رویتِ ہلال کے لیے کتنے لوگوں کا چاند دیکھنا ضروری ہے؟

تحریر : حافظ فیض اللہ ناصر

الْحَدِيثُ الثَّانِي: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا – قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – يَقُولُ إذَا رَأَيْتُمُوهُ فَصُومُوا. وَإِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَأَفْطِرُوا. فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَاقْدُرُوا لَهُ .
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سُنا: جب تم اسے (یعنی چاند کو ) دیکھو تو روزے رکھو اور جب تم اسے دیکھو تو چھوڑ دو، لیکن اگر یہ تم پہ ابر آلود ہو جائے تو اس کا اندازہ لگا لیا کرو۔
صحيح البخارى، كتاب الصوم، باب قول النبي: اذا رأيتم الهلال فصوموا واذا رأيتموه فأفطروا ، ح: 1906 – صحيح مسلم، كتاب الصيام، باب وجوب صوم رمضان لرؤية الهلال ، ح: 1080
شرح المفردات:
غُمَّ: بادلوں کی اوٹ میں آ جانے کی وجہ سے دکھائی نہ دے سکے ۔ / واحد مذکر غائب، فعل ماضی مجہول، باب نَصَرَ يَنْصُرُ ۔
فَاقْدُرُوا لَهُ: یعنی شعبان کے تیس دِنوں کی مُدت پوری کر کے رمضان کا روزہ رکھ لیا کرو ۔ / جمع مذکر حاضر، فعل امر معلوم، باب ضَرَبَ يَضْرِبُ ۔
شرح الحديث:
رویتِ ہلال کے لیے تمام لوگوں کا چاند دیکھنا ضروری نہیں، بلکہ بعض کا دیکھنا ہی کفایت کر جائے گا۔ گواہی کے جس عدد سے حقوق ثابت ہوتے ہیں وہ دو عادل لوگوں کی گواہی ہے ، مگر ہلال رمضان کے ثبوت کے لیے ایک عادل شخص کی گواہی بھی معتبر ہے۔ [ارشاد الساري للقسطلاني: 356/3]
اگر بادل ابر آلود ہو اور چاند دکھائی نہ دے سکے تو احتیاطاً رمضان کی نیت کر کے روزہ رکھ لینا واجب ہے، اگر تو بعد میں چاند ظاہر ہو گیا تو وجوب کی ادائیگی ہو جائے گی، لیکن اگر وہ شعبان ہی کا آخری دن ثابت ہوا، تو یہ اس کے لیے نفل ہو جائے گا۔ البتہ روزے دار کو بالجزم ہو کہ یہ رمضان ہی کا روزہ ہے، وگرنہ شک کے دن کا روزہ جائز نہیں ہے۔ [كشف اللثام للسفاريني: 495/3]
اور بالجزم اسی طرح پتہ چل سکتا ہے کہ شعبان کے دنوں کی گنتی کا حساب لگا لیا جائے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
لنکڈان
ٹیلی گرام
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: