رکن کو جان بوجھ کر چھوڑ دینے سے نماز باطل ہو جاتی ہے
تحریر: عمران ایوب لاہوری

رکن کو جان بوجھ کر چھوڑ دینے سے نماز باطل ہو جاتی ہے

➊ جیسا کہ وضوء یا نیت وغیرہ کیونکہ یہ بات مسلم ہے کہ شرط کا فقدان مشروط کے فقدان کو مستلزم ہے۔
[الإحكام للآمدى: 121/1 ، الموافقات للشاطبعي: 187/1]
➋ کیونکہ رکن کسی بھی چیز کا وہ حصہ ہوتا ہے جس کے بغیر اس چیز کی تکمیل ناممکن ہو۔
[الفرائض: ص/17]
➌ اگر بھول کر کوئی شخص شرط یا رکن چھوڑ دے تو پھر اس کی دو صورتیں ہیں یا تو بعد میں اسے یاد آ گیا یا نہیں آیا۔ اگر اسے بعد میں بھی یاد نہیں آیا تو ارشاد باری تعالٰی ہے کہ : لا يُكلف اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا اور حدیث نبوی ہے کہ : ان الله تجاوز عن أمتى الخطأ والنسيان …. لٰہذا ان دلائل کے مطابق وہ شخص گنہگار نہیں ہو گا۔ اور اگر اسے بعد میں یاد آ جائے تو شرط چھوڑنے کی صورت میں اسے مکمل نماز دوبارہ ادا کرنا ہو گی کیونکہ کوئی بھی شرط چھوڑ دینے سے نماز بالکل ہوتی ہی نہیں اور اگر رکن رہ گیا تھا تو وہ صرف متروکہ رکن ادا کر کے نماز کی تکمیل کرے اور آخر میں سہو کے سجدے کرے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی عمل حدیث ذوالیدین میں مذکورہ ہے۔ والله اعلم
[بخاري: 714]
◈ فرائض کے متعلق حق بات یہی ہے کہ (ان میں سے کسی کو چھوڑ دینا) نماز کو فاسد نہیں کرتا ۔
[السيل الجرار: 234/1]
بلکہ محض فرائض پر عمل کرنے والا اجر و ثواب اور انہیں چھوڑنے والا گناہ و سزا کا مستحق ہوتا ہے۔
[الاحكام فى أصول الأحكام للآمدي: 91/1 ، المستصفى للغزالي: 27/1 ، الموافقات للشاطبي: 109/1]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1