کفایت اللہ سنابلی کی امام ابن الجوزی سے متعلق ہزرہ سرائی کا رد
تحریر:حافظ ندیم ظہیر، ماخوذ ماہنامہ الحدیث، حضرو

سنابلی صاحب اپنی تحریر کے آئینے میں

الحمد لله رب العالمين والصلوة والسلام على رسوله الأمين، أما بعد:
کسی بھی مسئلے میں تحقیق کرنا ہر صاحب علم کا حق ہے لیکن تحقیق کے نام سے اُس مسئلے کو افراط و تفریط کی بھینٹ چڑھانا اور اعتدال کا دامن چھوڑ دینا، علمائے محققین کی شان کے خلاف ہے۔ بہت سے مسائل کی طرح ”مسئلہ یزید “ بھی اس روش کا شکار ہے۔ کچھ عرصے ؟“ سے تو اس بارے میں بڑی گرمجوشی کا مظاہرہ ہو رہا ہے اور اس بنا پر اصولوں کو توڑ نا مروڑنا معمول کی کارروائی ہے حتی کہ ادب و احترام اور محبت تک کا معیار بدل چکا ہے جس کی کئی مثالیں محترم جناب کفایت اللہ سنابلی صاحب کی تالیف جدید ” یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ پر الزامات کا تحقیقی جائزہ“ میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ چنانچہ سنابلی صاحب لکھتے ہیں:
” ابن الجوزی نے یزید کی مذمت میں ایک کتاب لکھی ہے بعض لوگ کہتے ہیں کہ ابن الجوزی نے یہ کتاب امام عبدالمغیث رحمہ اللہ کے جواب میں لکھی ہے جنہوں نے یزید کے دفاع میں کتاب لکھی تھی۔ لیکن ہم کہتے ہیں کہ ابن الجوزی نے یہ کتاب امام عبدالمغیث رحمہ اللہ کے جواب میں نہیں بلکہ جواب الجواب میں لکھی ہے، دراصل سب سے پہلے ابن الجوزی نے اپنی ایک تقریر میں یزید کے خلاف بکواس کی امام عبدالمغیث رحمہ اللہ کے جواب پر ابن الجوزی آپے سے باہر ہو گئے“
(ص:31)

تبصرہ :

قارئین کرام ! شروع میں ہم یہی سمجھتے تھے کہ محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے سنابلی صاحب کو جھوٹا قرار دیا ہے ممکن ہے اسی وجہ سے شیخ محترم رحمہ اللہ کے بارے میں سنابلی صاحب کے قلم سے غیر مناسب الفاظ نکل گئے ہیں لیکن جب ہم نے ان کی تحریر پڑھی تو اندازہ ہوا کہ ان کے ہاں ادب و احترام کا معیار محض” حمایت یزید ہے“!!! حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے سنابلی صاحب کا کوئی رد نہیں کیا، وہ پھر بھی ” بکواسی“ ٹھہرے اور خود پر کنٹرول نہ رکھنے والے ” آپے سے باہر“ قرار پائے۔ یہی نہیں بلکہ محض یزید کی مخالفت کرنے کی وجہ سے ان سے ہر قسم کا لاحقہ سابقہ چھین لیا گیا اور ان کی تمام خدمات کو نظر انداز کر دیا، والعیاذ باللہ۔
صفحہ (31) کے صرف ایک پیرے میں امام عبدالمغیث رحمہ اللہ کا نام 6 بار لکھا اور ہر جگہ ان کے نام کے ساتھ امام اور رحمہ اللہ لگایا کیونکہ یہ حامیان یزید میں سے تھے اور اسی پیرے میں 10 دفعہ امام ابن الجوزی رحمہ اللہ کا ذکر کیا لیکن ہر جگہ ابن الجوزی ہی لکھنے پر اکتفا کیا کیونکہ یہ مخالفین یزید میں شمار ہوتے ہیں۔!

حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ پر سنابلی صاحب کی مزید کرم فرمائیاں

❀ سنابلی صاحب لکھتے ہیں: ” عرض ہے کہ سب سے پہلے یہ بات واضح ہو جائے کہ امام عبدالمغیث نے یہاں پر امام احمد کی تردید نہیں کی ہے، جیسا کہ ابن الجوزی نے مغالطہ دیا ہے“
( یزید بن معاویہ ص 788)
سنابلی صاحب کی تحریر سے عیاں ہے کہ حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ ان کے نزدیک ” مغالطہ باز“ تھے۔
❀ نیز لکھتے ہیں: ” واضح رہے کہ ابن الجوزی نے یہاں پر عبدالمغیث کی دشمنی میں سارا زوراس بات پر صرف کر دیا کہ اس آیت میں خطاب منافقین سے نہیں عرض ہے کہ یہاں پر ابن الجوزی امام عبدالمغیث کی دشمنی میں امام احمد کے قول کی وکالت کر رہے ہیں“
(یزید بن معاویہ مس 790)
علمائے کرام کے آپس کے علمی اختلاف کو” دشمنی“ سے تعبیر کر کے سنابلی صاحب کن لوگوں کے لیے راہ ہموار کر رہے ہیں یہ اہل علم سے مخفی نہیں، دوسرا یہ کہنا کہ حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے محض دشمنی میں امام احمد رحمہ اللہ کے قول کی وکالت کی ہے، یہ انھیں غیر منصف مزاج شخص ثابت کرنے کی ناکام کوشش ہے۔ یہاں ہم سنابلی صاحب سے عرض کریں گے کہ آپ محدثین کے اقوال میں سے دلیل کے ساتھ کسی کو صواب یا خطا تو قرار دے سکتے ہیں لیکن اس طرح کی ”بھونڈی ترجمانی “کرنے کا حق آپ کو قطعا نہیں ہے۔
❀ سنابلی صاحب حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ کا مذاق اڑاتے ہوئے لکھتے ہیں:
غور کریں کہ امام عبدالمغیث نے ایک صحیح حدیث پیش کی ، جو سنن ترمذی اور مسند احمد وغیرہ جیسی حدیث کی مشہور کتابوں میں صحیح سند سے موجود ہے لیکن ابن الجوزی اپنی طرف سے اس حدیث کی ٹوٹی پھوٹی سند لا کر پھر اس پر جرح کر کے عبدالمغیث کو مطعون کر رہے ہیں کہ انھوں نے موضوع حدیث سے استدلال کیا ہے۔ سبحان اللہ
(یزید بن معاویہ ص 792)
❀ سنابلی صاحب رسوائے زمانہ مثال : ”الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے“ حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ پر فٹ کر کے لکھتے ہیں: ” ابن الجوزی نے اپنی زندگی میں کئی لوگوں پر بے جا جرح کرتے ہوئے ان کی طرف بے بنیا د عیوب کی نسبت کی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ دوسروں کے اندر یہ عیوب نہ تھے ، بلکہ خود ابن الجوزی ہی ان عیوب سے متصف تھے اور شاید وہ اپنے اوپر دوسروں کو بھی قیاس کرنے لگ جاتے تھے۔“
(یزید بن معاویہ ص 793)
اس پر ہم کچھ عرض کریں گے تو محترم کو شکایت ہوگی ،لہذا اسی پر اکتفا کرتے ہیں کہ
دل سوز سے خالی ہے نگہ پاک نہیں ہے
پھر اس میں عجب کیا تو بے باک نہیں ہے
قارئین کرام! جن کے ہاں ادب و احترام کا معیار محض کوئی شخصیت ہو ان کی قلم درازیوں پر افسوس کرنے کا کوئی فائدہ نہیں، ہاں ! اگر افسوس ہے تو اس بات پر کہ کیا ان کے حلقہ احباب میں کوئی ”رجل رشید“ نہ تھا جو بغلیں بجانے کی بجائے انھیں محدثین کی پگڑیاں اچھالنے سے روکتا ؟!!
بہر صورت ہم اصل موضوع کی طرف آتے ہیں اور وہ یہ کہ جب کسی مسئلے میں افراط و تفریط کو دخل ہو تو اصولوں کو توڑ نا مروڑنا اور دورخی اختیار کرنا لازمی امر بن جاتا ہے اور اس کا مقصد صرف خود کو سچا اور اپنے موقف کو قوی ثابت کرنا ہوتا ہے۔ محترم سنابلی صاحب اس دوڑ میں کتنا آگے نکلے ہیں؟ اس کے لیے دونوں رخ مع تبصرہ ملاحظہ کیجئے:

پہلا رخ :

سنابلی صاحب نے عبدالوہاب ثقفی کو متکلم فیہ محض اس لیے قرار دیا کہ امام ابن سعد نے جرح کی ہے، چنانچہ لکھتے ہیں: ”یہ متکلم فیہ ہیں، کیوں کہ ابن سعد نے ان کے بارے میں فیه ضعف “ کہا ہے
(یزید بن معاویہ ص 239)

دوسرا رخ :

جب سنابلی صاحب کے اپنے پسندیدہ راوی پر امام ابن سعد رحمہ اللہ نے جرح کی تو آنجناب یوں رقم طراز ہوتے ہیں: ” یہ راوی بھی جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ ہیں ، ان پر صرف ابن سعد نےالطبقات (356/6) اور ابن حبان نے الحجر وجین (227/2) میں جرح کی ہے۔ ابن سعد جرح میں منفرد ہوں تو ان کی جرح قبول نہیں ہوتی اور ابن حبان رحمہ اللہ جرح میں متشدد ہیں ۔ “
(یزید بن معاویہ ص 268)

تبصره:

سنابلی صاحب کے اپنے پسندیدہ راوی پر امام ابن سعد کی جرح غیر مقبول اور ان کے موقف کے خلاف روایت کرنے والے راوی پر ابن سعد رحمہ اللہ کی جرح مقبول ۔ آہ!
انھوں نے خود غرض شکلیں شاید دیکھی نہیں غالب
وہ اگر آئینہ دیکھیں گے تو ہم ان کو بتا دیں گے
عرض یہ ہے کہ جب امام ابن سعد رحمہ اللہ کی جرح تفرد کی صورت میں قبول ہی نہیں تو پھر عبدالوہاب ثقفی متکلم فیہ کس طرح بن گئے ؟
پہلا رخ سنابلی صاحب لکھتے ہیں : ”ہم نے عبدالوہاب ثقفی کو متکلم فیہ بتلانے کے لیے ابن سعد کی ”جرح فيه ضعف “ پیش کی“
(یزید بن معاویہ ص 239)
دوسرا رُخ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے سنابلی صاحب کے پسندیدہ راوی کے بارے میں فرمایا: عبد الرحمن بن معاوية ، فيه ضعف
یہ راوی چونکہ سنابلی صاحب کے مفاد میں تھا، لہذا اب ان کی تاویلی قلابازیاں بھی ملاحظہ کر لیں، لکھتے ہیں: عرض ہے کہ اس سند کے ضعیف ہونے کے لیے اس کا مرسل ہونا ہی کافی ہے اور اس کے بعد امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے ابوالحویرث کا تعارف پیش کیا اور اس کا پورا نام بتایا ہے اور چونکہ اس پر محدثین نے جرح کی ہے، اس لیے تعارف پیش کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ اس میں ضعف ہے۔ یہ جملہ راوی کی مطلق تضعیف پر ہرگز دلالت نہیں کرتا ، اس سے صرف اور صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس راوی میں ضعف ہے، لیکن کیا یہ ضعف اس قدر ہے کہ راوی کو ضعیف بنا دے؟ اس بات کی صراحت یہاں نہیں ہے، لہذا یہ نہیں کہا جاسکتا کہ امام ابن کثیر رحمہ اللہ کے نزدیک یہ راوی ضعیف ہے۔“
(یزید بن معاویہ ص 673)

تبصره :

اگر ”فیه ضعف “ کہنے کے باوجود یہ راوی امام ابن کثیر کے نزدیک ضعیف نہیں تو عبدالوہاب ثقفی کے بارے میں فیہ ضعف کی وجہ سے ابن سعد رحمہ اللہ کی طرف جرح کی نسبت کیونکر صحیح ہوسکتی ہے؟ کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟
سنابلی صاحب کی تحریر سے درج ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں:
(1) ابن سعد رحمہ اللہ جب جرح میں منفرد ہوں تو ان کی جرح سرے سے قبول ہی نہیں ہوتی لہذا عبد الوہاب ثقفی کے بارے میں ان کی جرح غیر مقبول ہے۔
(2)” فيه ضعف“ کہنے والے محدث کے نزدیک وہ راوی ضعیف نہیں ہوتا جس کے بارے میں یہ کہا گیا ہے، پس عبدالوہاب ثقفی ابن سعد رحمہ اللہ کے نزدیک ضعیف نہیں ہیں۔
سنابلی صاحب ہی کے اصولوں سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ عبد الوہاب ثقفی” قطعاً متکلم فیه “ نہیں ہیں اور اس بات کی بھی وضاحت آ رہی ہے کہ انھوں نے کسی اوثق کی مخالفت نہیں کی ، باقی رہا اختلاط کا مسئلہ تو اس کے بارے میں خود سنابلی صاحب لکھتے ہیں: عبدالوہاب پر کی گئی جرح اختلاط سے متعلق عرض ہے کہ چونکہ اہل فن نے اختلاط کی جرح کے ساتھ ساتھ یہ بھی صراحت کر دی ہے کہ یہ معاملہ ان کی زندگی کے آخری ایام کا تھا۔
علاوہ بریں کسی بھی محدث نے ان کے اختلاط کو بنیاد بنا کر کسی روایت کو ضعیف نہیں کہا ہے، اس لیے عمومی طور پر ان کی بیان کردہ مرویات کے بارے میں یہی فیصلہ ہوگا کہ وہ ان کے اختلاط سے متاثر نہیں ہیں۔ واللہ اعلم
(یزید بن معاویہ ص 245)
قارئین کرام ! جب عبد الوہاب ثقفی متکلم فیہ نہیں ، اختلاط کی جرح مضر نہیں اور انھوں نے کسی اوثق کی مخالفت بھی نہیں کی تو سنت بدلنے والی حدیث کس بنا پر ضعیف ہے؟ اور اسے بنیاد بنا کر شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ پرطعن وتشنیع چه معنی دارد؟
اگر سنابلی صاحب کو یہ سب تسلیم تھا تو کوئی ان سے پوچھے کہ اس بارے میں اتنے صفحہ سیاہ کر کے فضا آلودہ کرنا مقصود تھا یا پھر بدنام نہ ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا
لطیفہ سنابلی صاحب لطیفہ کے تحت لکھتے ہیں:
” حافظ زبیر علی زئی عبد الوہاب کی توثیق پیش کرتے ہوئے انھیں صحیح بخاری کا مرکزی راوی بتلاتے ہوئے کہتے ہیں: ” آپ صحیح بخاری صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے مرکزی راوی ہیں ۔“
اس سے کوئی یہ سمجھ سکتا ہے کہ صحیح بخاری میں ان کی بہت ساری احادیث ہوں گی، حالاں کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا: "لم يكثر البخاري عنه “ ”امام بخاری رحمہ اللہ نے عبدالوہاب ثقفی سے زیادہ احادیث نہیں لی ہیں ۔ “
قارئین غور کریں ! صحیح بخاری کے شارح حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تو کہہ رہے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے عبد الوہاب سے زیادہ روایات نہیں لیں اور جناب زبیر علی زئی صاحب فرماتے ہیں کہ یہ بخاری کے مرکزی راوی ہیں ۔ سبحان اللہ !

تبصرہ :

سنابلی صاحب! اس سے کوئی نہیں ، صرف آپ ہی نے سمجھا ہے اور دکھ اس بات کا ہے کہ جو مرکزی کے معنی و مفہوم سمجھنے سے عاری ہے وہ محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کا رد کر نے اُٹھا ہے، حالانکہ یہ عام طالب علم بھی جانتے ہیں کہ کسی کتاب کے بنیادی راوی ہونے کے لیے قلت و کثرت معیار نہیں ہے اور آنجناب مرکزی کا مطلب کثرت بتلا رہے ہیں۔!!
اگر مرکزی سے مراد زیادہ ہی ہے تو آپ کی درج ذیل تحریر سے کیا سمجھا جائے؟ سنابلی صاحب لکھتے ہیں: ”ہم نے سند کے ضعف کی تائید میں متن کی نکارت کو پیش کیا تھا، ورنہ متن کی نکارت مرکزی علت نہیں ہے۔ اسی لیے ہم نے اسے بطور قرینہ و تائید پیش کیا ہے نہ کہ مرکزی دلیل کے طور پر
(یزید بن معاویہ ص 173)
لطیفے کے ذریعے سے محدث العصر رحمہ اللہ کا مذاق اڑانے والا خود مذاق بن کے رہ گیا ہے۔
الجھا ہے پاؤں یار کا زُلف دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا

کیا عبدالوہاب ثقفی نے اوثق کی مخالفت کی ہے؟

سنابلی صاحب لکھتے ہیں : ” معلوم ہوا کہ کتب ستہ کے راوی عبد الوهاب ثقة متكلم فيه “ نے کتب ستہ کے راوی ” معاذ بن معاذ عنبري ثقة متقن بالاتفاق “ کے خلاف روایت کیا ہے، لہذا زیادت ثقہ کے مسئلے میں یہ اس بات کا قرینہ ہے کہ عبد الوہاب کی روایت رد ہونی چاہیے۔“
(یزید بن معاویہ ص 159)

تبصرہ :

قارئین کرام ! عبدالوہاب ثقفی کے متکلم فیہ ہونے کی حقیقت کیا ہے وہ سابقہ صفحات میں واضح کر دی گئی ہے۔ جب وہ متکلم فيه ہی نہیں تو یہ اعتراض خود بخود ختم ہو جاتا ہے کہ انھوں نے ثقہ بالا تفاق کی مخالفت کی ہے اور ایسی مخالفت ( زیادت) سے متعلق خود سنابلی صاحب نے امام ابن عبدالہادی رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہے کہ ”جب زیادتی کو روایت کرنے والا حافظ اور ثبت ہو اور جس نے زیادتی بیان نہیں کی ہے، وہ بھی ایسا ہی ہو یا ثقاہت میں اس سے کم تر ہو تو ایسی صورت میں زیادتی قبول کی جائے گی۔“
(یزید بن معاویہ ص 216)
یادر ہے کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے معاذ بن معاذ کے حافظے پر بھی جرح کر رکھی
ہے، چنانچہ آپ نے فرمایا:
وكان فى حديثه شيء
( العلل و معرفة الرجال : رواية المروذي ، ص43)
” في حديثه شيء“ کا ترجمہ سنابلی صاحب یوں کرتے ہیں:
”ان کی احادیث محل نظر ہیں۔ اور اس جرح کو حافظے پر جرح قرار دیا۔“
(دیکھئے یزید بن معاویہ ص 321)
ایسا راوی سنابلی صاحب کے نزدیک متکلم فیہ ہوا کرتا ہے، لہذا یہ کہنا کہ عبدالوہاب ثقفی نے اوثق کی مخالفت کر رکھی ہے محل نظر ہے بلکہ امام احمد رحمہ اللہ کی جرح ابن سعد رحمہ اللہ کی جرح سے کہیں بڑھ کر ہے جو سنابلی صاحب کی تحریر کی روشنی میں یہ منظر پیش کر رہی ہے کہ ”عبد الوهاب ثقفي ثقه نے معاذ بن معاذ متكلم فيه کی مخالفت کی ہے۔“ اور یہ مخالفت قطعاً مضر نہیں ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ کی تعلیل امام بخاری رحمہ اللہ کے قول :
ولا يعرف لأبي ذر قدوم الشام زمن عمر پر اعتراض کرتے ہوئے حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے لکھا: ” امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنے اس دعوے کی کوئی دلیل بیان نہیں کی تو اس پر سنابلی صاحب لکھتے ہیں :
” بعد میں ہمیں اس دعوے کی صحیح دلیل بھی مل گئی ۔
(یزید بن معاویہ ص 106)

تبصرہ :

سنابلی صاحب کی تحریر سے واضح ہو جاتا ہے کہ جب تک یہ دلیل نہیں تھی دعوئی بلا دلیل تھا اور امام بخاری رحمہ اللہ کا دعویٰ بھی دلیل کا محتاج تھا۔ ہمارا حسن ظن ہے کہ اگر یہ دلیل ان کو پہلے مل جاتی تو الفاظ کے ہیر پھیر سے اتنے زیادہ صفحات کبھی سیاہ نہ کرتے اور نہ دورخی ہی کا مظاہرہ کرتے ۔

پہلا رخ :

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے مدینہ میں قتل وغارت اور لوٹ کھسوٹ کی بنا پر یزید سے روایت کرنے سے منع کیا تو سنابلی صاحب نے لکھا:
”ر ہا امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا اپنا موقف تو انھوں نے اپنے اس موقف کی دلیل میں کوئی صحیح تاریخی روایت نہیں پیش کی ہے، لہذا ان کا یہ موقف بے دلیل ہونے کی بنا پر غیر مسموع ہے۔“
( یزید بن معاویہ ص 779)
حالانکہ امام احمدرحمہ اللہ بھی جرح و تعدیل اور علل کے جلیل القدر امام ہیں۔ اسی طرح جب شیخ محترم رحمہ اللہ نے امام ابن سعد کی جرح فيه ضعف سے مت حافظ ابن حجر کی یہ توضیح نقل کی کہ اس سے مراد اختلاط کی جرح ہے تو سنابلی صاحب نے لکھا:
” عرض ہے کہ یہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی اپنی توضیح ہے اور اس تو ضیح کے لیے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کوئی دلیل نہیں دی۔ اس لیے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی توضیح خالی از دلیل ہے۔ “
(یزید بن معاویہ ص 238)

دوسرا رُخ :

لیکن جب محدث العصر رحمہ اللہ نے امام بخاری رحمہ اللہ کے دعوے کی دلیل طلب کی تو سنابلی صاحب کچھ اس طرح لال پیلے ہوئے:
مودبانہ عرض ہے کہ محترم یہ آپ کا کام سرے سے ہے ہی نہیں، اللہ کے واسطے آپ خود کو اتنے بڑے کام کے لیے تکلیف نہ دیں۔ یہ چیز آپ کے دائرہ کار سے باہر ہے۔ آپ اس بات کے قطعاً اہل نہیں کہ کوئی امام فن کسی حدیث کو معلول کہہ دے اور اس کی علت بیان کرے تو آپ اس کی بیان کردہ علت کو غلط ثابت کرنے بیٹھ جائیں۔ یہ بالکل لا یعنی اور بے سود کام ہے، کیوں کہ آپ ثابت بھی کر لے جائیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے حدیث کو معلول کہنے کی کوئی صحیح وجہ بیان نہیں کی ہے تو بھی اس سے امام بخاری رحمہ اللہ کے فیصلے پر کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے۔
(یزید بن معاویہ ص 122)

تبصره:

تیری زلف میں ٹھہری تو حسن کہلائی
وہی تیر گی جو میرے نامہ سیاہ میں تھی
اگر دلیل طلب کرنا اتنا ہی معیوب ہے تو عرض ہے کہ کیا امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اس فن کے امام نہیں ، کیا وہ ململ کے ماہر نہیں؟ وہ ایک راوی کی تضعیف مع علت بیان کر رہے ہیں اور سنابلی صاحب ان کی بیان کردہ علت کو غلط ثابت کرنے بیٹھ گئے ہیں، جسے ”لا یعنی اور بے سود کام کہہ رہے ہیں اسے خود کر بھی رہے ہیں۔ سرِ راہ اس جرح سے متعلق” فقیہ سنابل “کی فقاہت بھی بیان کر دی جائے تو بے موقع نہ ہوگی۔
سر راہ : سنابلی صاحب نے لکھا:
” اب اگر زور دار قہقہے سے اپنے آپ کو بچا سکتے ہیں تو دعوائے نسخ پر شاندار فقاہت کا ایک اور نمونہ ملاحظہ فرمائیں۔ لکھتے ہیں: ”خالد بن سمیر کہتے ہیں ایک دفعہ حجاج بن یوسف الفاسق نے منبر پر خطبہ دیا تو کہا: بے شک (عبداللہ ) ابن زبیر نے قرآن میں تحریف کی ہے۔ تو ( عبداللہ ابن) عمر بولے: تو نے جھوٹ بولا ہے، نہ وہ اس کی طاقت رکھتے تھے اور نہ تو اس (تحریف) کی طاقت رکھتا ہے۔ حجاج (غصے) سے بولا : چپ ہو جا اے بوڑھے ! تو سٹھیا گیا ہے اور تیری عقل چلی گئی ہے۔
(ابن سعد 184/4 وسندہ حسن )
آپ ( عبد اللہ بن عمر ) کی مرض وفات میں جب حجاج بن یوسف عیادت کے لیے آیا تو آپ نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور حجاج سے کوئی بات نہیں کی حتی کہ وہ چلا گیا۔
(ابن سعد 186/4 وسنده صحیح ، تاریخ دمشق 33/128، 29)
معلوم ہوا کہ آپ کا حجاج کے پیچھے نماز پڑھنے کا عمل منسوخ ہے۔“ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کی مذکورہ تحریر کے بعد سنابلی صاحب نے لکھا: ”جن کے یہاں نسخ کا اثبات اس طرح کی فقاہت بلکہ فکاہت پر مبنی ہو وہ امام ذہبی رحمہ اللہ کے کلام کو مذکورہ بنیاد پر منسوخ بتلائیں تو ان کا حق ہے لیکن علمی دنیا میں اس کی حیثیت ایک لطیفہ سے زیادہ کچھ بھی نہیں ۔ “
( حدیث یزید محدثین کی نظر میں ،ص 163,164)
قارئین کرام ! شیخ محترم رحمہ اللہ کی حریر بڑی واضح ہے کہ حجاج بن یوسف کے جھوٹ و تہمت کی وجہ سے سیدناعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے دیکھنا اور اس سے کلام کرنا گوارہ نہیں کر رہے تو اس کی اقتدا میں نماز پڑھنا کس طرح پسند کر لیں گے؟ اسی بنا پر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے دعوی نسخ کیا ہے لیکن سنابلی صاحب نے اپنے مسخرے پن کی وجہ سے اسے بھی تمسخر بنانے کی کوشش کی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آنجناب ” من ضحك ضحك“ کی تصویر بنے نظر آتے ہیں۔ اب ”فکیہ سنابل“ کی دعوئی نسخ پر خود اپنی فکاہت بھی ملاحظہ کر لیں ۔

امام احمد رحمہ اللہ کا رجوع ؟

سنابلی صاحب امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے بارے میں لکھتے ہیں:
” ان کے جس قول میں یزید بن معاویہ پر ظلم یا لوٹ مار کا الزام ہے، اس قول سے امام احمد رحمہ اللہ رجوع کر چکے ہیں۔ صرف یہی نہیں کہ امام احمد رحمہ اللہ نے اخیر میں یزید بن معاویہ کے بارے میں اپنی جرح سے رجوع کر لیا، بلکہ اسے خیر القرون کی فضیلت کا حامل بھی بتلایا ہے، چنانچہ امام ابوبکر الخلال (المتوفی 311ھ) نے کہا:
”ابو طالب عصمہ بن ابی عصمہ کہتے ہیں کہ میں نے امام احمد رحمہ اللہ سے پوچھا کہ جو کہے کہ یزید بن معاویہ پر اللہ کی لعنت ہو، اس بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ کہا: میں اس بارے میں کلام نہیں کرتا۔ میں نے کہا: آپ کیا فرماتے ہیں، کیونکہ جس نے یہ بات کہی ہے وہ معتبر آدمی ہے اور میں آپ کے قول کو اپناؤں گا تو امام احمد رحمہ اللہ نے کہا: اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : مومن پر لعنت کرنا اس کو قتل کرنے کی طرح ہے، نیز آپ نے یہ بھی فرمایا: سب سے بہتر زمانہ میرا زمانہ ہے، پھر ان کا زمانہ، جو اس کے بعد آئیں گے اور یزید اس دور کے لوگوں میں شامل ہے، نیز آپ نے یہ بھی فرمایا : میں نے جس پر لعنت کی یا برا بھلا کہا تو اے اللہ ! اسے اس کے حق میں رحمت بنا دے، اس لیے خاموشی ہی میرے نزدیک بہتر ہے۔
(یزید بن معاویہ ص 782)

تبصرہ :

”جو شخص مذکورہ عبارت کا بغور مطالعہ کرے گا اس پر یہ حقیقت منکشف ہو جائے گی کہ سنابلی صاحب امام احمد رحمہ اللہ کی جرح سے متعلق دعوی نسخ کر کے سوال چنا اور جواب گندم کی عکاسی کر رہے ہیں، کیونکہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے یزید پر لعنت کے بارے میں سوال ہوا تھا نہ کہ لوٹ کھسوٹ اور اس سے حدیث بیان کرنے یا نہ کرنے سے متعلق، لہذا انھوں نے لعنت ہی سے خاموشی اختیار کی ہے۔ یہ بھی جانتے ہیں کہ لعنت شدید کلام ہے اور یزید کے بارے میں متشدد ترین لوگ ہی یہ روش اپناتے ہیں ، جبکہ احمد بن حنبل رحمہ اللہ تو فکر اعتدال کے امام ہیں۔ ہمارے موقف کی مزید وضاحت اس سے بھی ہوتی ہے کہ جب سائل نے لعنت والا سوال دہرایا تو آپ نے وہ احادیث بیان کیں جن میں لعنت کرنے کی مذمت ہے اور لعنت نہ کرنے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ یزید خیر القرون کا مسلمان ہے۔ واضح رہے کہ خیر القرون کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اس دور میں کسی ظالم یا ضعیف راوی کا سرے سے وجود ہی نہ ہوگا۔ اس دعوئی نسخ پر شاندار فکاہت کا مظاہرہ کرنے پر ہم سنابلی صاحب ہی کے الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ جن کے یہاں نسخ کا اثبات اس طرح کی فقاہت بلکہ فکاہت پر مبنی ہو وہ امام احمد رحمہ اللہ کے کلام کو مذکورہ بنیاد پر منسوخ بتلائیں تو ان کا حق ہے لیکن علمی میدان میں اس کی حیثیت ایک لطیفہ سے زیادہ کچھ بھی نہیں ۔ “

تنبیہ :

سنابلی صاحب نے دکتور محمد بن ہادی کے حوالے سے لکھا: ” امام احمد رحمہ اللہ کی وفات سے تین دن قبل ان کے جو عقائد لکھے گئے ، ان میں ہے کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ یزید بن معاویہ کے بارے میں خاموشی اختیار کرتے تھے اور ان کا معاملہ اللہ پر چھوڑتے تھے۔
(یزید بن معاویہ ص 781)
یہ بالکل غلط ہے، کیونکہ امام احمد رحمہ اللہ سے یزید پر محض لعنت سے متعلق تو خاموشی ثابت ہے لیکن مطلق خاموشی کسی واضح اور صریح قول (دلیل) سے قطعا ثابت نہیں ہے۔ یادر ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ کے مذکورہ قول سے یزید پر کی گئی جرح سے رجوع تو ثابت نہیں ہوتا لیکن یہ ضرور واضح ہو رہا ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ کے نزدیک بھی یزید مغفرت کی بشارت والے لشکر میں شامل نہیں ہے کیونکہ اگر وہ شامل ہوتا تو امام موصوف خیر القرون والی عام دلیل کی بجائے مغفرت کی بشارت والی خاص دلیل سے استدلال کرتے ، یہی نہیں بلکہ بعض متاخرین کے علاوہ کسی ایک متقدم محدث نے بھی اسے یزید کے حق میں پیش نہیں کیا۔

امام بخاری رحمہ اللہ کے دعوئی پر سنابلی دلیل کی حقیقت

سنابلی صاحب نے لکھا : ” زبیر علی زئی صاحب نے بلاوجہ یہ اعتراض کر دیا کہ امام بخاری کے قول کے اندر جو بات ہے، اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ ہم نے گزشتہ صفحات میں اس کی بھر پور تردید کر دی ہے۔ لیکن مزید مطالعہ کے بعد ہمیں صحیح بخاری و مسلم کی شرط پر ایک بہت ہی اعلی درجے کی صحیح روایت مل گئی، جس میں امام بخاری رحمہ اللہ کی مکمل تائید موجود ہے۔ یعنی اس میں اس بات کی صراحت ہے کہ ابو ذر رضی اللہ عنہ یہ عثمان رضی اللہ عنہ ان ہی کے دور میں شام گئے تھے اور اس سے قبل وہ مدینے ہی میں مقیم تھے۔“
(یزید بن معاویہ ص 191)

سنابلی دلیل کی سند

ثنا عبد الوهاب الثقفي، عن هشام ، عن محمد بن سيرين، عن أبى ذر رضى الله عنه

سنابلی اصول کی روشنی میں سند کا تعارف

(1) عبد الوهاب ثقفي

یہ عبدالوہاب وہی راوی ہیں جن کو سنابلی صاحب متکلم فیہ کہتے نہیں تھکتے اور یہاں ان کی روایت کو ایک بہت ہی اعلیٰ درجے کی صحیح روایت قرار دیا جا رہا ہے۔ اصول حدیث کا عام طالب علم بھی بخوبی جانتا ہے کہ متکلم فیہ راوی کی روایت ” بہت ہی اعلیٰ درجے کی صحیح روایت کبھی نہیں ہوتی ، لیکن یہ روایت چونکہ سنابلی صاحب کے حق میں تھی ، لہذا اپنا ہی لکھا بھول گئے ۔
جاننا چاہیے کہ اگر عبدالوہاب متکلم فیہ ہیں تو ان کی روایت” بہت ہی اعلیٰ درجے کی صحیح،“ نہیں اور اگر عبد الوہاب کی روایت ” بہت ہی اعلیٰ درجے کی صحیح ہے“ تو یہ متکلم فیہ نہیں اور سنابلی صاحب کے نزدیک یہی درست ہے۔

(2)هشام:

یہ ہشام بن حسان ہیں جن کی ایک روایت کے بارے میں سنابلی صاحب لکھتے ہیں: یہ روایت ضعیف ہے، اس میں ہشام بن حسان ہیں، جنھوں نے عن سے روایت کیا ہے اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے انھیں تیسرے طبقے کا مدلس بتلایا ہے۔ تیسرے طبقے کا مدلس جب” عن“ سے روایت کرے تو وہ روایت ضعیف ہوتی ہے۔“
(یزید بن معاویہ ص 251)
مذکورہ سند میں بھی ہشام عن ہی سے روایت کر رہے ہیں ، پھر بھی ” بہت ہی اعلیٰ درجے کی صحیح ہے ! کیونکہ یہ سنابلی صاحب کے حق میں تھی اور جس کو ضعیف ثابت کر رہے ہیں وہ ان کے موقف کے خلاف تھی۔ “
ایک جارہتے نہیں بدنام عاشق کہیں
شام کہیں صبح کہیں ، صبح کہیں شام کہیں

(3) محمد بن سیرین :

سنابلی صاحب نے ان کے بارے میں لکھا: ” در حقیقت اس روایت کو بیان کرنے والے محمد بن سیرین رحمہ اللہ ہیں۔ اور یہ ارسال کرنے میں کافی مشہور ہیں، بہت سارے صحابہ کرام بھی لینے سے انھوں نے ارسال کیا ہے۔ جیسا کہ کتب مراسیل میں تفصیل دیکھی جا سکتی ہے۔ یعنی ایسے صحابہ کے حوالے سے یہ روایات بیان کرنے کے عادی تھے جن سے کبھی یہ ملے نہ تھے۔ اگر چہ ان کا دور پایا تھا۔ بلکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کی بات بھی بیان کر دیتے تھے۔ جبکہ آپ کو یہ دور ملا ہی نہ تھا کیونکہ آپ تابعی ہیں۔ ایسی صورت میں یہ اگر کوئی ایسی کہانی بیان کریں جس کے بارے میں یہ ثابت ہو جائے کہ یہ ان کا اپنا مشاہدہ نہیں بلکہ یہ کہانی انھوں نے کسی غیر ثقہ سے سن رکھی ہے تو دریں صورت ان کا بیان معتبر نہ ہو گا ۔“
(یزید بن معاویہ ص 901 )
اور ہماری تحقیق کے مطابق محمد بن سیرین رحمہ اللہ کی سید نا ابو ذر رضی اللہ عنہ ان سے ملاقات ثابت نہیں ہے، جیسا کہ امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ نے فرمایا: ” محمد بن سیرین کی سیدنا ابو ذر رضی اللہ ان سے ملاقات ثابت نہیں ہے ۔“
(کتاب المراسیل ص 188)
جب محمد سیرین رحمہ اللہ کی سید نا ابو ذر رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہی ثابت نہیں تو یہ روایت ” بہت ہی اعلیٰ درجے کی صحیح کیسے ہوگئی ؟ سنابلی صاحب!
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

سنابلی صاحب کے نزدیک ایک اور علت

جس روایت کو آنجناب ”بہت ہی اعلیٰ درجے کی صحیح “کہہ رہے ہیں، انھی کے نزدیک اس میں ایک اور علت بھی پائی جاتی ہے، چنانچہ سنابلی صاحب لکھتے ہیں:
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ روایت میں مذکورہ قصہ شام کے علاقہ کا ہے اور محمد بن سیرین بصرہ کے رہنے والے تھے ۔ بنا بریں جب یہ واقعہ بھی شام کے علاقہ کا ہے اور محمد بن سیرین رحمہ اللہ بصرہ کے رہنے والے ہیں تو یہیں پر یہ شبہ پیدا ہو گیا کہ یہ واقعہ ان کا اپنا مشاہدہ ہو یہ بہت بعید ہے۔
(یزید بن معاویہ  ص 902)
اور ایسی روایت سنابلی صاحب کے نزدیک من گھڑت ہوتی ہے۔
( دیکھئے یزید بن معاویہ  ص 906)
اب من گھڑت روایت ” بہت ہی اعلیٰ درجے کی صحیح ،“ کس طرح بن گئی؟
تیری بات کو بت حیلہ گر نہ قرار ہے نہ قیام ہے
کبھی شام ہے کبھی صبح ہے، کبھی صبح ہے کبھی شام ہے

خلاصة التحقيق :

سنابلی صاحب نے امام بخاری رحمہ اللہ کے دعویٰ پر جس دلیل کو پیش کیا ہے وہ خود سنابلی صاحب ہی کے اصولوں کے مطابق من گھڑت ہے۔ معلوم نہیں کس مقصد کے تحت انھوں نے اپنے ہی اصولوں سے انحراف کر کے اسے بہت ہی اعلیٰ درجے کی صحیح روایت کیوں قرار دے دیا ہے؟
انصاف سے کیسے آخر ماجرا کیا ہے
لطیفہ : سنابلی صاحب کو لطیفے بنانے یا پیش کرنے کا بڑا ذوق ہے، یہی وجہ ہے کہ بات بے بات پر لطیفہ کی ہیڈ نگ دے دیتے ہیں، لیکن ہوتے سب ہی بے ڈھنگے ہیں، اس سلسلے میں پنجاب کا ایک خاص قبیلہ معروف ہے، انھیں مشق کے لیے وہاں جانا چاہیے۔ لطیفے کے طور پر سنابلی صاحب لکھتے ہیں:
”امام بخاری رحمہ اللہ کے دعوے کے خلاف زبیر علی زئی صاحب کوئی روایت پیش نہیں کر سکے لیکن
( یزید بن معاویہ ص 194)
تو عرض ہے کہ جس روایت کو ضعیف ثابت کرنے کے لیے آپ ایڑی چوٹی کا زور لگا چکے ہیں وہ حسن لذاتہ روایت اس دعوے کے خلاف ہی تو ہے۔
آنکھیں ہیں اگر بند تو پھر دن بھی رات ہے
اس میں قصور کیا ہے بھلا آفتاب کا

ترکش کا آخری تیر:

عبد الوہاب ثقفی والی روایت کو اپنے تئیں من گھڑت ثابت کرنے کے لیے سنابلی صاحب نے دو شہادتیں پیش کی ہیں، چنانچہ پہلی شہادت میں صحیح مسلم کی حدیث پیش کی کہ جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دین ہمیشہ بارہ خلفا کے پورا ہونے تک غالب و بلند رہے گا ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی کلمہ ارشاد فرمایا لیکن لوگوں نے مجھے سننے نہ دیا تو میں نے اپنے باپ سے پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا؟ تو انھوں نے کہا: سب خلفا قریش کے خاندان سے ہوں گے۔
اس حدیث میں بارہ خلفا تک دین کی سلامتی اور اس کے قیام کی بات کہی گئی ہے اور یزید بن معاویہ چھٹے نمبر پر خلیفہ تھے۔ اب غور کیجئے کہ جب صحیح مسلم کی حدیث سے ثابت ہو گیا کہ بارہ خلفا تک دین سلامت و قائم رہے گا اور اس بات کی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گواہی دی ہے تو اب اگر کوئی شخص کہتا ہے کہ چھٹا خلیفہ سنت کو تبدیل کر دے گا تو ایسے شخص کے جھوٹے اور سبائی ہونے میں کیا شک رہ جاتا ہے؟!

تبصرہ :

اسے کہتے ہیں ” جذباتی ڈائیلاگ یا پھر كلمة حق أريد بها الباطل کیونکہ اس حدیث کے ذریعے سے سنابلی صاحب یزید کو معصوم عن الخطا ثابت کرنا چاہتے ہیں اور آج تک اس حدیث سے کسی عالم ومحدث نے یہ استدلال نہیں کیا، بیض سنابلی جی ہی کی” فکاہت“ ہے۔
اس حدیث پر ہمارا ایمان ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی حق ہے، لیکن اس سے یہ کہاں ثابت ہو رہا ہے کہ انفرادی طور پر بھی کسی سے کوئی گناہ و خطا سرزد نہیں ہو گی ؟! رافضیوں والا عقیدہ امام معصوم سنابلی صاحب ہی کو مبارک ہو۔ اسی طرح بزعم سنابلی محمد بن حنفیہ کی گواہی سے بھی یزید کا معصوم عن الخطا ہونا ثابت نہیں ہوتا، لہذا ان کی غیر متعلقہ روایات کے ذریعے سے حسن لذاتہ روایت کو من گھڑت ثابت کرنے کی کوشش کبھی بار آور نہیں ہوگی۔ (جاری ہے)

آئینہ اُن کو دکھایا تو برا مان گئے

ہماری تحریر کے جواب میں محترم جناب کفایت اللہ سنابلی صاحب کا ”محبت نامہ“ موصول ہوا جس میں انھوں نے مجھ ناچیز کو مکار، چالاک اور تمیں مارخان جیسے القابات سے نوازا ہے، یہ ان کا ظرف ہے ، ہم تو یہی عرض کریں گے :
کتنے شیریں ہیں تیرے لب، کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا
غصے کا یہ عالم کہ اپنی تحریر میں توازن برقرار نہ رکھ سکے، چنانچہ لکھتے ہیں: ”ہماری بعض تحریروں کو سیاق و سباق سے کاٹ کر محترم جناب ندیم ظہیر صاحب نے ہمارا تضاد دکھانے کی کوشش کی ہے۔ اس پر مجھے یہی لگتا ہے کہ جناب نے خود کو مجھ پر قیاس کیا ہے ۔ “(ص 1)
مذکورہ عبارت سے ان کی غضبناک کیفیت واضح ہے۔
نیز لکھتے ہیں: ” اور اپنی طرح ناچیز کو بھی دور خا سمجھ لیا ہے۔“ (ص 1)
سنابلی صاحب ! ہم نے اگر آپ کو صرف دور خا ثابت کرنا ہو تو وہ کوئی مشکل امر ہیں۔
کیونکہ محض پانچ سطروں کے بعد آپ کی بات بدل جاتی ہے جس کی ایک مثال حاضر ہے۔ آنجناب لکھتے ہیں:
”ہم نے عبدالوہاب ثقفی کو متکلم فیہ بتلانے کے لیے ابن سعد کی جرح ”فیہ ضعف“ ، پیش کی اور بطور تائید یہ بات کہی کہ آخر میں یہ مختلط ہو گئے تھے۔“
پھر اس کے بعد پانچویں سطر پر لکھتے ہیں: ”عرض ہے کہ ہم نے نہ تو عبدالوہاب کو مختلط کہا ہے اور نہ ان پر کی گئی اختلاط کی جرح کو روایت کی تضعیف کے لیے دلیل بنایا ہے ۔“
( یزید بن معاویه ص 239)

پہلے اقرار متصل بعد انکار یہ کیا ہے؟

آخر آپ کس بات پر اترار ہے ہیں کہ اپنی تحریر کوحرف آخر سمجھ کر اس پر کسی دوسرے کی حرف گیری کو پسند ہی نہیں کرتے ؟
ہم نے تو آپ کو آپ ہی کی تحریر کے آئینے میں بات سمجھانے کی کوشش کی تھی لیکن آپ برا مان گئے ، بہر صورت ہم دوبارہ وضاحت کیے دیتے ہیں:
ہم نے اپنے مضمون کے شروع میں سنابلی صاحب کی قلم درازی کے چند نمونے محض اس لیے دکھائے کہ اس سے قبل انھوں نے زبیر علی زئی صاحب کے قلم کی شرافت اور زبان کی پاکیزگی کے چند نمونے کے عنوان سے با قاعدہ ایک باب قائم کیا۔ دیکھئے حدیث یزید محدثین کی نظر میں (ص6) تا کہ موصوف کی اپنی قلمی شرافت اور زبان کی پاکیزگی بھی عیاں ہو اور انھیں احساس ہو کہ جسے یہ خود دوسروں کے لیے لائق طعن سمجھتے ہیں وہی چیز ان میں بھی پائی جاتی ہے۔
پھر سنابلی صاحب کا انصاف اور جرات دیکھیں کہ ” بکواس، مغالطہ،“ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے اور آپے سے باہر وغیرہ کو تو معمولی تنکا جانتے ہوئے قابل تشریح سمجھتے ہیں اور اس کے برعکس اعتقادی وابستگی کی بنا پر ”صوفی“ کہنے کو (حالانکہ یہ اسی طرح ہے جس طرح کوئی محدث کسی کو مرجی یا قدری وغیرہ قرار دے) علامہ سیوطی رحمہ اللہ کو حاطب اللیل کہنا (باوجودیکہ یہ اہل علم کے ہاں معروف ہے اور اس کے موجد حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ قطعاً نہیں ہیں ) اور حنفی عالم کو حنفی مولوی ( جبکہ یہ حضرات خود طحاوی جیسے امام کو متشدد حنفی کہہ کر کنارے لگا دیتے ہیں ) کہنے کو شہتیر اور نا قابل تشریح سمجھتے ہیں !!!
قارئین کرام ! ہم نے جن قلم درازیوں کی نشاندہی کرائی تھی ،سنابلی صاحب نے اپنی عادت مبارکہ کے مطابق طویل قیل و قال، لیت ولعل کے بعد بالآخر تسلیم کر لیا کہ بہر حال حافظ ابن الجوزی سے متعلق بعض سخت کلمات لکھتے وقت وہی کچھ باتیں ذہن میں گردش کر رہی تھیں، جن کا تذکرہ کیا گیا ، یہی سبب تھا جس کی بنا پر بعض مقامات پر سخت کلمات رقم ہو گئے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ چیزیں سخت کلامی کا جواز ہیں، بلکہ ہم صرف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ یہ چیزیں سخت کلامی کی محرک ہوئی ہیں اور ان شاء اللہ اگلے ایڈیشن میں ہم الفاظ کو نرم کر لیں گے ۔
(حافظ ندیم ظہیر صاحب کے اعتراضات کا جائزہ، حصہ اول ص 15)
سنابلی صاحب کا اعتراف اس بات کی علامت ہے کہ ہم نے نہ سیاق وسباق کو کاٹا اور نہ ان کی کسی عبارت ہی کو بدلا ہے ، جس کی مزید وضاحت آگے آرہی ہے۔

سنابلی الزامات کی حقیقت

❀ سنابلی صاحب لکھتے ہیں: ”ندیم ظہیر صاحب اور ان کے استاذ ممدوح دونوں کا یہ خاص اصول وضوابط ہے کہ یہ حضرات اپنے مخالف کی جن باتوں کا کوئی علمی جواب نہیں دے پاتے تو مخالف کی بات کا مفہوم ہی بدل کر پیش کر دیتے ہیں ۔ “ (ص1)
اس بارے میں عرض ہے کہ ہم پر الزام تراشی سے پہلے اپنی تحریری اداؤں پر غور کریں! کیونکہ اگر کسی بات کا مقصد یا وجہ تسمیہ صفحات کی بجائے آپ کے دل و دماغ میں ہو گی تو ہمارے سمیت تمام لوگ وہی مفہوم سمجھیں گے جو صفحات پر منقول ہوگا، معلوم شد کہ
، دلوں کے بھید صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ ہم نے اگر آپ کے کسی واضح ، صریح اور تحریر شدہ مفہوم کو بدلا ہوتا تو آپ یہ صفائیاں :” دراصل، میرا مقصد، وجہ یہ تھی . وہ وجہ نہیں تھی۔“ وغیرہ پیش کرنے کی بجائے تبدیل شدہ مفہوم مع دلیل پیش کرتے جو آپ نہیں کر سکے ،سوائے الزام تراشی کے۔
رہی بات روایات و احادیث اور آثار و اقوال سے استدلال کی تو یہ لازم نہیں کہ آپ کی تقلید میں وہی مفہوم پیش کیا جائے جو آپ نے اخذ کیا ہے۔ جس طرح ان سے آپ کو مفہوم کشید کرنے کا حق ہے تو دوسرے بھی یہ حق استدلال محفوظ رکھتے ہیں اور اسے آپ اپنی الزام تراشی کی بھینٹ نہیں چڑھا سکتے ۔
❀ باقی رہا سیاق و سباق کاٹنے کا الزام تو وہ ہماری تحریر پڑھنے والے ہر قاری پر واضح ہے کہ ہم عموماً ایسی عبارت منتخب کرتے ہیں کہ جو اپنے مفہوم میں صریح اور سیاق و سباق کی محتاج ہی نہ ہو، مثلاً: سنابلی صاحب لکھتے ہیں: ”الغرض جس کے بارے میں یہ کہا جائے کہ ”له رؤية “ ان کو صحابی کہنا کسی بھی صورت میں درست نہیں ہے، اس لیے زبیر علی زئی صاحب کا ابن مطیع کو صحابی کہنا اور ان پر صحابہ کے احکامات منطبق کرنا اصول حدیث کے سراسر خلاف ہے۔ ہمارے ناقص علم کی حد تک پوری تاریخ اسلامی میں کسی ایک بھی ثقہ و معروف محدث نے اس طرح کا موقف اختیار نہیں کیا اور معاصرین میں بھی زبیر علی زئی صاحب پوری دنیا میں واحد شخص ہیں ۔ “
(یزید بن معاویہ ص 72 )

موصوف کچھ صفحات پہلے خود کیا لکھ چکے ہیں؟ ملاحظہ کیجیے:
سنابلی صاحب نے لکھا: ” عرض ہے کہ جن لوگوں نے عامر بن مسعود کو صحابی کہا ہے، ممکن ہے انھوں نے فقط رویت کے لحاظ سے صحابی کہا ہو ، بالخصوص جبکہ حافظ ابن حجر نے کہا: مسعود ابن امیہ کے بیٹے عامر فتح مکہ سے کچھ قبل پیدا ہوئے ، اس لیے انھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سماع کی صحبت حاصل نہیں ہے، اگر چہ رؤیت کے لحاظ سے انھیں صحابہ میں شمار کیا گیا ہے ۔ جن لوگوں کو رویت کے لحاظ سے صحابی کہا گیا ہے، وہ طبقہ ثانیہ میں شمار ہوتے ہیں۔“
( یزید بن معاویہ ص 640)

پہلی بات

له رؤية کی بنا پر صحابی کہنا کسی بھی صورت میں درست نہیں۔
پوری تاریخ اسلام میں اور معاصرین میں بھی زبیر علی زئی صاحب پوری دنیا میں واحد شخص ہیں۔“

دوسری بات

” جن لوگوں کو رؤیت کے لحاظ سے صحابی کہا گیا ہے وہ طبقہ ثانیہ میں شمار ہوتے ہیں۔ “
عرض ہے کہ جن لوگوں نے عامر بن مسعود کوصحابی کہا ہے ممکن ہے انھوں نے فقط رویت کے لحاظ سے صحابی کہا ہو۔“
یہ دونوں باتیں سنابلی صاحب ہی کی ہیں جنہیں پڑھ کر معلوم ہو جاتا ہے کہ کون کیا ہے؟ کیونکہ فرق صاف ظاہر ہے۔
اب اگر کوئی اس بنا پر ہم پر مفہوم بدلنے یا سیاق وسباق کاٹنے کا الزام لگائے تو سمجھ لیں کہ خود اس کا ذہنی سیاق و سباق منتشر ہے۔

تنبیہ:

راقم کے جواب الجواب میں سنابلی صاحب نے محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ سے متعلق جو قلم درازی کی ہے اسے ہم یہاں دو وجہ سے لائق التفات نہیں سمجھتے :
① موضوع پھیل جائے گا، صفحات بڑھ جائیں گے اور قارئین کو حقیقت حال سمجھنے میں دقت کا سامنا رہے گا جو ہمیں گوارہ نہیں ۔
② سنابلی صاحب کے الزامات و اعتراضات کی طرح ظہور احمد دیوبندی نامی شخص نے بھی بہت سی اختراعات کو اپنی کتاب کا حصہ بنا رکھا ہے جن کے جوابات ابوالحسن انبالوی صاحب کے قلم سے ماہنامہ اشاعۃ الحدیث میں دیے جا رہے ہیں، لہذا شیخ محترم ڈالنے کے بارے میں سنابلی صاحب کی قلم درازیوں کا جواب اپنے موقع پر وہاں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔
حدیث یزید سے متعلق سنابلی صاحب نے جو اعتراضات کیے تھے ہم نے انھی کی تحریر کی روشنی میں جوابات دے دیے تھے جس پر انھوں نے از سر نو قلم چلایا اور حسب عادت موضوع کو خوب طول دینے کی کوشش کی لیکن ہم ان کی غیر متعلقہ ابحاث اور بے جا قیل و قال کو نظر انداز کرتے ہوئے سر دست محض حدیث یزید سے متعلقات ہی کو موضوع بحث بنا ئیں گے۔ ان شاء اللہ

پہلا اعتراض: عبدالوہاب ثقفی متکلم فیہ ہیں؟

راویوں پر کلام کے سلسلے میں واضح رہے کہ کتب اسماء الرجال میں گنتی کے چند راویوں کے علاوہ تقریباً ہر راوی پر کچھ نہ کچھ کلام مل جاتا ہے، جیسا کہ محدث ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ لکھتے ہیں:
” کتب جرح و تعدیل سے ادنیٰ واقفیت رکھنے والا بھی جانتا ہے کہ بہت کم ثقہ راوی ہیں جن پر جرح کا کوئی کلمہ نہ ہو ۔ “
(اعلاء السنن فی المیز ان ص 237، 238)
اب کیا ہر کلام اس قابل ہے کہ راوی کے درجہ ثقاہت کو متاثر کرے؟ یقینا نہیں ، کیونکہ ایسے میں علمائے محققین اس قلیل کلام کی بنیاد پر ان راویوں کو متکلم فیہ کی جرح سے گزار کران کے درجہ ثقاہت کو متاثر کرنے کی بجائے ان کا بھر پور دفاع کرتے ہیں۔ اہل علم پر یہ حقیقت مخفی نہیں کہ کتنے ہی راویوں پر کلام کو محدثین نے ”بلا حجة “ قرار دے کر لائق التفات ہی نہیں جانا۔ اگر کوئی کہے کہ اس سے کلام ختم تو نہیں ہو جاتا ، ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ وہ کلام ختم نہیں ہوتا لیکن اس قابل بھی نہیں رہتا کہ راوی کو متکلم فیہ بنا کر اس کے درجہ ثقاہت کو متاثر کر دے۔
اگر سنابلی صاحب کے طرز عمل کو دیکھا جائے تو ہر دوسرا راوی متکلم فیہ ٹھہرے گا۔ دور مت جائیے ان کا مطلوبہ راوی معاذ بن معاذ جن کے بارے میں موصوف رطب اللسان ہیں، ان پر بھی امام احمد الماللہ کا کلام موجود ہے اور سنابلی صاحب کے اصول کے مطابق وہ متکلم فیہ ہیں، لیکن اپنے مطلوبہ راوی کو متکلم فیہ کی زد سے باہر نکالنے کے لیے آنجناب کس طرح دور کی کوڑی لائے ہیں اور ان کا بھر پور دفاع کرنے کی کوشش کی ہے۔
(دیکھئے ندیم ظہیر صاحب کے اعتراضات کا جائزہ ، حصہ دوم ص 10-14)
معاذ بن معاذ پر امام احمد رحمہ اللہ کے کلام سے متعلق وضاحت آئندہ سطور میں ملاحظہ کریں۔
دوسری طرف عبدالوہاب ثقفی ہیں جن کا دفاع ائمہ جرح و تعدیل میں سے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کر رہے ہیں ، آپ نے لکھا:
قلت: عنى بذلك ما نقم عليه من الاختلاط
میں نے کہا: اس (ابن سعد رحمہ اللہ کی فیہ ضعف) کی جرح سے مراد اختلاط ہے۔
(هدي الساري ص، 422 ، 423)
الشیخ ابو اسحاق الحوینی حفظہ اللہ نے فرمایا:
وقد تكلم بعض العلماء فيه من جهة أنه اختلط
بعض علماء نے ان ( عبدالوہاب ) میں اختلاط کی بنا پر کلام کیا ہے۔
(نثل النبال بمعجم الرجال: 2/ 439 )
دار البشائر الاسلامیہ، بیروت کی جانب سے شائع شدہ لسان المیز ان (364/9) میں عبدالوہاب ثقفی کے نام سے پہلے” صح“ کی علامت ہے جس سے متعلق خود حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ومن كتبت قبالة ((صح)) فهو من تكلم فيه بلاحجة
(لسان الميزان 1878 ، طبع دار احياء التراث العربي)
معلوم ہوا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے نزدیک عبدالوہاب ثقفی پر ”فیه ضعف “ کی جرح بے بنیاد ہے یا پھر اختلاط سے متعلق ہے۔

تنبیہ:

یہی ”صح“ کی علامت میزان الاعتدال میں بھی ہے۔ بعض اہل علم کے نزدیک حافظ ابن حجر الماللہ نے امام ذہبی ہم اللہ ہی کی مراد بیان کی ہے، دونوں صورتوں میں سے کوئی سی بھی ہو یہ واضح ہے کہ عبدالوہاب ثقفی پر جرح بے بنیاد ہے۔
مقام حیرت ہے کہ سنابلی صاحب جن کا فن جرح و تعدیل میں کوئی مقام ہے نہ کوئی خدمت وہ معاذ بن معاذ سے متعلق امام احمد رحمہ اللہ کے کلام کو رد کرنے کے لیے اپنی دور کی کوڑی کو حجت اور عبدالوہاب ثقفی کے بارے میں حافظ ابن حجر الالنے کی توضیح کو ” خالی از دلیل“ سمجھتے ہیں ۔ سبحان اللہ
اگر کوئی کہے کہ عبدالوہاب پر اختلاط کی جرح ہے، لہذا وہ متکلم فیہ ہی ہیں تو عرض ہے کہ جس طرح ثقہ متقن وثبت راوی مدلس ہو سکتا ہے اور اس کی وہی روایت مردود ہے جو عن والی ہو اور اس بنا پر اسے کوئی متکلم فیہ نہیں کہتا، اسی طرح ثقہ متقن وثبت وغیرہ راوی مختلط بھی ہو سکتا ہے اور اس کی وہی روایت مردود ہے جو اختلاط سے بعد والی ہو، لہذا ایسی صورت میں اس کے ساتھ متکلم فیہ کی جرح لگا کر اختلاط سے پہلے والی روایات کو مشکوک نہیں بنایا جاسکتا۔
واضح رہے کہ سنابلی صاحب جیسے لوگ متکلم فیہ کا دم چھلا اپنے مفاد کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں کیونکہ جب کسی راوی کو متکلم فیہ قرار دے دیا تو اسے خواہ ضعف کی طرف گھما دو تو چاہے صحیح وحسن کی طرف.
جس کی ایک مثال پیش خدمت ہے، چنانچہ سنابلی صاحب لکھتے ہیں: ”نافع بن جبیر والی موصول روایت میں سوید بن عبد العزیز موجود ہے اور یہ بہت ہی مشہور و معروف ضعیف راوی ہے ۔“
( چار دن قربانی کی مشروعیت ص 20)
راوی کو مشہور و معروف ضعیف قرار دینے کے بعد جب اس کی روایت کو صحیح ثابت کرنے کی ضرورت پیش آئی تو فوراً اس کے ساتھ متکلم فیہ کا دم چھلا جوڑ کر لکھ دیا: ”سلیمان بن موسیٰ سے سوید کی روایت صحیح ہے۔ گرچہ وہ متکلم فیہ ہیں ۔
( ایضاً ص 17)
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
سنابلی صاحب نے کچھ ایسا ہی معاملہ عبدالوہاب ثقفی کے ساتھ کیا اور ایسے زبر دست ثقہ راوی کو تکلم فیہ قراردے کر یہاں بھی اپنا مفاد حاصل کرنے کی کوشش فرما رہے ہیں۔
سابقہ سطور میں ہم واضح کر چکے ہیں کہ عبدالوہاب ثقفی پر کلام بالکل بے بنیاد ہے، اس کے باوجود انھیں بار بار متکلم فیہ باور کرانا انصاف کا خون کرنے کے مترادف ہے،ان پر کلام کی نوعیت محض لفظی ہے معنوی یا اصطلاحی نہیں۔ اسے مزید آپ اس طرح سمجھ سکتے ہیں:
① سنابلی صاحب لکھتے ہیں : ”ابو غالب نامی راوی پر جرح بھی ہوئی ہے اور ان کی توثیق بھی کی گئی ہے۔ زبیر علی زئی صاحب اس راوی کی ایک روایت کوسندہ حسن قرار دینے کے بعد لکھتے ہیں: ”ابو غالب جمہور کے نزدیک موثق ہونے کی وجہ سے صدوق حسن الحدیث راوی ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ کسی راوی سے متعلق جمہور کے خلاف ہر جرح بالکلیہ مردود ہوتی ہے تو پھر ” ابو غالب “ثقہ و صحیح الحدیث کے مرتبے سے گر کر صدوق وحسن الحدیث کیسے ہو گیا اور اس کی روایت ”صحیح“ کے بجائے حسن“ کیوں کر ہوگئی ؟؟
(ندیم ظہیر صاحب کے اعتراضات کا جائزہ ، حصہ دوم ص 5)
سنابلی صاحب اپنے اسی مضمون کے صفحہ (20) پر عبدالوہاب ثقفی سے متعلق لکھتے ہیں :
” عرض ہے کہ یہ متکلم فیہ ہیں ، لیکن ان پر ایسا کلام نہیں ہے جو انھیں ثقاہت کے مرتبے سے گرا کر صدوق وحسن الحدیث کے درجے پر پہنچا دے۔ اس لیے یہ متکلم فیہ ہونے کے باوجود بھی ثقہ ہی کے مرتبہ پر فائز ہیں اور چونکہ یحین نے ان سے احتجاج کیا ہے اور کتب ستہ میں ان کی روایات مذکور ہیں، اس لیے ان کی مرویات صحت میں اعلیٰ درجے ہی کی ہوں گی۔“
قارئین کرام! فرق صاف ظاہر ہے۔اب ہمارا سوال یہ ہے کہ جب کسی راوی سے متعلق ہر بے بنیاد جرح بالکلیہ مقبول ہوتی ہے تو پھر عبدالوہاب ثقفی ثقہ و صحیح الحدیث کے مرتبے سے گر کر صدوق وحسن الحدیث کیوں نہیں ہوئے؟ اور ان کی روایت اعلیٰ درجے کی
صحیح کے بجائے حسن کیوں نہیں ہوئی ؟؟
② یہ کیسا متکلم فیہ راوی ہے کہ تفرد کی صورت میں بھی ان پر کوئی جرح نہیں، چنانچہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے فرمایا:
قلت: الثقفي لا ينكر له إذا تفرد بحديث
(میزان الاعتدال 4/ 21 )
فرض محال اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ عبدالوہاب ثقفی حقیقی متکلم فیہ ہیں تو بھی ان پر کلام کی نوعیت ایسی نہیں کہ ان کا تفرد مخالفت کی صورت میں قبول نہ ہو، لہذا سنابلی صاحب حدیث یزید کی تردید میں جو جال بننے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس میں پہلا اعتراض ہی عبدالوہاب ثقفی پر جڑ دیا ہے تو اس بارے میں انھیں علمی میدان میں منہ کی کھانی پڑے گی ۔ (ان شاء اللہ )
کیونکہ سنابلی صاحب کا قلم کتنا ہی دراز کیوں نہ ہو ، لیکن ابھی دنیا میں منصف مزاج لوگوں کا وجود باقی ہے جو غلط اور سیح کے درمیان بخوبی امتیاز کر سکتے ہیں۔
ہماری اس تمہید کے بعد یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ ہم نے اس سلسلے میں سنابلی صاحب کے جو دو رخ بتائے تھے وہ بالکل صحیح ہیں اور یہ کہ موصوف نے ”متکلم فیہ“ کی اصطلاح کو اپنے مشکل وقت کا سہارا سمجھ رکھا ہے، بالکل اسی طرح جس طرح جناب ظفر احمد تھانوی دیوبندی نے مختلف فیہ کو سمجھ رکھا تھا۔
محدث ارشاد الحق اثری اللہ تھانوی صاحب کے اس رویے سے متعلق کچھ اس طرح اظہار فرماتے ہیں: ”فن رجال“ سے معمولی شد بد ر کھنے والا طالب علم بھی جانتا ہے کہ شاید کوئی بھی ثقہ راوی ایسا نہ ہو جس پر جرح نہ کی گئی ہو یا کوئی ایسا ضعیف نہ ہو جس کو کسی ایک نے بھی ثقہ نہ کہا ہو۔ یوں کیا تمام کو” مختلف فیہ“ قرار دے دیا جائے گا؟“
(اعلاء السنن في الميزان ص 245 )
اور لکھتے ہیں :” مولانا عثمانی نے اس اصول کو اعلاء السنن میں جابجا اختیار کیا اور اکثر و بیشتر اس سے اپنی موید روایات کو سہارا دیا۔“ (أيضًا، ص 238) نیز لکھتے ہیں :
”یہاں بھی دراصل یہی مختلف فیہ کا اصول کارفرما ہے۔“
(أيضًا، ص 244)
اسی طرح لکھتے ہیں: ” غور فرمایا آپ نے کہ یہ مختلف فیہ کا اصول کس قدر مفید فیہ ثابت ہورہا ہے۔“
(أيضاً، ص 254)

تنبیہ:

یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ ہم متکلم فیہ اصطلاح کا انکار نہیں کر رہے بلکہ اس کے صحیح استعمال کا اصرار کر رہے ہیں جس طرح محدث اثری حفظہ اللہ نے مختلف فیہ اصطلاح کے غلط استعمال کی نشاندہی فرمائی ہے۔

سنابلی صاحب کے دورُخ

پہلا رخ:

عبدالوہاب ثقفی کے بارے میں لکھتے ہیں : ”یہ متکلم فیہ ہیں، کیوں کہ ابن سعد نے ان کے بارے میں ”فیہ ضعف“ کہا ہے ۔ “
(یزید بن معاویہ ص 234)

دوسرا رخ :

” ابن سعد جرح میں منفر د ہوں تو ان کی جرح قبول نہیں ہوتی ۔“
(یزید بن معاویہ ص 268)
جب ہم نے یہ دورُخ پیش کیے تو سنابلی صاحب نے راقم کی علمی قابلیت کو خوب کو سا، لیکن بعد میں انھوں نے جو موتی بکھیرے ہیں ان جیسے محقق سے یہ امید نہیں کی جا سکتی تھی۔
اس سلسلے میں ہمارا بنیادی اعتراض یہ تھا کہ ایک جگہ اپنے خلاف آنے والی امام ابن سعد کی منظر و جرح کو رد کر رہے ہیں تو دوسری جگہ اپنے حق میں پیش کر رہے ہیں ، آخر کیوں ؟
اس ضمن میں سنابلی صاحب کی طویل قیل قال کا خلاصہ درج ذیل ہے:
① ہمارے استاذ محترم ( حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ ) نے بھی بعض راویوں کو متکلم فیہ قرار دیا ہے۔
②” الغرض توثیق کے مقابلے میں جروح اگر چہ رد کی جاتی ہیں، لیکن راوی کے مرتبہ ثقاہت کی بحث ہوتو وہاں ان جروح سے استدلال کیا جاتا ہے۔ اس لیے اگر کوئی ایک مقام پر توثیق کے خلاف جارحین کی جروح کو رد کرئے اور دوسرے مقام پر راوی کے مرتبہ ثقاہت پر بحث کرتے ہوئے اُن جروح کا حوالہ دے تو ان دونوں طرزِ عمل میں دور دور تک کوئی تضاد و تعارض قطعاً نہیں ہوتا۔ ندیم ظہیر صاحب یہ بات اچھی طرح سے نوٹ کر لیں کہ عبد الوہاب ثقفی کو ضعیف ثابت کرنے کے لیے ہم نے ابن سعد کی جرح پیش نہیں کی ، بلکہ ان کا مرتبہ ثقاہت بتانے کے لیے ابن سعد کی جرح پیش کی ہے۔ “
(اعتراضات کا جائزہ ، حصہ دوم ص 6،5)

تبصرہ :

ہمارے استاذ محترم رحمہ اللہ نے جن راویوں کو متکلم فیہ کہا ہے تو محدثین کی جروح کی بنا پر ان کا مرتبہ ثقاہت بھی بیان کر دیا ہے ، مثلاً: سنابلی صاحب ہی کے ذکر کردہ راوی ابو غالب، عبید اللہ بن عمر و اور امام بزار وغیرہ۔ ان سب کو صدوق وحسن الحدیث قرار دیا اور اس میں نہ کوئی دو رائے ہے اور نہ کوئی مفاد ہی مقصود ہے، لہذا اس سلسلے میں شیخ زبیر علی زی رحمہ اللہ کو بطور مثال پیش کرنا انھیں قطعاً مفید نہیں، نیز محدث العصر علم اللہ نے عبدالوہاب ثقفی جیسے راوی کو ایسی بے بنیاد جرح کی وجہ سے بھی متکلم فیہ نہیں کہا، باوجود یکہ بہت سے جلیل القدر راویوں پر اس قسم کا کلام موجود ہے۔
① اس کے برعکس سنابلی صاحب نے عبدالوہاب ثقفی کا کون سامر تبہ متعین کیا ہے؟ کیا عبد الوہاب ثقفی اس کلام کے بعد اعلیٰ درجے کی ”صحیح روایت“ سے حسن درجے کی روایت بیان کرنے والے ہو گئے ہیں؟
② کیا اس جرح کی بنا پر وہ ثقہ سے ”صدوق“ کے درجے پر آگئے ہیں؟
③ کیا اب ان کی روایت تفرد کی صورت میں منکر ہوگی؟
اگر ان سب کا جواب نفی میں ہے تو ہمیں بتایا جائے کہ لغوی طور پر ”متکلم فیہ “کے علاوہ آپ نے کون سامرتبہ وضع کیا ہے؟ اس کلام نے عبدالوہاب ثقفی کے درجہ ثقاہت پر کیا اثر ڈالا ہے؟ جب کچھ بھی نہیں تو محض مطلب برآری کے لیے ایک ثقہ راوی کے پیچھے کیوں ہاتھ دھو کر پڑ گئے ہیں؟ اس وضاحت کے بعد سنابلی صاحب کی وہ تفصیل جو انھوں نے اپنی ”دورخی“ کے دفاع میں تحریر کی تھی رائیگاں ہو جاتی ہے کہ فقط مرتبہ ثقاہت بیان کرنے کے لیے ابن سعد رحمہ اللہ کی جرح پیش کی گئی ہے۔ یادر ہے کہ بے بنیاد اور غیر متعلقہ جرح سے مرتبہ ثقاہت میں کوئی فرق پڑتا ہے نہ اس سے کچھ تعین ہی ہوتا ہے۔

معاذ بن معاذ پر امام احمد رحمہ اللہ کا کلام

ہم نے اپنی سابقہ تحریر میں عبدالوہاب ثقفی پر کلام سے متعلق بحث کے دوران میں سنابلی صاحب کو آئینہ دکھایا کہ اگر ہر کلام اس نوعیت کا ہوتا ہے کہ راوی” متکلم فیہ“ بن جاتا ہے تو معاذ بن معاذ بھی متکلم فیہ ہیں، کیونکہ امام احمد رحمہ اللہ نے ان پر کلام کیا ہے۔ ہماری اس بات پر آنجناب نے بہت برا منایا اور غضب ناک کیفیت میں کئی صفحات سیاہ کر دیے جس کا جائزہ حسب ذیل ہے:
في حديثه شيء‘ علمائے محققین کے نزدیک کلمہ جرح ہے جس پر کتب اسماء الرجال شاہد ہیں، آج تک کسی محدث نے "في حديثه شيء“ سے مراد اسلوب کتابت یا منہج و طریقہ نہیں لیا۔ خود سنابلی صاحب نے بھی اسے بطور جرح ہی پیش کیا، چنانچہ لکھتے ہیں: امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (المتوفی: 241) نے کہا:
” فى بعض حديثه شيء“
”ان کی بعض احادیث محل نظر ہیں ۔ “
(یزید بن معاویہ ص 321)
چونکہ موصوف نے یہاں راوی کو مجروح ثابت کرنا تھا، لہذا ” في حديثه شيء“ کو نہ صرف بطور جرح پیش کیا بلکہ ٹھونک بجا کر اس کا ترجمہ بھی محل نظر کیا۔ جب امام احمد اللہ کی یہی جرح معاذ بن معاذ پر ہوئی تو موصوف نے اسے نہ صرف جرح تسلیم کرنے سے انکار کر دیا بلکہ اس کا ترجمہ بھی ”محل نظر“ کی بجائے” ان کی حدیث میں کچھ تھا “کر دیا۔
( اعتراضات کا جائزہ حصہ دوم ص 11)
شاید یہی موقع شناسی ہے
قارئین کرام! مزید آگے بڑھنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ کیا في حديثه شيء‘ کلمہ جرح نہیں؟
① امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ سے زید بن جبیر سے متعلق پوچھا گیا: "أليس فى حديثه شيئ “ تو انھوں نے جواب دیا: "لا والله! إلا ثقة“
(تاریخ یحیی بن معین روایة الدوری:182/2)
امام یحیحی بن معین رحمہ اللہ نے ”في حديثه شيء“ کے مقابلے میں ثقہ کہا اور في حديثه شيء‘ضعف کا انکار کر کے انہیں ثقہ قرار دیا ہے۔
② امام بخاری رحمہ اللہ نے معروف ضعیف راوی محمد بن ثابت العبدی کو کتاب الضغفاء(322)میں نقل کر کے بطور جرح يقال فى حديثه شيء بھی لکھا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ”في حديثه شيء “امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک بھی جرح ہے۔
③ امام احمد رحمہ اللہ سے عامر احول کے بارے میں سوال ہوا تو آپ نے فرمایا: فى حديثه شيء
(العلل ومعرفة الرجال: 1/ 334ت 1503)
دوسری جگہ اسی کے بارے میں فرمایا: ليس بالقوى، ضعيف الحديث
(أيضًا: 1/ 401 ت 1937)
امام احمد رحمہ اللہ کے نزدیک بھی” فى حديثه شيء“ جرح ہی ہے۔ جب واضح ہو گیا کہ علمائے محققین و محدثین کے ہاں في حديثه شيء کلمہ جرح ہے تو اب سنابلی صاحب اسے محض اس لیے تسلیم نہیں کر رہے کہ وہ خود اپنے خود ساختہ اصول کی زد میں آجائیں گے۔
امام احمد رحمہ اللہ کی عبارت درج ذیل ہے:
”كان يحيى القطان، وخالد بن الحارث، ومعاذ بن معاذ لا يكتبون عند شعبة، كان يحيي يحفظ ، ويذهب إلى بيته ، فيكتبها، وكان فى حديثه بعض ترك الأخبار والألفاظ، وكان معاذ يقعد ناحية فى جانب، فيكتب ما حفظ ، وكان فى حديثه شيء ، وكان خالد أيضا يقعد فى ناحية ، فيكتب ما حفظ لا يجتمعون . “
(العلل، رواية المروذي ص 44)
مذکورہ عبارت میں” فى حديثه شيء“ کو نظر انداز کر کے سنابلی صاحب کا یہ باور کو نظر انداز کرانا کہ امام احمد کے اس کلام کا موضوع شعبہ کے تین شاگردوں کی کتابت کی کیفیت اور کتابت کا منہج بتلانا ہے۔ بالکل غلط ہے، کیونکہ امام احمد رحمہ اللہ کا یہاں مقصود کتابت کی کیفیت بتانا نہیں، بلکہ اپنے تبصر فى حديثه شيء وغیرہ کا پس منظر بتانا ہے۔اس کی تفصیل پر غور فرمائیں۔
وكان فى حديثه بعض ترك الأخبار والألفاظ ، منہج ہے یا جرح ؟ اگر کوئی راوی اپنے حافظے سے لکھے اور اس کے لکھے ہوئے میں اخبار والفاظ کا ترک ہو تو کیا محدثین کے ہاں یہ پسندیدہ امر ہے؟ کیا محد ثین اسے بطور خوبی بیان کرتے الحديث ہیں یا بطور خامی؟
یقیناً بطور خامی بیان کرتے ہیں اور یہ خامی ہی جرح کہلاتی ہے اور یہی بتانا امام احمد رحمہ اللہ کا مقصد ہے کیونکہ جرح و تعدیل میں اسی کی اہمیت و حیثیت ہے ورنہ کوئی گھر میں بیٹھ کر احادیث لکھے یا مسجد میں محدثین کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہے۔
② گوشے میں بیٹھ کر لکھنا بھی کوئی جرح نہیں، کیونکہ اگر یہ جرح ہوتی تو امام احمد رحمہ اللہ اس بنا پر خالد کو بھی مجروح قرار دیتے لیکن ایسا نہیں ہے۔ ظاہر ہے خالد اور معاذ بن معاذ نے اپنے اپنے حافظے سے احادیث لکھیں، ان دونوں میں سے جس میں بھی انھوں نے کوئی علت محسوس کی اسی سے متعلق ” فى حديثه شيء‘ لکھ دیا۔ اگر بزعم سنابلی یہ اسلوب منہج کا حصہ ہوتا تو خالد کے تذکرے کے بعد بھی” فى حديثه شيء“ کا اظہار فرماتے ، لیکن ایسا نہیں ہے، کیونکہ یہ جرح ہے جسے سنابلی صاحب زبر دستی اسلوب و کیفیت کا نام دینے کی کوشش میں ہیں۔
③ مذکورہ بالا عبارت میں معاذ بن معاذ سے متعلق ”في حديثه شيء “ كلمه جرح نمایاں ہے، لیکن اس کے باوجود سنابلی صاحب لکھتے ہیں :” انھوں نے معاذ پر سرے سے کوئی جرح ہی نہیں کی ہے۔ “
(اعتراضات کا جائزہ حصہ دوم ص 10)
آنکھیں ہیں اگر بند تو پھر دن بھی رات ہے
اس میں قصور کیا ہے بھلا آفتاب کا
سنابلی صاحب لکھتے ہیں: ”علاوہ ازیں اس بات پر غور کریں کہ امام احمد رحمہ اللہ نے معاذ کا تذکرہ اس کے علاوہ بھی کئی بار کیا ہے، لیکن کبھی ان کے حافظے پر جرح نہیں کی، بلکہ ان کی عظیم الشان توثیق بیان کی ہے۔ “
( اعتراضات کا جائزہ ،حصہ دوم ص 12)
عرض ہے کہ یہ کوئی قاعدہ کلیہ نہیں کہ توثیق کے بعد جرح نہیں ہوسکتی۔ اگر ایسا ہی ہے تو امام ابن سعد رحمہ اللہ نے بھی تو عبد الوہاب ثقفی کو مطلق ثقہ قرار دینے کے بعد ہی فيه ضعف کہا ہے۔ دوسرا یہ کہ معاذ بن معاذ امام احمد رحمہ اللہ کے نزدیک ضعیف تو نہیں کہ ہر جگہ جرح ہی کرتے بلکہ ”في حديثه شيء“ کے باوجود بھی وہ ثقہ ہی ہیں، لیکن سنابلی صاحب کے اصول کے مطابق ” متكلم فيه “ہیں ۔

دوسرا اعتراض: اوثق کی مخالفت؟

ہماری سابقہ سطور سے واضح ہو جاتا ہے کہ اگر عبدالوہاب ثقفی امام ابن سعد رحمہ اللہ کے کلام کی وجہ سے متکلم فیہ ہیں تو معاذ بن معاذ بھی امام احمد رحمہ اللہ کے کلام کی وجہ سے متکلم فیہ ہیں ، لہذا ایسی صورت میں یہ اعتراض خود بخود ختم ہو جاتا ہے کہ عبدالوہاب ثقفی نے ثقہ بالا تفاق کی مخالفت کی ہے، نیز یہ مخالفت قطعاً مضر نہیں ، جیسا کہ خود سنابلی صاحب نے حافظ ابن عبد الہادی رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہے کہ ”جب زیادتی کو روایت کرنے والا حافظ اور ثبت ہو اور جس نے زیادتی بیان نہیں کی ہے، وہ بھی ایسا ہی ہو یا ثقاہت میں اس سے کم تر ہو تو ایسی صورت میں زیادتی قبول کی جائے گی ۔“
(یزید بن معاویہ ص 216)

تیسرا اعتراض: اختلاط

عبدالوہاب ثقفی پر اختلاط کے سلسلے میں جو اعتراض ہے اسے خود سنابلی صاحب نے حل کر دیا ہے، چنانچہ لکھتے :
” عبد الوہاب پر کی گئی جرح اختلاط سے متعلق عرض ہے کہ چونکہ اہل فن نے اختلاط کی جرح کے ساتھ ساتھ یہ بھی صراحت کر دی ہے کہ یہ معاملہ ان کی زندگی کے آخری ایام کا تھا۔ علاوہ بریں کسی بھی محدث نے ان کے اختلاط کو بنیاد بنا کرکسی روایت کو ضعیف نہیں کہا ہے، اس لیے عمومی طور پر ان کی بیان کردہ مرویات کے بارے میں یہی فیصلہ ہوگا کہ وہ ان کے اختلاط سے متاثر نہیں ہیں۔ واللہ اعلم “ (یزید بن معاویہ ص 245)
نیز سنابلی صاحب نے اس اعتراض کے باوجود عبدالوہاب ثقفی کی روایت کو ” بہت ہی اعلیٰ درجے کی صحیح روایت بھی قرار دیا ہے۔ (یزید بن معاویہ ص 19)

چوتھا اعتراض : امام بخاری رحمہ اللہ کی تعلیل

سید نا ابو ذر رضی اللہ عنہ سید نا عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں شام گئے تھے یا نہیں ، ایک مختلف فیہ امر ہے۔ اگر امام بخاری رحمہ اللہ ان کے جانے کا انکار کرتے ہیں تو بہت سے اہل علم ان کے جانے کا اقرار بھی کرتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ دور حاضر کے دو عظیم محدث مذکورہ ( مزعومہ ) علت کے باوجود زیر بحث حدیث کی سند کو حسن قرار دیتے ہیں۔
① امام بخاری ڈالنے کی تعلیل کے باوجود محدث العصر علامہ ناصر الدین البانی ڈالنے نے اس کی سند کو حسن قرار دیا۔
دیکھئے سلسلة صحيحة (329/4 ح 1749)
② محدث العصر حافظ زبیر رضی اللہ عنہ نے بھی اسے ”حسن “ ہی کہا ہے۔ سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ سے متعلق امام ذہبی رحمہ اللہ نے فرمایا:
وقد شهد فتح بيت المقدس مع عمر
یعنی انھوں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مل کر فتح بیت المقدس میں شرکت کی ۔
(سیر اعلام النبلاء: 47/2)
❀ امام ذہبی رحمہ اللہ کے مذکورہ قول کی وجہ سے” المطالب العالية (274/18، 275) طبع دار العاصمہ“ کے محقق الشيخ عبد القادر بن عبد الکریم بن عبد العزیز نے امام بخاری رحمہ اللہ کی تعلیل رد کرتے ہوئے حدیث یزید کوحسن قرار دیا ہے، یعنی نفی پر اثبات کو مقدم کیا۔
❀ حافظ ابن عسا کر رحمہ اللہ نے فرمایا: وشهد فتح بيت المقدس والجابية مع عمر بن الخطاب .
(تاريخ دمشق: 174/66)
جابیہ سے متعلق حافظ ابن قرقول ( متوفی 579ھ) نے فرمایا: من أرض الشام . یعنی جابیہ شام کا علاقہ ہے۔
(مطالب الانوار: 196/2)
❀ امام ابن اثیر رحمہ اللہ نے فرمایا: ثم هاجر إلى الشام بعد وفاة أبى بکر رضی اللہ عنہ ، یعنی سید نا ابوذر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد شام کی طرف ہجرت کر لی۔
(أسد الغابة: 1/ 357)
❀ امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے فرمایا: ثم خرج بعد وفاة أبى بكر رضی اللہ عنہ إلى الشام . سید نا ابوذر رضی اللہ عنہ ، سید نا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد شام کی طرف چلے گئے۔
(الاستیعاب: 253/1)

تنبیه:

ان محدثین نے بلغني يا قیل وغیرہ کے ذریعے سے سید نا ابو ذر بھی ان کے شام جانے کا تذکرہ نہیں کیا ، بلکہ اپنے علم کے مطابق اس بات کا اظہار کیا ہے اور ان کی اپنی بات کو بے سند کہنا مضحکہ خیز ہے۔ اسی طرح یہ محض مورخین نہیں کہ ان کی بات کو تاریخی کہہ کر رد کر دیا جائے بلکہ علم جرح و تعدیل میں بھی ان کے اقوال کو حیثیت دی جاتی ہے۔
باقی رہامذکورہ محدثین کی اس بات کی دلیل کیا ہے تو عرض ہے کہ اگر سید نا ابو ذر رضی اللہ عنہ کے شام جانے سے انکار پر دلیل طلب کرنا جرم ہے تو اقرار پر اس جرم کا ارتکاب کیوں؟ مزید ا سے سنابلی صاحب کے نادر اصول کی روشنی میں سمجھے ، موصوف لکھتے ہیں : متعدد اہل علم نے ان صحابہ کی طرف بالجزم چار دن قربانی کا قول منسوب کیا ہے ممکن ہے ان اقوال کی سندیں ایسی کتب میں ہوں جن تک ہماری رسائی نہ ہو یا جو مفقود ہو چکی ہوں، یادر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صرف کتاب وسنت کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے نہ کہ امتیوں کے اقوال کی بھی اس لیے امتیوں کے اقوال کی صحیح سندوں کا مفقود ہو جانا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے ۔
( چار دن قربانی کی مشروعیت ص 33)
قارئین کرام ! ”آپ سمجھ تو گئے ہوں گے کہ اس عبارت سے کیا مترشح ہو رہا ہے، یعنی متعدد اہل علم نے سید نا ابوذر رضی اللہ عنہ کے شام جانے کا تذکرہ کیا ہے، ممکن ہے ان اقوال کی سندیں ایسی کتب میں ہوں جن تک ہماری رسائی نہ ہو یا جو مفقود ہو چکی ہوں ۔ “
سنابلی صاحب نے یہ نادر اصول گھڑا تو اپنے فائدے کے لیے تھا لیکن یہاں اُلٹ پڑ گیا ہے۔
امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا: ثم لما مات رسول الله صلى الله عليه وسلم ومات أبو بو بكر الله خرج إلى الشام پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تو آپ (سید نا ابوذر رضی اللہ عنہ ) شام کی طرف چلے گئے ۔
(البداية والنهاية : 1857)
ہماری اس بحث سے یہ اظہر من الشمس ہے کہ اگر امام بخاری المائلہ نے عہد خلافت عمر رضی اللہ عنہ میں سید نا ابو ذر رضی اللہ عنہ کے شام جانے کا انکار کیا ہے تو بہت سے اہل علم نے ان کے جانے کا اقرار بھی کیا اور یہی رائج ہے جس بنا پر علامہ ناصر الدین البانی ملالہ سمیت بہت سے محققین نے اس سند کو حسن قرار دیا ہے، لہذا سنابلی صاحب کے سابقہ اعتراضات کی طرح یہ اعتراض بھی لائق التفات نہیں ہے۔

امام بخاری رحمہ اللہ کے دعوی پر سنابلی دلیل اور اس کے شواہد

امام بخاری رحمہ اللہ کے موقف پر سنابلی صاحب نے ایک روایت پیش کی جسے وہ صحیح بخاری و مسلم کی شرط پر ایک بہت ہی اعلیٰ درجے کی صحیح روایت سمجھتے تھے ۔
( یزید بن معاوية ص 191)
اس روایت پر ہمارا ایک بنیادی اعتراض تھا کہ یہ منقطع ہے، کیونکہ امام محمد بن سیرین کی سید نا ابو ذر رضی اللہ عنہ سے ملاقات ثابت نہیں ۔
(ماہنامہ اشاعۃ الحدیث : شمارہ نمبر 1334 ص 43)
اس بنا پر سنابلی صاحب نے ہماری طرف ایک مستقل اصول کی نسبت کر دی کہ ہم ناقد کے ہر قول پر دلیل کے طالب ہیں، جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے قول پر طلب دلیل کا اظہار کیا گیا ہے، حالانکہ اس کا ایک پس منظر ہے وہ یہ کہ اہل علم کی ایک جماعت کے اقوال امام بخاری رحمہ للہ کے قول کے برعکس ہیں اسی وجہ سے ہم نے اسے مختلف فیہ بھی قرار دیا لیکن امام ابو حاتم کے قول: "لم يلق الحسن و محمد بن سيرين أبا ذر الغفاري“ کے خلاف کون سے محدثین ہیں؟ اگر آپ دیگر محدثین سے ثابت کر دیں کہ محمد بن سیرین رحمہ اللہ نے سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ ان سے ملاقات کی اور ان سے سنا ہے تو ہم اسے بھی تسلیم کر لیں گے۔ بہر صورت ہمارے مذکورہ اعتراض کے بعد سنابلی صاحب نے اعتراف کیا کہ ”ہم صاف اعلان کرتے ہیں کہ روایت مذکورہ کی سند صحت کے کسی بھی درجے پر نہیں، بلکہ انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے ۔ “
( اعتراضات کا جائزہ، حصہ دوم ص 22)
سنابلی صاحب نے اپنی بیان کردہ روایت کو ضعیف تسلیم کرنے کے بعد اس کے کچھ شواہد ذکر کیے جن کا جائزہ حسب ذیل ہے۔
سنابلی صاحب کی بیان کردہ ضعیف روایت میں یہ الفاظ : ” چناں چہ جب عمارتیں سلع پہاڑی تک پہنچ گئیں اور یہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ہوا تو ابو ذر رضی اللہ عنہ شام کی طرف نکل گئے ۔“ قابل ذکر ہیں۔
(یزید بن معاویہ ص192)
کیونکہ انھیں خود سنابلی صاحب نے بھی خط کشید و نمایاں کر رکھا ہے اور یہی عبارت بنیادی دلیل بن سکتی تھی ، علاوہ ازیں پوری روایت میں ایسی کوئی بات نہیں ، لہذا شواہد کا جائزہ لیتے وقت یہ الفاظ ذہن نشین رہنے چاہیے۔ سنابلی صاحب نے لکھا: ‘باقی اس روایت کے متن کے لفظی یا معنوی متفرق شواہد کے لیے دیکھیے :
صحیح بخاری: 107/2 :رقم: 1406 .
صحیح مسلم: 448/2 رقم: 648۔
سنن ابن ماجه: 3724/2 ۔
صحیح ابن حبان: 302/13 :رقم 5964 ، 13/ 302 ۔
دلائل النبوة للبيهقي: 401/6 ۔
معجم ابن الاعرابی 751 ۔
الطبقات الكبرى : 4 / 232 ۔
تاريخ المدينة لابن شبة: 1034/3 وغيره
(اعتراضات کا جائزہ حصہ دوم ص 23)

جائزہ:

قارئین ! ہماری نقل کردہ عبارت کو سامنے رکھتے ہوئے ان تمام حوالوں کو چیک کرتے جائیں تو آپ پر واضح ہو جائے گا کہ یہ لفظی یا معنوی شواہد سنابلی صاحب کے مقصود پر پورے نہیں اتر رہے کیونکہ ان تمام روایات میں اس بات کا اشارہ بھی نہیں کہ ”عمارتیں سلع پہاڑی کے برابر عہد عثمان رضی اللہ عنہ میں ہوئیں اور اسی وقت سیدنا ابو ذر یہ شام کی طرف نکلے ۔ “
یہ صریح خلط مبحث ہے اور بعض ثابت شدہ احادیث کے ذریعے سے ایک غیر ثابت بات منوانے کی کوشش ہے، نیز اس سلسلے میں ضعیف روایت یا اپنے” فہم واستدلال “کو شواہد کا نام دینا بھی آنجناب کی سینہ زوری ہے جس کی مزید وضاحت آگے آرہی ہے۔ (ان شاء الله )
سنابلی صاحب نے لکھا: ”آگے ہم ان شواہد کو پیش کرتے ہیں جن کا تعلق اس بات سے ہے کہ عہد عثمانی سے قبل ابوذر رضی اللہ عنہ مدینہ ہی مقیم تھے اور عہد عثمانی ہی میں ابوذر رضی اللہ عنہ شام گئے، چنانچہ لکھتے ہیں: ” زید بن خالد الجرمی کہتے ہیں: میں عثمان رضی اللہ عنہ ان کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ان کے پاس ایک بزرگ آئے جب لوگوں نے انہیں دیکھا تو کہا: یہ ابوذر رضی اللہ عنہ ہیں۔ جب عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھا تو کہا: ہم اپنے بھائی کو مرحبا اور خوش آمدید کہتے ہیں ۔ ابو زر رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ نے ہمیں حکم دینے میں سختی کی ہے۔ اللہ کی قسم اگر آپ مجھے حکم دیں کہ میں زمین گھسٹ کے چلو تو اپنی استطاعت بھر میں یہ بھی کرنے کے لیے تیار ہوں۔ میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک رات بنو فلاں کے باغ کی جانب نکلا، جب آپ پہنچے تو نگاہ اوپر دوڑانے لگے پھر نگاہ سیدھی کی اور کہا: ”میرے بعد تمہاری بربادی ہو۔“ میں رو پڑا اور کہا: اے اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم ! کیا میں آپ کے بعد باقی (با حیات ) رہوں گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، اور جب تم یہ دیکھنا کہ عمارتیں سلع تک پہنچ چکی ہیں تو مغرب (شام) کی طرف روانہ ہو جانا ۔
یہ روایت نقل کرنے کے بعد سنابلی صاحب نے لکھا: ”اس حدیث سے درج ذیل با تیں معلوم ہوئیں
(اعتراضات کا جائزہ ، حصہ دوم ص 23 ، 24)
ہم ان باتوں کو مع جائزہ پیش کرتے ہیں:

اول:

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خاص علامت کے بعد ابو ذر رضی اللہ عنہ کو مدینہ سے شام جانے کا حکم دیا تھا۔“

جائزہ:

جی بالکل! لیکن وہ خاص علامت کب ظہور پذیر ہوئی؟ مذکورہ روایت میں تو در کنار کسی بھی صحیح روایت میں اس کا تذکرہ نہیں ۔

دوم:

” اس علامت کے ظہور سے پہلے ابوذر رضی اللہ عنہ شام نہیں جاسکتے تھے، کیونکہ اللہ کے نبی صلى الله عليه وسلم نے ظہور علامت کے بعد ہی انھیں مدینہ سے نکلنے کا حکم دیا تھا۔ “
جائزہ اس میں محض سکونت ترک کرنے کا ذکر ہے، اس کا یہ مفہوم لینا کہ وہ کسی جہادی مہم یا تجارتی غرض سے بھی مدینہ سے باہر نہیں نکل سکتے تھے بالکل غلط ہے۔

سوم:

اس علامت کے ظہور کے بعد ابو ذر رضی اللہ عنہ کا شام روانہ ہونا طے شدہ ہے، کیونکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھی ایسا حکم دیا تھا۔“

جائزہ:

جی بالکل ! لیکن اس علامت کا ظہور کب ہوا واضح دلیل کا محتاج ہے نہ کہ موصوف کے ذہنی اختراع کا۔

چہارم :

ابوذر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت ہی میں ظاہر کیا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ ہی کی خلافت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی گئی علامت ظاہر ہوئی تھی ، جسے دیکھ کر ابو ذر رضی اللہ عنہ شام روانہ ہو گئے ۔ یعنی عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں ابوذر رضی اللہ عنہ شام گئے تھے، اس سے قبل آپ مدینہ میں ہی مقیم تھے۔“

جائزہ:

مذکورہ ، و دیگر احادیث سے یہ تو ثابت ہے کہ سید نا ابو ذر رضی اللہ عنہ شام سے واپس مدینہ عہد عثمان رضی اللہ عنہ میں آئے لیکن کسی صحیح روایت سے یہ قطعاً ثابت نہیں کہ سید نا ابوذر رضی اللہ عنہ مد ینہ سے شام گئے بھی عہد عثمانی ہی میں تھے ۔
سنابلی صاحب کا یہ استدلال کہ ابو ذر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کو عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت ہی میں ظاہر کیا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ ہی کی خلافت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی گئی علامت ظاہر ہوئی تھی ۔ محل نظر بلکہ غلط ہے، کیونکہ سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ واپسی کے فیصلے پر ناپسندیدگی کا اظہار فرمارہے ہیں۔
اور یہ واضح ہے کہ اگر سید نا ابوذر رضی اللہ عنہ کے لیے عہد عثمان بھی ان سے پہلے مدینہ چھوڑتے وقت یہ علامت ظاہر ہو چکی تھی تو وہ عہد عثمان بھی نہ میں بھی برقرار تھی ، سید نا عثمان رضی اللہ عنہ نے ان عمارتوں کو منہدم تو نہیں کرا دیا تھا، اس لیے آپ نے اس موقع پر یہ حدیث سنائی ، یعنی سیدنا ابوذ رضی اللہ عنہ مد ینہ چھوڑنے کے بعد اپنی وفات تک شام رہنا چاہتے تھے۔
سنابلی صاحب اپنے پہلے شاہد کے بعد جو درحقیقت استدلالات کا شاہکار تھا دوسرا شاہد پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
” ابوذر رضی اللہ عنہ کی بیوی ام ذر رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ اللہ کی قسم ! عثمان رضی اللہ عنہ نے ابوذر رضی اللہ عنہ کو نہیں روانہ کیا بلکہ اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: (اے ابو ذر!) جب عمارتیں سلع تک پہنچ جائیں تو تم یہاں (مدینہ ) سے نکل جانا۔ چناںچہ جب عمارتیں سلع تک پہنچ گئیں اور تجاوز کر گئیں تو ابو ذر رضی اللہ عنہ شام کی طرف نکل گئے ۔ پھر انھوں نے شام سے ابوذر رضی اللہ عنہ ان کی واپسی اور پھر ربذہ ان کی روانگی اور وہاں وفات کا ذکر کیا
۔(دلائل النبوۃ للبيهقي: 401/6 واسناده صحيح ، اعتراضات کا جائزہ ، حصہ دوم ص 25)

جائزہ:

جس روایت کو سنابلی صاحب اسنادہ صحیح کہہ کر بطور شاہد پیش کر رہے ہیں وہ حقیقت میں ضعیف ہے۔
مذکورہ روایت کی سند میں عبد الملک بن محمد ، ابو قلابه الرقاشی صدوق وحسن الحدیث ہونے کے باوجود مختلط بھی تھے ، چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ان سے متعلق فرمایا:
صدوق يخطئ تغير حفظه لما سكن بغداد
(تقريب التهذيب: 4210)
حافظ زین الدین العراقی ایک راوی کے بارے میں فرماتے ہیں:
قلت: وسماع القنطري من أبى قلابة بعد اختلاطه ليس بصحيح . قال ابن خزيمة فى صحيحه: ثنا أبو قلابة بالبصرة قبل أن يختلط و يخرج الى بغداد۔
(ذیل میزان الاعتدال ص 635 رقم: 636)
اسی بنا پر علماء نے یہ تصریح کی ہے کہ بصرہ میں ابوقلابہ الرقاشی سے سماع قبل از اختلاط ہے اور بغداد میں سماع بعد از اختلاط ہے۔
ہماری مذکورہ روایت کو ابو قلابہ الرقاشی سے احمد بن کامل القاضی بیان کر رہے ہیں جنھوں نے بغداد میں سنا ہے۔ دیکھئے معجم المختلطين (ص 216، 217) لہذا یہ روایت ابو قلابہ کے اختلاط کی وجہ سے ضعیف ہے۔ علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے بھی اس روایت کو ضعیف ہی قرار دیا ہے۔ دیکھئے مسلسلة ضعيفة (12/ 489 رقم: 5719) سنابلی صاحب نے امام بخاری رحمہ اللہ کے دعوئی پر پیش کی گئی روایت کو ضعیف تسلیم کرنے کے بعد جس طرح اطناب سے کام لیا، اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ آنجناب کے پاس اس سلسلے میں مزید ضعیف اور غیر متعلقہ روایات کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے اور جس ضعیف روایت کو وہ حسن ثابت کرنا چاہتے ہیں وہ ضعیف شاہد اور غیر متعلقہ روایات کی بنا پر ضعیف ہی ہے، کیونکہ سنابلی صاحب ”جب عمارتیں سلع پہاڑی تک پہنچ گئیں اور یہ عثمان بن عفان علی کی خلافت میں ہوا تو ابو ذر بھی وہ شام کی طرف نکل گئے ۔ “ پر کوئی صحیح وصریح شاہد پیش نہیں کر سکے۔

امام احمد رحمہ اللہ کا رجوع ؟

ہمارا سنابلی صاحب کے بارے میں حسن ظن تھا کہ ان جیسا محقق، غیر ثابت اور بے اصل روایت کو دلیل و بنیاد نہیں بنا سکتا، چنانچہ ہم نے ثابت شدہ قول کو مقدم اور غیر ثابت و بے اصل کو مؤخر کر کے بطور تنبیہ لکھا کہ یہ بالکل غلط ہے، کیونکہ امام احمد رحمہ اللہ سے یزید پر محض لعنت سے متعلق تو خاموشی ثابت ہے لیکن مطلق خاموشی کسی واضح اور صریح قول (دلیل) سے قطعاً ثابت نہیں ہے۔
(ماہنامہ اشاعۃ الحدیث : 134ص41)
ہم نے یہ بات مکمل تحقیق کے بعد پوری ذمہ داری سے لکھی تھی، لیکن اس حسن ظن کے نتیجے میں ہمیں کیا تحائف ملے: ”بدترین خیانت کا ارتکاب ” مغالطے میں ڈالا ندیم ظہیر صاحب نے خیانت و مکاری کرتے ہوئے“ وغیرہ
(اعتراضات کا جائزہ ، حصہ اول میں 25،24)
ان کی زبان انھیں ہی مبارک ہو

امام احمد رحمہ اللہ کے رجوع سے متعلق سنابلی صاحب کی ”صریح دلیل “ کا حال

سنابلی صاحب نے لکھا: دکتور محمد بن ہادی الشیبانی لکھتے ہیں:
في عقيدة أحمد التى كتبت عنه ، وذلك قبل ثلاثة أيام من وفاته: وكان يمسك عن يزيد بن معاوية ويكله إلى الله
امام احمد رحمہ اللہ کی وفات سے تین دن قبل ان کے جو عقائد لکھے گئے ، ان میں ہے کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے یزید بن معاویہ کے بارے میں خاموشی اختیار کرتے تھے اور ان کا معاملہ اللہ پر چھوڑتے تھے۔“
”یہ اس بات کی صریح دلیل ہے کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اخیر میں یزید کے معاملہ کو اللہ کے سپر د کر دیا تھا۔ “
(یزید بن معاویہ 68278)

جائزہ:

دکتور محمد بن ہادی نے جس نسخے سے یہ عبارت نقل کی ہے وہ ہمارے شیخ رحمہ اللہ کے کتب خانہ میں موجود ہے جو دارالکتب العلمیہ ، بیروت سے مطبوع ہے۔ وللہ الحمد
اس عبارت کو نقل کرنے والا کون ہے؟
سنابلی صاحب نے لکھا: ”ظاہر ہے کہ امام احمد کے کسی شاگرد نے اسے قلمبند کیا ہے۔
( اعتراضات کا جائزہ ، حصہ اول ص 25)
یہ بالکل غلط اور باطل ہے، کیونکہ اسے بیان کرنے والے ”اکلوتے“ حافظ ابومحمد رزق اللہ بن عبدالوہاب بن عبدالعزیز تمیمی رحمہ اللہ ہیں جوتقریبا چار سوہجری میں پیدا ہوئے ۔ دیکھیے سیر اعلام النبلاء ( 610/18)
اب بتائیے یہ حافظ ابو محم (241 ہجری) میں فوت ہونے والے امام احمد رحمہ اللہ کے شاگر د کس طرح بن گئے؟
ایک بے اصل اور غیر ثابت روایت کو صریح دلیل قرار دینا سنابلی صاحب جیسے لوگوں کا ہی کام ہوسکتا ہے۔
اب سنابلی صاحب پر لازم ہے کہ اپنی حقیقی اور صریح دلیل کو حافظ ابو محمد رزق اللہ سے لے کر امام احمد رحمہ اللہ تک باسند صحیح ثابت کریں ، ان کا محض یہ کہہ دینا کہ ” دکتور محمد بن ہادی نے طبقات حنابلہ کے جس نسخے سے نقل کیا ہے اس تک ہماری رسائی نہیں ہے لیکن ہمیں ان کی نقل پر اعتماد ہے۔ “ علمی میدان میں کافی نہیں ہے۔
( اعتراضات کا جائزہ، حصہ اول ص 25)
لڑتے بھی ہو اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
ایک رسائی نہیں دوسرا ڈھٹائی دیکھو کہ غیر ثابت و بے اصل قول کو لے کر ہم پر ہی برس پڑے، حالانکہ یہ وہی شخص ہیں جنھوں نے لکھا تھا: ”واضح رہے کہ ہمارا موضوع الزامات پر بات کرنا ہے اس لیے اس باب میں تاریخی روایات میں تساہل درست نہیں ہے بلکہ ایسے معاملات میں تو حدیث سے زیادہ تاریخی روایات میں چھان بین کی ضرورت ہے۔“
(یزید بن معاویه ص 28)
اس سے بڑھ کر تساہل کیا ہوگا کہ ایک غیر معروف معاصر کی ایسی بات پر اعتماد کرتے ہوئے اپنے دعوے کی بنیا درکھ دی کہ جس کا کوئی سر پیر ہی نہیں۔ ہم سنابلی صاحب سے پوچھتے ہیں کہ صحیح روایات کا جھانسہ دے کر غیر ثابت و بے اصل روایات بیان کرنا بدترین خیانت نہیں؟ کیا یہ مغالطہ نہیں؟ بہر صورت جب موصوف کی غیر ثابت روایت صریح تو در کنار دلیل ہی کہلانے کا حق کھو بیٹھی ہے تو ہمارا یہ کہنا: ”امام احمد رحمہ اللہ سے یزید پر محض لعنت سے متعلق تو خاموشی ثابت ہے لیکن مطلق خاموشی کسی واضح اور صریح قول (دلیل) سے قطعاً ثابت نہیں ہے۔ کل بھی بجا تھا اور آج بھی درست ہے۔ وللہ الحمد
سنابلی صاحب نے مزید لکھا: "اگر کوئی اس دوسری روایت سے بھی اس بات پر استدلال کرے کہ امام احمد نے جرح سے رجوع کر لیا تھا تو یہ بالکل درست ہے، کیونکہ امام احمد رحمہ اللہ نے اس روایت کے مطابق یزید کو خیر القرون کی فضیلت کا مصداق بتلایا ہے۔
(اعتراضات کا جائزہ ،حصہ اول ص 25)

جائزہ:

کیا لعنت اور عام جرح میں فرق نہیں؟ جب یہ معلوم ہے کہ لعنت نفرت و عداوت کی آخری حد ہے اور اس سے انتہائی نا پسندیدگی کا اظہار ہوتا ہے تو ایک محدث کا کسی کو لعنت کا مستحق نہ سمجھنے سے یہ کیسے لازم ہو گیا کہ اس کی عام جرح جو پہلے سے موجود ہے وہ بھی ختم ہوگئی!؟ یہ استدلال تو ایسے ہی ہے کہ کسی محدث کے ہاں پہلے سے ضعیف قرار پائے راوی سے متعلق پوچھا جائے کہ کیا وہ کذاب تھا ؟ تو محدث اس کے کذب“ کا انکار کر دے، پھر کوئی اٹھ کر کہہ دے کہ محدث نے اس کے ضعف سے بھی رجوع کر لیا ہے!! جس طرح یہ غلط ہے اسی طرح لعنت سے خاموشی اختیار کر لینے سے یہ سمجھ لینا کہ انھوں نے عام جرح سے بھی رجوع کر لیا ہے بالکل غلط اور مردود ہے۔ باقی رہا سنابلی صاحب کا یہ فرمان : ” ظاہر ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ اگر یزید کی طرف منسوب ظلم ، ظلماً صحابہ کا قتل اور مدینہ میں لوٹ کھسوٹ کو ثابت مانتے تو ہرگز ا سے خیر القرون کی فضیلت کا مصداق نہیں بتلاتے ۔“
( اعتراضات کا جائزہ حصہ اول ص 26،25)
تو عرض ہے کہ اہل ایمان و مسلمان خواہ کتنا ہی گناہ گار کیوں نہ ہو اسے اس فضیلت سے محروم نہیں کیا جاسکتا ، یہی اہل سنت کا موقف ہے۔ کسی کو اس فضیلت سے محروم کرنے کے لیے اسے کافر مشرک یا منافق ثابت کرنا ضروری ہے اور ظاہر ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ کے نزدیک یزید اہل ایمان میں سے اور مسلمان ہی ہے، لہذا سنابلی صاحب کے اس استدلال سے بھی امام احمد رحمہ اللہ کا رجوع قطعاً ثابت نہیں ہوتا۔
آخر میں سنابلی صاحب نے ”دھمکی نما عرض“ کی ہے تو ہماری عرض یہ ہے کہ آپ نے کوئی کسر چھوڑی ہے جو آب آپ کو یہ” دھمکی نما عرض“ لکھنے کا خیال آ گیا، کیا آپ اس سے بھی بڑھ کر قلم کو دراز کر سکتے ہیں؟ جوشاید صریح گالیاں ہی ہوں گی ! بہر حال آپ اپنے شوق پورے کریں ، ہم نے تو پہلے بھی ایک دائرے کے اندر رہ کر نفذ کیا تھا۔اب بھی اس میں مزید بہتری لانے کی بھر پور کوشش کی ہے۔
لاحول ولا قوة الا بالله .

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے