رمضان میں قیام اللیل سے متعلق 10 مستند احادیث

قیام رمضان: ایمان اور ثواب کی نیت سے بخشش کا ذریعہ

رمضان کے قیام کی فضیلت

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’جس نے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے رمضان کا قیام کیا اللہ تعالیٰ اس کے پچھلے تمام گناہ معاف فرما دیتے ہیں۔‘‘

(بخاری، صلوٰۃ التراویح، باب فضل من قام رمضان، ۸۰۰۲، مسلم، صلاۃ المسافرین، باب الترغیب فی قیام رمضان ۹۵۷)

رسول اللہ ﷺ کا قیام رمضان اور صحابہ کا عمل

تین راتوں کا قیام

سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

ہم نے رمضان المبارک کے روزے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رکھے۔

شروع میں آپ ﷺ نے قیام رمضان میں ہمارے ساتھ کوئی نماز نہ پڑھی۔

23ویں رات کو تہائی رات تک قیام کیا۔

24ویں رات چھوڑ دی۔

25ویں رات کو آدھی رات تک قیام فرمایا۔

میں نے عرض کیا: "اگر آپ ہمیں پوری رات نفل پڑھا دیتے تو کتنا بہتر ہوتا؟”

آپ ﷺ نے فرمایا:

’’جو شخص امام کے ساتھ قیام (رمضان) کرتا ہے اس کے لیے پوری رات کا قیام لکھا جاتاہے۔‘‘

26ویں رات بھی قیام نہ ہوا۔

27ویں رات کو اپنے اہل خانہ، بیویوں اور تمام لوگوں کو جمع کر کے طویل قیام فرمایا، یہاں تک کہ فلاح (سحری) کے ختم ہونے کا ڈر لاحق ہوا۔

ابو ذر رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا: فلاح کیا ہے؟

جواب دیا: سحری۔

(ابوداود، ابواب شھر رمضان، باب فی قیام شھر رمضان، ۵۷۳۱۔ ترمذی، الصیام، باب ما جاء فی قیام شھر رمضان، ۶۰۸۔ امام ابن حبان اور امام ابن خزیمہ نے اسے صحیح کہا۔)

گھر میں قیام کی تلقین

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

’’میں نے دیکھا کہ تمہارا معمول برابر قائم ہے، تو مجھے خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں یہ نماز تم پر فرض نہ ہو جائے، اس لیے میں گھر سے نہ نکلا۔ پس تم اپنے اپنے گھروں میں (رمضان کی راتوں کا) قیام کرو۔ آدمی کی نفل نماز گھر میں افضل ہوتی ہے۔‘‘

(بخاری، الادب، باب ما یجوز من الغضب والشدۃ لأمر اللّٰہ: ۳۱۱۶، مسلم: صلاۃ المسافرین، باب استحباب صلاۃ النافلۃ فی بیتہ ۱۸۷)

خلفاء راشدین کا عمل

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قیام باجماعت کا احیاء

رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد:

سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں بھی قیام انفرادی طور پر گھروں میں ہوتا رہا۔

سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بعد میں باجماعت قیام رمضان دوبارہ شروع کرایا۔

فرمایا:

’’رات کا آخری حصہ (جس میں لوگ سو جاتے ہیں)، رات کے ابتدائی حصہ سے بہتر ہے۔‘‘

(بخاری، صلاۃ التراویح، باب فضل من قام رمضان، ۹۰۰۲، ۰۱۰۲، مسلم، صلاۃ المسافرین، باب الترغیب فی قیام رمضان، ۹۵۷)

امت کا متفقہ عمل

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور پوری امت نے باجماعت قیام رمضان پر عمل کیا۔

جو عمل صحابہ کی مجموعی تائید سے ثابت ہو، وہ بدعت نہیں ہو سکتا۔

نبی کریم ﷺ نے خلفاء راشدین کی سنت کو اختیار کرنے کا حکم دیا:

(ابوداود، السنۃ، باب فی لزوم السنۃ، ۷۰۶۴۔ ترمذی، العلم، باب ماجاء فی الاخذ بالسنۃ واجتناب البدعۃ، ۶۷۶۲)

لغوی بدعت

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے تراویح کو "بدعت” کہا، لیکن اس سے مراد لغوی بدعت تھی۔

تراویح کی اصل اور دلیل سنت رسول اللہ ﷺ سے موجود ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے پورے رمضان میں باجماعت قیام اس لیے نہیں کروایا کہ فرض نہ قرار پا جائے۔

آپ کی وفات کے بعد یہ خطرہ باقی نہ رہا، لہٰذا پورے رمضان میں باجماعت تراویح مشروع ہے۔

قیام رمضان: گیارہ رکعت

رسول اللہ ﷺ کا معمول

سیدنا ابو سلمہ نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا:

رمضان اور غیر رمضان میں آپ ﷺ کی رات کی نماز کیسی ہوتی تھی؟

فرمایا:

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان ہو یا غیر رمضان، رات کی نماز گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔‘‘

(بخاری، صلاۃ التراویح، باب: فضل من قام رمضان: ۳۱۰۲، مسلم، صلاۃ المسافرین، باب صلاۃ اللیل و عدد رکعات النبیﷺ، ۸۳۷)

دیگر صحابہ کی گواہیاں

سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ:

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں آٹھ رکعات قیام رمضان پڑھائیں، پھر وتر پڑھایا۔‘‘

(صحیح ابن خزیمہ: ۰۷۰۱، ابن حبان: ۰۲۹، ابو یعلی الموصلی: ۲۰۸۱۔ امام ابن حبان نے اسے صحیح کہا)

سیدنا سائب بن یزید رضی اللہ عنہ:

سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابی بن کعب اور سیدنا تمیم داری کو حکم دیا کہ لوگوں کو گیارہ رکعات پڑھائیں۔

(موطا امام مالک، ۱/۵۱۱۔ ضیاء المقدسی و شیخ البانی نے اسے صحیح قرار دیا)

20 رکعات والی روایات

سیدنا عمر، علی، ابی بن کعب، اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم سے 20 رکعات کی تمام روایات سنداً ضعیف ہیں۔

تراویح میں قرآن دیکھ کر پڑھنا

شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’قیام رمضان میں قرآن مجید سے دیکھ کر پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ اس طرح مقتدیوں کو مکمل قرآن سنایا جا سکتا ہے۔

نماز میں قرآن کی تلاوت کا عمومی حکم ہے، چاہے زبانی ہو یا قرآن سے دیکھ کر۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے غلام ذکوان کو قیام رمضان میں امامت کا حکم دیا، وہ قرآن سے دیکھ کر تلاوت کرتے تھے۔

امام بخاری نے اسے اپنی صحیح میں تعلیقاً اور جزم کے صیغے کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔‘‘

(فتاوی اسلامیہ، اول، ۲۴۴)

سحری اور فجر کے درمیان وقفہ

سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:

’’انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سحری کھائی، پھر نماز فجر کے لیے کھڑے ہو گئے۔

سحری سے فارغ ہونے اور نماز فجر کے درمیان وقفہ اتنا تھا جتنا وقت قرآن کی پچاس یا ساٹھ آیتیں پڑھنے میں لگتا ہے۔‘‘

(بخاری، مواقیت الصلاۃ، باب وقت الفجر، ۵۷۵، مسلم: الصیام، باب: فضل السحور، ۷۹۰۱)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1