الحمد لله رب العالمين والصلوة والسلام على رسوله الأمين ، أما بعد :
سفر میں دو نمازیں جمع کر کے پڑھنا جائز ہے
اللہ تعالیٰ نے ہر مکلف انسان (جن) پر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں جیسا کہ مشہور و متواتر احادیث اور اجماع امت سے ثابت ہے ۔ نبی ﷺ نے جب معاذ بن جبلؓ کو یمن کی طرف بھیجا تو فرمایا:
إنك تقدم على قوم من أهل الكتاب فليكن أوّل ما تدعوهم إلى أن يوحدوا الله تعالى، فإذا عرفوا ذلك فأخبرهم أن الله فرض عليهم خمس صلوات في يومهم وليلتهم۔
تم اہل کتاب کی ایک قوم کے پاس جا رہے ہو لہذا سب سے پہلے انھیں اللہ تعالیٰ کی توحید کی طرف دعوت دینا، جب وہ اسے سمجھ لیں تو انھیں بتانا کہ اللہ نے اُن پر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔
(صحیح بخاری: ۷۳۷۲ صحیح مسلم : ۱۹)
ارشاد باری تعالی ہے:
إِنَّ الصَّلوةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتبًا مَّوْقُوتًا
بے شک نماز مومنوں پر اپنے مقررہ وقت پر فرض کی گئی ہے۔
(النساء:۱۰۳)
اس عام حکم سے وہ نمازیں مستثنی ہیں جن کا جمع کرنا یعنی ایک نماز کا دوسری نماز کے ساتھ اکٹھا کرکے پڑھنا صحیح احادیث سے ثابت ہے مثلاً :
عرفات میں ظہر و عصر کی نمازیں جمع کرنا ، مزدلفہ میں مغرب وعشاء کا جمع کرنا اور سفر میں دو نمازیں جمع کرنا۔ وغیرہ
اس مختصر اور جامع مضمون میں ان احادیث و آثار کا تذکرہ پیش خدمت ہے جن سے سفر میں دو نمازیں جمع کرنے کا ثبوت ملتا ہے۔
❀سفر میں مطلق جمع بین الصلواتین کا ثبوت
➊ نافع سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ نے فرمایا :
رسول اللہ ﷺ کو جب سفر میں جلدی ہوتی تو مغرب اور عشاء کی نمازیں جمع کر لیتے تھے۔
(موطا امام مالک ۱۳۴/۱ ح ۳۲۷ وسندہ صحیح، روایة عبد الرحمن بن القاسم حقیقی: ۱۹۹ صحیح مسلم :۷۰۳/۳۲)
اس مفہوم کی روایت سالم بن عبداللہ بن عمر عن ابیہ کی سند کے ساتھ بھی موجود ہے۔
(دیکھئے صحیح بخاری : ۱۱۰۶ صحیح مسلم : ۷۰۳/۴۵)
➋ سیدنا عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب سفر میں ہوتے تو ظہر و عصر اور مغرب وعشاء کی نمازیں جمع کر لیتے تھے۔
(صحیح بخاری: ۱۱۰۷ صحیح مسلم: ۷۰۵/۵۱ متر قیم دارالسلام : ۱۶۳۰)
➌ سیدنا انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ سفر میں مغرب اور عشاء کی نمازیں جمع کرتے تھے۔
(صحیح بخاری: ۱۱۸ صحیح مسلم : ۰۴ ۷، دار السلام : ۱۶۳۵)
سیدنا انسؓ نے فرمایا :
نبی ﷺ جب سورج کے زوال سے پہلے سفر (شروع) کرتے تو ظہر کو عصر کے وقت تک مؤخر کر کے دونوں نمازوں کو جمع کرتے تھے اور اگر آپ کے سفر سے پہلے سورج ڈھل جاتا تو ظہر کی نماز پڑھ کر سوار ہو جاتے تھے۔
(صحیح بخاری : صحیح مسلم :۷۰۴)
➍ سیدنا معاذ بن جبلؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے غزوہ تبوک میں ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کی نمازیں جمع کر کے پڑھیں۔
راوی نے اپنے استاذ سے پوچھا: آپ نے ایسا کیوں کیا تھا؟ انھوں نے جواب دیا: آپ کا ارادہ تھا کہ آپ کی اُمت کو حرج (تکلیف) نہ ہو۔
(صحیح مسلم:۷۰۶/۵۳، دار السلام : ۱۶۳۲، وسندہ صحیح)
➎ عمر بن علی بن ابی طالب رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ (سیدنا) علیؓ جب سورج غروب ہونے اور اندھیرا چھا جانے کے وقت سفر کرتے تو (سواری سے) اتر کر مغرب کی نماز پڑھتے پھر شام کا کھانا کھاتے پھر عشاء کی نماز پڑھتے ۔ اس کے بعد سفر کرتے اور فرماتے: رسول اللہ ﷺ اسی طرح کرتے تھے۔
(سنن ابي داود : ۱۳۳۴، وسندہ صحیح ، زوائد المسند ۱۳۶۱ ۱۱۴۳)
➏ سیدہ عائشہؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ سفر میں ظہر مؤخر کر کے اور عصر جلدی پڑھتے تھے اور مغرب مؤخر کر کے اور عشاء جلدی پڑھتے تھے۔
(مسند احمد ۱۳۵/۶ ح ۲۵۰۳۹ وسنده حسن ، مصنف ابن ابی شیبه ۴۵۷/۲ ح ۸۲۳۸، شرح معانی الآثار للطحاوی ۱۶۴/۱)
❀آثار صحابہ و تابعین
➊ جب سیدنا عبداللہ بن عمرؓ کو سفر میں جلدی ہوتی تو شفق غائب ہونے کے بعد مغرب اور عشاء کی نمازیں جمع کر لیتے تھے ۔
(صحیح مسلم:۷۰۳/۴۳)
آپ کو جب (سفر میں) جلدی ہوتی تو مغرب کی تین رکعتیں پڑھ کر سلام پھیر دیتے ، پھر تھوڑی دیر کے بعد عشاء کی اقامت ہوتی تو دو رکعتیں پڑھ کر سلام پھیر دیتے تھے۔ ان دو نمازوں کے درمیان اور عشاء کے بعد درمیانی شب تک کوئی نماز نہیں پڑھتے تھے۔
(صحیح بخاری: ۱۱۰۹)
نافع سے روایت ہے کہ ابن عمرؓ جب سفر کرتے تو ظہر و عصر اور مغرب وعشاء کی نمازیں جمع کر کے پڑھتے تھے ، ایک کو مؤخر کرتے اور دوسری کو معجل (جلدی) کر کے پڑھ لیتے تھے۔
(الاوسط لابن المنذر (۴۲۸/۲ ۱۱۵۴۵، وسندہ صحیح)
➋ ابو عثمان عبدالرحمن بن المہدی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں اور (سیدنا) سعد بن مالک (سعد بن ابی وقاصؓ) اکٹھے جارہے تھے ، ہمیں حج کی جلدی تھی لہذا ہم ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کی نمازیں جمع کر رہے تھے۔ ایک کو مقدم اور دوسری کو مؤخر کر دیتے تھے۔
(شرح معانی الآثار للطحاوی ۱۶۶٫۱، وسندہ حسن)
➌ عبدالرحمن بن یزید رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں حج میں (سیدنا) عبد اللہ بن مسعودؓ کے ساتھ تھا، آپ ظہر مؤخر کرکے اور عصر جلدی پڑھتے تھے، مغرب مؤخر کر کے اور عشاء جلدی پڑھتے تھے اور صبح کی نماز روشنی میں پڑھتے تھے۔
(شرح معانی الآثار ا/ ۱۶۶، وسندہ حسن)
تنبیه
مرفوع احادیث اور جمہور آثار صحابہ و تابعین سے ثابت ہے کہ صبح کی نماز اندھیرے میں پڑھنی چاہئے اور یہی افضل ہے۔
➍ سیدنا ابوموسیٰ الاشعریؓ سفر میں ظہر و عصر اور مغرب وعشاء کی نمازیں جمع کر کے پڑھتے تھے۔
(مصنف ابن ابی شیبه ۳۵۷/۱۲ ح ۸۲۳۵ وسندہ صحیح)
➎ سیدنا ابن عباسؓ کے ایک قول کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر تم سفر میں ہو اور منزل سے دور ہو اور جلدی بھی ہو تو (دو نمازیں) جمع کر کے سفر شروع کرو۔
(السنن الکبری للبہیقی ۱۶۴/۳، وسنده صحیح ، الا وسط لابن المنذر(۴۲۳/۲)
➏ ابو الشعثاء جابر بن زید رحمہ اللہ سفر میں دو نمازیں جمع کرتے تھے۔
(مصنف ابن ابی شیبه ۴۵۷/۲ ح ۸۲۳۷ وسنده حسن)
➐ عطاء بن ابی رباح کے نزدیک سفر میں ظہر اور مغرب کی نمازوں میں تاخیر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
(مصنف ابن ابی شیبه ۴۵۸/۲ ۸۲۴۲ وسندہ صحیح)
➑ امام ابن شہاب الزہری رحمہ اللہ نے سالم بن عبداللہ بن عمر رحمہ اللہ سے سفر میں ظہر و عصر کی نمازیں جمع کرنے کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا: اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
(الموطاً ار۱۴۵ ج ۳۳۰ وسنده صحیح، السنن الکبری۱۶۵/۳)
➒ زید بن اسلم، ربیعہ بن ابی عبد الرحمن محمد بن المنکدر اور ابو الزناد رحمہم اللہ ظہر وعصر کی نمازیں (سفر میں) جمع کر لیتے تھے۔
(السنن الکبری للبیہقی ۱۲۶،۱۶۵٫۳، وسندہ حسن)
➓ سیدنا اسامہ بن زیدؓ کو جب جلدی ہوتی تو سفر میں دو نمازیں جمع کر لیتے تھے۔
(مصنف ابن ابی شیبه ۴۵۸/۲ ۸۲۴۱ وسندہ حسن)
روایت مذکورہ میں سعید بن ایاس الجریری کے شاگرد ابواسامہ حماد بن اسامہ کا ان سے سماع اختلاط سے پہلے کا ہے جیسا کہ صحیح مسلم میں ان کی روایت سے پتا چلتا ہے۔
دیکھئے الکواکب النیرات ص۱۸۵،۱۸۶
روایات مذکورہ اور آثار صحابہ و تابعین سے ثابت ہوا کہ سفر میں دو نمازیں جمع کر کے پڑھنا جائز ہے۔
❀ جمع تاخیر
جمع تاخیر کا مطلب یہ ہے کہ نماز ظہر کو مؤخر کر کے عصر کے وقت میں پڑھا جائے اور اس کے فوراً بعد یا کچھ دیر بعد عصر کی نماز پڑھی جائے۔
➊ سیدنا انسؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ جب سورج ڈھلنے سے پہلے سفر کرتے تو ظہر کو عصر کے وقت تک مؤخر کر دیتے، پھر دونوں نمازیں جمع کر لیتے تھے .. الخ
(صحیح بخاری ۱۱۱ صحیح مسلم :۷۰۴)
➋ سیدنا ابن عمر علیؓ نے سفر میں شفق غائب ہونے سے ایک گھڑی بعد مغرب اور عشاء کی نمازیں جمع کر کے پڑھیں اور فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ اسی طرح کرتے تھے۔
(السنن الکبری للبہیقی ۱۶۰٫۳، وسندہ صحیح)
شفق غائب ہونے کے بعد ستارے اچھی طرح نظر آنے لگے تھے۔
دیکھئے السنن الکبری للبیہقی (۱۶۱،۱۶۰/۳، وسنده صحیح سنن ابی داود : ۱۲۱۷)
معلوم ہوا کہ جمع تاخیر جائز ہے۔
❀ جمع تقدیم
➊ امام قتیبہ بن سعید اثقفی بیان کرتے ہیں:
حدثنا ليث عن يزيد بن أبي حبيب عن أبي الطفيل عامر بن واثلة عن معاذ أن النبي كان في غزوة تبوك إذا ارتحل قبل زيغ الشمس أخر الظهر حتى يجمعها إلى العصر يصليها جميعًا ، و إذا ارتحل بعد زيغ الشمس صلّى الظهر والعصر جميعًا ثم سار.
ہمیں لیث (بن سعد) نے حدیث بیان کی وہ یزید بن ابی حبیب سے وہ ابو الطفيل عامر بن واثلہؓ سے وہ معاذ بن جبلؓ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ غزوہ تبوک میں زوال شمس سے پہلے سفر کرتے تو ظہر کو مؤخر کر کے عصر کے ساتھ دونوں نمازیں جمع کرتے تھے اور اگر زوال شمس کے بعد سفر کرتے تو ظہر و عصر کی نمازیں جمع کر کے سفر شروع کر دیتے تھے.
(مسند احمد ۲۴۲۰۲۴۷۵ ۹۴ ۲۲۰ وسنده صحیح سنن ابی داود : ۱۳۳۰)
اس حدیث کے سارے راوی ثقہ و صدوق ہیں اور کوئی علت قادحہ موجود نہیں ہے۔ اسے درج ذیل علماء نے صحیح وحسن قرار دیا ہے:
◈ ترمذی
(سنن الترمذی:۵۵۳ وقال: «حسن غریب)
امام ترمذی یہ حدیث بیان کر کے فرماتے ہیں:
وبهذا الحديث يقول الشافعي وأحمد وإسحاق يقولان : لا بأس أن يجمع بين الصلوتين فى السفر في وقت إحداهما
اسی حدیث کے مطابق (امام شافعی فتوی دیتے تھے ، احمد بن حنبل) اور اسحاق (بن راہویہ) دونوں کہتے تھے: سفر میں دونوں نمازوں کے اوقات میں سے کسی کے وقت میں (مثلاً ظہر کے وقت میں عصر اور عصر کے وقت میں ظہر) دو نمازیں جمع کرنا جائز ہے۔
(ص ۱۴۵ ۵۵۴)
◈ ابن حبان
(صحیح ابن حبان، الاحسان :۲ ۱۴۵، دوسرا نسخه : ۱۴۵۸)
◈ ابن القیم
(اعلام الموقعین ۴۲۲/۲ وقال: واسناده صحیح و علته واهی ، دوسرا نسخه ص ۵۹۵ مثال :۷۲)
ان کے مقابلے میں ابو حاتم الرازی نے اسے معلول قرار دیا ہے۔
دیکھئے علل الحدیث (۹۱/۱ ح ۲۴۵)
ابو عبداللہ الحاکم نے معلول ہونے کا رد کرتے ہوئے اسے شاذ اور موضوع قرار دیا ہے۔
ان کے مقابلے میں ابو حاتم الرازی نے اسے معلول قرار دیا ہے۔
دیکھئے معرفۃ علوم الحدیث (ص ۱۲۰ ح ۲۹۱ ۲۹۴)
موضوع کے حکم کی تائید کے لئے حاکم نے ابوالحسن محمد بن موسیٰ بن عمران الفقیہ سے نقل کیا ہے کہ ہمیں محمد بن اسحاق بن خزیمہ نے حدیث بیان کی ، انھوں نے فرمایا: میں نے صالح بن حفصویہ النیسا بوری جو صاحب حدیث تھے، سے سنا، میں نے محمد بن اسماعیل البخاری سے سنا: میں نے قتیبہ بن سعید سے کہا: آپ نے یہ حدیث کس کے ساتھ مل کر لکھی ہے ؟ انھوں نے کہا: خالد المدائنی کے ساتھ ۔ بخاری نے کہا : خالد المدائنی محدثین کی کتابوں میں حدیثیں لکھ کر داخل کر دیتا تھا۔
(معرفة علوم الحدیث للحاکم نسخه جدید ص ۳۷۹)
اس تجریحی قصے کا پہلا راوی محمد بن موسیٰ بن عمران الفقیہ الصیدلانی فہم کے باوجود مغفل تھا۔
دیکھئے لسان المیزان (۴۰۲٫۵ ، دوسرا نسخہ ۵۷۲/۶)اور تاریخ نیسابور طبقہ شیوخ الحاکم جمع تحقیق مازن البيروتی (ص ۴۸۱)
اس قصے کا دوسرا راوی صالح بن حفصویہ نا معلوم ہے؟ لہذا یہ قصہ امام بخاری سے ثابت ہی نہیں ہے اور قتیبہ بن سعید جیسے ثقہ حافظ امام کے بارے میں یہ سمجھنا کہ خالد المدائنی (متروک) نے ان کی کتاب میں اضافہ کر دیا تھا اور انھیں پتا بھی نہ چلا سرے سے مردود ہے۔
خلاصہ
یہ کہ درج بالا حدیث صحیح ہے اور نیموی تقلیدی کا آثار السنن میں اسے حدیث ضعیف جدا کہنا غلط و باطل ہے۔
تنبیه
روایت مذکورہ کے سارے راوی ثقہ ہیں۔
دیکھئے کتب اسماء الرجال اور تقریب التہذیب وغیرہ۔
سنن ابی داود میں امام قتیبہ کی بیان کردہ روایت پر کوئی جرح مذکور نہیں بلکہ صرف یہ لکھا ہوا ہے کہ اس حدیث کو صرف قتیبہ اکیلے نے بیان کیا ہے۔ عرض ہے کہ قتیبہ ثقہ ثبت ہیں۔
(تقریب التہذیب: ۵۵۲۲)
صحیحین میں ان کی روایتیں کثرت سے موجود ہیں لہذا ان کا تفرد چنداں مضر نہیں ہے۔
➋ بارش میں سیدنا عبداللہ بن عمرؓ سے جمع تقدیم بھی ثابت ہے جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔ (ان شاء اللہ) اسی پر قیاس کرتے ہوئے اور امام قتیبہ کی بیان کردہ حدیث کو مد نظر رکھتے ہوئے سفر میں جمع تقدیم بھی جائز ہے۔
❀ جمع صوری
ظہر کی نماز کو ظہر کے آخری وقت میں اور عصر کی نماز کو عصر کے اول وقت میں پڑھنا جمع صوری کہلاتا ہے۔ اس کے جائز ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
سیدنا ابن عمرؓ ان سے موقوفا و مرفوعا دونوں طرح جمع صوری کا ثبوت ملتا ہے۔
دیکھئے سنن ابی داود (۱۲۱۲، وسندہ صحیح)
خلاصة التحقیق
یہ ہے کہ سفر میں جمع بین الصلاتین کی تینوں قسمیں: جمع تاخیر ، جمع تقدیم اور جمع صوری پر عمل کرنا جائز ہے۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: کیا سفر اور حضر میں دو نمازیں جمع کی جاسکتی ہیں اور یہ کیسے جمع ہوں گی ؟ انھوں نے فرمایا: ظہر کو مؤخر کیا جائے تاکہ عصر کا اول وقت داخل ہو جائے تو اُتر کر دونوں نمازیں جمع کرلی جائیں اور اسی طرح مغرب کو مؤخر کیا جائے گا۔ اگر جمع تقدیم کرلے تو میرے خیال میں اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ امام اسحاق بن راہویہ نے فرمایا: جس طرح (امام) احمد نے کہا ہے بات اسی طرح ہے سوائے : میرے خیال میں کے، یعنی یہی بات یقیناً صحیح ہے۔
دیکھئے مسائل احمد و اسحاق روایۃ اسحاق(۱۲۳/۱ فقره: ۱۶۴) اور سنن الترمذی (۵۵۴)
’’تو اؐتر کر‘‘ کے الفاظ سے معلوم ہوا کہ جمع بین الصلاتین کا تعلق حضر کے ساتھ نہیں بلکہ سفر کے ساتھ ہے۔
امام شافعی رحمہ اللہ بھی سفر میں جمع بین الصلاتین کے قائل تھے۔
دیکھئے کتاب الام (۷۷/۱) اور سنن الترمذی(۵۵۴)
❀ بارش میں دو نمازوں کا جمع کرنا
سیدنا ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینے میں ظہر و عصر اور مغرب وعشاء کی نمازیں جمع کر کے پڑھیں ، نہ خوف تھا اور نہ بارش تھی۔ ابن عباسؓ سے پوچھا گیا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا؟ انھوں نے فرمایا: آپ کا ارادہ یہ تھا کہ اُمت کو حرج نہ ہو۔
(صحیح مسلم : ۷۰۵ ترقیم دارالسلام :۱۶۳۲)
اس حدیث کے مفہوم سے معلوم ہوا کہ بارش اور حالت خوف میں دو نمازیں جمع کرنا جائز ہے ورنہ اس روایت میں ان کی نفی کی ضرورت کیا تھی؟
➋ صحیح بخاری کی ایک روایت کے راوی امام ایوب السختیانی رحمہ اللہ کا خیال ہے کہ ہوسکتا ہے آپ ﷺ نے بارش میں جمع کی ہو۔
دیکھئے صحیح بخاری (۵۴۳)
➌ جب بارش میں امراء مغرب اور عشاء کی نمازیں جمع کرتے تو عبداللہ بن عمرؓ ان کے ساتھ جمع کر لیتے تھے۔
(الموطألامام مالک ار۱۴۵ ۳۲۹، وسندہ صحیح)
نافع سے روایت ہے کہ ہمارے حکمران جب بارش والی رات مغرب کی نماز لیٹ کرتے اور عشاء کی نماز شفق غائب ہونے سے پہلے جلدی پڑھتے تو ابن عمرؓ ان کے ساتھ پڑھ لیتے تھے اور اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے ، قاسم ( بن محمد بن ابی بکر ) اور سالم (بن عبداللہ بن عمر) کو میں نے دیکھا ہے وہ ایسی رات میں ان کے ساتھ نماز پڑھ لیتے تھے۔
(مصنف ابن ابی شیبه ۲ ۲۳۳ ۶۲۶۶ وسنده صحیح)
اس اثر سے معلوم ہوا کہ بارش میں جمع تقدیم بھی جائز ہے کیونکہ شفق غائب ہونے سے پہلے نماز عشاء کا وقت داخل ہی نہیں ہوتا۔
➍ بارش والی رات میں سعید بن المسیب رحمہ اللہ حکمرانوں کے ساتھ مغرب اور عشاء کی نمازیں جمع کر لیتے تھے۔
(مصنف ابن ابی شیبه ۲۳۴/۲ ح ۶۲۶۷ وسنده حسن)
➎ ابان بن عثمان (بن عفان) ، عروہ بن الزبیر ، ابوبکر بن عبدالرحمن اور ابو سلمہ بن عبدالرحمن بارش والی رات مغرب اور عشاء کی نمازیں جمع کر لیتے تھے اور کوئی بھی اس (عمل) کا رد نہیں کرتا تھا۔
(مصنف ابن ابی شیبه ۲ ۲۳۳، ۲۳۵ ح ۶۲۶۸ وسندہ صحیح)
➏ ابو مودود عبدالعزیز بن ابی سلیمان رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں نے بارش والی رات ابوبکر بن محمد کے ساتھ مغرب اور عشاء کی نمازیں جمع کرکے پڑھیں۔
(مصنف ابن ابی شیبه ۲۳۵/۲، ۶۲۶۹ ، وسندہ حسن)
تنبیه
بعض لوگ شرعی عذر کے بغیر حضر (اپنے گھر ، گاؤں اور شہر) میں دو نمازیں جمع کرتے رہتے ہیں، یہ عمل کتاب و سنت سے ثابت نہیں ہے بلکہ سراسر مخالف ہے لہذا ایسے امور سے ہمیشہ اجتناب کرنا چاہئے۔
سیدنا ابن عباسؓ وغیرہ کے اقوال ” آپ کا ارادہ تھا کہ امت کو حرج نہ ہو‘‘ سے یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ حالت عذر میں رفع حرج کے لئے جمع بین الصلوتین جائز ہے ورنہ ہر نماز کو اس کے اپنے وقت پر پڑھنا ہی فرض ہے۔
وما علینا الا البلاغ