سونے کے بدلے سونا کا کیا مطلب ہے
مؤلف : ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمٰن اعظمی رحمہ اللہ

116- اس فرمان نبوی: ”الذهب بالذهب والفضة بالفضة . . .“ کا معنی
اس فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کہ ”سونے کے بدلے سونا، اور چاندی کے بدلے چاندی، ایک دوسرے کے مثل اور نقد بہ نقد۔“ [صحيح مسلم 1587/81] کا معنی ہے کہ انسان جب سونے کے بدلے سونا بیچے تو اس میں دو چیزوں کا ہونا ضروری ہے:
اول: وہ ایک دوسرے کے مثل ہوں یا وزن میں برابر۔
دوم: اسے ایک ہاتھ سے دیا جائے اور دوسرے ہاتھ سے لیا جائے یعنی ایک دوسرے سے علاحدہ ہونے سے پہلے اسے قبضے میں لے لیا جائے۔
اس کی مثال یہ ہے کہ ایک آدمی نے ایک مثقال سونا ایک مثقال (تقریباً ڈیڑھ درہم) سونے کے بدلے بیچا اور مجلس برخواست ہونے سے پہلے پہلے اسے اپنے قبضے میں لے لیا اور دوسرے کو قبضہ دے دیا تو یہ بیع صحیح ہے اور اس حدیث پر عمل ہوگا کہ ”وہ ایک دوسرے کے مثل اور نقد بہ
نقد ہو۔“
اور صحیح نہ ہونے کی مثال یہ ہے کہ ایک آدمی نے ڈیڑھ مثقال سونا، سوا مثقال سونے کے بدلے فروخت کیا، یہ نیت درست نہیں کیونکہ اس میں برابری نہیں، بلکہ ایک ڈیڑھ مثقال اور جبکہ دوسرا سوا مثقال ہے، ہم مثل ہونا نہیں پایا گیا، لہٰذا یہ بات درست نہیں، اسے ربا الفضل کہا جاتا ہے۔ اگر تاجر ایک مثقال سونے کے بدلے ایک مثقال سونا ہی فروخت کرتا ہے لیکن قبضہ دینے میں تاخیر کرتا ہے، یعنی وہ تاجر دوسرے کو تو ایک مثقال سونا دے دیتا ہے لیکن اس سے اس کا عوض ایک مدت کے بعد لیتا ہے، چاہے اس میں ایک گھنٹے ہی کی تاخیر ہو یہ بھی درست نہیں کیونکہ یہ نقد بہ نقد نہیں۔ اسی طرح ہم حدیث کے اس حصے ”چاندی کے بدلے چاندی“ کے متعلق کہیں گے، یعنی جب چاندی کی فروخت چاندی کے بدلے کی جا رہی ہو تو اس میں بھی ان دونوں شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے:
پہلی شرط: وہ وزن میں ہم مثل ہوں۔
دوسری شرط: ایک دوسرے سے علاحدہ ہونے سے پہلے اسے قبضے میں لے لیا جائے۔
اس کی مثال یہ ہے کہ ایک مثقال چاندی کی فروخت ایک مثقال چاندی کے بدلے ہو اور مجلس ہی میں ایک دوسرے کو قبضہ دے دیا جائے، یہ بیع درست ہے کیونکہ اس میں اس حدیث پر عمل ہوا ہے کہ وہ مثل بہ مثل اور نقد بہ نقد ہو۔ غیر صحیح بیع کی مثال یہ ہے کہ ڈیڑھ مثقال چاندی کی فروخت سوا مثقال چاندی کے بدلے ہو اور نقد بہ نقد ہو، یہاں یہ بیع صحیح نہیں کیونکہ اس میں برابری نہیں، یا ایک مثقال چاندی کے بدلے ایک مثقال کی بیع ہو لیکن مجلس عقد میں کسی ایک فریق کو بھی قبضہ اگر نہ دیا جائے اور اس میں تاخیر کی جائے تو یہ بیع بھی درست نہیں کیونکہ یہ نقد بہ نقد نہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ جب سونے کے بدلے سونا فروخت کیا جائے تو اس میں دو چیزوں کا ہونا ضروری ہے، ایک: وزن میں برابر ہونا اور دوسرے: مجلس عقد میں ایک دوسرے کو قبضہ دینا، اور جب چاندی کے بدلے چاندی فروخت کی جا رہی ہو تو اس میں بھی ان دونوں شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے، وزن میں برابری اور مجلس عقد میں ایک دوسرے کو قبضہ دینا، یہی اس حدیث کا منطوق (متکلم کا مقصد) بھی ہے اور مفہوم (جس کی لفظوں سے موافقت درست ہو) بھی۔
[ابن عثيمين: نور على الدرب: 4/235]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل
ٹیلی گرام
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!