے اتفاق کیا تھا۔ (بخاری ج 2 ص 995 وغیرہ ) کیا اس سے حدیث رسول کا واجب العمل ہونا معلوم نہیں ہوتا ۔ اگر یہ اثبات حجیت حدیث کے لیے نہ تھا تو برق صاحب ہی انصاف سے فرمائیں کہ کس لیے تھا؟

ثالثا۔

حضرت انس فرماتے ہیں کہ جب مجھے حضرت ابو بکر صدیق نے بحرین کا عامل بنا کر روانہ کیا تو زکوۃ کے نصاب کے متعلق وہ پوری تفصیل جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے انہوں نے اخذ کی تھی مجھے لکھ کر دی۔ (بخاری ج ص 195) وغیرہ میں وہ پوری روایت موجود ہے۔ اگر حضرت ابوبکر کے نزدیک حدیث حجت نہ ہوتی اور اس کا لکھنا گناہ ہوتا تو اپنے گورنر کو حدیث رسول کبھی لکھ کر نہ دیتے افسوس ہے کہ منکرین حدیث ایسی احادیث سے آنکھیں بند کر کے نہایت کمزور اور غیر صحیح روایت سے استدلال کرتے ہیں۔

رابعا۔

تذکرۃ الحفاظ کی روایت نہایت ضعیف اور کمزور ہے ایک تو اس میں علی بن صالح مدنی ہے جو مجہول ہے۔ (تقریب ص 272) اور دوسرا راوی اس کڑی کا موسیٰ بن عبداللہ بن حسن بن حسن ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں فيه نظر (میزان 3 ص 213) محدثین کے نزدیک اس میں کلام ہے اور علامہ سیوطی رحمہ اللہ تصریح کرتے ہیں کہ جس راوی کے بارے میں امام بخاری فيه نظر اور سكتوا عنه کہتے ہیں محدثین کرام کے ہاں اس کی روایت بالکل متروک ہوتی ہے۔
(تدریب الراوی ص 235 طبع مصر) (صرف ایک اسلام ص 192 تا 194)
قارئین کرام! دیکھا آپ نے کہ سرفراز خان صفدر دیو بندی کے مذکورہ بیان سے ثابت ہوا کہ ڈاکٹر غلام جیلانی برق کی طرح محمد زکریا کاندھلوی دیوبندی تبلیغی نے بھی خیانت سے کام لیا اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ کے فیصلے کو نقل نہیں کیا۔ ثابت ہوا کہ نام نہاد قسم کے شیخ الحدیث قسم بنے یا بنائے ہوئے لوگ منکرین حدیث کی راہ پر گامزن ہو کر کس طرح خیانتوں کا ارتکاب کرتے ہیں۔ اللہ تعالی سب مسلمانوں کو ان لوگوں کی چالوں سے محفوظ فرمائے۔

تنبیہ:

زکریا تبلیغی اور ڈاکٹر غلام جیلانی برق میں فرق یہ ہے کہ ڈاکٹر غلام جیلانی نے اپنی ایسی باتوں سے رجوع کر لیا تھا۔ دیکھئے الشریعہ خصوصی اشاعت (ص 251) اور زکر یا تبلیغی کا مذکورہ حکایت سے رجوع کرنا ثابت نہیں۔

فائدہ:

روایت مذکورہ کو حافظ ذہبی نے حاکم کے حوالے سے اس سند کے ساتھ نقل کیا ہے:
«حدثني بكر بن محمد الصيرفي بمرو: أنا محمد بن موسى البربري أنا مفضل بن غسان أنا على بن صالح أنا موسى بن عبد الله بن حسن بن حسن عن إبراهيم بن عمر بن عبيد الله التيمي: حدثني القاسم بن محمد قالت عائشة»
(تذكرة الحفاظ ج 1ص 5)
اس کا راوی محمد بن موسیٰ بن حماد البربری مشہور اخباری علامہ تھا لیکن روایت میں اُس کا ثقہ ہونا ثابت نہیں، بلکہ امام دار قطنی نے فرمایا: ليس بالقوي وہ القوی نہیں ہے۔
(سوالات الحاکم للہ ار قطنی: 221)
ابن کثیر نے ایک دوسری سند ذکر کی ہے، جس میں احوص بن مفضل بن غسان نے البربری کی ایسی مخالفت کی ہے کہ اس سند کا متصل ہونا مشکوک ہو جاتا ہے۔
(دیکھئے کنز العمال 385/10)
دوسرے راوی علی بن صالح کے بارے میں حافظ ابن کثیر نے مسند الصدیق میں فرمایا: و على بن صالح لا يعرف اور علی بن سالح پہچانا نہیں جاتا، یعنی معروف نہیں ہے۔
(کنز العمال 6/10 28 ج 29460)
حافظ ابن کثیر نے حاکم نیشاپوری کی اس روایت کو هذا غريب من هذا الوجه جدا یہ اس کی سند سے بہت زیادہ غریب (اوپری روایت ) ہے، قرار دیا۔
(ایضاص 286)
حافظ ابن حجر العسقلانی نے علی بن صالح المدنی یعنی راوی مذکور کے بارے میں فرمایا: مستور یعنی مجہول الحال ہے۔
(تقریب التہذیب: 4752)
اس کے تیسرے راوی موسیٰ بن عبد اللہ بن حسن بن حسن العلوی کو امام یحیی بن معین نے ثقہ کہا لیکن بخاری عقیلی اور ذہبی نے مجروح قرار دیا، یعنی وہ جمہور کے نزدیک ضعیف ہے۔ اس کا چوتھا راوی ابراہیم بن عمر بن عبید اللہ التیمی ہے جس کی توثیق نا معلوم ہے۔ معلوم ہوا کہ یہ روایت ظلمات کا پلندا ہونے کی وجہ سے باطل و مردود ہے۔
راقم الحروف نے ایک مضمون بعنوان ”سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کوئی صحیفہ نہیں جلایا تھا لکھا جو الحدیث حضرو (شمارہ: 81 ) میں شائع ہوا تھا۔ راقم الحروف نے اس مضمون میں ثابت کیا تھا کہ تبلیغی جماعت کے شیخ الحدیث زکریا صاحب نے فضائل اعمال کے صفحہ 100 پر سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے متعلق جو یہ لکھا ہے کہ انھوں نے پانچ سو (500) احادیث کا اپنا ہی لکھا ہوا مجموعہ جلا دیا تھا۔ زکریا صاحب کی یہ بات بالکل غلط ہے، کیونکہ جہاں سے زکریا صاحب نے یہ روایت نقل کی ہے اسی جگہ اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ یہ روایت صحیح نہیں اور زکریا صاحب نے یہ الفاظ جان بوجھ کر چھپا لیئے تھے اور تبلیغی جماعت والے اپنے شیخ الحدیث پر اندھا اعتماد کرتے ہوئے اس روایت کو بالجزم بیان کرتے ہیں، لیکن تبلیغی جماعت والے اپنے شیخ الحدیث کی اس غلطی کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے اور زکریا صاحب کے بعد یہی غلطی ایک سابق منکر حدیث برق صاحب نے کی تو آل دیو بند کے امام سرفراز خان نے اس کی غلطی پر یوں تبصرہ کیا: ”حوالہ نقل کرنے میں خیانت کرنا۔ “
1: علامہ ذہنی رحمہ اللہ تذکرہ الحفاظ میں لکھتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے پانچ سو احادیث کا ایک مجموعہ تیار کیا ہوا تھا (ظاہر ہے حضرت صدیق کے مجموعے سے زیادہ قابل اعتماد اور کون سا مجموعہ ہو سکتا تھا) لیکن ایک صبح اُٹھ کر اُسے جلا دیا ۔ (انتھی بلفظہ دو اسلام طبع اول ص 42 وص 51 طبع ششم ) ۔

جواب: اولا:

اس جگہ بھی برق صاحب نے خیانت کا ثبوت دیا ہے۔ اس روایت کے نقل کرنے کے بعد علامہ ذہبی لکھتے ہیں۔ فهذا لا يصح (تذكرة الحفاظ ج 1ص 5)
یہ روایت صحیح نہیں ہے اور تذکرہ کے بعض نسخوں میں فهذا يصلح ہے یعنی یہ روایت استدلال کی صلاحیت نہیں رکھتی، چونکہ علامہ ذہبی کا روایت مذکورہ کے متعلق فیصلہ مخالف پڑتا تھا۔ اس لیے برق صاحب نے اس کو نقل کرنے کی تکلیف نہ فرمائی تا کہ قلعی نہ کھل جائے۔“ (صرف ایک اسلام ص192)
کوئی بعید نہیں کہ برق صاحب نے یہ دھو کا زکریا صاحب پر اعتماد کر کے ہی کھایا ہو۔ قارئین کرام ! سرفراز خان صاحب کے بقول ایک بریلوی نے بھی اپنے مسلک کے ایک روایت نقل کی تھی لیکن اس روایت کے آگے بھی لا يصح یعنی یہ روایت صحیح نہیں ۔ لکھا ہوا تھا اور بریلوی نے یہ جملہ نقل نہ کیا تو سرفراز صفدر دیوبندی نے بریلوی کے خلاف لکھا: ”مولوی محمد عمر صاحب کا یہ کمال ہے کہ انہوں نے تذکرہ الموضوعات اور الموضوعات کبیر سے حوالے تو نقل کئے ہیں۔ لیکن لا يصح کا جملہ شیر مادر سمجھ کر ہضم کر گئے ہیں۔ تف ہے اس علمی خیانت اور بد دیانتی پر (راہ سنت ص 239)
اسی طرح نور محمد تونسوی دیوبندی نے ایک دوسرے بریلوی کے خلاف لکھا ہے: اگر علامہ صاحب لم يصح کا جملہ بھی نقل کر دیتے تو لوگوں کو دھوکا دینا مشکل ہو جاتا ، اسی لئے حقیقت پر پردہ ڈالنے کے لئے لا يصح کا جملہ شیر مادر سمجھ کر ہضم کر گئے اور لوگوں کو دھوکے میں ڈال دیا۔ (حقیقی نظریات صحابہ ص 59)
قارئین کرام ! فیصلہ آپ خود کریں کہ جو الفاظ مذکورہ دیو بندیوں نے اپنے مخالفین کے لئے استعمال کئے ہیں، وہی الفاظ آل دیو بند کے شیخ الحدیث کے لئے بھی استعمال ہونے چاہئیں یا نہیں؟ !
قارئین کرام ! راقم الحروف کے مضمون پر ایک دیو بندی رضوان عزیز نے کچھ تبصرہ کیا اور زکریا صاحب کی پیش کردہ روایت کو صحیح ثابت کرنے کی ہمت تو نہ کر سکے البتہ رضوان عزیز نے اپنے تبصرے میں جو مغالطے دیئے ہیں، میں ان کا خلاصہ نقل کر کے جواب دوں گا۔ ان شاء اللہ ۔
رضوان عزیز نے اپنے اس مضمون میں اہل حدیث کے خلاف انتہائی گندی زبان استعمال کی ہے اور اپنی عادت کی وجہ سے وہ پہلے بھی ایسا ہی کرتے رہے ہیں۔
راقم الحروف نے ان کے بعض بیہودہ الفاظ نقل کر کے الحدیث نمبر (83 ص 37) پر لکھا تھا: رضوان عزیز دیو بندی کی مذکورہ باتوں کا جواب تو یہ ہے کہ آل دیو بند کے مشہور مناظر محمد منظور نعمانی نے علانیہ کہا تھا: ”حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے منافق کی چند علامتیں ایک حدیث میں ارشاد فرمائی ہیں۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اذا خاصم فجر یعنی منافق کی نشانی ہے کہ نزاعی باتوں میں بد زبانی کرنے لگتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے ہر مسلمان بندے کو اس منافقانہ عادت سے بچاوئے ۔ (فتوحات نعمانیہ میں 858)
لیکن رضوان عزیز دیو بندی پر اس بات کا بھی کچھ اثر نہ ہوا، تو مجھے وہ حدیث یاد آ گئی کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا خوب فرمایا ہے: ”ابتداء سے تمام انبیاء کا جس بات پر اتفاق رہا ہے وہ یہ ہے کہ حیاء نہ ہو تو جو چاہو کرو ۔ (صحیح بخاری مترجم 230/3 ترجمه ظهور الباری دیو بندی )
الیاس گھمن کے رسالہ قافلہ کے لکھاریوں کی بد تہذیبی دیکھ کر غیر تو غیر اپنے بھی پکار اٹھے، چنانچہ سرفراز حسن خان حمزه احسانی بن عبد الحق بشیر دیو بندی نے لکھا ہے:
”جب بندہ نے قافلہ حق کا مطالعہ کیا تو اکابرین کے طرز کے مطابق نہ پایا۔ “ (مجله المصطفی بہاولپور کا سرفراز نمبر 277)
یاد رہے کہ احسانی کا یہ مضمون عبد القدوس قارن دیو بندی اور سعید احمد جلال پوری کا چیک کردہ ہے۔ (دیکھئے ایصاص 249)

تنبیہ:

محمد رضوان عزیز کے نام کے ساتھ ”مفتی“ کا لفظ بھی لکھا ہوا ہے، جبکہ آل دیو بند کے نزدیک معتبر کتاب فتاوی عالمگیری میں لکھا ہوا ہے:
«أجمع الفقهاء على ان المفتى يجب أن يكون من أهل الاجتهاد»
” یعنی فقہاء کا اجماع ہے کہ مفتی کا اہل اجتہاد میں سے ہونا واجب ہے۔ “
(فتاوی عالمگیری جلد 3 باب 1ص 308)
امین اوکاڑوی نے لکھا ہے: ”خیر القرون کے بعد اجتہاد کا دروازہ بھی بند ہو گیا اب صرف اور صرف تقلید باقی رہ گئی ۔ “(تقریة علی الکلام المفید ص س ، نیز دیکھئے تجلیات صفدر 412/3 )
اوکاڑوی کی تجلیات میں لکھا ہوا ہے: ”اب اجتہاد کی راہ ایسی بند ہوئی کہ اگر آج کوئی اجتہاد کا دعویٰ لے کر اٹھے تو اس کا دعوئی اس کے منہ پر مار دیا جائے“ (تجلیات صفدر 44/5)
سرفراز صفدر صاحب دیوبندی نے لکھا ہے: ”تقلید جاہل ہی کیلئے ہے “(الکلام المفید ص 234)
آل دیو بند کے مذکورہ حوالوں کی روشنی میں رضوان عزیز دیو بندی کو حقیقتا” مفتی “کہنا اجماع کی مخالفت ہے اور امین اوکاڑوی نے لکھا ہے: ”آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اجماعی فیصلوں سے انحراف کرنے والے کو شیطان اور دوزخی قرار دیا ہے“ (تجلیات صفدر 189/6)

رضوان عزیز کے مغالطے کا خلاصہ:

محمد زکریا صاحب دیوبندی نے یہ ایمان افروز نصیحت کی ہے کہ جب سید نا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے احتیاط کی وجہ سے اپنا ہی لکھا ہوا مجموعہ جلا دیا تھا تو کوئی عام آدمی کیسے حدیث بیان کر سکتا ہے۔

الجواب:

ان لوگوں کی یہ نصیحت اپنے مخالفین کے لئے ہی ہوتی ہے نام تو اپنا استعمال کرتے ہیں اور ڈرانا مخالفین کو مقصود ہوتا ہے کیونکہ خود تو موضوع ومن گھڑت روایات بھی اپنی کتابوں میں نقل کرتے ہیں جب بقول سرفراز صفدر، زکریا صاحب کی نقل کردہ روایت استدلال کے قابل ہی نہیں اور خود رضوان عزیز صاحب بھی سرفراز صفدر پر پورا پورا اعتماد کرتے ہیں تو پھر بقول اوکاڑوی ”اب تو شیخ صاحب کی ساری شیخی کرکری ہوگئی“ (تجلیات 4/ 314)
اور بقول اوکاڑوی ہم اس ”شیخی خورے شیخ الحدیث (کے چیلوں ) کو چیلنج دیتے ہیں“ (تجلیات 164/2)
کہ رضوان عزیز صاحب اور آل دیو بند پہلے اس روایت کو صحیح تو ثابت کر کے دکھا ئیں پھر اس سے استدلال کر کے نصیحت بھی کر لیں ۔ نیز شیخ الحدیث کی نصیحت جس روایت پر مبنی ہے اگر اس کے متن پر غور کیا جائے تو ماسٹر امین کی تجلیات ، زکریا صاحب کی فضائل اعمال اور گھمن صاحب کا رسالہ قافلہ کہ جن میں موضوع ومن گھڑت روایات موجود ہیں سنبھال کر رکھنے کا جواز بھی باقی نہیں رہتا اور دلچسپ بات تو یہ ہے کہ شیخ الحديث صاحب کی نصیحت کا اختتام یوں ہوتا ہے:” یہی راز ہے کہ حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ سے بھی حدیث کی روایتیں بہت کم نقل کی گئی ہیں“ (فضائل اعمال ص 101)
لیکن الیاس گھمن صاحب کے رسالہ قافلہ حق میں محمد شاکر دیو بندی نے امام ابو حنیفہ کی بیان کردہ احادیث پر مشتمل مسانید اور مجموعوں کی تعداد پچیس (25) سے بھی زیادہ بتائی ہے۔ دیکھئے قافلہ (جلد 5 شماره 3 ص 28-29)
نیز لکھا ہے: ”علامہ خوارزمی نے اس مجموعہ مسند کے لکھنے کی وجہ یوں بیان کی ہے: میں نے ملک شام میں بعض جاہلوں سے سنا کہ حضرت امام اعظم کی روایت حدیث کم تھی ۔“
(قافلہ جلد 5 شماره 3 ص 29-30)

تبلیغی نصاب اور موضوع و مرد ود روایات

یادر ہے کہ زکریا کاندھلوی صاحب نے اپنی لکھی ہوئی بات اور نصیحت کو بھی مد نظر نہیں رکھا، بلکہ اپنی مشہور کتابوں (مثلاً تبلیغی نصاب ، فضائل اعمال اور فضائل درود وغیرہ ) میں بے اصل ، باطل، موضوع اور متروک روایات لکھ کر عوام کے ہاتھوں میں دے دیں۔ مثلاً: 1 : زکریا صاحب نے لکھا ہے: ایک حدیث میں آیا ہے کہ جو شخص نماز کا اہتمام کرتا ہے حق تعالی شانہ پانچ طرح سے اس کا اکرام و اعزاز فرماتے ہیں ایک یہ کہ اس پر سے رزق کی تنگی ہٹا دی جاتی ہے۔ دوسرے یہ کہ اس سے عذاب قبر ہٹا دیا جاتا ہے۔ تیسرے یہ کہ یہ حدیث پوری اگرچہ عام کتب حدیث میں مجھے نہیں ملی۔
(تبلیغی نصاب ص 347 – 350 ، فضائل اعمال ص 3120309 ، فضائل نماز ص 31-34)
یہ بالکل بے سند روایت ہے اور ایک غالی مقلد لطیف الرحمن بیڑا چی قاسمی نے بھی اس روایت کو حدیث باطل لکھا ہے۔ (دیکھئے تحقیق المقال في تخرج احادیث فضائل الاعمال ص 544 ) زکریا صاحب نے لکھا ہے: حضرت زید بن ارقم حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں جو شخص اخلاص کے ساتھ لا اله الا الله کہے وہ جنت میں داخل ہو گا کسی نے پوچھا کہ کلمہ کے اخلاص (کی علامت ) کیا ہے آپ نے فرمایا کہ حرام کاموں سے اس کو روک دے۔ (فضائل ذکر ص 483 ، فضائل اعمال ص 453 تبلیغی نصاب ص 521 بحواله الا وسط والكبير للطبرانی)
الحجم الکبیر للطبرانی ( 5074) اور الاوسط ( مجمع البحرین 57/1 ) کی اس روایت کی سند میں محمد بن عبد الرحمن بن غزوان راوی ہے۔ (دیکھئے تحقیق المقال ص 529 )
اس ابن غزوان کے بارے میں ہیثمی نے فرمایا: ” و هو وضاع “ اور وہ حدیثیں گھڑتا تھا۔ (مجمع الزوائد / 18)
امام دارقطنی اور امام ابن عدی و غیر ہم نے اسے حدیثیں گھڑ نے والا قرار دیا ہے۔ (دیکھئے لسان المیز ان 253/5-254)
اسی روایت کی دوسری سند میں ابود اود نفیح کذاب ہے۔
2 : زکریا صاحب نے لکھا ہے: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی والدہ ام رومان رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں ایک مرتبہ نماز پڑھ رہی تھی نماز میں ادھر اُدھر جھکنے لگی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے دیکھ لیا تو مجھے اس زور سے ڈانٹا کہ میں ( ڈر کی وجہ سے ) نماز توڑنے کے قریب ہوگئی پھر ارشاد فرمایا کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جب کوئی شخص نماز کو کھڑا ہو تو اپنے تمام بدن کو بالکل سکون سے رکھے، یہود کی طرح ہلے نہیں۔ بدن کے تمام اعضاء کا نماز میں بالکل سکون سے رہنا نماز کے پورا ہونے کا جزو ہے۔
( فضائل نمازس 77 – 78 بحوالہ حکیم ترمذی وغیرہ ، فضائل اعمال ص 355 – 1356 تبلیغی نصاب ص 393-394)
اس روایت کی سند میں حکم بن عبد اللہ بن سعد السعدی ہے، جس کے بارے میں امام احمد بن حنبل نے فرمایا: اس کی ساری حدیثیں موضوع ہیں۔ ابو حاتم الرازی نے فرمایا: وہ کذاب ہے۔
امام ابن عدی نے فرمایا: جاهل کذاب ( دیکھے تحقیق المقال ص 551)
اس موضوع روایت کو صاحب تحقیق المقال کا صرف ضعيف جدا قرار دینا کافی نہیں۔ صحیح بخاری کی ایک حدیث میں آیا ہے کہ نبی صلی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو دیکھا کہ (مسجد کے ) دوستونوں کے درمیان ایک رسی بندھی ہوئی ہے۔ آپ نے پوچھا: یہ رسی کس لئے ہے؟ لوگوں نے کہا: یہ رسی زینب ( رضی اللہ عنہا ) کے لئے ہے، وہ جب ( نماز پڑھتے پڑھتے ) تھک جاتی ہیں تو اس پر سہارا لیتی ہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں ! اس رسی کو کھول دو، جب آدمی کی طبیعت بہتر ہوتو ( نفل ) نماز پڑھے اور اگر تھک جائے تو بیٹھ جائے۔ (کتاب التنجد باب ما يكره من التشديد في العبادة ح 1150)
یہ حدیث درج ذیل کتابوں میں بھی ہے :
صحیح مسلم ( 784، دار السلام : 1831) صحیح ابن خزیمہ (200/2 ح 1180) صحیح ابن حبان الاحسان 6/ 239 24926 نسخه قدیمه: 2483) صحیح ابی عوانہ (297/2 – 298 22236) سنن ابی داود (1312) سنن النسائی (218/3 – 219 16445) سنن ابن ماجه (1371) مسند احمد (101/3 ج 11986) مستخرج ابی نعیم (2/ 375 ح 1780) شرح السنة للبغوی (59/4 ، 942 وقال : هذا حديث متفق على صحته )
اس صحیح حدیث کے مقابلے میں زکر یا صاحب نے درج ذیل روایت پیش کی ہے:
حضرت عبد اللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ ابتدا میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم رات کو جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو اپنے آپ کو رسی سے باندھ لیا کرتے کہ نیند کے غلبہ سے گرنہ جائیں۔ اس پر طه ما انزلنا عليك القرآن تشقي نازل ہوئی۔ ( فضائل نماز ص 82 ، فضائل اعمال ص 360 تبلیغی نصاب ص 389)
یہ روایت تاریخ دمشق لابن عساکر (99/4 – 100، دوسرا نسخہ 143/4) میں ہے اور اس کی سند یہ ہے: عبد الوهاب بن مجاهد عن أبيه عن ابن عباس اس کے راوی عبد الوہاب بن مجاہد کے بارے میں حافظ ابن حجر نے لکھا ہے : متروك و قد كذبه الثوري متروک راوی ہے اور اسے سفیان ثوری نے کذاب کہا تھا۔ ( تقریب التہذیب: 4263) اس پر مزید شدید جرح کے لئے دیکھئے نصب الرایہ (253/2) وغیرہ زکریا صاحب نے ایک روایت لکھی ہے: حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا گیا ہے کہ جو شخص نماز کو قضا کر دے گا تو وہ بعد میں پڑھ بھی لے پھر بھی اپنے وقت پر نہ پڑھنے کی وجہ سے ایک حقب جہنم میں جلے گا اور حقب کی مقدار اسی برس کی ہوتی ہے۔ (فضائل نمازی 39 تبلیغی نصاب ص 355، فضائل اعمال ص 317)
یہ روایت بالکل بے سند اور بے اصل ہے۔ ہمارے علم کے مطابق حدیث کی کسی کتاب میں بھی اس کی کوئی سند موجود نہیں اور مجالس الابرار نامی بے سند کتاب میں اس کا لکھا ہوا ہونا اس روایت کے معتبر ہونے کی دلیل نہیں۔ یاد رہے کہ مجالس الابرار کا مصنف احمد بن محمد الرومی ابھی 1043ھ میں فوت ہوا، یعنی وہ گیارہویں صدی ہجری کا ایک عالم تھا۔
اس طرح کی جھوٹی روایات بیان کر کے زکریا صاحب اور دیو بندی تبلیغیوں نے کیا اس حدیث کو بھلا دیا ہے، جس میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے مجھ پر جھوٹ بولا ، وہ جہنم میں داخل ہوگا۔ (دیکھئے صحیح بخاری : 106 صحیح مسلم :1)

تنبیه :

رضوان عزیز نے یہ بحث بھی چھیڑی ہے کہ غیر عالم کو حدیث بیان کرنا گناہ ہے۔ ( دیکھئے قافلہ جلد 5 شمار و 4 ص 37)
لیکن یہ نہیں بتایا کہ غیر عالم کسے کہتے ہیں ، حالانکہ اس پر اتفاق ہے کہ مقلد اہل علم میں سے نہیں ہوتا۔ (دیکھئے اعلام الموقعین 2/ 200 ، جامع بیان العلم 2/ 231) مزید تفصیل کے لئے دیکھئے شمارہ الحدیث 75 ( ص 30) اور ہمارے اس مضمون میں سرفراز صاحب کا بیان بھی گزر چکا ہے کہ تقلید جاہل ہی کے لئے ہے۔ قارئین کرام کی دلچسپی کے لئے عرض ہے کہ پالن حقانی ایک دیو بندی شخص تھا جس نے شریعت یا جہالت اور جماعت اہل حدیث کا خلفائے راشدین سے اختلاف وغیرہ کتابیں لکھیں حالانکہ آل دیو بند کو اس بات کا اقرار ہے کہ وہ عالم نہیں تھا۔ دیکھئے جماعت اہل حدیث کا خلفائے راشدین سے اختلاف (ص 5) قریباً ان پڑھ تھا۔ ( شریعت یا جہالت ص 838) اس کا سارا مطالعہ اردو تراجم تک محدود تھا عربی و فارسی نہیں جانتا تھا۔ (ایضاً ص 840 ) بقول آل دیو بند لاکھ سے زیادہ مجمع میں تقریر کرتا تھا۔ ( ایضا ص 844)
کسی دینی درسگاہ کے فارغ تو بڑی بات اس کی شکل بھی انھوں ( پالن حقانی نے نہیں دیکھی۔ ( ایضا ص 824) قرآن کی آیات ، احادیث اور کچھ بے صفحے کی حکایتیں بھی سناتا تھا۔ (ایضا ص 830) اس کے باوجود آل دیو بند کے شیخ الحدیث زکریا تبلیغی نے اس کی کتاب پر تقریظ لکھی۔ (دیکھئے شریعت یا جہالت ص 804 دوسرا نسخہ ص2) اور بھی بہت سے آل دیو بند نے تصدیقات و تقریظات و غیرہ لکھیں ، صرف اس لئے کہ وہ دیو بندی مسلک کے لئے کام کرتا تھا ، اس لئے آل دیو بند نے اسے حضرت مولانا وغیرہ کے القاب سے نوازا۔ (ایضا ص 815 – 810)
لیکن رضوان عزیز کے اصول کے مطابق گنہ گار ہو کر دنیائے فانی سے رخصت ہوا اور رضوان عزیز کے شیخ الحدیث اوروں کو نصیحت خود میاں فضیحت کے مصداق بن کر اپنا حصہ ملانے سے باز نہ آئے۔ پالن حقانی جیسے شخص کی تعریف کی اور محدثین کے متعلق کہا: ”ان محدثین کا ظلم سنو“ ( تقریر بخاری 513، 104/3)
رضوان عزیز نے ایک حدیث لکھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” کہ آدمی کے جھوٹا ہونے کیلئے اتنی بات کافی ہے کہ جو بات سنے اس کو ( بلا تحقیق ) آگے نقل کر دے۔“ (قافله جلد 5 شمار و 4 ص 37)
عرض ہے کہ زکریا صاحب نے یہی کام کیا ہے اور اگر وہ سرفراز صاحب کی طرح تحقیق کر لیتے تو مذکورہ حدیث کے مصداق نہ بنتے ، کیونکہ انھوں نے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب روایت کو بغیر تحقیق کے آگے نقل کر دیا ہے اور آج تک تبلیغی جماعت والے ان پر اعتماد کر کے اس غیر ثابت روایت کو بغیر تحقیق کے آگے بیان کر رہے ہیں۔ رضوان عزیز کے ایک مغالطے کا خلاصہ: زکریا صاحب کی پیش کردہ روایت پر جرح جب سرفراز صاحب نے کر دی تھی تو پھر حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کی جرح نقل کرنے کا کیا فائدہ تھا ؟

الجواب:

حافظ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ کی طرف سے مفصل جرح نقل کرنے کا فائدہ یہ ہوا کہ دیوبندی حضرات نے آسانی سے زکر یا صاحب کی پیش کردہ روایت کو ضعیف تسلیم کر لیا، ورنہ اس سے پہلے راقم الحروف نے الیاس گھمن کی پیش کردہ روایت پر امین اوکاڑوی کی جرح نقل کی تھی۔ (دیکھئے الحدیث حضر وشمارہ : 76 ص 34- 35)
لیکن گھمن صاحب کے کسی مجہول لکھاری نے اوکاڑوی کی جرح کو رد کر دیا تھا۔ ( قافله جلد 5 شماره اس 54 )
لہذا آل دیو بند بات کرنے سے پہلے کچھ سوچ لیا کریں۔

رضوان عزیز کے مغالطے کا خلاصہ:

ضوان عزیز نے لکھا ہے:
اہل حدیث اس حدیث کے مصداق ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آخری زمانہ میں کچھ دجال و کذاب ( الحدث کے قلم کار وغیرہ ) آپ کے پاس ایسی حدیثیں لائیں گے جنہیں نہ آپ نے سنا ہو گا نہ آپ کے آباؤ اجداد نے پس اپنے آپ کو ان ( اہل حدیثوں ) سے بچاؤ تاکہ تمہیں گمراہ کر کے فتنے میں نہ ڈال دیں ۔ ( قافلہ جلد 5 شماره 4 ص 38)

تنبیہ:

بریکٹوں والے الفاظ بھی دیو بندی کے ہیں۔

الجواب:

رضوان عزیز اور آل دیو بند کو چاہئے کہ اپنی پارٹی کو ہی اس حدیث کا مصداق بنا لیں ، کیونکہ اپنی کتابوں میں انھوں نے ایسی احادیث نقل کی ہیں جو نہ تو پہلے آل دیو بند و آل تقلید نے سنی تھیں اور نہ ان لوگوں کے روحانی باپ دادا یعنی ابن ترکمانی، عینی ، انور شاہ کشمیری اور اشرف علی تھانوی وغیرہ نے سنی یا پڑھی تھیں۔
مثال کے طور پر اخبار الفقہاء والمحدثین سے ترک رفع یدین کے مسئلہ میں ایک جدید روایت ان لوگوں نے پندرھویں صدی ہجری میں پیش کر دی ہے ۔ دیکھئے آصف لاہوری دیو بندی کی کتاب: سنت رسول الثقلین فی ترک رفع یدین (ص 73۔ 74 حدیث نمبر 96) اس طرح مسند حمیدی اور ابو عوانہ کی طرف منسوب ترک رفع یدین کی روایات ان آل تقلید کے باپ داد و غیرہ کو بھی معلوم نہیں تھیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے