سجدے کے احکام – تفصیلی وضاحت
➊ سجدے سے پہلے تکبیر کہنا
روایت:
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے کا ارادہ کرتے تو پہلے تکبیر کہتے پھر سجدہ کرتے اور جب تشہد سے کھڑے ہوتے تو پہلے تکبیر کہتے پھر کھڑے ہوتے۔”
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی، حدیث 406)
➋ سجدے میں ہاتھوں کو گھٹنوں سے پہلے رکھنا
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان:
"جب تم میں سے کوئی سجدہ کرے تو اونٹ کی طرح نہ بیٹھے بلکہ اپنے دونوں ہاتھ گھٹنوں سے پہلے رکھے۔”
(ابو داود، کتاب الصلاۃ، باب کیف یضع رکبتیہ قبل یدیہ، حدیث 840)
امام نووی اور زرقانی نے اس روایت کی سند کو جید کہا۔
اس کے برعکس روایت:
سیّدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی روایت
(ابو داود، حدیث 838) میں گھٹنے پہلے رکھنے کا ذکر ہے،
جسے امام دارقطنی، بیہقی اور حافظ ابن حجر رحمہم اللہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔
صحیح مؤید روایت:
نافع رحمہ اللہ سے روایت ہے:
"سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما اپنے ہاتھ گھٹنوں سے پہلے رکھتے اور فرماتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہی کرتے تھے۔”
(ابن خزیمۃ، حدیث 726، مستدرک 1/622)
حاکم، ذہبی اور ابن خزیمہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
ائمہ کرام کی آراء:
امام اوزاعی، امام مالک، امام احمد بن حنبل اور شیخ احمد شاکر رحمہم اللہ نے بھی ہاتھ پہلے رکھنے کو ترجیح دی ہے۔
ابن ابی داؤد نے فرمایا:
"میرا رجحان حدیث سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی طرف ہے کیونکہ اس بارے میں صحابہ و تابعین سے بہت سی روایات ہیں۔”
➌ سجدے کے سات اعضاء زمین پر ٹکانا
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان:
"مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں سات ہڈیوں پر سجدہ کروں: پیشانی (اور آپ نے ہاتھ سے ناک کی طرف اشارہ کیا)، دونوں ہاتھ، دونوں گھٹنے اور دونوں قدموں کے پنجے۔ اور ہم اپنے کپڑوں اور بالوں کو اکٹھا نہ کریں۔”
(بخاری، الاذان، باب السجود علی الانف، حدیث 812، مسلم، الصلاۃ، باب اعضاء السجود، حدیث 490)
دیگر ہدایات:
مکمل طور پر تمام سات اعضاء زمین سے لگانا ضروری ہے۔
مردوں کو سجدے کے وقت آستینیں نہ چڑھانی چاہئیں۔
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ میں اپنی ہتھیلیوں اور گھٹنوں کو زمین پر ٹکایا۔”
(ابو داود، حدیث 859، امام ابن خزیمہ نے اسے صحیح کہا)
ناک کو زمین سے لگانا ضروری:
"اس شخص کی نماز نہیں جس کی ناک پیشانی کی طرح زمین پر نہیں لگتی۔”
(دار قطنی، الصلاۃ، باب وجوب وضع الجبھۃ، 1/843، حاکم و ابن جوزی نے صحیح کہا)
تصحیحِ عمل:
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:
"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک صحابی کے پاس آئے جو سجدے میں صرف پیشانی رکھ رہا تھا، ناک نہیں۔ فرمایا: ‘اپنی ناک زمین پر رکھ تاکہ یہ بھی تیرے ساتھ سجدہ کرے۔'”
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی، حدیث 1464)
➍ ہاتھوں کو کندھوں یا سر کے برابر رکھنا
روایت:
سیدنا ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں اپنی ناک اور پیشانی زمین پر لگاتے، بازو پہلو سے دور رکھتے، اور ہاتھ کندھوں کے برابر رکھتے۔”
(ابو داود، حدیث 734، ابن خزیمہ حدیث 640، ترمذی حدیث 304 – صحیح)
روایت:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں اپنا سر دونوں ہاتھوں کے درمیان رکھتے۔”
(ابو داود، حدیث 726، ابن حبان، حدیث 485 – صحیح)
➎ ہاتھوں کی انگلیوں کو جوڑنا
عمل:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع میں انگلیاں کھولتے اور سجدے میں انگلیوں کو ملا کر رکھتے۔”
(حاکم، 1/227، السنن الکبری للبیہقی، 2/112 – صحیح)
➏ دونوں ایڑیاں ملانا
روایت:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں:
"میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدے میں دیکھا، آپ کی دونوں ایڑیاں ملی ہوئی تھیں اور انگلیوں کے سرے قبلہ رخ تھے۔”
(السنن الکبری للبیہقی، حدیث 9172، 2/161، ابن خزیمہ حدیث 654، حاکم 1/228 – صحیح)
➐ سجدے میں کہنیاں اٹھانا اور بازو پھیلانے سے بچنا
فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم:
"جب تم سجدہ کرو تو اپنے دونوں ہاتھ زمین پر رکھو اور کہنیاں اٹھاؤ۔”
(مسلم، حدیث 494)
دیگر ہدایات:
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کلائیاں زمین سے اٹھا کر رکھتے اور پہلو سے دور رکھتے۔”
(بخاری، حدیث 828)
"آپ اتنا بازو کھولتے کہ بغلوں کی سفیدی دکھائی دیتی۔”
(بخاری، حدیث 708، مسلم، حدیث 594)
"اگر بکری کا بچہ گزرنا چاہتا تو گزر سکتا تھا۔”
(مسلم، حدیث 694)
خواتین کو تنبیہ:
بہت سی خواتین سجدے میں بازو بچھاتی، پیٹ رانوں سے جوڑتی اور قدم زمین پر نہیں رکھتیں،
جو کہ سنت کے خلاف ہے۔
فرمان:
"تم میں سے کوئی سجدے میں بازو اس طرح نہ بچھائے جیسے کتا بچھاتا ہے۔”
(بخاری، حدیث 822، مسلم، حدیث 394)
➑ زمین یا چٹائی پر سجدہ کرنا
عمل نبوی صلی اللہ علیہ وسلم:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زمین پر سجدہ کرتے تھے کیونکہ مسجد نبوی میں فرش نہ تھا، سخت گرمی میں کپڑا رکھ کر سجدہ کرتے تھے۔
(بخاری، حدیث 538، مسلم، حدیث 620)
’’رمضان کی 21 ویں رات، بارش کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیچڑ میں سجدہ کیا، پیشانی اور ناک پر کیچڑ کے نشان تھے۔”
(بخاری، حدیث 2040، مسلم، حدیث 1167)
ایک موقع پر سیاہ چٹائی پر سجدہ کیا۔
(بخاری، حدیث 380، مسلم، حدیث 856)
خواتین کے اعتراض کا جواب:
"بی بی کی چھاتی بلند ہوتی ہے” جیسا عذر غلط ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اوڑھنی لازم کی، جو سجدے کے وقت بھی پردہ قائم رکھتی ہے۔
صحابیات نے ہمیشہ مکمل شرم و حیا اور سنت کے مطابق نماز پڑھی۔
➒ سجدہ لمبا کرنا
عمل نبوی صلی اللہ علیہ وسلم:
عام طور پر سجدہ رکوع جتنا لمبا ہوتا تھا۔
بعض اوقات حالات کی وجہ سے لمبا سجدہ ہوتا۔
ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن یا حسین رضی اللہ عنہما کو اٹھا کر نماز شروع کی اور سجدہ لمبا کیا۔
وضاحت:
"لوگوں نے نماز کے بعد پوچھا، آپ نے سجدہ لمبا کیوں کیا؟ فرمایا: میرا بیٹا میری کمر پر سوار ہو گیا تھا، میں نے مناسب نہ سمجھا کہ اسے پریشان کر کے سجدہ سے سر اٹھاؤں۔”
(نسائی، کتاب التطبیق، باب: ہل یجوز أن تکون سجدۃ أطول من سجدۃ، حدیث 1421 – حاکم و ذہبی نے صحیح کہا)