روایت [امام کی قرآت مقتدی کو کافی ہے] کا تحقیقی جائزہ

تحریر: غلام مصطفی ظہیر امن پوری

مقتدی کے لیے امام کی قرات !

روايت:
مَنْ كَانَ لَهُ إِمَامٌ فَقِرَاءَةُ الْإِمَامِ لَهُ قِرَاءَةٌ
(جو امام کی اقتدا میں ہو، تو امام کی قرآت مقتدی کو کافی ہے۔) کی بہت ساری سندیں ہیں ، سب ضعیف ہیں۔
➊ امام بخاریؒ (۲۵۶ھ) فرماتے ہیں:
هَذَا خَبَرٌ لَمْ يَثْبُتُ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَهْلِ الْحِجَازِ وَأَهْلِ الْعِرَاقِ وَغَيْرِهِمْ لِإِرْسَالِهِ وَانْقِطَاعِه.
’’ یہ حدیث حجاز اور عراق وغیرہ کے اہل علم کے ہاں ثابت نہیں، کیونکہ یہ مرسل اور منقطع روایت ہے۔‘‘
(جزء القراءة، ص 8)
➋ (علامہ ابن حزمؒ ۴۵۳ھ) نے اس روایت کو ساقط قرار دیا ہے۔
(المحلى بالآثار : 273/2)
➌ (حافظ ابن الجوزیؒ ۵۹۷ھ) فرماتے ہیں:
هذَا حَدِيثٌ لَّا يَصِحُ … وَلِهَذَا الْحَدِيثِ طُرُق … لَيْسَ فِيهَا مَا يَثْبُتُ.
’’یہ حدیث ثابت نہیں۔ اس کی کئی سندیں ہیں۔ ان میں کوئی بھی ثابت نہیں ۔ ‘‘
(العلل المتناهية : 1 /431)
➍ (حافظ نوویؒ ۶۷۶ھ) نے اسے ’’ضعیف‘‘ کہا ہے۔
(خلاصة الأحكام : 377/1)
➎ (حافظ ابن حجرؒ ۸۵۲ھ) فرماتے ہیں:
حَدِيثٌ ضَعِيفٌ عِنْدَ الحُفَّاظ.
’’یہ حدیث محدثین کے ہاں ضعیف ہے۔‘‘
(فتح الباري : 242/2)
نیز فرماتے ہیں:
لَهُ طُرُقٌ عَنْ جَمَاعَةٍ مِّنَ الصَّحَابَةِ وَكُلُّهَا مَعْلُولَةٌ .
’’اس حدیث کی کئی سندیں صحابہ کی ایک جماعت سے مروی ہے، ساری کی ساری معلول (ضعیف) ہیں ۔‘‘
التلخيص الخبير : 569/1)
➏ علامہ ابن ابی العز حنفیؒ (۷۹۲ ھ) فرماتے ہیں:
مِنْ طُرُقِ، كُلُّهَا ضِعَافٌ.
’’اس حدیث کی کئی سندیں ہیں ، سب ضعیف ہیں۔‘‘
(التنبيه على مشكلات الهداية : 592/2)
➐ حافظ ذہبیؒ (۷۴۸ھ) فرماتے ہیں:
الْجَمِيعُ مِنَ الدَّارَ قُطَنِي وَاهِيَةٌ.
’’امام دار قطنیؒ کی ذکر کردہ اس حدیث کی تمام سندیں ضعیف ہیں۔‘‘
(تنقيح التحقيق : 155/1)
➑ علامہ ابن قیمؒ (۷۵۱ ھ) نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے۔
(إعلام الموقعين : 235/2)
➒ حافظ ابن کثیرؒ (۷۷۴ھ) فرماتے ہیں:
قَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ طُرُقٍ، وَلَا يَصِحُ شَيْءٌ مِّنْهَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ .
’’یہ حدیث کئی سندوں سے مروی ہے، لیکن نبی ﷺ سے کوئی بھی ثابت نہیں۔‘‘
(تفسير ابن كثير : 109/1 ، ت سلامة)
➓ علامہ مناویؒ (۱۰۳۱ھ ) فرماتے ہیں:
الْحَدِيثُ ضَعِيفٌ مِنْ سَائِرِ طُرُقِهِ.
’’یہ حدیث تمام سندوں سے ضعیف ہے۔‘‘
(فيض القدير : 208/6)
⓫ علامہ سندھی حنفیؒ ( ۱۱۳۸ھ ) نے اس حدیث کو ’’ضعیف‘‘ کہا ہے۔
(حاشية السندهي على سنن ابن ماجه : 278/1)
⓬ امیر صنعانیؒ (۱۱۸۲ھ) نے اس روایت کو ’’ضعیف‘‘ کہا ہے۔
(التنوير شرح الجامع الصغير : 370/10)
اب اس روایت کا مختصر تحقیقی جائزہ پیش خدمت ہے:

سیدنا جابر بن عبد الله على التختمان

(سنن ابن ماجه : 850 حلية الأولياء لأبي نعيم الأصبهاني : 334/7)
اس کی سند سخت ضعیف ہے۔
➊ جابر جعفی ’’متروک وکذاب‘‘ ہے۔
➋ ابوالزبیر محمد بن مسلم بن تدرس مکی مدلس ہیں ، سماع کی تصریح نہیں کی۔
➌ سیدنا جابر بن عبد اللہؓ ظہر وعصر میں امام کے پیچھے سورت فاتحہ کے ساتھ ساتھ کوئی سورت بھی پڑھتے تھے۔
(سنن ابن ماجه : 843، وسنده صحيح)
➍ یہ روایت فاتحہ کے علاوہ قرات پر محمول ہے، جیسا کہ صحیح احادیث اس موقف کی تائید کرتی ہیں۔
تنبیہ:
مسند الامام احمد (۱۴۶۴۳) اور مصنف ابن ابی شیبہ (۳۸۰۲) میں جابر جعفی کا واسطہ گر گیا ہے، یہ المزید فی متصل الاسانید کی قبیل سے ہے۔ الحسن بن صالح بن صالح بن جی نے ابوز بیر سے سماع کی تصریح نہیں کی ، لہذا اس طریق کو بھی جابر جعفی پرمحمول کیا جائے گا۔
سنن دار قطنی (۱۲۵۳) میں جابر جعفی کی متابعت لیث بن ابی سلیم نے کی ہے۔ لیث بن ابی سلیم ضعیف مختلط اور مدلس راوی ہے، نیز اس میں ابوالز بیر کا عنعنہ بھی ہے۔
علامہ ابن قدامہ مقدسیؒ (۶۸۲ھ ) کا یہ کہنا کہ ’’اس حدیث کی سند صحیح متصل اور راوی ثقہ ہیں ۔‘‘
( الشرح الکبیر : ۱۱/۲) خطا ہے۔

عن جابرؓ:

(سنن الدارقطني : 1233)
یہ حدیث ذکر کرنے کے بعد امام دارقطنیؒ فرماتے ہیں:
لَمْ يُسْلِدُهُ عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عَائِشَةَ غَيْرُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْحَسَنُ بْنُ عُمَارَةَ وَهُمَا ضَعِيفَان .
’’موسیٰ بن ابی عائشہ سے اس حدیث کو متصل بیان کرنے والے صرف ابو حنیفہ اور حسن بن عمارہ ہیں، یہ دونوں ضعیف ہیں۔‘‘
❀ امام ابو حاتمؒ نے اس روایت کو سید نا جابرؓ سے موصول بیان کرنے کو خطا قرار دیا ہے۔
(علل الحديث لابن أبي حاتم : 282)
امام یحییٰ بن معینؒ فرماتے ہیں:
لَيْسَ هُوَ بِشَيْءٍ۔
’’یہ حدیث کچھ نہیں ہے۔‘‘
(من كلام أبي زكريا يحيى بن معين : 397)
مسند احمد بن منیع (اتحاف الخيرة المھرۃ للبوصیری : ۱۰۷۵) میں ابوحنیفہ اور حسن بن عمارہ کی متابعت سفیان ثوری اور شریک بن عبد اللہ قاضی نے کی ہے۔ یہ دونوں مدلس ہیں، سماع کی تصریح نہیں کی، نیز اس سند میں المزید فی متصل الاسانید کا مسئلہ بھی ہے۔
تنبیہ:
عبد الله بن شداد بن ہاد نے ابو الولید جو کہ مجہول ہے (سنن دار قطنی : ۱۶۳۶)، کا واسطہ ذکر کیا ہے۔ یہ بھی المزید فی متصل الاسانید کی قبیل سے ہے ۔ عبد اللہ بن شداد نے جابر بن عبد اللہ سے سماع کی تصریح نہیں کی ، لہذا یہ سند ابو الولید کے واسطہ پر محمول ہے۔
یہ روایت عبد اللہ بن شداد سے مرسل بھی آئی ہے۔
(الخلافيات للبيهقي : 1862 ، القراءة خلف الإمام، ص 440)
امام دار قطنیؒ فرماتے ہیں کہ اس روایت کا مرسل ہونا ہی راجح اور درست ہے۔
(سنن الدارقطني : 325/1)

عن جابرؓ:

(سنن الدارقطني : 1501)
سند سخت ضعیف ہے۔
❀ امام دار قطنیؒ فرماتے ہیں:
هذَا حَدِيثٌ مُنْكَرٌ، وَسَهْلُ بْنُ الْعَبَّاسِ مَتْرُوكَ .
’’یہ حدیث منکر ( سخت ضعیف) ہے، سہل بن عباس متروک راوی ہے ۔ ‘‘
❀ امام حاکمؒ فرماتے ہیں:
هَذَا الْخَبَرُ بَاطِلٌ بِهَذَا الْإِسْنَادِ .
’’ یہ حدیث اس سند سے باطل ہے۔‘‘
(الخلافيات للبيهقي : 1855)

عن جابرؓ:

(الخلافيات للبيهقي : 1857)
سند سخت ’’ضعیف‘‘ ہے۔
➊ ابو اسحاق محمد بن احمد بن اسحاق مالینی کی توثیق ثابت نہیں۔
➋ محمد بن اشرس متروک الحدیث راوی ہے۔
➌ عبد اللہ بن لہیعہ ضعیف مختلط اور مدلس ہے۔
➍ ابوالز بیر مکی کی تدلیس ہے۔

عن جابرؓ:

(لسان الميزان لابن حجر : 220/3)
❀امام دار قطنیؒ فرماتے ہیں:
هَذَا بَاطِلٌ عَنْ مَالِكٍ، لَا يَصِحُ عَنْهُ، وَلَا عَنْ وَهْبٍ، وَفِيهِ عَاصِمُ بْنُ عِصَامٍ لَا يُعْرَفُ .
’’یہ امام مالکؒ سے منسوب باطل روایت ہے، امام مالکؒ اور امام وہب بن کیسانؒ سے ثابت نہیں۔ عاصم بن عصام غیر معروف ہے۔‘‘
(التعليق المسجد العبد الحي : 419/1)

فائدہ:

❀سید نا جابر بن عبد اللهؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
كُلُّ صَلَاةٍ لَا يُقْرَأُ فِيهَا بِأُمِّ الْكِتَابِ فَهِيَ خِدَاجٌ، إِلَّا أَن يَكُونَ وَرَاءَ الْإِمَامِ .
’’ جس نماز میں سورت فاتحہ نہ پڑھی جائے ، وہ ناقص ہے ، سوائے (اس نماز کے ) جو امام کے پیچھے ہو ۔ ‘‘
(سنن الدارقطني : 1241، الخلافيات للبيهقي : 1834)
سند ضعیف ہے۔
❀امام دارقطنیؒ فرماتے ہیں:
يَحيَى بْنُ سَلَّامٍ ضعیف.
’’ یحییٰ بن سلام ضعیف ہے۔‘‘
❀ امام بیہقیؒ فرماتے ہیں:
كَثِيرُ الْوَهم.
’’ بکثرت وہم کا شکار ہو جانے والا ۔‘‘
(القراءة خلف الإمام، تحت الحديث : 349)
❀سید نا جابر بن عبد اللہؓ فرماتے ہیں:
مَنْ صَلَّى رَكْعَةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ، فَلَمْ يُصَلِّ إِلَّا وَرَاءَ الْإِمَامِ .
’’ جس نے ایک رکعت بھی بغیر فاتحہ کے پڑھی، اس نے نماز نہیں پڑھی، الا کہ امام کی اقتدا میں ہو۔‘‘
(موطأ الإمام مالك : 84/1، وسنده صحيح)
یہ سیدنا جابرؓ کا اجتہاد ہے۔ مرفوع احادیث اور آثار صحابہ میں اس کی تائید نہیں ہوتی ۔ صحابی کا قول وفعل جب صحیح حدیث کے موافق نہ ہو اور جمع وتطبیق کی بھی کوئی صورت نہ ہو، تو وہ حجت نہیں ہوتا ۔
یہ روایت سیدنا جابربن عبد اللہؓ سے مرفوع بھی مروی ہے۔
(القراءة خلف الإمام للبيهقي : 350 الخلافيات للبيهقي : 1837)
❀امام حاکمؒ، فرماتے ہیں:
وَهِمَ الرَّاوِي عَنْ إِسْمَاعِيلَ السُّدِّي فِي رَفْعِهِ بِلَا شَكٍّ فِيهِ .
’’ بے شک اس روایت کو مرفوع بیان کرنے میں اسماعیل سدی کے شاگرد کو و ہم ہوا ہے۔‘‘
(القراءة خلف الإمام للبيهقي : 350، الخلافيات للبيهقي : 1837)
اس طرح ایک دوسری سند سے بھی مرفوع آتی ہے۔
(القراءة خلف الإمام : 353)
یہ جھوٹی سند ہے، اس میں محمد بن اشرس ’’متروک و کذاب‘‘ ہے۔
لہذا یہ روایت موقوف ہی درست ہے۔
سیدنا ابو ہریرہؓ:
(سنن الدارقطني : 1264 ‘ 1504)
سند ضعیف ہے۔
❀ امام دار قطنی اسے خود فرماتے ہیں:
أَبُو يَحْيَى التَّيْمِيُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ ضَعِيفَان.
’’ابویحییٰ ( اسماعیل بن ابراہیم ) تمیمی اور محمد بن عباد دونوں ضعیف ہیں ۔‘‘
❀ سید نا ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ صَلَّى صَلَاةٌ لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَهِيَ خِدَاجٌ ثَلَاثًا غَيْرُ تَمَامٍ، فَقِيلَ لِأَبِي هُرَيْرَةَ : إِنَّا نَكُونُ وَرَاءَ الْإِمَامِ؟ فَقَالَ : اقْرَأْ بِهَا فِي نَفْسِكَ .
’’ جس نے سورت فاتحہ کے بغیر نماز پڑھی، وہ نماز ناقص ہے، ناقص ہے، ناقص ہے، مکمل نہیں ہے۔ تو سیدنا ابو ہریرہؓ سے پوچھا گیا کہ ہم امام کے پیچھے ہوتے ہیں؟
فرمایا:
سورت فاتحہ آہستہ سے پڑھیں ۔‘‘
(موطأ الإمام مالك : 84/1، صحیح مسلم : 395)
❀ سید نا ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں:
إِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَاقْرَأْ بِهَا وَاسْبُقَهُ .
’’جب امام سورت فاتحہ پڑھے، تو آپ بھی پڑھیے اور امام سے سبقت لے جائیے۔‘‘
(جزء القراءة للبخاري : 146، وسنده حسن)
❀ علامہ نیموی حنفی نے اس کی سند کو ’’حسن‘‘ کہا ہے۔
(آثار السنن : 358)

فائدہ:

❀ سیدنا ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
كُلُّ صَلَاةٍ لَا يُقْرَأُ فِيهَا بِأُمِّ الْكِتَابِ فَهِيَ خِدَاجٌ إِلا صَلَاةٌ خَلْفَ إِمَامٍ .
’’جس نماز میں سورت فاتحہ نہ پڑھی جائے، وہ ناقص و نا تمام ہے، سوائے اس کے کہ امام کی اقتدا میں ہو۔‘‘
(القراءة خلف الإمام للبيهقي، ص 194 ، الخلافيات للبيهقي : 1931)
سند ضعیف و منکر ہے۔
عبدالرحمٰن بن اسحاق مدنی اگرچہ حسن الحدیث ہے، مگر اس کی بعض منکر روایات بھی ہیں۔
❀ امام بخاریؒ فرماتے ہیں:
ليْسَ مِمَّنْ يُعْتَمَدُ عَلَى حِفْظِهِ .
’’اس کے حفظ پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا ۔‘‘
(تاريخ ابن عساكر : 198/34، وسنده حسن)
❀ امام ابو حاتم رازیؒ فرماتے ہیں:
يُكْتَبُ حَدِيثُهُ وَلَا يُحْتَجُ بِهِ .
’’ اس کی حدیث میں اضطراب ہے۔‘‘
(الجرح والتعديل : 213/5)
امام ابن عدیؒ فرماتے ہیں:
فِي حَدِيثِهِ بَعْضُ مَا يُنْكَرُ، وَلَا يُتَابَعُ عَلَيْهِ .
’’اس کی حدیث میں بعض منکر روایات ہیں، ان پر متابعت نہیں کی گئی۔‘‘
(الكامل في ضعفاء الرجال : 495/5)
❀ حافظ ذہبیؒ نے بھی ایک دوسری روایت کو ’’منکر‘‘ کہا ہے۔
(میزان الاعتدال : 548/2)
عبد الرحمٰن بن اسحاق مدنی کی مذکور بالا روایت بھی منکر ہے، کیونکہ اس کی یہ روایت حدیث ابو ہریرہؓ ( صحیح مسلم: ۳۹۵) کے خلاف ہے۔
❀ امام بیہقیؒ اس روایت کے بارے میں فرماتے ہیں:
هذَا خَبَرٌ فِيهِ نَظَرْ لَا يُثْبِتُهُ أَهْلُ الْمَعْرِفَةِ بِالْحَدِيثِ.
’’ یہ حدیث محل نظر ہے، اسے محدثین ثابت نہیں سمجھتے ۔‘‘
(القراءة خلف الإمام، ص 194)
❀ سید نا ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا .
’’جب امام قرات کرے ، تو آپ خاموش رہیں۔‘‘
(صحیح مسلم معلقا، تحت الحديث : 404)
یہ الفاظ غیر محفوظ ہیں۔
راوی کا وہم و تخلیط ہیں۔
علل حدیث کے کبارائمہ ان الفاظ کو خطا قرار دیتے ہیں۔
بشرط صحت ان الفاظ کو فاتحہ کے بعد والی قرات پر محمول کیا جائے گا۔
❀ امام یحییٰ بن معینؒ (۲۳۳ھ) فرماتے ہیں:
لَيْسَ بِشَيْءٍ وَلَمْ يُثْبِتُهُ وَوَهُنَهُ .
’’یہ الفاظ بے اصل ہیں (امام عباس دوریؒ کہتے ہیں کہ ) امام یحییٰ بن معینؒ نے ان الفاظ کو ثابت قرار نہیں دیا ، بلکہ انہیں ضعیف قرار دیا۔‘‘
(تاريخ الدوري : 455/3)
❀ امام ابو حاتمؒ (۲۷۷ ھ ) فرماتے ہیں:
لَيْسَ هَذِهِ الكَلِمَةُ بِالْمَحْفُوظ، وَهُوَ مِنْ تَخَالِيطِ ابْنِ عَجْلَان.
’’یہ الفاظ محفوظ نہیں ، بلکہ یہ ابن عجلان کا وہم ہے۔‘‘
(علل الحديث : 465)
❀ امام ابوداودؒ ( ۲۷۵ ھ ) فرماتے ہیں:
هذِهِ الزِّيَادَةُ وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا لَيْسَتْ بِمَحْفُوظَةٍ، الْوَهْمُ عِنْدَنَا مِنْ أَبِي خَالِدٍ .
’’ يه زيادتى « وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا» محفوظ نہیں ہے، ہمارے مطابق یہ ابو خالد احمر کا وہم ہے۔‘‘
(سنن أبي داود، تحت الرقم : 604)
❀ امام نسائیؒ (۳۰۳ھ)
فرماتے ہیں:
لَا نَعْلَمُ أَنَّ أَحَدًا تَابَعَ ابْنَ عَجْلَانَ، عَلَى قَوْلِهِ : « وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا ».
’’ہم نہیں جانتے کہ کسی (ثقہ) نے «وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا» کے الفاظ نقل کرنے پر ابن عجلان کی متابعت کی ہو ۔‘‘
(السنن الكبرىٰ، تحت الرقم : 996)
❀ امام دار قطنیؒ (۳۸۵ھ) فرماتے ہیں:
هذا الكَلَامُ لَيْسَ بِمَحْفُوظٍ فِي هَذَا الْحَدِيثِ .
’’ اس حدیث میں یہ الفاظ محفوظ نہیں ہیں۔‘‘
(علل الدارقطني : 187/8)
❀ نیز فرماتے ہیں:
فِي اجْتِمَاعِ أَصْحَابِ قَتَادَةَ عَلَى خِلَافِ التَّيْمِيِّ دَلِيلٌ عَلَى وَهْمِهِ وَاللهُ أَعْلَمُ .
’’ (روایت نقل کرنے میں ) قتادہؒ کے شاگردوں کا سلیمان تیمی کے خلاف اتفاق کر لینا اس بات کی دلیل ہے کہ تیمی کو وہم ہوا ہے،‘‘
واللہ اعلم !
(الالزامات والتتبع : 171/1)
امام مسلمؒ (۲۶۱ھ) فرماتے ہیں:
لَيْسَ فِي حَدِيثِ أَحَدٍ مِنْهُمْ .
” ( قتادہ کے شاگردوں میں سے تیمی کے علاوہ) کسی شاگرد کی حدیث میں یہ الفاظ نہیں ہیں ۔“
(صحیح مسلم، تحت الرقم : 404)
❀ امام حاکمؒ(۴۰۵ ھ ) فرماتے ہیں:
إِنَّ هَذَا الخَبَرَ وَهِمَ الرَّاوِي فِيهِ، بِلَا خِلَافٍ أَعْرِفُهُ بَيْنَ أَهْل النقل فيه .
’’اس حدیث میں راوی کو وہم ہوا ہے، جہاں تک میں جانتا ہوں ، اس بارے میں محدثین کا کوئی اختلاف نہیں ۔‘‘
(الخلافيات للبيهقي : 468/2)
❀ حافظ بیہقیؒ (۴۵۸ھ) فرماتے ہیں:
قَدْ أَجْمَعَ الْحُفَّاظُ عَلَى خَطَأَ هَذِهِ اللَّفْظَةِ فِي الْحَدِيثِ، وَأَنَّهَا لَيْسَتْ بِمَحْفُوظَةٍ؛ يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ، وَأَبُو دَاوُدَ السِّجِسْتَانِيُّ، وَأَبُو حَاتِمِ الرَّازِيُّ، وَأَبُو عَلِيٍّ الْحَافِظُ، وَعَلِيُّ بْنُ عُمَرَ الْحَافِظُ، وَأَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ .
’’حفاظ حدیث کا اجماع ہے کہ حدیث میں یہ الفاظ خطا ہیں، نیز یہ الفاظ غیر محفوظ ہیں، ان محد ثین میں امام یحییٰ بن معین، امام ابو داود سجستانی، امام ابو حاتم رازی ، امام ابو علی الحافظ، امام حافظ علی بن عمر دارقطنی اور امام ابو عبد اللہ حاکمؒ شامل ہیں۔‘‘
(معرفة السنن والآثار : 74/3)
❀ حافظ نوویؒ (۶۷۶ھ) فرماتے ہیں:
قَالَ جُمْهُورُ الْحُفَّاظِ : قَوْلُهُ : وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا لَيْسَتْ صَحِيحَةً عنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
’’جمہور حفاظ حدیث نے کہا ہے کہ «وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا» کے الفاظ نبی کریم ﷺ سے ثابت نہیں ہیں۔‘‘
(خلاصة الأحكام : 376/1)

سید نا عبد اللہ بن عباسؓ:

(سنن الدارقطني : 1266)
سند ضعیف ہے۔
امام احمد بن حنبلؒ نے اسے ’’منکر‘‘ کہا ہے۔
(سنن الدار قطني، تحت الحديث : 1266، وسنده صحيح)
❀ امام دار قطنیؒ فرماتے ہیں:
عَاصِمٌ لَيْسَ بِالْقَوِي، وَرَفْعُهُ وَهُم .
’’عاصم ( بن عبد العزیز ) غیر قوی ہے، اس کا اس حدیث کو مرفوع بیان کرنا وہم ہے۔‘‘
(سنن الدارقطني : 1252)
تنبیہ:
❀ سید نا عبد اللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
كُلُّ صَلَاةٍ لَا يُقْرَأُ فِيهَا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ، فَلَا صَلَاةَ إِلَّا وَرَاءَ الْإِمَامِ .
’’ جس نماز میں سورت فاتحہ نہ پڑھی جائے ، وہ نماز نہیں، الا کہ امام کی اقتدا میں ہو۔‘‘
(القراءة خلف الإمام للبيهقي : 434)
سند ضعیف ہے‘ علی بن کیسان مجہول ہے۔
(الخلافيات للبيهقي : 1972)
فائدہ:
❀ ابو جمرہ بصریؒ کہتے ہیں :
قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسِ : أَقْرَأُ وَالْإِمَامُ بَيْنَ يَدَيَّ، فَقَالَ : لَا .
’’ میں نے سید نا عبد اللہ بن عباسؓ سے پوچھا کہ امام میرے آگے ہو ، تو کیا میں قرآت کروں، فرمایا: نہیں ۔‘‘
(شرح معاني الآثار للطحاوي : 220/1، وسنده حسن)
➊ یہ قول فاتحہ کے بعد والی قرآت پر محمول ہے۔
➋ سوال جہری قرآت کرنے کا ہے، نہ کہ سری ۔ ممانعت بھی جہری قرآت کی ہے‘نہ کہ سری۔
❀ سید نا عبد اللہ بن عباسؓ کا فتویٰ ہے:
اقْرَأْ خَلْفَ الْإِمَامِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ .
’’آپ امام کے پیچھے سورت فاتحہ پڑھیے۔‘‘
(القراءة للبيهقي : 436، الأوسط لابن المنذر : 1324، وسنده صحيح)
❀ امام بیہقیؒ فرماتے ہیں:
هَذَا إِسْنَادٌ صَحِيحٌ لَا غُبَارَ عَلَيْهِ .
’’یہ سند صحیح ہے ، اس میں کوئی علت نہیں ۔‘‘

سید نا عبد اللہ بن عمرؓ:

(سنن الدارقطني : 1238)
سند سخت ضعیف ہے۔
❀ امام دار قطنیؒ فرماتے ہیں:
مُحَمَّدُ بْنُ الفَضْلِ مَشْرُواً .
’’محمد بن فضل( بن عطیہ ) متروک ہے۔‘‘

عن ابن عمرؓ:

(سنن الدارقطني : 1502)
سند سخت ضعیف ہے۔
خارجہ بن مصعب ’’متروک ، کذاب‘‘ اور ’’مدلس‘‘ ہے۔

عن ابن عمرؓ:

(الخلافيات للبيهقي :1871)
سند جھوٹی ہے۔
عثمان بن عبد اللہ قرشی ’’کذاب‘‘ ہے۔

عن ابن عمرؓ:

(الخلافيات للبيهقي : 1878)
سند ضعیف ہے۔
سوید بن سعید ابومحمد حافظہ کی خرابی کی وجہ سے تلقین قبول کرتا تھا۔ نیز یہ کثیر الخطا ہے۔ یہ حدیث بھی حافظہ کی خرابی کے بعد بیان کی ہے۔

عن ابن عمرؓ:

(الخلافيات للبيهقي : 1886)
سند ضعیف ہے۔
➊ ابو جعفر محمد بن عبد الله ماستینی کی توثیق نہیں مل سکی۔
➋ سفیان ثوری مدلس ہیں ، سماع کی تصریح نہیں کی۔
❀ امام بیہقیؒ فرماتے ہیں:
هَذَا بَاطِلٌ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَالْحَمْلُ فِيهِ عَلَى هَذَا الْمَاسْتِينِي، مَعَ هَذَا لَا حُجَّةَ فِيهِ، لِأَنَّهُ لَمْ يَقُلْ : وَالْمَأْمُومُ لَا يَقْرَأُ .
’’یہ حدیث اس سند سے باطل ہے۔ یہ ماستینی کی کاروائی ہے۔ اس پر سہا گہ یہ کہ اس سے دلیل نہیں بنتی، کیونکہ نبی کریم ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ مقتدی (فاتحہ کی ) قرآت نہ کرے۔‘‘
فائدہ:
❀ سید نا ابن عمر ،سید نا زید بن ثابت اور سید نا جابر بن عبد اللہؓ نے فرمایا:
لَا تَقْرَؤُوا خَلْفَ الْإِمَامِ فِي شَيْءٍ مِنَ الصَّلَوَاتِ .
’’ کسی نماز میں امام کے پیچھے قرآت نہ کریں۔‘‘
(شرح معاني الآثار للطحاوي : 219/1، وسنده صحيح)
سید نا عبد اللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں:
إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ خَلْفَ الْإِمَامِ فَحَسْبُهُ قِرَاءَةُ الْإِمَامِ، وَإِذَا صَلَّى وَحْدَهُ فَلْيَقْرَا.
’’جب کوئی امام کی اقتدا میں نماز ادا کرے، تو اسے امام کی قرآت کافی ہے اور جب اکیلے نماز پڑھے، تو قرآت کرے۔‘‘
(موطأ الإمام مالك : 86/1، وسنده صحيح)
ان دونوں آثار کا مطلب ہے کہ جہری نمازوں میں فاتحہ کے بعد مقتدی قرآت نہیں کرے گا، بلکہ اسے امام کی قرآت کفایت کرے گی ۔ اس طرح تمام احادیث اور آثار پر عمل ہو جائے گا۔ کسی صحابی سے باسند صحیح مقتدی کو سورت فاتحہ سے منع کرنا ثابت نہیں۔

سیدنا ابوسعید خدریؓ:

(الكامل لابن عدي : 524/1 المعجم الأوسط للطبراني : 7579)
سند سخت ضعیف ہے۔
❀ حافظ بیہقیؒ نے اسے ’’ضعیف‘‘ قرار دیا ہے۔
(الخلافيات : 462/2)
❀ امام حاکمؒ فرماتے ہیں:
هذا خَبَرٌ، فِي إِسْنَادِهِ وَمَثْنِهِ نَظَرٌ .
’’اس روایت کی سند اور متن محل نظر ہے۔‘‘
(الخلافيات للبيهقي : 462/2)
➊ عمارہ بن جوین ابو ہارون العبدی ’’متروک و کذاب‘‘ ہے۔
➋ امام ابونضرہؒ بیان کرتے ہیں :
سَأَلْتُ أَبَا سَعِيدٍ، عَنِ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ فَقَالَ : فَاتِحَةَ الْكِتَابِ .
’’میں نے سیدنا ابوسعید خدریؓ سے پوچھا کہ کیا مقتدی امام کے پیچھے قرآت کرے گا ؟ فرمایا : سورت فاتحہ پڑھے گا۔‘‘
(القراءة خلف الإمام للبخاري : 27، القراءة للبيهقي : 224، وسنده حسن)

سیدنا انس بن مالکؓ:

(كتاب المجروحين لابن حبان : 858)
سند سخت ضعیف ہے۔ غنیم بن سالم سخت ضعیف ہے۔

عن انسؓ:

(القراءة خلف الإمام للبيهقي، ص 176)
❀ امام بیہقیؒ نے اس کی سند کو ’’ مظلم ‘‘ کہا ہے۔

عن انسؓ:

(الخلافيات للبيهقي : 1964)
سند جھوٹی ہے۔
عبد اللہ بن محمد بن یعقوب ’’کذاب‘‘ ہے۔
قطن بن صالح نے امام شعبہؒ سے ’’منکر‘‘ روایات بیان کی ہیں، یہ روایت بھی امام شعبہؒ سے ہے۔
❀ ثابت بنانیؒ سیدنا انسؓ کے بارے میں بیان کرتے ہیں:
كَانَ يَأْمُرُنَا بِالْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ قَالَ : وَكُنْتُ أَقُومُ إِلَى جَنْبِ أَنَسٍ فَيَقْرَأُ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَسُورَةٍ مِنَ الْمُفَصَّلَ وَيُسْمِعُنَا قِرَاءَتَهُ لِنَا خُذَ عَنْهُ .
’’سیدنا انس بن مالکؓ ہمیں امام کے پیچھے قرآت کرنے کا حکم دیتے تھے، میں آپؓ کے پہلو میں ہوتا تھا، آپ سورت فاتحہ اور مفصلات میں سے کوئی سورت پڑھتے تھے اور ہمیں اپنی قرآت سناتے تھے تا کہ ہم بھی سیکھ لیں۔‘‘
(القراءة خلف الإمام للبيهقي : 231، وسنده حسن)
(۷ )سیدنا نواس بن سمعانؓ:
(الخلافيات للبيهقي : 1980)
جھوٹی روایت ہے، محمد بن اسحاق عکاشی ’’کذاب ووضاع‘‘ ہے۔
❀ امام بیہقیؒ فرماتے ہیں:
كُلُّ مَنْ رُزِقَ الْفَهُمْ وَيَرْجِعُ إِلَى أَدْنَى مَعْرِفَةٍ وَنَظَرٍ فِي هَذَا الحَدِيثِ عَلِمَ أَنَّهُ مَوْضُوعٌ عَلَى مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ .
’’جسے فہم ثاقب کی دولت سے نوازا گیا ہو، وہ اس حدیث میں معمولی سی توجہ کرے، تو جان جائے گا کہ یہ امام مالکؒ پر گھڑی گئی ہے۔‘‘
❀ امام ابن حبانؒ (۳۵۴ھ) فرماتے ہیں:
إِنَّ أَهْلَ الصَّلَاةِ لَمْ يَخْتَلِفُوا مِنْ لَدُنَ الصَّحَابَةِ إِلَى يَوْمِنَا هَذَا مِمَّنْ يُنْسَبُ إِلَى الْعِلْمِ مِنْهُمْ أَنَّ مَنْ قَرَأَ خَلْفَ الْإِمَامِ تُجْزِيهِ صَلَاتُهُ .
’’عہد صحابہ سے آج تک کے تمام اہل علم نمازی میں کوئی اختلاف نہیں کہ جو امام کے پیچھے (سورت فاتحہ کی ) قرآت کرے، اس کی نماز درست ہے۔‘‘
(كتاب المجروحين : 5/2)
❀حافظ ابن عبدالبرؒ (۴۶۳ھ) فرماتے ہیں:
قَدْ أَجْمَعَ الْعُلَمَاءُ عَلَى أَنَّ مَنْ قَرَأَ خَلْفَ الإِمَامِ فَصَلَاتُهُ تَامَّةٌ وَلَا إِعَادَةَ عَلَيْهِ .
’’اس پر اہل علم کا اجماع ہے کہ جس نے امام کے پیچھے قرآت کی ، اس کی نماز مکمل ہے، اس پر اعادہ نہیں ۔“
(الاستذكار : 470/1)
نوٹ:
❀سید نا علی بن ابی طالبؓ سے مروی ہے:
قَالَ رَجُلٌ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَقْرَأُ خَلْفَ الْإِمَامِ أَوْ أَنْصِتُ؟ قَالَ : بَلْ أَنْصِتُ فَإِنَّهُ يَكْفِيكَ .
ایک شخص نے نبی کریمﷺ سے عرض کیا:
’’ کیا میں امام کے پیچھے قرآت کروں یا خاموش رہوں؟ فرمایا: خاموش رہیے، امام کی قرآت آپ کو کفایت کرے گی ۔‘‘
(سنن الدارقطني : 330/1)
سند باطل ہے۔
➊غسان بن ربیع ضعیف ہے۔
➋قیس بن ربیع ضعیف ہے۔
➌محمد بن سالم ہمدانی ضعیف و متروک ہے۔
➍حارث بن عبد اللہ اعور ضعیف ہے۔
❀سید نا عبد اللہ بن عباس ؓ سے مروی ہے:
إِنَّ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا جَاءَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ وَهُوَ يُصَلِّي بِالنَّاسِ فِي مَرَضِهِ أَخَذَ مِنْ حَيْثُ كَانَ بَلَغَ أَبُو بَكْرٍ مِنَ الْقِرَاءَةِ .
’’سید نا ابو بکرؓ جب نبی اکرم ﷺ کی بیماری میں لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے ، تو آپ ﷺ تشریف لائے اور وہیں سے قرآت شروع کر دی، جہاں تک سید نا ابو بکرؓ پہنچ چکے تھے ۔“
(طبقات ابن سعد : 211/2، مسند الإمام أحمد : 231/1، سنن ابن ماجه : 1235 تاريخ الطبري : 196/3)
سند ضعیف ہے۔ ابو اسحاق سبیعی مدلس ہیں، سماع کی تصریح نہیں کی ۔
ابو اسحاق کو امام شعبہ ( معرفتہ السنن والآثار ۱ / ۶۵ ، وسندہ صحیح) ، امام نسائی (طبقات المدلسین :۴۲)‘ حسین کرابیسی، ابو جعفر طبری (تہذیب التہذیب: ۶۶/۸) ، امام ابن خزیمہ (۱۰۹۴) ، امام ابن منزر ( الاوسط : ۲۱۷/۵) ، امام ابن حبان (۱۷۷/۵)ؒ و غیر ہم نے ’’مدلس‘‘ قرار دیا ہے۔
مسلم اُصول ہے کہ ’’ثقہ مدلس ‘‘ جب سماع کی تصریح نہ کرے، تو بخاری ومسلم کے علاوہ اس کی روایت ’’ضعیف‘‘ ہوتی ہے۔
مسند احمد (۱ / ۲۰۹) والی روایت کی سند میں قیس بن ربیع ہے، جو جمہور کے نزدیک ’’ضعیف‘‘ ہے۔
❀حافظ عراقیؒ فرماتے ہیں:
’’ضَعْفَهُ الْجُمْهُورُ.‘‘ ۔
’’اسے جمہور نے ضعیف قرار دیا ہے۔“
(المغني عن حمل الأسفار : 70/4)۔
علامہ بیثمی ولاللہ فرماتے ہیں:
ضَعْفَهُ الْأَكْثَرُونَ۔
’’اسے اکثر محدثین نے ضعیف کہا ہے۔‘‘
(فيض القدير للمناوي : 69/6)۔
مقتدی کو سورت فاتحہ سے منع کرنے والے اب امام کو بھی فاتحہ سے منع کرنے لگے ہیں، کیونکہ اس ضعیف روایت میں امام کی بات ہو رہی ہے ، نہ کہ مقتدی کی۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
لنکڈان
ٹیلی گرام
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: