زیادہ نمازوں کی قضائی میں ترتیب کا حکم
تحریر: عمران ایوب لاہوری

زیادہ نمازوں کی قضائی میں ترتیب کا حکم

➊ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ خندق کے دن غروب آفتاب کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ آئے اور کفارِ قریش کو گالیاں دینے لگے اور کہا اے اللہ کے رسول! جب میں نے نماز عصر ادا کی ، سورج غروب ہونے والا تھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
والله ما صليتها فتوضأ وتوضأنا فصلى العصر بعد ما غربت الشمس ثم صلى بعدها المغرب
”اللہ کی قسم میں نے یہ نماز (ابھی تک ) نہیں ادا کی ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضوء کیا اور ہم نے بھی وضوء کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غروب آفتاب کے بعد نماز عصر پڑھی اور پھر اس کے بعد نماز مغرب پڑھی ۔“
[بخاري: 596 ، 598 ، كتاب مواقيت الصلاة: باب قضاء الصلاة الأولى فلأولى ، مسلم: 631 ، ترمذي: 180 ، نسائي: 84/3 ، بغوى: 396 ، ابن حبان: 2889]
➋ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
شغلنا المشركون يوم الخندق عن صلاة الظهر حتى غربت الشمس وذلك قبل أن ينزل فى القتال ما نزل فأنزل الله عزو جل ”وكفى الله المؤمنين القتال“ فأمر رسول الله صلى الله عليه وسلم بلا لا فأقام لصلاة الظهر فصلاها كما كان يصليها لوقتها ثم أقام للعصر فصلاها كما كان يصليها لوقتها ثم أذن للمغرب فصلاها كما كان يصليها فى وقتها
”جنگ خندق کے دن مشرکین نے ہمیں اس قدر مشغول کیا کہ ہم غروب آفتاب تک نمازِ ظہر ادا نہ کر سکے اور یہ صورتحال قتال کے متعلق جو آیت نازل ہوئی تھی اس سے پہلے کی ہے پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما دی کہ ”اس جنگ میں اللہ تعالیٰ خود ہی مومنوں کو کافی ہو گیا“ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا ، انہوں نے نماز ظہر کے لیے اقامت کہی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نماز اس طرح پڑھائی جیسا کہ اس کے وقت میں پڑھاتے تھے ، پھر انہوں نے نماز عصر کے لیے اقامت کہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نماز بھی اسی طرح پڑھائی جیسا کہ اس کے وقت میں پڑھاتے تھے پھر انہوں نے نماز مغرب کے لیے آذان کہی اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نماز بھی اسی طرح پڑھائی جیسا کہ اس کے وقت میں پڑھاتے تھے ۔“
[صحيح: صحيح نسائي: 638 ، كتاب الأذان: باب الأذان للفائت من الصلوات ، نسائي: 661 ، أحمد: 25/3 ، دارمي: 358/1 ، أبو يعلى: 1296 ، ابن خزيمة: 996 ، شرح معاني الآثار: 321/1 ، بيهقي: 402/1]
➌ ایک روایت میں چاروں نمازوں کے رہ جانے کا بھی ذکر ہے جیسا کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
ان المشركين شغلوا النبى صلى الله عليه وسلم عن أربع صلوات يوم الخندق فأمر بلالا فأذن ثم أقام فصلى الظهر ثم أقام فصلى العصر ثم أقام فصلى المغرب ثم أقام فصلى العشاء
”جنگ خندق کے روز مشرکوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قدر مشغول کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چار نمازیں رہ گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا ، انہوں نے آذان دی پھر اقامت کہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز پڑھائی ، پھر انہوں نے اقامت کہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز پڑھائی ، پھر انہوں نے اقامت کہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب کی نماز پڑھائی ، پھر انہوں نے اقامت کہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز پڑھائی ۔“
[صحيح: صحيح نسائي: 639 ، ترمذى: 179 ، كتاب الصلاة: باب ما جاء فى الرجل تفوته الصلوات بأيتهن پيدا ، نسائى: 6/8 ، أحمد: 375/1 ، بيهقي: 403/1]
ان تمام احادیث سے معلوم ہوا کہ فوت شدہ نمازوں کو ترتیب سے ادا کرنا ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ و طریقہ ہے لٰہذا اسی کو اپنانا چاہیے تا ہم اس مسئلے میں علماء نے اختلاف کیا ہے کہ فوت شدہ نمازوں کی قضائی اور وقت کی نماز کے درمیان بھی ترتیب ضروری ہے یا پہلے وقت کی نماز (جس کی جماعت کھڑی ہے ) ادا کی جائے گی اور پھر سابقہ فوت شدہ نمازیں ۔
(ابو حنیفہؒ ، مالکؒ) اس میں بھی ترتیب ضروری ہے۔ امام لیثؒ ، امام زہریؒ ، امام نخعیؒ اور امام ربیعہؒ اسی کے قائل ہیں۔
(شافعیؒ) ایسی صورت میں ترتیب ضروری نہیں کیونکہ مجرد فعل وجوب پر دلالت نہیں کرتا۔
[المغنى: 336/2 ، شرح المهذب: 75/3 ، حلية العلماء فى معرفة مذاهب الفقهاء: 3/2 ، الحاوى: 276/2 ، الهداية: 72/1 ، شرح فتح القدير: 422/1]
(راجح) اگرچه مجرد فعل وجوب پر دلالت تو نہیں کرتا لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کو اپنانے میں ہی خیر و برکت ہے۔

نمازوں کی قضائی میں آذان اور اقامت

فوت شدہ نمازوں کی قضائی کے وقت پہلی نماز کے ساتھ آذان اور باقی نمازوں کے ساتھ صرف اقامت کہنا اور انہیں باجماعت ادا کرنا مشروع ہے جیسا کہ گذشتہ احادیث اس پر شاہد ہیں۔

کافر کی سابقہ نمازوں کی قضائی

اگر کوئی کافر مسلمان ہو جائے تو اس پر اپنی سابقہ زندگی کی متروکہ نمازیں بطور قضاء پڑھنا ضروری نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ :
إن الاسلام يهدم ما كان قبله
”بے شک اسلام حالت کفر میں کیے ہوئے تمام گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔“
[مسلم: 173 ، كتاب الإيمان: باب كون الإسلام يهدم ما قبله ، أحمد: 17112]
اور اس میں یہ حکمت بھی ہو سکتی ہے کہ ان کے دلوں میں اُلفت ڈالنے کے لیے ایسا کہا گیا ہو کیونکہ ممکن ہے کہ اگر نئے مسلمان ہونے والے شخص کو پتہ چلے کہ اسے اپنی سابقہ زندگی کی تمام نمازوں کی قضائی دینی پڑے گی تو وہ اس خوف سے دوبارہ کفر کی طرف لوٹ جائے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1