دین اسلام کے مصادر چار ہیں:
(1) كتاب الله عز وجل
(2) بسنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
(3) اجماع
(4) قياس
اور یہ اصول وضوابط و مصادر کتاب وسنت ہی کے نصوص پر مبنی ادلہ سے ماخوذ و مستنبط ہیں۔ امام دارمی اور بیہقی نے میمون بن مہران سے بیان کیا ہے کہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس جب کوئی مسئلہ آتا تو اگر اس کا حل کتاب اللہ میں پاتے تو فیصلہ کرتے نہیں تو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ڈھونڈتے اگر اس میں حل ملتا تو اس کا فیصلہ کرتے نہیں تو لوگوں سے پوچھتے کہ کیا کسی کو اس مسئلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی حکم اور فیصلہ معلوم ہے؟ ایسا بھی ہوتا تھا کہ کسی کو حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا علم ہوتا اور بتاتے تو اس کے مطابق فیصلہ دیتے ۔ اگر کوئی فیصلہ نہیں ملتا تو اکابر صحابہ کرام کو جمع کر کے اُن سے مشورہ کرتے ، اگر وہ متفق ہو کر فیصلہ دیتے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ اس کا فیصلہ فرماتے۔
بحواله اعلام الموقعين: 118/2۔
عبد اللہ بن ابی یزید کہتے ہیں کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کسی مسئلے کے بارے میں پوچھا جاتا تو آپ کو اگر وہ مسئلہ قرآن کریم میں مل جاتا تو اس سے جواب دیتے ۔ نہیں تو حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں مل جاتا تو جواب دیتے نہیں تو سیدنا ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہا کے اقوال وفتاوی میں ملتا تو اس سے جواب دیتے، ورنہ اپنے اجتہاد سے جواب دیتے تھے۔
سنن دارمي 55/1 ۔ الفقيه والمتفقه: 203/1۔
مضمون کے اہم نکات:
کتاب الله عز وجل :
اللہ تعالیٰ کا قرآن شریعت اسلامیہ کا مصدر اوّل ہے، اور مکمل ضابطہ حیات ہے،مشعل ہدایت ہے اس کا نور عالمتاب قیامت تک انسانوں کو راہ دکھاتا رہے گا۔ آندھیاں چلیں گی، طوفان اُٹھیں گے، بڑی بڑی سازشیں ہوں گی لیکن جب تک قیامت نہیں آجاتی ، یہ قرآن بغیر کسی ادنی تغییر و تحریف کے باقی رہے گا۔ ارشاد باری تعالی ہے:
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ
(15-الحجر:9)
”بے شک ہم نے قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔“
مفسرین لکھتے ہیں کہ آیت میں دوسرا حصہ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ دلالت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس قرآن کی قیامت تک حفاظت کرتا رہے گا۔
امام احمد رحمہ اللہ کا قول ہے کہ احکامِ شرعیہ اور ان مسائل میں جن میں ظاہری علوم کا دخل نہیں دلیلوں کے پانچ اصول ہیں:
● پہلا اصل :
اللہ کی کتاب ہے۔ اور یہ آیت تلاوت کرتے :
مَّا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِن شَيْءٍ ۚ
(6-الأنعام:38)
”ہم نے کتاب میں کوئی چیز بیان کیے بغیر نہیں چھوڑی۔“
● دوسرا اصل :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث وسنت ہے۔ اور بطور استدلال یہ آیت پڑھتے :
فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ
(4-النساء:59)
” اگر کسی چیز میں اختلاف ہو تو اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دو “
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آپ کی وفات کے بعد لوٹانے کا معنی یہ ہے کہ آپ کی سنت کی طرف لوٹایا جائے ۔ عليكم بسنتي حدیث کی روایت بھی کرتے ، اور یہ آیت کریمہ تلاوت کرتے
وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا
(59-الحشر:8)
”جو کچھ رسول تمہیں دے اسے لے لو، اور جس چیز سے منع کرے اس سے باز آجاؤ ۔ “
● تیسرا اصل:
کسی زمانہ کے علماء کا اجماع ہے اگر وہ آپس میں اختلاف نہ کریں۔ اگر ان میں سے ایک عالم نے بھی اختلاف کر دیا تو اجماع ثابت نہ ہوگا۔ اجماع کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ بعض علماء سے کوئی قول مشہور ہو دوسرے لوگوں کو اس کا علم ہو لیکن کسی نے اس کا انکار نہ کیا ہو۔
پہلا درجہ اجماع صحابہ کا ہے بعد کے لوگوں کو اس کے تابع رہنا ہے۔
● چوتھا اصل :
کسی ایک صحابی کا قول ہے جولوگوں میں مشہور ہو۔ کسی صحابی نے اس پر نکیر نہ کی ہو۔
● پانچواں اصل :
قیاس ہے، اور قیاس یہ ہے کہ کسی مسئلے کا شرعی حکم ثابت ہو تو اس جیسے دوسرے مسئلے پر بھی مشترک سبب کی بنا پر حکم لگانا اور اگر دونوں مسئلوں میں کوئی مشترک سبب نہ ہو تو قیاس جائز نہیں۔
امام احمد رحمہ اللہ ایسے ہی قیاس کو جائز سمجھتے تھے، پھر بھی قیاس کو دلیلوں کے درمیان مجبوری میں مردہ گوشت کھانے اور پانی نہ ہونے کی صورت میں مٹی سے تیمم کی طرح جانتے تھے۔
اصول مذهب الإسلام أحمد ومشربه المطبوع بآخر طبقات الحنابلة لابن أبى يعلى: 283/2، 285.
سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم :
سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم شریعت اسلامیہ کا مصدر ثانی ہے۔ کتاب اللہ کی تفہیم وتفسیر اور بیان کی ذمہ داری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تھی ۔ آپ پر قرآن مجید کا نزول ہوتا تو آپ اس کی توضیح فرما دیتے ۔ چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے:
وَمَا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ إِلَّا لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُوا فِيهِ ۙ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
(16-النحل:64)
”اور اس کتاب کو ہم نے آپ پر نازل کیا ہے، تا کہ آپ لوگوں کے لیے اس کو کھول کر بیان کر دیں جس بات میں وہ آپس میں اختلاف کرتے ہیں، اور وہ کتاب ان لوگوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے جو اللہ پر ایمان رکھتے ہیں ۔ “
معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث حقیقت میں قرآنِ مجید کی تفسیر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
«من أطاعني فقد أطاع الله، ومن عصاني فقد عصى الله، ومن أطاع أميري فقد أطاعني، ومن عصى أمري فقد عصاني.»
صحيح بخاري، كتاب الأحكام، رقم: 7137
”جس شخص نے میری اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی، اور جس نے میری نافرمانی کی، اس نے اللہ کی نافرمانی کی، اور جس نے میرے امیر کی اطاعت کی، اس نے میری اطاعت کی، اور جس نے میرے امیر کی نافرمانی کی، اس نے میری نافرمانی کی۔ “
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا واقعہ اس پر شاہد عدل کی حیثیت رکھتا ہے۔ چنانچہ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی الله عنہ نے فرمایا:
”اللہ تعالیٰ نے گودوانے والیوں اور گودنے والیوں پر لعنت بھیجی ہے، چہرے کے بال اکھاڑنے والیوں اور حسن کے لیے آگے کے دانتوں میں کشادگی کرنے والیوں پر لعنت بھیجی ہے کہ یہ اللہ کی پیدا کی ہوئی صورت میں تبدیل کرتی ہیں۔“
ایک عورت آپ کے پاس آئی اور کہنے لگی: اے ابن مسعود! میں نے سارے قرآن کو پڑھا ہے لیکن قرآن میں ایسی عورت پر لعنت کہیں نہیں ہے۔ تو سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر تو اس کو پڑھتی تو ضرور پالیتی ، اس عورت نے جواب دیا کہ میں نے سارا قرآن پڑھا ہے۔ لیکن لعنت کہیں نہیں ہے۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا تو نے یہ آیت کریمہ نہیں پڑھی؟
وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ
(59-الحشر:7)
” اور جو تمہیں رسول دیں اسے لے لو، اور جس سے روکیں اس سے باز آ جاؤ۔“ اس نے کہا:” کیوں نہیں“
صحيح بخاري، كتاب التفسيں، رقم: 4886.
سید نا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی:
الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُم بِظُلْمٍ أُولَٰئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُم مُّهْتَدُونَ
(6-الأنعام:82)
”وہ لوگ جنہوں نے اپنے ایمان میں ظلم کو شامل نہیں کیا، انہی کے لیے امن ہے اور وہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں ۔ “
تو سب مسلمان پریشان ہو گئے اور عرض کی، اے اللہ کے رسول! ہم میں سے کون ہے جس نے کوئی ظلم نہ کیا ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کہ اس آیت میں ظلم سے مراد شرک ہے، کیا تم نے لقمان علیہ السلام کی اپنے بیٹے کو نصیحت نہیں سنی کہ ”اے میرے بیٹے ! اللہ کے ساتھ شرک مت کرنا ۔ کیونکہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ “
صحيح بخاري، كتاب أحاديث الأنبياء، رقم: 336۔ سنن ترمذي، رقم: 2425