رہن ، گروی کا بیان
تحریر : حافظ فیض اللہ ناصر

الْحَدِيثُ الْأَوَّلُ: عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا { أَنَّ رَسُولَ [ ص: 529] اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اشْتَرَى مِنْ يَهُودِيٍّ طَعَامًا ، وَرَهَنَهُ دِرْعًا مِنْ حَدِيدٍ . } .
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی سے کھانا (یعنی کھانے کی کوئی چیز ہو وغیرہ ) خریدا اور اس کے پاس اپنی لوہے کی زرہ گروی رکھی ۔
شرح المفردات:
الرهن: رہن سے مراد کسی سے کوئی چیز خریدتے وقت رقم نہ ہونے کی صورت میں اس کے پاس اپنی کوئی چیز بطور ضمانت گروی رکھنا کہ جب مشتری اسے مطلوبہ رقم ادا کر دے گا تو وہ اسے اس کی چیز واپس کر دے گا۔
درع: زیرہ، جسے دورانِ جنگ میں مخالف کے وار سے بچنے کے لیے پہنا جاتا ہے۔
شرح الحديث:
ابن بطال رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ جمیع فقہاء سفر و حضر میں رہن کو جائز قرار دیتے ہیں، جبکہ امام مجاہد رحمہ اللہ اور ضحاک رحمہ اللہ کا قول ہے کہ رہن صرف سفر ہی میں مشروع ہے اور وہ بھی اس صورت میں کہ جب کاتب نہ مل سکے۔ [عمدة القاري للعيني: 68/3]
البتہ پہلا قول راجح ہے، کیونکہ یہ مذکورہ حدیث کے عین مطابق ہے ۔
(280) صحيح البخاري، كتاب الاستقراض ، باب من اشترى بالدين وليس عنده ثمنه ، ح: 2386 – صحيح مسلم ، كتاب ثمنه—: – ، المساقاة ، باب الرهن وجوازه فى السفر و الحضر ، ح: 1603

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے