مضمون کے اہم نکات:
بدعت کی لغوی تعریف:
علامہ مجد الدین یعقوب بن محمد فیروز آبادی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«بدعة بالكسر: الحدث فى الدين بعد الأكمال أو ما استحدث بعد النبى من الأهواء والأعمال»
القاموس المحيط: 3/3
”بدعت: باء کے کسرہ کے ساتھ: ایسی چیز جو تکمیل دین کے بعد نکالی جائے یا وہ چیز جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خواہشات و اعمال کی صورت میں پیدا کی جائے۔“
علامہ محمد بن ابی بکر الرازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«لبدعة: الحديث فى الدين بعد الإكمال»
مختار الصحاح ، ص: 44
”بدعت: تکمیل دین کے بعد کسی چیز کو دین میں نیا ایجاد کرنا ہے۔ “
امام ابو اسحٰق الشاطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اصل مادہ اس کا ”بدع“ ہے۔ جس کا مفہوم کسی سابقہ نمونے کے بغیر کسی چیز کا ایجاد کرنا ہے۔ اور اسی سے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ﴾ ”یعنی آسمانوں اور زمین کو کسی سابقہ نمونے کے بغیر بنانے والا۔“
❀ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿قُلْ مَا كُنتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ﴾
[الأحقاف: 9]
”آپ کہہ دیں! میں اللہ کی طرف سے رسالت لے کر آنے والا پہلا آدمی نہیں ہوں بلکہ مجھ سے پہلے بھی بہت رسول آچکے ہیں۔“
اسی طرح جب کہا جاتا ہے! «ابتدع فلان بدعة» ، تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ ”اس نے
ایسا طریقہ شروع کیا جس کی طرف پہلے کسی نے سبقت نہیں کی۔“
الاعتصام: 36/1
ان ائمہ لغات کی توضیحات سے معلوم ہوا کہ بدعت کا مفہوم یہ ہے کہ کسی ایسی چیز کو ایجاد کرنا جس کی مثال یا نمونہ پہلے موجود نہ ہو۔
بدعت کی اصطلاحی تعریف:
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں کہ ﴿بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ﴾ کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالی آسمانوں اور زمین کو کسی سابقہ مثال اور نمونے کے بغیر پیدا کرنے والا ہے اور یہیں لغوی تقاضا ہے۔ اس لیے کہ لغت میں ہر نئی چیز کو بدعت کہتے ہیں اور بدعت کی دو اقسام ہیں:
(1) بدعت شرعی:
جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ”ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ “
(2) بدعت لغوی:
جیسے امیر المومنین عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے جمع ہو کر تراویح پڑھنے کے متعلق فرمایا کہ ”یہ کیا ہی اچھی بدعت ہے۔ “
تفسير ابن كثير: 328/1، بتحقيق عبد الرزاق المهدى . تفسير سورة البقرة آيت: 117
امام عبد الرحمن بن شباب المعروف ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«والمراد بالبدعة: مما لا أصل له فى الشريعة يدل عليه فأما ما كان له أصل من الشرع يدل عليه فليس ببدعة شرعا وإن كان بدعة لغة»
جامع العلوم والحكم: 127/2
”بدعت سے مراد وہ نو ایجاد چیز جس کی شریعت میں کوئی اصل نہ ہو جو اس پر دلالت کرے۔ بہر کیف جس کی شریعت میں کوئی اصل ہو جو اس پر دلالت کرے وہ شرعی بدعت نہیں اگرچہ وہ لغت کے اعتبار سے بدعت ہو۔ “
مولوی عبد الغنی خان حنفی اپنی کتاب ”الجنة لأهل السنة“ ص: 161 میں ”البحر الرائق“ اور ”در مختار“ فقہ حنفی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ:
”بدعت وہ چیز ہے جو ایسے حق کے خلاف ایجاد کی گئی ہو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اخذ کیا گیا ہو۔ علم ، عمل یا حال اور کسی شبہ کی بنیاد پر اسے اچھا سمجھ کر دین قویم اور صراط مستقیم بنا لیا گیا ہو۔“
ان ائمہ اور حنفی اکابر کی توضیحات سے معلوم ہوا کہ ہر وہ نیا کام جسے ثواب و عبادت سمجھ کر دین میں داخل کر لیا گیا ہو وہ بدعت ہے۔
قرآن کریم کی روشنی میں بدعت کی مذمت:
اللہ تعالیٰ نے علمائے یہود کے لیے وعید کا ذکر فرمایا کہ جو تورات کی آیات اور اس کے احکام کو دنیا کی حقیر متاع کی خاطر بدل دیتے تھے اور تحریف کردہ کلام کے بارے میں لوگوں کو باور کراتے تھے کہ یہ کلام اللہ ہے۔ اور اپنی حرکتوں کی وجہ سے ناجائز طور پر لوگوں پر دو قسم کا ظلم کرتے تھے، ان کا دین بدل دیتے تھے، اور ان کا مال بھی ناجائز طور پر کھا جاتے تھے:
1: ﴿فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ يَكْتُبُونَ الْكِتَابَ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَٰذَا مِنْ عِندِ اللَّهِ لِيَشْتَرُوا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۖ فَوَيْلٌ لَّهُم مِّمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَّهُم مِّمَّا يَكْسِبُونَ﴾
[البقرة: 79]
”پس خرابی ہے ان لوگوں کے لیے جو اپنے ہاتھ سے کتاب لکھ لیتے ہیں، پھر کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے، تاکہ اس کے بدلے کچھ مال حاصل کریں، پس ان کے لیے خرابی ہے، اپنے ہاتھوں سے لکھی ہوئی (کتاب) کے سبب، ان کے لیے خرابی ہے ان کی اپنی کمائی کے سبب ۔“
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگرچہ اللہ تعالی نے اس آیت میں ان یہود علماء کی مذمت کی ہے جو تورات کی آیات کو بدل دیتے تھے ، لیکن دین اسلام آنے کے بعد ان لوگوں کو بھی شامل ہے جو بدعتوں کو صحیح ثابت کرنے کے لیے قرآن وسنت میں تحریف کرتے ہیں ۔ اس میں ان یہود کی مذمت کی گئی ہے جو تورات کا علم نہیں رکھتے تھے، صرف ان کے پاس چند بے بنیاد تمنائیں تھیں، اور اب اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو قرآن کریم میں غور و فکر نہیں کرتے صرف حروف کی تلاوت کرتے ہیں، اور وہ لوگ بھی شامل ہیں جو دنیاوی مقاصد حاصل کرنے کے لیے قرآن کریم کے خلاف کوئی دوسری بات اپنے ہاتھ سے لکھ کر لوگوں میں رائج کرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی شریعت اور اللہ کا دین ہے۔ اور وہ لوگ بھی شامل ہیں جو قرآن وسنت کو چھپاتے ہیں، تاکہ ان کا مخالف حق بات پر ان سے استدلال نہ کرے۔
اور قرآن پاک کی سورۃ الانعام میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
2: ﴿وَأَنَّ هَٰذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ﴾
[الأنعام: 153]
”اور بے شک یہی میری سیدھی راہ ہے، پس تم لوگ اس کی پیروی کرو، اور دوسرے طریقوں پر نہ چلو جو تمھیں اس کی (سیدھی) راہ سے الگ کر دیں، اللہ نے تمھیں ان باتوں کا حکم دیا ہے، تاکہ تم تقوی کی راہ اختیار کرو ۔“
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: ”کہ اس آیت میں اسلام کے لیے لفظ سبل مفرد آیا ہے اور دیگر مذاہب اور فرقوں کے لیے سبل جمع آیا ہے۔ اس لیے کہ حق ایک ہے، اور تقلیدی مذاہب اور عقائدی فرقے متعدد اور گونا گوں ہیں ۔“ (تفسیر ابن کثیر، تحت الآیة)
ابن عطیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ”سبل“ کا لفظ یہودیت ، نصرانیت، مجوسیت اور دیگر تمام حلقوں، بدعتوں اور گمراہیوں کو شامل ہے جنھیں اہل ہوا و ہوس نے پیدا کیا ہے، اسی طرح علم کلام کے وہ تمام فرقے اس لپیٹ میں آجاتے ہیں جو خواہ مخواہ کی تفصیلات میں داخل ہوتے ہیں۔
امام قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں، جان لو کہ راستہ صرف ایک ہے، اور اہل ہدایت کی جماعت اور اس کا انجام جنت ہے، اور ابلیس نے مختلف راستے پیدا کر دیے ہیں جو گمراہوں کی جماعتیں ہیں اور ان کا انجام جہنم ہے۔
یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ امت اسلامیہ کا اتحاد صرف ایک ہی صورت میں وجود میں آسکتا ہے کہ وہ سارے فرقوں اور مذاہب کو چھوڑ کر صرف صحیح اسلام کی متبع بن جائے ، جو صرف قرآن وحدیث کا نام ہے۔ اس کے بغیر اہل اسلام کا متحد ہونا محال ہے جیسا کہ امام مالک رحمہ اللہ کا قول ہے کہ یہ اُمت کسی بھی زمانے میں اسی راہ پر چل کر اصلاح پذیر ہوسکتی ہے، جسے اپنا کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اصلاح پذیر ہوئے ۔
3: بدعت افترا علی اللہ اور افترا علی الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مترادف ہے۔ مفتری کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتا ، اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
﴿قُلْ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُونَ﴾
[يونس: 69]
”آپ کہہ دیجیے کہ بے شک جو لوگ اللہ پر جھوٹ بہتان باندھتے ہیں وہ کامیاب نہیں ہوں گے۔ “
4: کسی بھی معاملے میں اللہ اور اس کے رسول کا حکم صادر ہو جائے تو کسی مومن مرد یا عورت کے لیے یہ اختیار باقی نہیں رہتا کہ اس کی مخالفت کرے اور اپنی یا کسی اور کی رائے پر عمل کرے، اس لیے کہ ایسا کرنا اللہ اور اس کے رسول کی سراسر نافرمانی اور کھلم کھلا گمراہی ہوگی۔ چنانچہ ارشاد فرمایا:
﴿وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ۗ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا﴾
[الأحزاب: 36]
”اور جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے میں فیصلہ کر دے، تو کسی مسلمان مرد اور عورت کے لیے اس بارے میں کوئی اور فیصلہ قبول کرنے کا اختیار باقی نہیں رہتا، اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا وہ کھلی گمراہی میں مبتلا ہو جائے گا۔ “
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: کہ اس آیت میں مذکور حکم تمام امور کو شامل ہے یعنی کسی بھی معاملے میں جب اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم صادر ہو جائے ، تو کسی کے لیے بھی اس کی مخالفت جائز نہیں ہے، اور نہ کسی کے قول یا رائے کی کوئی حیثیت باقی رہ جاتی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء آیت (65) میں فرمایا ہے:
5: ﴿فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا﴾
[النساء: 65]
”آپ کے رب کی قسم ! اوہ لوگ مومن نہیں ہو سکتے جب تک آپ کو اپنے اختلافی امور میں اپنا فیصل نہ مان لیں، پھر آپ کے فیصلہ کے بارے میں اپنے دلوں میں کوئی تکلیف نہ محسوس کریں، اور پورے طور سے تسلیم کر لیں ۔ “ (تفسير ابن كثير، تحت الآیة)
6: بدعت ایجاد کرنا شریعت سازی کے مترادف ہے۔ قرآن مجید کی اس آیت کریمہ میں اس چیز کی مذمت کی گئی ہے۔ چنانچہ مشرکین کے خلاف اللہ تعالی کے غیظ و غضب کا اعلان ہوا کہ:
﴿أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُم مِّنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَن بِهِ اللَّهُ ۚ وَلَوْلَا كَلِمَةُ الْفَصْلِ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ ۗ وَإِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾
[الشورى: 21]
”کیا ان کے ایسے شرکاء ہیں جنھوں نے ان کے لیے ایسا دین مقرر کر دیا ہے جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی ہے، اور اگر اللہ کی جانب سے یہ بات طے نہ ہو گئی ہوتی (کہ ان کا فیصلہ قیامت کے دن ہوگا) تو اس دنیا میں ہی اُن کے درمیان فیصلہ کر دیا جاتا ، اور بے شک ظالموں کے لیے درد ناک عذاب ہے۔“
مفسرین لکھتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں شرک باللہ کا شدید انکار اور مشرکین کے خلاف اللہ تعالیٰ کے غیظ و غضب کا اعلان ہے۔ اسی لیے اس کے بعد کہا گیا ہے کہ اگر یہ فیصلہ نہ ہو چکا ہوتا کہ ان کی سزا قیامت کے دن کے لیے مؤخر کر دی گئی ہے، تو ان کے جرم کا تقاضا تو یہ تھا کہ انھیں فوراً ہلاک کر دیا جاتا ، اور ایسے ظالموں کو قیامت کے دن دردناک عذاب دیا جائے گا۔
تيسر الرحمن، ص: 1359
7: اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسلام جیسا دین برحق دے کر دُنیا میں بھیجا، جس نے حق و باطل کو واضح کر دیا ہے، اب اگر کوئی اس سے چشم پوشی کرے اور اللہ تعالیٰ پر افترا پردازی کرے تو اس سے بڑا ظالم کون ہوگا، جیسا کہ مشرکین کا حال تھا کہ وہ اللہ کے لیے بیٹا اور شریک ٹھہراتے ، اور اس کی حرام کردہ چیزوں کو حلال ، اور حلال چیزوں کو حرام بناتے ، اور کہتے کہ اگر اللہ کی مرضی نہ ہوتی تو پھر ہم بتوں کی پرستش نہ کرتے۔
﴿وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَهُوَ يُدْعَىٰ إِلَى الْإِسْلَامِ ۚ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ﴾
[الصف: 7]
”اور اس سے بڑا ظالم کون ہوگا جو اللہ کے خلاف جھوٹ باندھے، حالانکہ اسے اسلام کی دعوت دی جا رہی ہو، اور اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔ “
سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں بدعت کی مذمت:
بدعت ، سنت کی ضد ہے، بدعت دین میں اضافہ کے مترادف ہے، جس سے قرآن وسنت میں انتہائی سخت الفاظ میں منع کیا گیا ہے، چنانچہ سیدنا سمرة بن جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
1: «إذا حدثتكم حديثا فلا تزيدن عليه»
مسند احمد: 11/5، حدیث نمبر: 2007 ۔ احمد شاکر نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
”جب میں تمھیں کوئی بات بیان کروں تو تم اس پر اضافہ ہرگز نہ کرنا۔ “
2: «عن البراء بن عازب رضي الله عنهما قال: قال النبى صلى الله عليه وسلم: إذا أتيت مطجعك فتوضأ وضوءك للصلاة ثم أضطجع على شقك الأيمن، ثم قل: اللهم أسلمت وجهي إليك، وفوضت أمرى إليك، وألجأت ظهري إليك، رغبة ورهبة إليك، لا ملجأ ولا منجى منك إلا إليك اللهم آمنت بكتابك الذى أنزلت، ونبيك الذئ أرسلت. فإن مت من ليلتك، فأنت على الفطرة، واجعلهن آخر ما تكلم به. قال: فرددتها على النبى صلى الله عليه وسلم ، فلما بلغت: اللهم آمنت بكتابك الذى أنزلت قلت: ورسولك، قال: لا ، ونبيك الذى أرسلت»
صحيح البخاری، کتاب الوضوء ، رقم: 247
براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا: جب تم اپنی خوابگاہ میں جاؤ تو پہلے نماز کا سا وضو کرو اور اپنے دائیں پہلو پر لیٹ کر یہ دعا پڑھو۔ اے اللہ ! تیرے ثواب کے شوق میں اور تیرے عذاب سے ڈرتے ہوئے میں نے اپنے آپ کو تیرے سپرد کر دیا اور تجھے اپنا پشت پناہ بنا لیا، تجھ سے بھاگ کر کہیں پناہ نہیں مگر تیرے ہی پاس ، اے اللہ ! میں اس کتاب پر ایمان لایا جو تو نے اتاری اور تیرے اس نبی پر یقین کیا جسے تو نے بھیجا۔ اب اگر تو اس رات مر جائے تو فطرت اسلام پر مرو گے، نیز یہ دعائیہ کلمات سب باتوں سے فارغ ہو کر پڑھو، سیدنا براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے یہ کلمات آپ کے سامنے دہرائے، جب میں اس جگہ پہنچا: «آمنت بكتابك الذى انزلت» اس کے بعد میں نے «ورسولك» کہہ دیا، تو آپ نے فرمایا: نہیں، بلکہ یوں کہو «ونبيك الذى ارسلت» ۔
3: «عن العر باض بن سارية، قال: وعظنا رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما بعد صلاة الغداة موعظة بليغة ذرفت منها العيون ووجلت منها القلوب، فقال رجل: إن هذه موعظة مودع فماذا تعهد إلينا يا رسول الله؟ قال أوصيكم بتقوى الله والسمع والطاعة، وإن تأمر عليكم عبد حبشي، فإنه من يعش منكم فسيرى اختلافا كثيرا وإياكم ومحدثات الأمور فإنها ضلالة فمن أدرك منكم ذالك فعليه بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين، عضوا عليها بالنواجذ»
سنن ترمذی، کتاب العلم، رقم: 2676 ۔ سنن ابوداؤد، رقم: 4607 ۔ سنن ابن ماجه رقم: 42۔ امام ترمذی نے اسے حسن صحیح اور محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے ۔
”سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ایک دن صبح کی نماز کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایسا مؤثر وعظ فرمایا کہ جس سے آنکھیں بہہ پڑیں اور دل کانپ اٹھے۔ ایک شخص نے کہا: یہ الوداعی نصیحت ہے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں کس بات کا حکم فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تم کو وصیت کرتا ہوں کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو، احکامات سنو اور اطاعت کرو خواہ تم پر حبشی غلام ہی کیوں نہ امیر مقرر کر دیا جائے۔ اس لیے جو تم میں سے زندہ رہیں گے۔ وہ دیکھ لیں گے کہ میری امت میں بڑا اختلاف پیدا ہوگا اور دیکھو دین میں پیدا کردہ نئی بدعات سے بچنا اس لیے کہ یہ گمراہی ہے۔ جو شخص ایسا زمانہ پائے وہ میری اور میرے خلفائے راشدین کی سنت کو مضبوطی کے ساتھ ڈاڑھوں سے پکڑے رکھے۔“
حافظ ابن رجب رحمہ اللہ نے اپنی کتاب جامع العلوم والحکم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان «فان كل بدعة ضلالة» کی شرح کرتے ہوئے رکھا ہے کہ آپ کا مذکورہ فرمان ان جامع کلمات میں سے ہے جن سے کوئی چیز خارج نہیں ہے۔ وہ اصول دین میں ایک عظیم اصل ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان «من أحدث فى أمرنا هذا ما ليس منه فهورة» کے مشابہ ہے لہذا جس نے بھی کوئی نئی بدعت ایجاد کی اور دین کی طرف اس کی نسبت کی اور دین میں اس کی کوئی اصل مرجع نہیں ہے تو وہ گمراہی ہے اور دین اس سے بری، الگ ہے، خواہ وہ اعتقادی مسائل ہوں یا ظاہری و باطنی اعمال و اقوال ہوں۔
بدعت مردود ہے اور بدعتی بھی مردود ہے۔
چنانچہ اُم المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«من أحدث فى أمرنا هذا ما ليس فيه فهورد»
صحيح البخارى، كتاب الصلح، باب اذا اصطلحوا على صلح جور فالصلح مردود ، رقم الحديث: 2697۔ صحیح مسلم، کتاب الأقضية، باب نقض الأحكام الباطلة ورده محدثات الأمور: 1718
”جس نے ہمارے اس دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کی جو اس میں نہیں ہے وہ مردود ہے۔ “
صحیح مسلم میں یہ حدیث ان الفاظ سے مروی ہے کہ:
«من عمل عملا ليس عليه أمرنا فهورة»
”جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا امر نہیں وہ مردود ہے۔“
اور امام بغوی رحمہ اللہ نے اسے یوں روایت کیا ہے کہ:
«من أحدث فى ديننا ما ليس منه فهورد»
شرح السنة، باب رد البدع والأهواء: 211/1 ، رقم: 103
یعنی اس حدیث میں «امرنا» کی تفسیر «ديننا» سے ہے۔ امر سے مراد دین ہے جس نے دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کی وہ مردود ہے۔
اس تفسیر کی رو سے دنیاوی ایجادات بدعت شرعی کی تعریف سے خارج ہوگئیں اور اہل بدعت کے شبہات کا ازالہ ہو گیا جو کہتے ہیں کہ گھڑی پہننا ، لاؤڈ سپیکر ، گاڑیاں وغیرہ بھی تو بدعت ہیں ۔ حدیث مذکورہ بالا سے معلوم ہوا کہ بدعت مردود ہے جو دین میں نئی ایجاد کی گئی ہو اور اسے عبادت سمجھ کر تقربِ الہی مراد ہو اور یہی بات امام ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ نے ”جامع العلوم والحكم“ حدیث نمبر 176/15 کے تحت ذکر کی ہے۔
بدعتی پر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی لعنت ہے۔
4: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«لعن الله من أحدث فى الإسلام حدثا»
مسند الربيع، رقم: 372
”اللہ تعالیٰ اس شخص پر لعنت فرمائے جس نے اسلام میں کوئی نئی بات ایجاد کی۔ “
5: ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«من أحدث فيها حدثا أو أوى فيها محدثا فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين، لا يقبل منه صرف ولا عدل»
مسند أحمد: 22/1
”جس نے اس ”مدینہ“ میں بدعت ایجاد کی یا بدعتی کو اپنے ہاں ٹھکانہ دیا اس پر اللہ کی، اس کے فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے اس سے فرض یا نفل عبادت قبول نہیں کی جائے گی ۔“
6: سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”مدینہ اس طرح حرام ہے، اس کے درخت نہ کاٹے جائیں اور نہ ہی اس میں کوئی بدعت نکالی جائے ۔ جس نے اس میں بدعت نکالی اس پر اللہ تعالیٰ فرشتوں اور تمام بنی نوع انسان کی لعنت ہو ۔ “
صحيح البخارى، كتاب فضائل المدينة، رقم: 1867 و كتاب الاعتصام بالكتاب والسنة، رقم: 7306۔ صحیح مسلم: 441/1
بدعتی کی توبہ بھی قبول نہیں ہوتی ، انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”بے شک اللہ تعالیٰ نے ہر بدعت والے آدمی سے توبہ کو روک دیا ہے۔“
اس حدیث کو امام طبرانی نے اوسط میں بیان کیا ہے۔
مجمع الزوائد: 192/10 – طبرانی اوسط: 113/5
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے آثار کی روشنی میں بدعت کی مذمت:
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سنت سے محبت کرنے والے اور بدعت سے شدید نفرت کرنے والے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اس چیز کا درس دیا تھا۔
(1) سیدنا ابو بکر صدیق رضی الله عنہ :
علامہ ابن سعد رحمہ اللہ نے اپنی سند سے ذکر کیا ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
”لوگو! میں متبع سنت ہوں، بدعتی نہیں ہوں ، لہذا اگر درست کروں تو میری مدد کرو اور اگر انحراف کروں تو میری اصلاح کرو۔ “
الطبقات الکبری از ابن سعد: 136/3
(2) سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ:
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
”اصحاب الرائے (بدعتیوں) سے بچو کیونکہ یہ سنتوں کے دشمن ہیں، ان سے حدیثیں نہ یاد ہو سکیں تو انھوں نے اپنی من مانی (جو دل میں آیا) کہنا شروع کر دیا، خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا ۔ “
سنن دارمی: 47/1
(3) سیدنا علی المرتضى رضی اللہ عنہ:
امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ ”اللہ تعالی کی لعنت ہو ایسے آدمی پر جس نے غیر اللہ کے لیے ذبح کیا اور اس کی لعنت بر سے ایسے آدمی پر جس نے زمین کی حدود چوری کر لیں اور اللہ کی لعنت ہو ایسے آدمی پر جس نے اپنے والد پر لعنت کی اور ایسے آدمی پر بھی اللہ کی لعنت ہو جس نے کسی بدعتی کو پناہ دی ۔ “
صحيح مسلم، کتاب الأضاحی، باب تحريم الذبح لغير الله ، رقم: 1978 – مسند احمد: 118/1
سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ میں بدعت ایجاد کرنے والے اور بدعتی کی عزت و تکریم کرنے والے شخص کے متعلق فرماتے ہیں:
«من أحدث فيها حدثا أو أوى فيها محدثا، فعليه لعنة الله، والملئكة، والناس أجمعين لا يقبل منه صرف ولا عدل»
صحیح بخاری، رقم: 3172۔ صحیح مسلم، رقم: 3327
”پس اس مدینہ میں جو کوئی نئی بات نکالے گا یا کسی بدعتی کو پناہ دے گا، اس پر اللہ تعالیٰ ، فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے اس سے فرض یا نفل عبادت قبول ہی نہیں کی جائے گی۔“
(4) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«من أحدث فى أمرنا هذا ما ليس منه فهورد»
صحیح بخاری: 132/9 صحیح مسلم: 1344/3
”جس نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسی چیز ایجاد کی جو اس میں سے نہیں ہے تو وہ مردود اور ناقابل قبول ہے۔ “
دوسری روایت کے الفاظ اس طرح ہیں:
«من عمل عملا ليس عليه أمرنا فهورد»
صحیح مسلم: 1344/3
”جس نے کوئی ایسا کام کیا جس پہ ہمارا حکم نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔ “
امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں: یہ حدیث اسلام کا ایک عظیم قاعدہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جامع کلمات میں سے ایک ہے۔ یہ ہر طرح کی بدعت اور خود ساختہ امور کی تردید میں صریح ہے۔ دوسری روایت میں مفہوم کی زیادتی ہے اور وہ یہ کہ بعض پہلے سے ایجاد شدہ بدعتوں کو کرنے والے کے خلاف اگر پہلی روایت بطور حجت پیش کی جائے تو وہ بطور عناد کہے گا کہ میں نے تو کچھ ایجاد نہیں کیا، لہذا اس کے خلاف دوسری روایت حجت ہوگی ، جس میں یہ کہا گیا ہے کہ ہر نئی چیز مردود ہے، خواہ کرنے والے نے اسے از خود ایجاد کیا ہو یا اس سے پہلے اسے کوئی ایجاد کر چکا ہو۔
شرح مسلم للنووی: 16/12
(5) سیدنا عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ:
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
«اتبعوا ولا تبتدعوا فقد كفيتم»
سنن دارمی، رقم: 211
”اتباع کرو بدعت اختیار نہ کرو، تمہاری کفایت کی جاچکی یعنی تمھیں خود رائی کی ضرورت نہیں۔ “
عمر و بن یحی اپنے والد سے روایت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم لوگ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے دروازے پر صبح کی نماز سے پہلے بیٹھے ہوئے تھے کہ وہ باہر نکلے تو ہم سبھی لوگ ان کے ساتھ مسجد چلے ، اتنے میں سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ آئے اور کہا کہ کیا ابھی ابو عبد الرحمن نہیں نکلے؟ ہم نے کہا کہ نہیں ، تو وہ بھی ان کے نکلنے تک بیٹھ گئے ، جب وہ نکلے تو ہم سبھی لوگ کھڑے ہو گئے۔ ابو موسیٰ نے کہا: اے ابو عبد الرحمن! میں نے ابھی مسجد میں ایک ایسی چیز دیکھی ہے جو مجھے بہت ناگوار گزری، اور الحمدللہ خیر ہی دیکھی ہے، انھوں نے پوچھا وہ کیا ہے؟ انھوں نے جواب دیا کہ اگر زندہ رہے تو آپ دیکھ لیں گے، انھوں نے کہا: میں نے مسجد میں کچھ لوگوں کو حلقہ لگا کر بیٹھے ہوئے دیکھا ، وہ نماز کی انتظار میں تھے، ہر حلقے میں ایک آدمی تھا، اور ان کے ہاتھ میں کنکریاں تھیں جب وہ کہتا کہ سو بار «الله اكبر» کہو تو سب لوگ سو بار «الله اكبر» کہتے ، اور جب وہ کہتا کہ سو بار «لا إله إلا الله» کہو، تو سو بار «لا إله إلا الله» کہتے ، جب وہ کہتا کہ سو مرتبہ «سبحان الله» کہو تو وہ سو مرتبہ «سبحان الله» کہتے ۔ انھوں نے کہا، کیوں نہیں تم نے انھیں اپنے گناہوں کو شمار کرنے کو کہا اور تم ضمانت لے لیتے کہ تمھاری کوئی نیکی ضائع نہیں ہوگی۔ پھر وہ چلے ہم بھی ان کے ساتھ چل پڑے یہاں تک کہ ان حلقوں میں سے ایک حلقے کے پاس کھڑے ہوئے اور کہا یہ کیا میں تمھیں کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ اے ابو عبدالرحمن ! کنکریاں ہیں جن سے ہم تکبیر و تہلیل، تسبیح اور تحمید کا شمار کرتے ہیں ۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: تم لوگ اپنی اپنی خطائیں شمار کرو، تمھارے لیے اس بات کا ضامن ہوں کہ تمھاری کوئی نیکی برباد نہیں ہوگی۔ اے امت محمد ! تمھاری تباہی و بربادی ہو، کتنی جلدی تمھاری ہلاکت آگئی یہ صحابہ کرام کی جماعت موجود ہے، یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے ابھی بوسیدہ نہیں ہوئے اور نہ ہی آپ کے برتن ٹوٹے۔
اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! کیا تم لوگ ایسے طریقے پر ہو جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے سے زیادہ بہتر ہے، یا گمراہی کے دروازے کھولنے والے ہو۔ تو ان لوگوں نے کہا کہ اللہ کی قسم ! اے عبدالرحمن ہمارا مقصد صرف خیر کا ہی ہے، انھوں نے کہا کہ: کتنے خیر کے متلاشی اسے ہرگز نہیں پا سکتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو ایک حدیث بیان کی کہ ایک قوم قرآن مجید پڑھے گی لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، اور اللہ کی قسم ! مجھے معلوم نہیں ہے، ہو سکتا ہے کہ وہ زیادہ تر تم میں سے ہوں یہ کہہ کر وہاں سے واپس چلے گئے۔
عمر و بن سلمہ کہتے ہیں کہ: ”ہم نے انھیں نہروان کے دن دیکھا کہ وہ خوارج کے ساتھ ہم سے نیزہ زنی کر رہے تھے ۔“
سلسلة احادیث صحیحه، رقم: 2005 – سنن دارمی، حدیث ، رقم 210
علامه مروزی رحمہ اللہ سیدنا ابن مسعود اور ابی ابن کعب رضی اللہ عنہما کا قول نقل کرتے ہیں کہ:
«الاقتصاد فى السنة خير من الاجتهاد فى البدعة»
السنه للمروزى، حدیث رقم: 76، 77
”سنت کے مطابق تھوڑا عمل کرنا بدعت پر چلتے ہوئے زیادہ عمل کرنے سے بہتر ہے۔ “
(6) سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما:
حضرت نافع رحمہ اللہ سے روایت ہے:
«ان رجلا عطس إلى جنب ابن عمر فقال: الحمد لله والسلام على رسول الله. قال ابن عمر وأنا أقول: الحمد لله والسلام على رسول الله وليس هكذا علمنا رسول الله ما علمنا أن تقول الحمد لله على كل حال»
سنن ترمذی، کتاب الأدب، رقم: 2738 – محدث البانی نے اسے حسن کہا ہے۔
”سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بغل میں بیٹھے ہوئے ایک شخص کو چھینک آئی اس پر اس نے الحمد لله والسلام على رسول الله کہا، اس پر سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: میں بھی کہتا ہوں الحمد لله والسلام على رسول الله، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس طرح نہیں سکھایا بلکہ ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ ہمیں جب چھینک آئے تو الحمد لله کہیں۔ “
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا کا فرمان ہے کہ:
كل بدعة ضلال وان رآها الناس حسنة
السنة للامام المروزی، رقم: 82- شرح اصول اعتقاد اهل السنة والجماعة للالكائي: 92/1 – الابانة: 92/1
”ہر بدعت گمراہی ہے اگرچہ لوگ اسے اچھا سمجھیں۔ “
(7) سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما:
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
”لوگوں پہ کوئی سال ایسا نہ گزرے گا جس میں وہ کوئی بدعت ایجاد نہ کریں گے اور کسی سنت کو مردہ کر چکے ہوں گے۔ یہاں تک کہ بدعتیں زندہ و پائندہ ہوتی رہیں گی اور سنتیں مردہ ہوتی چلی جائیں گی ۔ “
المعجم الكبير از امام طبرانی: 319/10
عثمان بن حاضر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے ہاں گیا ، ان سے نصیحت کی درخواست کی تو انھوں نے مجھے نصیحت فرمائی کہ اللہ سے تقویٰ کو لازم پکڑو، استقامت اختیار کرو، اتباع کرو اور بدعت سے دور رہو۔
سنن دارمی، رقم: 141
اللہ تعالیٰ کے فرمان عالیشان: ﴿يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ﴾
[آل عمران: 106]
”جس دن بعض چہرے سفید ہوں گے اور بعض چہرے سیاہ۔ “ کی تفسیر میں سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
”یعنی اہل سنت والجماعت کے چہرے سفید ہوں گے اور اہل بدعت و افتراق کے چہرے سیاہ ہوں گے ۔ “
اجتماع الجيوش الاسلامية على غزو المعطلة والجهمية، از امام ابن قیم رحمہ الله: 39/2
کسی نے کیا خوب کہا ہے:
خير الأمور السافلات على الهدى
وشر الأمور المحدثات البدائع
”بہترین کام وہ ہیں جو راہ ہدایت پر چلتے ہوئے کیے جائیں اور بدترین کام وہ ہیں جو نئے اور انوکھے ہوں۔ “
سیدنا یزید بن عمیرہ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں میں سے تھے، یہ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کا معمول ذکر کرتے ہیں کہ وہ جب بھی محفل ذکر میں بیٹھتے تو فرماتے: اللہ حکمت اور عدل والا ہے، اور شک کرنے والے ہلاک ہو گئے، ایک دن سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تمھارے بعد بہت سارے فتنے ظہور پذیر ہوں گے، جن میں سے ایک فتنہ کثرتِ مال کا ہے اور قرآن کو کھول دیا جائے گا، یہاں تک کہ اس کو مومن و منافق ، مرد اور عورت ، چھوٹے اور بڑے، غلام اور آزاد، سب دیکھیں گے، قریب ہے کہ ایک کہنے والا کہے کہ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ میری اتباع نہیں کرتے حالانکہ میں نے قرآن ہی پڑھا ہے؟ وہ لوگ ہرگز ہرگز اس کی پیروی نہیں کریں گے ، جتنی کہ (اس قاری قرآن) کے علاوہ کوئی اور شخص ان کے لیے بدعت ایجاد کرے گا (یہ اس کی پیروی کریں گے) تم اس بدعت سے بچتے رہو جس کو وہ گھڑے گا، یقینا جو اس نے بدعت ایجاد کی ہے وہ گمراہی ہے، اور سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں تمھیں حکیم (دانا) کے گمراہ کرنے سے ڈراتا ہوں، کیونکہ کبھی کبھار شیطان دانا آدمی کی زبان سے بھی گمراہی کا کلمہ کہلوا دیتا ہے، اور کبھی کبھار منافق حق بات کہہ دیتا ہے؟ (یزید کہتے ہیں) میں نے سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ سے عرض کیا: اللہ آپ پر رحم کرے، آپ ذرا مجھے پہچان کرا دیں کہ دانا آدمی بھی گمراہی کا کلمہ کہتا ہے اور منافق بھی کلمہ حق کہہ سکتا ہے؟ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: کیوں نہیں! دانا کے اس کلام سے بچ اور جس کے بارے میں اسے یوں کہا جائے کہ یہ کیا ہے؟ وہ اس گمراہی کو تیرے لیے حق سے علیحدہ بیان نہیں کرے گا، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے اس حکم سے رجوع کر لے یا پھر جب وہ حق کو سنے تو اس کو قبول کرلے، یقیناً حق پر نور اور تابناک ہوتا ہے ۔
سنن ابی داؤد، کتاب السنة، رقم: 4611 محدث البانی نے اسے ”صحیح الاسناد“ کہا ہے۔
(8) سیدنا انس رضی الله عنہ:
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
جاء ثلاثه رهط إلى بيوت أزواج النبى صلى الله عليه وسلم يسألون عن عبادة النبى صلى الله عليه وسلم فلما أخبروا كأنهم تقالوها فقالوا: وأين نحن من النبى صلى الله عليه وسلم قد غفر له ما تقدم من ذنبه وما تأخر قال أحدهم: أما أنا فإني أصلى الليل أبدا، وقال آخر: أنا أصوم الدهر ولا أفطر، وقال آخر: أنا أعتزل النساء فلا أتزوج أبدا فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم إليهم، فقال: أنتم الذين قلتم كذا وكذا ، أما والله! إني لأخشاكم لله وأتقاكم له ، لكني أصوم وأفطر ، وأصلي وأرقد، وأتزوج النساء فمن رغب عن سنتي فليس مني
صحیح بخاری، صحیح مسلم
ازواج مطہرات کے پاس تین آدمی آئے ، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کے سلسلہ میں دریافت کیا، جب ان کو اس کی خبر دی گئی تو انھوں نے اس کو کم تصور کیا اور کہنے لگے: ہماری نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا نسبت اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے اور پچھلے گناہ سب بخش دیے ہیں۔ ان میں سے ایک نے کہا: میں ساری رات نماز پڑھوں گا، دوسرے نے کہا: میں ہمیشہ دن میں روزے سے رہوں گا اور تیسرے نے کہا: میں عورتوں سے الگ رہوں گا کبھی شادی نہ کروں گا (یعنی ہمیشہ عبادت میں مصروف رہوں گا) اچانک نبی صلی اللہ علیہ وسلم پہنچ گئے، اور فرمایا: ”کیا تمھیں لوگوں نے ایسا ایسا کہا ہے؟ خبردار، اللہ کی قسم ! میں تم میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور زیادہ تقویٰ اختیار کرنے والا ہوں، نفلی روزہ بھی رکھتا ہوں اور نہیں بھی رکھتا ہوں، رات کو نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں لہذا جس نے میری سنت سے اعتراض کیا وہ مجھ سے نہیں۔“
(9) غضيف بن حارث رضی الله عنہ:
جناب غضیف بن حارث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب کوئی قوم بدعت ایجاد کرتی ہے تو ان سے ایک سنت اٹھائی جاتی ہے۔
مسند أحمد: 105/4
(10) ابراہیم بن میسرۃ رضی اللہ عنہ:
جناب ابراہیم بن میسرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے صاحب بدعت کی توقیر کی ، اس نے اسلام کی عمارت ڈھا دینے میں معاونت کی ۔
شعب الايمان: 61/7 ، رقم: 9464
ائمہ کرام اور اہل علم کے اقوال کی روشنی میں بدعت کی مذمت:
ائمہ کرام اور اہل علم نے بھی بدعت کی مذمت بیان کی ہے۔ ذیل میں دیے گئے اقوال و فتاویٰ ائمہ اس بات پر دلالت کرتے ہیں۔
(1) امام مالک بن انس رحمہ اللہ:
امام شاطبی رحمہ اللہ نے اپنی مایہ ناز کتاب ”الاعتصام“ میں امام دار الہجرہ سے نقل فرمایا ہے:
جو شخص اسلام میں کوئی بدعت متعارف کراتا ہے اور یہ گمان کرتا ہے کہ یہ بدعت حسنہ ہے، تو اس شخص کا یقینا یہ عقیدہ ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اللہ کا پیغام پہنچانے میں جو کہ ان کی ذمہ داری تھی ، خیانت کی ہے: (العیاذ باللہ) اور اگر تم دلیل چاہو تو
اللہ تعالی کا کلام پڑھو:
﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا﴾
[المائدة: 3]
”آج کے دن میں نے تمھارا دین تمھارے لیے مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کر دی اور اسلام کو تمھارے لیے بطور دین پسند کر لیا۔“
آپ نے مزید فرمایا:
”اور اس امت کے آخری (لوگوں) کی اصلاح نہیں ہو سکتی مگر صرف اس طریقے سے جس سے اس امت کے پہلے (لوگوں) کی اصلاح ہوئی تھی۔ پس جو چیز اس وقت دین کا حصہ نہ تھی وہ آج بھی دین کا حصہ نہیں بن سکتی ۔ “
الشفا للقاضی عیاض: 676/2
پھر امام شاطبی (رحمہ اللہ) فرماتے ہیں: ”ہم اس روایت کو جو امام مالک (رحمہ اللہ) امام دار الہجرہ سے صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے، بطور دلیل پیش کرتے ہیں کہ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ دین میں کوئی بدعت ایجاد کرے، چاہے وہ کتنی ہی چھوٹی اور معمولی کیوں نہ ہو، اور چاہے وہ کردار وسلوک میں ہو یا عبادات و اعتقادات میں اور ہم اس روایت کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں قرآن کریم کی اس آیت پر اعتماد کرتے ہوئے کہ جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہمارے دین یعنی اسلام کو تمام کر کے اس نے ہم پر اپنی نعمت تمام کر دی ۔“
الاعتصام: 35/2
فضيلۃ الشيخ صالح بن فوزان الفوزان حفظ اللہ اپنی کتاب ”بدعت“ میں امام مالک رحمہ اللہ کا یہ قول لائے ہیں کہ ایک آدمی امام مالک بن انس رحمہ اللہ کے پاس آ کر کہنے لگا کہ میں احرام کہاں سے باندھوں؟ تو آپ نے جواب دیا کہ اس میقات سے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر کی ہے آدمی نے کہا، اگر اس سے دور سے احرام باندھوں تو؟ امام مالک رحمہ اللہ نے کہا: یہ میں اچھا نہیں سمجھتا، تو اس آدمی نے کہا: اس میں آپ کیا برا سمجھتے ہیں؟ انھوں نے کہا کہ تمھارے فتنے میں پڑنے کا مجھے خوف ہے، اس آدمی نے کہا کہ خیر کے چاہنے میں فتنہ ہوسکتا ہے؟ تو امام مالک نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾
[النور: 63]
”پس چاہیے کہ ڈریں وہ لوگ جو مخالفت کرتے ہیں اور رسول کے حکم کی اس (بات) کہ انھیں دُنیا میں کوئی آزمائش یا آخرت میں دردناک عذاب پہنچے ۔ “
(2) امام شافعی رحمہ اللہ:
امام شافعی رحمہ اللہ ارشاد فرماتے ہیں کہ: ”اہل کلام کے بارے میں میرا فیصلہ یہ ہے کہ کھجور کی شاخ سے ان کی پٹائی کی جائے ، انھیں اونٹ پر سوار کر کے علاقوں اور قبیلوں میں گھمایا جائے اور اعلان کیا جائے کہ یہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر علم کلام سے جڑ جانے کا انجام ہے۔ “
الحليه: 116/9
(3) امام احمد بن حنبل رحمہ الله:
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: ”سنت کے اصول ہمارے نزدیک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عقیدہ منہج کو لازم پکڑنا ، بدعات سے اجتناب کرنا کہ ہر بدعت گمراہی ہے جھگڑے اور بےجا مباحاثات سے دور رہنا اور اہل بدعت کی ہم نشینی سے احتراز کرنا نیز دین میں اختلاف اور جنگ وجدال سے بچنا ہے۔“
شرح أصول اعتقاد اهل السنة والجماعة از لالکائی: 176/1
مزید امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا:
أصول السنة عندنا التمسك بما كان عليه أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم والاقتداء بهم وترك البدع وكل بدعة ضلالة
القول الرسمي، ص: 13
”اصول سنت ہمارے ہاں یہ ہے کہ صحابہ کرام کے طریقے کو لازم پکڑیں اور ان کی اقتداء کریں اور بدعت کو ترک کر دیں کیونکہ ہر بدعت گمراہی ہے۔“
(4) امام سفیان ثوری رحمہ الله:
امام سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
البدعة أحب إلى إبليس من المعصية لان المعصية يتاب منها، والبدعة لايتاب منها
منهج سلف صالحين، ص: 111
”شیطان کو بدعت نافرمانی و گناہ سے زیادہ محبوب و پسند ہے کیونکہ گناہ و نافرمانی سے توبہ کر لی جاتی ہے مگر بدعت سے توبہ اکثر طور پر نہیں کی جاتی۔ “
مؤرخ اسلام علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے سفیان ثوری رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہے کہ: ”جو شخص جان بوجھ کر بدعتی آدمی کی بات توجہ سے سنے وہ اللہ تعالیٰ کی (حفاظت) سے نکل گیا اور اپنے نفس کے سپر د کر دیا گیا۔ “
سير أعلام النبلاء: 261/7
سفیان ثوری رحمہ اللہ کا ہی ایک اور قول ہے: لکھتے ہیں ”جو شخص کسی بدعت کے بارے میں سنے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے ساتھیوں کو اس بدعت کے متعلق مت بتائے ، ان کی توجہ اس طرف مبذول نہ کروائے۔ “
پھر امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
”اکثر اسلاف اس قدر ڈراتے ہیں؛ ان کا خیال ہے کہ دل کمزور ہوتے ہیں اور شبہات ان میں جلدی داخل ہو جاتے ہیں۔ “
(5) سیدنا عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ:
سیدنا عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے کسی آدمی کو خط لکھا:
سلام عليك … ”تجھ پر سلام و سلامتی ہو ۔“ اس کے بعد میں تجھے اللہ کے دین پر کاربند رہنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع پر اکتفا کرنے کی نصیحت کرتا ہوں اور اس سے بچنے کی جسے بعد والوں نے گھڑا ہے، آپ کی سنت جاری ہو چکی اور اس پر ہی تکلیف اُٹھانا کافی ہے، پھر یہ بات بھی تجھے ذہن نشین ہو جائے کہ جب بھی کوئی بدعت آتی ہے تو اس (بدعت) سے پہلے سنت چلی جاتی ہے، کیونکہ سنت وہ چیز ہے جس پر وہ لوگ چلے جو یہ جانتے تھے کہ اس (سنت) کے برعکس اور مقابل ومعارض جو چیز ہے وہ گمراہی غلطی، جہالت اور حماقت و بے وقوفی ہے، اپنے نفس کو اس چیز پر راضی کر جس پر صحابہ نے اپنے نفسوں کو راضی کیا، بے شک انھوں نے علم کی بنا پر توقف اختیار کیا اور گہری بصیرت کی وجہ سے رکے رہے۔ اور معاملات کا پردہ چاک کرنے پر زیادہ قادر تھے اور اگر اس میں فضیلت ہوتی تو وہ اس کے زیادہ مستحق و حق دار تھے، وہ تم سے پہلے گزرے ہیں اور اگر ہدایت وہ چیز ہے جس پر تم ہو تو کیا تم ہدایت میں ان سے بھی سبقت لے گئے ہو (اور ایسا نہیں ہوسکتا) تو پھر تم عذر پیش کرو کہ یہ معاملات ان کے بعد پیش آئے ہیں تو لامحالہ ان اُمور کو انھوں نے ہی گھڑا ہو گا، جو ان کے راستے کے علاوہ دوسرے راستے کی پیروی کرتے ہیں اور خود کو ان سے بیزار سمجھتے ہیں۔ پس تحقیق ہم نے صفات کے بارے میں کلام کیا جو ان کے کلام کے علاوہ تھا تو وہ تقصیر وکمی اور توہین ہے اور کچھ ان سے آگے بڑھنے لگے یہ ان کے لیے قیامت کے دن حسرت ہوگی اور کچھ لوگوں نے ان سے کمی کی تو وہ (صراط مستقیم پر) قرار نہ پا سکے اور کچھ لوگوں نے ان سے نظریں پھیریں تو انھوں نے غلو کیا۔
اس کے باوجود کہ وہ صراط مستقیم پر تھے اگر تو یہ کہے فلاں فلاں آیت کہاں جائے گی؟ اور اللہ نے ایسے ایسے کیوں کہا؟ تحقیق انھوں نے بھی وہی پڑھا جو تم نے پڑھا اور ان کی تفسیر کو جانا جس کی تفسیر و تاویل سے تم ناآشنا و جاہل ہو پھر ان ساری باتوں کے بعد انھوں نے کہا ”ہدایت یافتہ وہی ہو سکتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ ہدایت کی توفیق دے کیونکہ ہدایت کی توفیق دینا اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے اور وہی جانتا ہے کہ ہدایت کے قابل کون ہے ۔ “
منهج سلف صالحین، ص: 115 ، 116
(6) حسان بن عطیہ رحمہ اللہ:
تابعی جلیل حضرت حسان بن عطیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ما ابتدع قوم بدعنى دينهم إلا نزع من سنتهم مثلها
سنن الدارمی: 58/1، رقم: 98
”جب بھی کوئی قوم دین میں بدعت ایجاد کرتی ہے تو ان میں سے اس کے مثل سنت اٹھالی جاتی ہے۔“
(7) احمد بن سنان الواسطی رحمہ اللہ:
امام احمد بن سنان الواسطی (متوفی 259ھ) فرماتے ہیں:
”دنیا میں جو بھی بدعتی ہے وہ اہل حدیث سے بغض رکھتا ہے اور آدمی جب بدعتی ہو جاتا ہے تو حدیث کی مٹھاس اس کے دل سے نکل جاتی ہے ۔ “
معرفة علوم الحديث للحاكم، ص: 4
(8) ابو الفضل الھمدانی رحمہ اللہ:
الشيخ ابو الفضل الھمدانی نے فرمایا:
”بدعتی ٹولہ اسلام کے لیے ملحدین سے بھی زیادہ نقصان دہ ہے کیونکہ ملحدین دین کو بیرونی ذرائع سے بگاڑنا چاہتے ہیں جب کہ بدعتی ٹولہ دین کو اندرونی طور پر بگاڑنا چاہتا ہے، ان کی مثال اس شہر والوں کی سی ہے جو شہر کے حالات کو بگاڑنا چاہتے ہیں اور ملحدین کی مثال ان لوگوں کی سی ہے جو باہر سے آ کر ان کا ساتھ دیتے ہیں، تو اہل قلعوں اور شہر کا دروازہ کھولتے ہیں، (تاکہ بیرونی مددگار بھی اندر داخل ہو سکیں) لہذا یہ ٹولہ اسلام کے لیے اندرونی دشمن ہونے کی وجہ سے زیادہ خطرناک ہے (یہ آستین کے سانپ ہیں) ۔ “
الموافقات: 51/1
(9) امام ابو محمد حسن بن علی البر بہاری رحمہ اللہ:
امام بر بہاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
وهم أهل السنة والجماعة، فمن لم يأخذ عنهم فقد ضل وابتدع، وكل بدعي ضلالة، والضلالة و أهلها فى النار
منهج سلف صالحین، ص: 66
”صحابہ کرام ہی اہل السنہ والجماعت ہیں جو ان سے دین کے معاملات میں رہنمائی نہیں لیتا ، وہ گمراہ ہو گیا اس نے بدعت گھڑی ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور گمراہی اور گمراہ دونوں جہنمی ہیں۔“
علامہ بر بہاری رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں کہ یہ بات آپ کے علم میں ہونی چاہیے کہ جب کبھی بھی لوگ بدعت گھڑتے ہیں تو نتیجتاً وہ اس کے بدلے میں اس جیسی ایک سنت کو چھوڑ دیتے ہیں ، تو آپ من گھڑت امور سے بچئے کیونکہ ہر نیا کام من گھڑت اور بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی کا مرتکب جہنم میں جائے گا۔
منهج سلف صالحین، ص: 110
علامہ بر بہاری رحمہ اللہ ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ:
واحذر صغار المحدثات من الأمور فإن صغير البدع يعود حتى بصير كبيرا
منهج سلف صالحین، ص: 112
”چھوٹی چھوٹی بدعتوں سے بھی بچو کیونکہ چھوٹی بدعتیں ہی چلتے چلتے بڑی ہو جاتی ہیں۔ “
امام بر بہاری رحمہ اللہ آگے مزید فرماتے ہیں کہ:
”اسی طرح ہر وہ بدعت جو اس امت کے اندر پیدا ہوتی ہے وہ ابتدا میں چھوٹی تھی اور حق کے متشابہ تھی جو اس میں داخل ہوا، اس نے اس سے دھوکہ کھایا پھر اس بدعت سے نکلنے کی اس میں ہمت نہ رہی، پھر یہ بڑھتے بڑھتے ایک الگ دین بن گیا جس کو اس نے اختیار کیا تو اس نے صراط مستقیم کی مخالفت کی ۔ “
منهج سلف صالحین ، ص: 114 ، 115
(10) شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ:
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”اہل بدعت کی یہ عادت ہے کہ وہ کتاب وسنت اور آثار صحابہ و تابعین پر کاربند نہیں ہوتے ، بلکہ ان کا اعتماد وبھروسہ عقل اور لغت عرب پر ہے، ان کا اعتماد ایسی کتب تفسیر پر نہیں ہوتا جو احادیث اور آثار صحابہ اور تفسیر بالماثور پر مشتمل ہیں بلکہ اس کی بجائے ان کا بھروسہ کتب ادب و کتب کلام پر ہے جن کتب کو ان کے بڑوں نے لکھا ہے، یہ طریقہ تو ملحد و بےدین لوگوں کا ہے جو کتب فلسفہ و کلام اور کتب لغت کی باتوں کو لیتے ہیں، لیکن کتب احادیث و آثار صحابہ حتی کہ قرآن کی طرف بھی التفات تک نہیں کرتے ، یہ لوگ نصوصِ انبیاء علیہم السلام سے بھی انحراف و اعراض کرتے ہیں بلکہ ان کے نزدیک تو یہ نصوص (بے فائدہ ہیں) علم کا فائدہ تک نہیں دیتیں ۔ “
منهج سلف صالحین، ص: 138
(11) علامہ ابن قیم رحمہ الله:
علامہ ابن القیم نے لکھا ہے: ”کہ شیطان کا ایک مکر یہ بھی ہے کہ اس نے عوام کو ایک مذہبی لباس، ایک ہیئت اور ایک ہی قسم کے چال چلن اور ایک ہی متعین شیخ اور متعین مذہب کی پابندی کا ایسا عادی بنا دیا ہے کہ لوگ اسے دینی فریضہ کی طرح اختیار کر چکے ہیں اور اس متعین دائرے سے نکلنے کو دین سے نکل جانے کے برابر سمجھتے ہیں اور جو لوگ اس تنگ مذہبی دائرے سے نکلنا چاہتے ہیں یا نکل جاتے ہیں، یہ انھیں خارجی اور بےمذہب ہونے کا طعنہ دیتے ہیں، جیسے مقلدین مذاہب اور صوفیاء کے مریدوں کا حال ہے کہ وہ اپنے سلسلوں آسمان سے اترا ہوا دائرہ سمجھتے ہیں اور نقش بندی یا سہروردی یا شاذلی یا تیجانی یا قادری سلسلہ سے باہر رہنے والوں کو دائرہ حق سے باہر سمجھتے ہیں۔ ان لوگوں نے شریعت وطریقت کے نام پر چند موہوم اور من گھڑت رسوم و عادات کو دین کا نام دے کر اپنا لیا ہے۔ جن کا دینی حقائق اور کتاب وسنت سے دور کا واسطہ بھی نہیں، جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کو تلاش کریں گے اور ان خرافات سے اس کا مقابلہ کریں گے ان پر روز روشن کی طرح عیاں ہو جائے گا کہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور شریعت ربانی کے درمیان اہل بدعت و ضلالت کے من گھڑت رسم و رواج میں زمین و آسمان اور سیاہ وسفید بلکہ رات اور دن کا فرق ہے۔ “
اغاثة اللهفان: 165/1
علامہ ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:
”مقصود و مطلوبِ شریعت یہ ہے کہ آلاتِ موسیقی اور شراب کے برتنوں کو توڑنے کی بنسبت ان کتب کو جلانا ، تلف کرنا اور ختم کرنا زیادہ افضل ہے جن میں جھوٹ اور بدعات بھری پڑی ہیں کیونکہ ان کا نقصان ان سے زیادہ ہے اور جس طرح آلاتِ موسیقی ، شراب کی بھٹی اور برتنوں کے توڑنے پر کوئی کفارہ اور تاوان نہیں اسی طرح ان کتب کے ختم کرنے پر بھی کوئی کفارہ وتاوان نہیں ہے۔ “
الطرق الحكميه، ص: 284
(12) امام شاطبی رحمہ الله:
امام شاطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”یہ بات (روز روشن کی طرح) ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت تک موت نہیں آئی کہ جب تک انھوں نے ان تمام دینی و دنیاوی امور کو بیان نہیں کر دیا ، جن کی طرف (بندہ) محتاج ہو سکتا ہے اور یہ بات مسلم ہے کہ اہل السنہ میں سے اس کی مخالفت کرنے والا کوئی نہیں ہے اگر معاملہ اس طرح مانیں، اس طرح بدعتی لوگ کہتے ہیں تو گویا وہ اپنی زبان حال یا واضح طور پر یہ کہنا چاہتے ہیں کہ شریعت مکمل نہیں ہے، بلکہ شریعت میں کچھ ایسی چیزیں باقی رہ گئی ہیں جن کا جاننا واجب یا مستحب ہے کیونکہ اگر ان کا یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ شریعت مکمل و اکمل اور اتم ہے تو یہ دین میں بدعتیں نہ گھڑتے اور نہ ہی استدراک کی ہر لحاظ سے کوششیں کرتے ، جو شخص یہ بات کہتا ہے وہ صراط مستقیم سے بھٹک چکا ہے ۔ “
منهج سلف صالحین ، ص: 87
علامہ شاطبی مزید فرماتے ہیں کہ:
یہ شریعت کے مخالف اور دشمن ہیں کیونکہ اللہ رب العزت نے بندے کے لیے مخصوص مطالب و طرق خاص وجوہات کی بنا پر متعین کیے ہیں اور اللہ نے مخلوق کو پابند کر دیا ہے امر (حکم) دینے کے (ذریعے) اور نہی کے ذریعے اور وعدہ (جنت کی بشارت) کے ذریعے اور وعید (عذاب سے ڈرانے) کے ذریعے اور پھر بتا دیا کہ خیر اس میں ہے اور شر اس سے آگے بڑھ کر دوسروں کی طرف متوجہ ہونے میں ہے کیونکہ اللہ ذوالجلال والاکرام جانتا ہے ہم نہیں جانتے اور اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ مگر بدعتی ان تمام باتوں کو ٹھکرا کر یہ سمجھتے ہیں کہ اس کے علاوہ کچھ اور بھی یہاں طرقِ خیر موجود ہیں۔
الاعتصام: 29/1 – منهج سلف صالحین، ص: 88
(13) فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ الله:
فضیلتہ الشیخ اپنی کتاب ”بدعت“ میں رقمطراز ہیں:
✿ بعض بدعتیں صراحتاً کفر ہیں، جیسے صاحب قبر سے قرب حاصل کرنے کے لیے قبروں کا طواف کرنا اور ان پر ذبیحے اور نذرو نیاز پیش کرنا ، ان سے مرادیں مانگنا اور فریادرسی کرنا ۔
✿ اور بعض بدعتیں وسائل شرک میں سے ہیں جیسے قبروں پر عمارتیں تعمیر کرنا اور وہاں نماز پڑھنا اور دعائیں مانگنا۔
✿ اور بعض بدعتیں معصیت و نافرمانی کی ہیں جیسے شادی وبیاہ سے کنارہ کشی اور دھوپ میں کھڑے ہو کر روزہ رکھنے کی بدعت اور شہوت جماع ختم کرنے کی غرض سے خصی کرنے کی بدعت۔
(14) الشیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ:
علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ بدعت کی حقیقت و شناعت کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
1: ہر وہ قول و فعل و اعتقاد جو سنت کے معارض و مخالف ہو۔
2: ہر وہ کام جو اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے کیا جائے حالانکہ شریعت نے اس سے منع کیا ہو۔
3: ہر وہ عقیدہ جس کی شرعی دلیل موجود نہ ہو۔
4: ہر وہ عبادت جس کی کیفیت صرف کسی ضعیف یا موضوع روایت میں پائی جاتی ہو۔
5: ہر وہ عبادت جسے شریعت نے مطلق رکھا ہو مگر لوگوں نے اس پر قیود مثلاً زمان و مکان یا ہیئت و عدد کا اضافہ کر دیا ہو۔
6: ہر وہ کام جو شرعی دلیل ہی سے ثابت ہو سکتا ہو مگر اس کی شرعی دلیل موجود نہ ہو، البتہ عمل صحابہ اس سے مستثنی ہے۔
7: بعض علماء خصوصاً متاخرین نے جن اعمال کو بلا دلیل مستحب قرار دیا ہے۔
8: عبادت میں غلو ۔
ملا حظہ ہو: أحكام الجنائز للألباني ص: 142
بدعت کے اسباب:
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان حفظہ اللہ اپنی کتاب بنام ”بدعت“ میں اسباب بدعت بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
(1) دینی احکام سے لا علمی و جہالت:
جوں جوں زمانہ گزرتا گیا اور لوگ آثار رسالت سے دور ہوتے گئے، علم کم ہوتا رہا اور جہالت عام ہوتی گئی جیسا کہ اس کی خبر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اس حدیث میں دی ہے:
”تم میں سے زندہ رہنے والا شخص بہت سارے اختلافات دیکھے گا۔ “
اور اپنے اس فرمان میں بھی:
”کہ اللہ تعالیٰ علم بندوں سے چھین کر نہیں ختم کرے گا بلکہ علماء کو ختم کر کے علم ختم کرے گا، یہاں تک کہ جب کسی عالم کو زندہ نہیں چھوڑے گا تو لوگ جاہلوں کو رؤسا بنا لیں گے اور یہ لوگ مسئلہ پوچھے جانے پر بغیر علم کے فتویٰ دیں گے تو خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے ۔“
تو علم اور علماء ہی بدعت کا منہ توڑ جواب دے سکتے ہیں اور جب علم و علماء ہی کا فقدان ہو جائے تو بدعت کے پھلنے پھولنے اور بدعتیوں کے سرگرم ہونے کے مواقع میسر ہو جاتے ہیں۔
(2) خواہشات کی پیروی:
جو کتاب وسنت سے اعتراض کرے گا وہ اپنی خواہشات کی پیروی کرے گا، جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿فَإِن لَّمْ يَسْتَجِيبُوا لَكَ فَاعْلَمْ أَنَّمَا يَتَّبِعُونَ أَهْوَاءَهُمْ ۚ وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوَاهُ بِغَيْرِ هُدًى مِّنَ اللَّهِ﴾
[القصص: 50]
”اگر یہ تیری نہ مانیں تو تو یقین کرلے کہ یہ صرف اپنی خواہش کی پیروی کر رہے ہیں اور اس سے بڑھ کر بہکا ہوا کون ہے؟ جو اپنی خواہش کے پیچھے پڑا ہوا بغیر اللہ کی رہنمائی کے۔ “
اور فرمایا:
﴿أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَٰهَهُ هَوَاهُ وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلَىٰ عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلَىٰ سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ وَجَعَلَ عَلَىٰ بَصَرِهِ غِشَاوَةً فَمَن يَهْدِيهِ مِن بَعْدِ اللَّهِ﴾
[الجاثية: 23]
”کیا آپ نے اسے بھی دیکھا جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنا رکھا ہے اور با وجود سمجھ بوجھ کے اللہ نے اسے گمراہ کر دیا ہے اور اس کے کان اور دل پر مہر لگادی ہے اور اس کی آنکھ پر بھی پردہ ڈال دیا ہے، اب ایسے شخص کو اللہ کے بعد کون ہدایت دے سکتا ہے۔“
اور یہ بدعتیں خواہشات کی پیداوار ہیں۔
(3) مخصوص لوگوں کی رائے کے لیے تعصب برتنا:
کسی کے رائے کی طرف داری کرنا یہ انسان اور دلیل کی پیروی و معرفت حق کے درمیان بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنزَلَ اللَّهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا﴾
[البقرة: 170]
”اور ان سے جب کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی کتاب کی تابعداری کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اس طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔ “
اور آج کل یہی حالت متعصبین کی ہے خواہ ومذہب وصوفیت کے بعض پیروکار ہوں یا قبوری حضرات جب انھیں کتاب وسنت کی پیروی اور ان دونوں کی مخالف چیزوں کو چھوڑنے کو کہا جاتا ہے تو یہ حضرات اپنے مذاہب، مشائخ اور آباؤ اجداد کو دلیل بناتے اور بطور حجت
پیش کرتے ہیں ۔
(4) کافروں سے مشابہت اختیار کرنا:
کافروں سے مشابہت سب سے زیادہ بدعتوں میں مبتلا کرنے والی چیزوں میں سے ہے جیسا کہ ابو واقد اللیثی کی حدیث میں ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حنین کی طرف نکلے اور ہمارے کفر کا زمانہ ابھی قریب ہی تھا، مشرکوں کے لیے ایک بیری کا درخت تھا جہاں یہ لوگ ٹھہرتے تھے اور جس کے ساتھ اپنے ہتھیار لٹکاتے تھے، جسے ذات انواط کہا جاتا تھا تو ہمارا گزر بیری کے پاس سے ہوا، ہم لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول ! ہمارے لیے بھی ذات انواط بنا دیجیے جیسا کہ ان کے لیے ذات انواط ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعجب کرتے ہوئے فرمایا: ”اللہ اکبر“ ، یہی سنتیں ہیں ، کہا، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم لوگوں نے ویسے ہی کہا ہے جیسے کہ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ سے کہا تھا:
﴿اجْعَل لَّنَا إِلَٰهًا كَمَا لَهُمْ آلِهَةٌ ۚ قَالَ إِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُونَ﴾
[الأعراف: 138]
”ہمارے لیے بھی ایک ایسا معبود مقرر کر دیجیے جیسے ان کے یہ معبود ہیں، آپ نے فرمایا کہ واقعی تم لوگوں میں بڑی جہالت ہے۔“
اس حدیث میں واضح بیان ہے کہ کفار کی مشابہت ہی نے بنی اسرائیل اور بعض صحابہ کو اس بات پر ابھارا کہ وہ اپنے نبی سے ایسا غلط مطالبہ کریں کہ وہ ان کے لیے اللہ کو چھوڑ کر ایک ایسا معبود مقرر کر دیں جس کی وہ پرستش کریں اور اس سے تبرک حاصل کریں۔
اور یہی آج حقیقت میں ہو رہا ہے اس لیے کہ اکثر مسلمانوں نے شرک و بدعت کے ارتکاب میں کافروں کی روش اپنائی ہوئی ہے جیسے برتھ ڈے منانا ، مخصوص اعمال کے لیے دنوں اور ہفتوں کی تعین، یادگاری چیزوں اور دینی مناسبتوں سے جلسے جلوس منعقد کرنا، یادگاری تصویریں و مجسمے قائم کرنا، ماتم کی محفلیں منعقد کرنا ، جنازے کی بدعتیں اور قبروں پر تعمیر وغیرہ۔
(5) آباؤ اجداد کی اندھی تقلید:
بدعت کے اسباب میں سے تقلید آباء بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنزَلَ اللَّهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا ۗ أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ﴾
[البقرة: 170]
”اور جب ان سے کہا جاتا کہ اللہ نے جو نازل فرمایا ہے اس کی اتباع کرو ، تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو اس کی اتباع کریں گے جس پر ہم نے اپنے آباء کو پایا، تو کیا اگرچہ ان کے آباء کچھ نہ سمجھتے ہوں اور نہ راہِ راست پر ہوں (اُنھی کی اتباع کریں گے؟ )۔“
اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں بغیر حجت و برهان آباء و اجداد کی اتباع سے روکا ہے جو در حقیقت شیطان ہی کی اتباع ہے۔
اس آیت میں اس بات پر سخت نکیر کی گئی ہے کہ صریح قرآن اور صحیح سنت کے ہوتے ہوئے کسی دوسرے کی بات مانی جائے ، اور قرآن وسنت کے مقابلے میں اسے دلیل بنایا جائے، اور حجت یہ پیش کی جائے کہ ہمارے امام، ہمارے مرشد، ہمارے بزرگ، اور ہمارے فقیہ زیادہ سمجھتے تھے، اور یقینا یہ حدیثیں ان کے علم میں رہی ہوں گی ، لیکن کسی اقویٰ دلیل ہی کی وجہ سے انھوں نے ان حدیثوں کا انکار کیا ہوگا۔
اور ستم بالاستم یہ کہ ان حضرات نے انکار احادیث کے ان واقعات سے فقہی اصول کشید کیے اور اپنی کتابوں میں مدوّن کر دیا کہ جب بھی کوئی حدیث ان اصولوں کے خلاف پڑے گی اسے ردّ کر دیا جائے گا، اس لیے کہ یا تو وہ ضعیف ہوگی ، یا مرجوح یا منسوخ ہوگی ۔ قرآن وسنت کے حق میں اس جرم عظیم کا بدترین نتیجہ یہ سامنے آیا کہ امت کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں بہت سی کمزور اور واہیات قسم کی حدیثیں رائج ہوگئیں، اور وہ صحیح حدیثیں جو بخاری ومسلم نے روایت کی ہیں اور جن پر عمل نہ کرنے کا کوئی جواز امت کے پاس موجود نہیں ، سینکڑوں سال سے مسلمانوں کا منہ تک رہی ہیں، اور پکار پکار کر کہہ رہی ہیں کہ ہم پر عمل کرو، ہم اللہ کے رسول کی صحیح احادیث ہیں، لیکن مقلدین انھیں درخورِ اعتناء نہیں سمجھتے۔
اسلام میں تمام گمراہ فرقوں کا وجود، شرک و بدعت کا رواج ، قبروں، مزاروں اور درگاہوں کی پرستش اور عقائد کی تمام بیماریاں اس چور دروازے سے داخل ہوئی ہیں کہ قرآن وسنت کو ترک کر کے اپنے بزرگوں، پیروں ، مشائخ اور خود ساختہ معبودوں کی بات کو ترجیح دی، ان کی تقلید کی اور کہا کہ یہ حضرات جو کرتے آئے ہیں آخر ان کے پاس بھی تو کوئی دلیل رہی ہوگی، اس لیے ہم وہی کریں گے جو ہمارے بزرگ کرتے آئے ہیں اور ان حدیثوں کو ہم نہیں مانیں گے اس لیے کہ ہم اپنے بزرگوں سے زیادہ فہم نہیں رکھتے ۔ یہ روش مشرکین مکہ کی تھی۔
مشرکین مختلف شرکیہ اعمال میں مبتلا تھے، ان سے جب کہا جاتا کہ تم لوگ اپنے آباؤ اجداد کی تقلید چھوڑ دو جنھوں نے اللہ کے بارے میں افترا پردازی کی تھی، اور اللہ اور اس کے رسول کے کہے پر عمل کرو، تو وہ فوراً بول اٹھتے کہ ہم تو اپنے آباؤ اجداد ہی کی تقلید کریں گے، اس کا جواب اللہ نے دیا کہ کیا باپ دادوں کی تقلید ان کے لیے کافی ہوگی، چاہے ان کے وہ باپ دادا حق کو جانتے اور پہچانتے نہ ہوں۔
﴿وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا إِلَىٰ مَا أَنزَلَ اللَّهُ وَإِلَى الرَّسُولِ قَالُوا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا ۚ أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ﴾
[المائدة: 104]
”اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کی نازل کردہ کتاب اور رسول کی طرف آجاؤ، تو وہ کہتے ہیں کہ ہم نے جس دین و عقیدہ پر اپنے آباؤ اجداد کو پایا، وہی ہمارے لیے کافی ہے، (کیا وہ اس پر قائم رہیں گے) اگرچہ ان کے آباؤ اجداد نہ کچھ جانتے رہے ہوں اور نہ راہِ ہدایت پر رہے ہوں ۔“
مشرکین کے فعل شنیع پر مزید نکیر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کے پاس فرشتوں اور بتوں کی عبادت و پرستش کرنے کی کوئی دلیل نہیں ہے، صرف یہ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے آباؤ اجداد کو اسی دین پر عمل کرتے پایا ہے، لہذا ہم بھی اسی دین پر قائم رہیں گے:
﴿آبَاءَنَا عَلَىٰ أُمَّةٍ وَإِنَّا عَلَىٰ آثَارِهِم مُّهْتَدُونَ. وَكَذَٰلِكَ مَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ فِي قَرْيَةٍ مِّن نَّذِيرٍ إِلَّا قَالَ مُتْرَفُوهَا إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَىٰ أُمَّةٍ وَإِنَّا عَلَىٰ آثَارِهِم مُّقْتَدُونَ.﴾
[الزخرف: 22، 23]
”کیا ہم نے انھیں قرآن سے پہلے کوئی کتاب دی تھی جس سے وہ چمٹے ہوئے ہیں، بلکہ اُن کا کہنا ہے کہ ہم نے اپنے باپ دادوں کو ایک طریقہ پر چلتے پایا ہے، اور ہم یقیناً اُنھی سے نقش قدم کی پیروی کرتے رہیں گے۔ اور اسی طرح ہم نے آپ سے پہلے جب بھی کسی بستی میں کوئی ڈرانے والا (نبی) بھیجا، تو ان کے عیش پرستوں نے کہا کہ ہم نے اپنے باپ دادوں کو ایک طریقہ پر چلتے پایا ہے، اور ہم یقینا انھی کے نقش قدم پر چلتے رہیں گے ۔“
(6) کفار کی مشابہت اختیار کرنا:
بنی اسرائیل جو فرعون کی غلامی سے آزاد ہونے اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے سمندر پار کرنے کے بعد جزیرہ نمائے سینا کے جنوبی علاقے کی طرف روانہ ہوئے ۔ راستہ میں ان کا گزر ایسی قوم کے پاس سے ہوا جو بتوں کی پرستش کرتی تھی۔ انھیں دیکھ کر بنی اسرائیل نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے مطالبہ کیا کہ ہمیں بھی ایک ایسا ہی بت چاہیے جس کے سامنے جھکیں۔
﴿وَجَاوَزْنَا بِبَنِي إِسْرَائِيلَ الْبَحْرَ فَأَتَوْا عَلَىٰ قَوْمٍ يَعْكُفُونَ عَلَىٰ أَصْنَامٍ لَّهُمْ ۚ قَالُوا يَا مُوسَى اجْعَل لَّنَا إِلَٰهًا كَمَا لَهُمْ آلِهَةٌ ۚ قَالَ إِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُونَ﴾
[الأعراف: 138]
”اور ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر عبور کرا دیا تو ان کا گزرا ایسے لوگوں کے پاس سے ہوا جو اپنے بتوں کی عبادت کر رہے تھے ، انھوں نے کہا، اے موسیٰ، جس طرح ان کے کچھ معبود ہیں، آپ ہمارے لیے بھی معبود بنا دیجیے ، موسیٰ نے کہا کہ واقعی تم لوگ بالکل نادان ہو۔“
مفسر بغوی نے لکھا ہے کہ بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت میں کوئی شبہ نہیں تھا، بلکہ ان کا مقصد یہ تھا کہ ان بت پرستوں کی طرح ان کے لیے بھی کوئی ایسی چیز ہونی چاہیے جس کی تعظیم کر کے اللہ کا قرب حاصل کریں، اپنی شدت جہالت کی وجہ سے سمجھ بیٹھے تھے کہ اس سے ان کے دین و ایمان کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ انتہی (تفسیر بغوی)
امام احمد ، ترمذی اور ابن جریر وغیرھم نے ابو واقد اللیثی سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب غزوہ حنین کے لیے نکلے تو ایک درخت کے پاس سے گزرے جس پر مشرکین اپنے ہتھیار لٹکایا کرتے تھے، اس لیے اسے ”ذات انواط“ کہا کرتے تھے، تو صحابہ میں سے بعض لوگوں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ! ہمارے لیے بھی ایک ایسا ہی ”ذات انواط“ بنا دیجیے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”سبحان اللہ ! یہ تو وہی قوم موسیٰ کی بات ہے کہ بت پرستوں کے معبودوں کی طرح ہمارے لیے بھی ایک معبود بنا دیجیے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم لوگ گذشتہ قوموں کی راہ پر ضرور چلو گے ۔“
تفسیر ابن جریر: 82/13- سنن ترمذی، کتاب الفتن، رقم: 2180
یہی وجہ ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مقام حدیبیہ کے اس درخت کو کٹوا دیا تھا جس کے نیچے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے بیعت لی تھی، جسے بیعتہ الرضوان کہا جاتا ہے۔ امام ابوبکر طرطوش مالکی لکھتے ہیں کہ اگر تم کوئی ایسا درخت دیکھو جس کی لوگ زیارت اور تعظیم کرتے ہوں، اسے شفایابی کا سبب مانتے ہوں، اور اس میں کیلیں ٹھونکتے ہوں اور کپڑے کے ٹکڑے لٹکاتے ہوں، تو اسے کاٹ دو، کیونکہ وہ ”ذات انواط“ ہے۔
تفسير ابن كثير: 396، 395/2
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم اپنے سے پہلے لوگوں کی ضرور بالضرور بالشت اور ہاتھ کی حد تک پیروی کرو گے یہاں تک کہ اگر وہ سانڈھے کے بل میں گھس گئے تو تم بھی ان کے پیچھے چلو گے (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ) ہم نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول! کیا پہلے لوگوں سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں؟ آپ نے ارشاد فرمایا: تو پھر اور کون ہیں؟
بخاری، کتاب الاعتصام بالكتاب والسنة، رقم: 7320
عن عبد الله بن عمر رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ليأتين على أمتي كما أتى على بني إسرآئيل حذو النعل بالنعل، حتى إن كان منهم من أتى أمه علانية لكان فى أمتي من يصنع ذلك ، وإن بني إسرآئيل تفرقت على ثنتين وسبعين ملة و تفترق أمتي على ثلث وسبعين مله، كلهم فى النار إلا ملة واحدة ، قالوا: من هي يا رسول الله؟ قال ما أنا عليه وأصحابى
مستدرك حاكم: 129/1 ۔ سنن ترمذی کتاب الایمان ، رقم 2641 – واللفظ له ، مشكوة، رقم: 171- سلسلة الصحيحة رقم: 1348
سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میری امت پر ایسا وقت آئے گا جیسا کہ بنی اسرائیل پر آیا۔ جس طرح جوتا جوتے کے برابر ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر بنی اسرائیل میں سے کسی نے اپنی ماں سے علانیہ بدکاری کی ہوگی تو میری امت کے (کچھ بد نصیب) لوگ بھی ایسا ہی کریں گے، اور بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں بٹ گئے اور میری اُمت بہتر فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی، ایک کے سوا سب دوزخ میں جائیں گے ۔“ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دریافت کیا: یا رسول اللہ! وہ (نجات پانے والی) کون سی جماعت ہے؟ فرمایا: ”جو میرے اور میرے اصحاب کے طریق پر ہوگی۔“
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”اور ایسی ہی وہ چیزیں ہیں جو بعض لوگ گڑھ کر مناتے ہیں یا میلاد عیسی علیہ السلام ؤ میں نصاریٰ کی مشابہت کرتے ہوئے اور یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور تعظیم میں آپ کی عید مناتے ہیں، حالانکہ آپ کی تاریخ پیدائش میں لوگوں کا اختلاف ہے کیونکہ اسے سلف کرام نے نہیں کیا ہے اگر اس کا کرنا محض خیر ہوتا یا کرنا راجح ہوتا تو سلف صالحین رحمہ اللہ ہم سے زیادہ اس کے حقدار ہوتے ، کیونکہ وہ لوگ ہم سے زیادہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور تعظیم کرنے والے تھے اور وہ لوگ خیر کے زیادہ حریص تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور تعظیم آپ کی متابعت وفرماں برداری، نیز آپ کے حکم کی پیروی، آپ کی سنت کے احیاء ظاہری اور باطنی طور پر ، آپ کی دعوت کو عام کرنے اور اس پر دل، ہاتھ اور زبان سے جہاد کرنے ہی میں ہے، کیونکہ یہی طریقہ مہاجرین و انصار سابقین اوّلین کا ہے اور ان لوگوں کا بھی ہے جنھوں نے اچھائی کے ساتھ اس کی پیروی کی۔ “
اقتضاء الصراط المستقيم: 615/2
(7) غلو:
اللہ تعالیٰ نے عیسائیوں کو دین میں غلو کرنے سے منع فرمایا ہے، اس لیے کہ ہر دور میں یہ برائی ان کے اندر دوسروں کی بہ نسبت زیادہ پائی گئی ۔ انھوں نے دین میں رہبانیت اور عورتوں سے کنارہ کشی کو ایجاد کیا، اور عیسی علیہ السلام کو اللہ کا مقام دیا، بلکہ اپنے علماء اور راہبوں تک کو اپنا معبود بنا لیا ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
﴿يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ وَلَا تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ إِلَّا الْحَقَّ ۚ إِنَّمَا الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَسُولُ اللَّهِ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَىٰ مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِّنْهُ ۖ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ ۖ وَلَا تَقُولُوا ثَلَاثَةٌ ۚ انتَهُوا خَيْرًا لَّكُمْ ۚ إِنَّمَا اللَّهُ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۖ سُبْحَانَهُ أَن يَكُونَ لَهُ وَلَدٌ ۘ لَّهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ وَكِيلًا﴾
[النساء: 171]
”اے اہل کتاب ! اپنے دین میں غلو نہ کرو، اور اللہ کی شان میں حق بات کے علاوہ کچھ نہ کہو، مسیح عیسی بن مریم صرف اللہ کے رسول تھے، اور اس کا کلمہ ، جسے اس نے مریم کی طرف پہنچا دیا، اور اس کی طرف سے ایک روح، پس تم اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لے آؤ، اور تین معبودوں کے قائل نہ بنو، اس سے باز آ جاؤ، اسی میں تمھاری بہتری ہے، بے شک اللہ اکیلا معبود ہے، وہ اس سے پاک ہے کہ کوئی اس کی اولاد ہو، آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے، اسی کی ملکیت ہے، اور اللہ بحیثیت کارساز کافی ہے۔ “
سورۃ التوبہ میں ارشاد فرمایا:
﴿وَقَالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ وَقَالَتِ النَّصَارَى الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ ۖ ذَٰلِكَ قَوْلُهُم بِأَفْوَاهِهِمْ ۖ يُضَاهِئُونَ قَوْلَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن قَبْلُ ۚ قَاتَلَهُمُ اللَّهُ ۚ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ. اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَٰهًا وَاحِدًا ۖ لَّا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ.﴾
[التوبة: 31، 30]
”اور یہود نے کہا کہ عزیر اللہ کے بیٹے ہیں ، اور نصاری نے کہا کہ مسیح اللہ کے بیٹے ہیں، یہ اُن کے منہ کی بکواس ہے، ان لوگوں کے قول کی مشابہت اختیار کرتے ہیں جنھوں نے ان سے پہلے کفر کیا تھا، اللہ انھیں ہلاک کر دے، کس طرح حق سے پھرے جا رہے ہیں۔ ان لوگوں نے اپنے عالموں اور درویشوں کو اللہ کے بجائے معبود بنا لیا اور مسیح ابن مریم کو بھی ، حالانکہ انھیں تو صرف ایک اللہ کی عبادت کا حکم دیا گیا تھا جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ، وہ مشرکوں کے شرک سے پاک ہے۔“
امام احمد ، ترمذی اور ابن جریر وغیرھم نے سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو ان کی گردن میں چاندی کا صلیب لٹک رہا تھا (انھوں نے جاہلیت کے زمانہ میں عیسائیت کو قبول کر لیا تھا) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت پڑھی: ﴿اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّهِ﴾ تو میں نے کہا کہ عیسائیوں نے اپنے عالموں کی عبادت تو نہیں کی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں ، انھوں نے حلال کو حرام اور حرام کو حلال بنایا، تو لوگوں نے ان کی بات مانی اور ان کی پیروی ، یہی ان کی عبادت ہے۔ “
مسند أحمد: 378/4- سنن ترمذی، کتاب تفسیر القرآن، رقم: 3095 تفسیر طبری: 212/14 ۔ محدث البانی نے اسے حسن قرار دیا ہے۔
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کو ممبر پر یہ فرماتے سنا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا، آپ نے ارشاد فرمایا:
لا تطروني كما أطرت النصارى ابن مريم فإنما أنا عبده فقولوا: عبد الله ورسوله
صحیح بخاری کتاب أحاديث الانبیاء رقم: 3445
”مجھے نصاری کی طرح نہ بڑھانا جیسا کہ انھوں نے عیسی علیہ السلام کے معاملہ میں کیا میں تو اللہ کا نبی اور اس کا رسول ہوں ۔ “
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إياكم والغلو فى الدين فإنما أهلك من كان قبلكم الغلو فى الدين
مسند احمد، رقم: 215، 247
”دین میں غلو سے بچو، پس تم سے پہلے لوگوں کو غلو فی الدین نے برباد کر دیا تھا ۔“
علامہ امام ابن قیم رحمہ اللہ نے غلو کو کبائر میں شمار کرتے ہوئے فرمایا کہ:
”مخلوق کے بارے میں غلو کرنا حتی کہ اس کے مقام سے تجاوز کیا جائے اور بعض اوقات یہ غلو گناہ کبیرہ سے شرک کی طرف لے جاتا ہے ۔ “
اعلام الموقعين: 407/4
سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”میری اُمت کے دو قسم کے افراد کے حق میں میری شفاعت قبول نہیں ہوگی: (1) انتہائی ظالم حکمران (2) غلو کرتے کرتے دائرہ مذہب سے خارج ہو جانے والا۔“
سلسله احادیث صحیحه، رقم: 470- المعجم الاوسط للطبرانی، رقم: 644
مولانا حالی نے کہا:
تم اوروں کی مانند دھوکا نہ کھانا
کسی کو خدا کا بیٹا نہ بنانا
میری حد سے رتبہ نہ میرا بڑھانا
بڑھا کر بہت تم نہ مجھ کو گھٹانا
سب انسان ہیں واں جس طرح سرفگندہ
اسی طرح ہوں میں بھی ایک اس کا بندہ
بنانا نہ تربت کو میری صنم تم
نہ کرنا میری قبر پس سر خم تم
(8) استدلالات فاسده و اتباع متشابہات:
استدلالاتِ فاسدہ اور اتباع مشابہات بھی بدعات کے اسباب و محرکات میں سے ہیں۔
چنانچہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
يطلبون الدنيا وقد اعتادوا تقليد السلف وأعرضوا عن نصوص الكتاب والسنة وتمسكوا بتعمق عالم وتشدده وإستحسانه فاعرضوا كلام الشارع المعصوم وتمسكوا بأحاديث موضوعة وتاويلات فاسدة ، كانت سبب هلاكهم
الفوز الكبير في اصول التفسير ص: 10 ، 11
”اگر تم یہودیوں کا نمونہ دیکھنا چاہتے ہو تو (ہمارے زمانے کے) علمائے سوء کو دیکھو، جو دنیا کی طلب اور (اپنے) سلف کی تقلید پر جمے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ کتاب وسنت کی نصوص (دلائل) سے منہ پھیرتے اور کسی (اپنے پسندیدہ) عالم کے تعمق، تشدد اور استحسان کو مضبوطی سے پکڑے بیٹھے ہیں ۔ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو معصوم ہیں، کے کلام کو چھوڑ کر موضوع روایات اور فاسد تاویلوں کو گلے سے لگا لیا ہے۔ اسی وجہ سے یہ لوگ ہلاک ہو گئے ہیں۔“
جن لوگوں کے دلوں میں کفر و نفاق ہے، وہ متشابہ آیتوں کے درپے ہوتے ہیں، تا کہ لوگوں کو شبہات میں مبتلا کر سکیں، اپنے باطل عقائد و نظریات پر فاسد تاویلات کے ذریعہ ان سے استدلال کر سکیں، اور اسلام میں بدعتوں کو رواج دے سکیں ۔ ایسے لوگ یقیناً بیمار عقل والے ہوتے ہیں جو مشتبہ آیتوں کی تلاش میں ہوتے ہیں، تاکہ اپنے باطل افکار کی تائید میں کوئی دلیل لا سکیں، اور مسلمانوں میں شر اور فتنہ پھیلا سکیں۔
﴿فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ ۗ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّهُ ۗ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا ۗ وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ﴾
[آل عمران: 7]
”پس جن لوگوں کے دلوں میں کھوٹ پن ہوتا ہے وہ فتنہ انگیزی کی غرض سے اور (اپنی خواہش نفس کے مطابق) تاویل کی غرض سے انہی متشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں، حالانکہ ان کی تاویل اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا، اور راسخ علم والے کہتے ہیں کہ ہم اُن پر ایمان لے آئے ، سب ہمارے رب کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو صرف عقل والے حاصل کرتے ہیں۔ “
(9) تعصبِ مذہبی:
تعصب بہت بری چیز ہے، اس کی وجہ سے اُمت مختلف گروہوں اور فرقوں میں بٹ گئی اور اس کی بنا پر دوستی یا دشمنی کی جانے لگی ۔ حالانکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد پاک ہے:
﴿وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا﴾
[آل عمران: 103]
”اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور فرقوں میں مت بٹو ۔ “
تعصب سے افتراق و عداوت اس حد تک بڑھ گئی کہ بعض اصحاب مذہب نے مخالف مذہب کی لڑکی یا اس کے عکس سے نکاح کو ناجائز قرار دیا ہے اور بعض نے مخالف مذہب کی لڑکی کو یہودی یا نصرانی عورت کی طرح سمجھ کر نکاح کو جائز قرار دیا۔ اسی طرح مخالف مذہب کے امام کے پیچھے نماز کو بھی ناجائز قرار دیا ہے۔
چنانچہ ابن ھمام حنفی رقمطراز ہیں کہ: ابو الیسر نے کہا ہے: کہ حنفی آدمی کی صلاۃ شافعی کے پیچھے جائز نہیں ! اس کی وجہ یہ ہے کہ مکحول نخعی نے اپنی کتاب ”یشفاع“ میں رقم کیا ہے کہ رکوع کو جاتے اور رکوع سے اٹھتے ہوئے رفع الیدین کرنے سے نماز فاسد ہو جاتی ہے کیونکہ یہ عمل کثیر ہے۔
فتح القدير: 31/1
شیخ محمد حیات سندھی حنفی نے کہا ہے:
”ہمارے اہل زمانہ نے جو خاص مذہب کے التزام کی بدعت ایجاد کی ہے کہ ہر ایک کسی ایک مذہب سے منتقل ہو کر دوسرے مذہب میں جانے کو ناجائز کہتا ہے۔ تو یہ جہالت، بدعت اور ظلم ہے۔ ہم نے ایسے لوگوں کو دیکھا ہے جو صحیح غیر منسوخ احادیث کو چھوڑ کر جن مذاہب کی کوئی سند نہیں انھی سے تمسک کرتے ہیں ۔ انا لله وإنا إليه راجعون
ايقاظ همم أولى الأبصار، ص 70
اسی تعصب مذہبی کے نتیجے میں ہی لوگوں نے مسجد الحرام کو چار یا پانچ مصلوں میں بانٹ رکھا تھا۔ جیسا کہ گذشتہ صفحات میں گزرا ہے۔
یہ ملّاں کافروں کو دولت اسلام کیا دے گا
اسے کافر بنانا بس مسلمانوں کو آتا ہے
تعصب نے اس صاف چشم کو آکر
کیا بغض کے خارو خس سے مکدر
(10) بدعتی لوگوں کی ہم نشینی:
ابتلائے اسلام میں مشرکین مکہ صحابہ کرام کو قرآن پڑھتے دیکھتے تو مذاق اُڑاتے ، اور باتیں بناتے ، انھی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کومنع کیا کہ کفار جب قرآن کا مذاق اڑار ہے ہوں تو ایسی مجلسوں سے اُٹھ جائیں، یہاں تک کہ وہ لوگ کوئی اور بات کرنے لگیں:
﴿حَدِيثٍ غَيْرِهِ ۚ وَإِمَّا يُنسِيَنَّكَ الشَّيْطَانُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَىٰ مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ﴾
[الأنعام: 68]
”اور جب آپ اُن لوگوں کو دیکھئے جو ہماری آیتوں کے خلاف باتیں بناتے ہیں، تو آپ ان سے اعراض کیجیے، یہاں تک کہ وہ اس کے علاوہ کوئی اور بات کرنے لگیں، اور اگر شیطان آپ کو بھلا دے تو یاد آنے کے بعد ظالم لوگوں کے ساتھ نہ بیٹھئے ۔“
اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ شریف پہنچے، تو وہاں بھی جب کفار اور منافقین کا ایسا ہی رویہ تھا کہ وہ لوگ قرآن کریم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑاتے تھے، تو اللہ تعالیٰ نے ایسی مجلسوں سے اجتناب کرنے کا حکم دیا ، جیسا کہ سورہ نساء میں آیا ہے:
﴿وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آيَاتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّىٰ يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ ۚ إِنَّكُمْ إِذًا مِّثْلُهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ جَامِعُ الْمُنَافِقِينَ وَالْكَافِرِينَ فِي جَهَنَّمَ جَمِيعًا﴾
[النساء: 140]
”اللہ نے قرآن میں تمھارے لیے اتارا ہے کہ جب تم سنو کہ اللہ کی آیتوں کا انکار کیا جا رہا ہے، اور اس کا مذاق اُڑایا جا رہا ہے، تو اُن کے ساتھ نہ بیٹھو، یہاں تک کہ اس کے علاوہ کوئی اور بات کرنے لگیں، ورنہ تم انھی کے جیسے ہو جاؤ گے۔“
مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ حکم عام ہے، اور اُمت مسلمہ کے ہر فرد کا فرض ہے کہ جہاں کہیں بھی اسلام کا یا قرآن وسنت وغیرہ کا مذاق اُڑایا جا رہا ہو ، یا بدعت وخرافات کی طرف دعوت دی جا رہی ہو اس مجلس کا بائیکاٹ کرے ، ورنہ اس پر بھی وہی حکم لگے گا جس کا بیان ابھی سورہ نساء کے آخر میں گزرا کہ ﴿إِنَّكُمْ إِذًا مِّثْلُهُمْ﴾ ”تم بھی ان کے مانند ہو جاؤ گے۔“ محمد بن سیرین رحمہ اللہ اسی آیت کریمہ کی روشنی میں اہل بدعت سے مجالست کو مردود قرار دیتے تھے، اور فرماتے کہ یہ آیت انھی کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
سير أعلام النبلاء: 610/4
فضیل بن عیاض رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ جو شخص اہل بدعت کی مجلس اختیار کرتا ہے۔ اسے حکمت و بصیرت نہیں ملتی ۔
سير أعلام النبلاء: 430/8
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
إنما مثل الجليس الصالح والجليس السوء كحامل المسك ونافح الكير، فحامل المسك إما أن يحذيك، وإما أن تبتاع منه، وإما أن تجد منه ريحا طيبة، ونافخ الكير إما أن يحرق ثيابك، وإما أن تجد ريحا خبيثة
صحيح البخاري: كتاب الذبائح والصيد ، باب السمك حديث رقم: 5534۔ صحیح مسلم، کتاب البر والصلة، باب استحباب مجالسة الصالحين …. حديث رقم: 2628، بروایت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ
”نیک ہم نشین اور برے ہم نشین کی مثال مشک فروش اور آگ کی بھٹی دھونکنے والے کی سی ہے۔ مشک فروش یا تو آپ کو مشک ہدیہ میں دے دے گا، یا آپ اس سے خرید لیں گے، یا کم از کم تمھیں اس سے پاکیزہ خوشبو ضرور ملے گی۔ اور بھٹی دھونکنے والا یا تو تمھارے کپڑے جلا دے گا، یا کم از کم تمھیں اس سے بدبو ملے گی ۔“
(11) تصوف:
یہ معاملے ہیں نازک، جو تیری رضا ہو تو کر
کہ مجھے تو خوش نہ آیا یہ طریق خانقاہی
تصوف بدعت کی جڑ ہے۔ ائمہ ہدی نے اس سے بڑا ڈرایا ہے، کیونکہ اس کے ذریعہ انسان غیر محسوس طریقے سے گمراہی میں چلا جاتا ہے۔
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لوأن رجلا تصوف أون النهار لا يأتى الظهر على بصير أحمق
”اگر کسی نے شروع دن میں صوفیانہ زندگی اختیار کر لی تو وہ دوپہر تک احمق ہو جائے گا۔ “
مزید فرماتے ہیں:
ما لزم أحد الصوفيين أربعين يوما فعاد عقله
”جس کسی نے متواتر چالیس دن تک کسی صوفی کی صحبت اختیار کی تو اس کی عقل دوبارہ لوٹ کر نہیں آئے گی ۔“
اور امام السنہ احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حذروا من الحارث أشد التحذير الحارث أصل البلبلة يعني فى حوادث كلام جهم، ذاك جالسه فلان وفلان وأخرجهم إلى رأى جهم ما زال مأوى أصحاب الكلام، حارت بمنزلة الأسد المرابط أنظر أى يوم يتب على الناس
الفكر الصوفي في ضوء الكتاب والسنة، ص: 684/683
”حارث صوفی سے جہاں تک ہو سکے بچو، کیوں کہ وہ مصیبت کی جڑ ہے، جہمم بن صفوان کے کلام کے حوادث کا شکار ہے، دیکھتے نہیں کہ فلاں اور فلاں اشخاص اس کے ہم جلیسں ہیں، جس نے ان کو جہمم بن صفوان کی رائے کا پابند بنا دیا ہے، جواب تک علم کلام والوں کا ملجا و ماویٰ ہے، حارث کی مثال گھات میں رہنے والے شیر کی ہے، دیکھو وہ کس دن حملہ آور ہوتا ہے۔“
یہ سلسلے بھی تصوف کے ہیں ، ان سے محبت ومجلس بدعت کی طرف لے جاتی ہے۔
1: سلسلہ قادریہ
2: سلسل نقشبندیہ
3: سلسلہ سہروردیہ
4: سلسلہ رفاعیہ
5: سلسلہ تیجانیہ
6: سلسلہ چشتیہ
(12) طمع ولالچ:
طمع ولالچ بھی انسان کو بدعت کی طرف لے جاتا ہے، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
بادروا بالأعمال فتنا كقطع الليل المظلم يصبح الرجل مؤمنا ويمسي كافرا، أو يمسي مؤمنا ويصبح كافرا يبيع دينه بعرض من الدنيا
صحیح مسلم کتاب الایمان ، رقم: 118
”ان فتنوں کے واقع ہونے سے پہلے نیک اعمال کی طرف سبقت اور جلدی کرو جو شب دیجور کے ٹکڑوں کی طرح ہوں گے کہ آدمی صبح کو مومن ہوگا اور شام کو کافر ، یا شام کو مومن ہوگا اور صبح کو کافر، اپنے دین کو ایک دنیوی سامان کے عوض فروخت کرے گا۔“
دوسرے مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
ما ذئبان جائعان أرسلا فى غنم بأفسد من حرص المرء على المال والشرف لدينه
سنن الترمذي، كتاب الزهد، باب حدثنا سوید، رقم: 2376۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
”بکریوں کے کسی ریوڑ میں بھیجے گئے دو بھوکے بھیڑیے اتنا زیادہ نقصان دہ نہیں جتنا مال و شرف کا لالچ آدمی کے دین کو نقصان پہنچاتا ہے۔“
(13)اکابر پرستی:
جاہل اور غلو کرنے والے یہودیوں نے سیدنا عزیر علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا قرار دیا ، جن کا زمانہ عیسی علیہ السلام سے تقریبا ساڑھے پانچ سو سال پہلے کا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے بکھرے ہوئے تورات کو اکٹھا کیا، اور عبرانی زبان میں لکھی ہوئی تمام اسرائیلی کتابوں کو جمع کر کے بنی اسرائیل کے لیے قانون کی ایک عظیم کتاب تیار کی۔ جس سے متاثر ہوکر یہودیوں نے انھیں اللہ کا مجازی بیٹا کہنا شروع کر دیا، جو توحید باری تعالیٰ کی شان کے خلاف تھا۔
اور گمراہ نصاریٰ میں سے کسی نے سیدنا عیسی علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا، کسی نے ان کو بعینہ اللہ اور کسی نے انھیں تین میں سے ایک معبود قرار دیا۔
﴿وَقَالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ وَقَالَتِ النَّصَارَى الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ ۖ ذَٰلِكَ قَوْلُهُم بِأَفْوَاهِهِمْ ۖ يُضَاهِئُونَ قَوْلَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن قَبْلُ ۚ قَاتَلَهُمُ اللَّهُ ۚ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ﴾
[التوبة: 30]
”اور یہود نے کہا کہ عزیر اللہ کے بیٹے ہیں اور نصاری نے کہا کہ مسیح اللہ کے بیٹے ہیں ، یہ اُن کے منہ کی بکواس ہے، ان لوگوں کے قول کی مشابہت اختیار کرتے ہیں جنھوں نے ان سے پہلے کفر کیا تھا، اللہ انھیں ہلاک کر دے، کس طرح حق سے پھرے جارہے ہیں ۔“
قوم نوح صالحین کی عبادت کرنے لگی۔ قوم کے سرغنوں نے عوام الناس کو شرک پر ابھارتے ہوئے کہا کہ جن معبودوں کی ہمارے اور تمھارے آباء پرستش کرتے آئے ہیں، انھیں ہرگز نہیں چھوڑو، اور اُن کی عبادت پر سختی کے ساتھ جمے رہو۔ تم لوگ اپنے معبودوَدّ ، سواع ، یغوث ، یعوق اور نسر کو کسی حال میں فراموش نہ کرو۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ:
”ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر قوم نوح میں نیک لوگوں کے نام تھے جب وہ لوگ وفات پا گئے تو شیطان نے ان کی قوم کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ ان کے بیٹھنے کی جگہوں پر ان کے ناموں کے مجسمے بنا کر گاڑ دو، چنانچہ انھوں نے ایسا ہی کیا اور جب وہ لوگ مر گئے، اور ان کے درمیان سے علم اُٹھ گیا تو ان مجسموں کی عبادت کی جانے لگی ۔ “
صحیح بخاری، رقم: 492
(14) عقل پرستی:
عقل پرستی انسان کو گمراہ کر دیتی ہے۔ چنانچہ امام فخر الدین رازی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
نهاية اقدام العقول عقال
وأكثر سعي العالمين ضلال
وأرواحنا فى وحشة فى جسومنا
وحاصل دنيانا أذى ووبال
ولم نستفد من بحثنا طول عمرنا
سوى أن جمعنا فيه قيل وقالوا
”عقلوں کے گھوڑوں کی منزل ہے بے بسی اور علماء کی زیادہ محنت گمراہی کا سبب ہے۔ ہماری روحیں ہمارے جسموں میں وحشت زدہ ہیں اور ہماری دنیا کا حاصل تکلیف اور مصیبت ہے۔ ہماری عمر بھر کی بحثوں سے ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہوا سوائے اس کے کہ ہم نے اس میں قیل اور قالوا کو جمع کر دیا ہے ۔“
یہ ابن خطیب المعروف فخر الدین رازی کے اشعار ہیں، شاطبی نے انھیں ”الافادات و الانشادات“ میں (صفحہ 84، 85 پر اپنی سند کے ساتھ بیان کیا ہے اور المقری کی کتاب ”نفح الطيب“ (19/9) میں اور لسان الدین ابن خطیب کی كتاب ”الاحاطة فی اخبار غرناطه“ (222/2) میں دوسری سند کے ساتھ مروی ہیں۔
اور ان کا ایک دوسرا عالم کہتا ہے:
”میں نے ایک بڑے سمندر میں غوطہ لگا دیا ہے۔ اہل اسلام اور ان کے علوم کو چھوڑ دیا ہے۔ ایک ایسے علم میں مشغول ہو گیا ہوں جس سے لوگوں نے روکا تھا اور اب اگر مجھے میرے رب کی رحمت نے مجھے اپنے دامن میں نہ لیا تو ہلاکت ہو فلاں آدمی کے لیے ۔ لہذا اب میں اپنی ماں کے عقیدے پر جان دے رہا ہوں۔ “
یہ ابن جوینی کے الفاظ ہیں۔ جیسا کہ ”المنتظم“ (9/19) ”سیر اعلام النبلاء“ (471/18)، ”طبقات شافعیہ“ (260/3) اور ”شذرات الذهب“ (361/3) میں ہے۔
ان میں سے ایک اور شخص کہتا ہے:
”موت کے وقت سب سے زیادہ شک میں پڑنے والے لوگ اہل کلام ہیں ۔ “
(15) ابتلائے شک و شبہ:
مشرکین مکہ اپنے جھوٹے معبودوں جنھیں انھوں نے اور اُن سے پہلے ان کے آباء و اجداد نے اللہ کے ناموں سے مشتق نام دے رکھے تھے، ان میں معبود بننے کی کوئی بھی صفت موجود نہیں تھی ، انھوں نے محض اپنی طرف سے ان کے ایسے نام رکھ دیے تھے، جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا، اور جن کی اللہ تعالی نے کوئی دلیل نہیں نازل کی تھی ۔ وہ محض اپنے وہم وگمان اور اپنی خواہش نفس کی اتباع کرتے تھے، حالانکہ اُن کے پاس اُن کے رب کی طرف سے واضح دلیل آچکی تھی کہ یہ ہت اس لائق نہیں کہ ان کی عبادت کی جائے ۔ عبادت تو صرف اُس اللہ جل شانہ کے لیے خاص ہے جو ہر چیز کا خالق اور آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی ہر چیز کا مالک ہے۔ مشرکین مکہ کے لیے ان کے رب کی طرف سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ جو ہدایت آئی، اس سے انھوں نے منہ پھیر لیا، اور اپنی من مانی تمناؤں سے رشتہ جوڑ لیا، اور اس خیال باطل کو اپنے دل میں جگہ دے دی کہ اُن کے بت اُن کے لیے سفارشی بنیں گے:
﴿إِنْ هِيَ إِلَّا أَسْمَاءٌ سَمَّيْتُمُوهَا أَنتُمْ وَآبَاؤُكُم مَّا أَنزَلَ اللَّهُ بِهَا مِن سُلْطَانٍ ۚ إِن يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَهْوَى الْأَنفُسُ ۖ وَلَقَدْ جَاءَهُم مِّن رَّبِّهِمُ الْهُدَىٰ﴾
[النجم: 23]
”یہ بت تو محض نام ہیں جنھیں تم نے اور تمھارے باپ دادوں نے رکھ لیے ہیں، اللہ نے ان کی کوئی دلیل نازل نہیں کی ہے، وہ لوگ محض وہم و گمان کی پیروی کرتے ہیں، اور اپنی خواہش نفس کی، حالانکہ اُن کے پاس اُن کے رب کی طرف سے ہدایت آچکی ہے۔“
اور ابو نعیم نے شافعی رحمہ اللہ سے روایت کی ہے کہ: ”مالک بن انس رحمہ اللہ کے پاس جب بعض اہل اہواء آتے تو کہا کرتے تھے کہ میں اپنے رب اور اپنے دین کی طرف سے بینہ (واضح دلیل) پر ہوں اور تم محض مبتلائے شک ہو، لہذا اپنے جیسے شکی کے پاس جاؤ اور اسی سے لڑو جگھڑو۔“
(16) کتمان حق:
کتمان حق بھی اسباب بدعت میں سے بڑا سبب ہے۔ جب حق پس پردہ ہو جائے تو بدعات سے پردہ اٹھ جاتا ہے، جن لوگوں کا شیوہ کتمان حق ہو وہ باطل کو بیان کرنے والے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالی نے ان لوگوں کی شدید مذمت فرمائی جو انبیاء ورسل کے ذریعہ بھیجی گئی ہدایت و رہنمائی کو لوگوں سے چھپاتے تھے۔
﴿إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَىٰ مِن بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ ۙ أُولَٰئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ﴾
[البقرة: 159]
”بے شک جو لوگ ہماری نازل کردہ نشانیوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں، اس کے باوجود کہ ہم اسے لوگوں کے واسطے کتاب میں بیان کر چکے ہیں، ان پر اللہ اور تمام لعنت کرنے والے لعنت کرتے ہیں۔ “
یہ آیت کریمہ اگرچہ یہود و نصاری کے ان علماء کے بارے میں نازل ہوئی تھی جنھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کی نشانیوں کو چھپایا تھا، لیکن اس کا حکم عام ہے، ہر وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ حق کو چھپاتا ہے، وہ لازمی طور پر اس وعید شدید میں شامل ہوگا۔
چند آیات آگے کتمان حق کرنے والوں کے لیے وعید کا دوبارہ ذکر کیا تاکہ امت مسلمہ کے افراد ایسی مذموم صفت سے اپنے آپ کو بچا کر رکھیں۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
﴿إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلَ اللَّهُ مِنَ الْكِتَابِ وَيَشْتَرُونَ بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۙ أُولَٰئِكَ مَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ إِلَّا النَّارَ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾
[البقرة: 174]
”جو لوگ اللہ کی نازل کردہ کتاب کو چھپاتے ہیں، اور اس کے بدلے حقیر سی قیمت قبول کر لیتے ہیں، وہ درحقیقت اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ بھرتے ہیں، اور روز قیامت اللہ اُن سے کلام نہیں فرمائے گا، اور نہ انھیں پاک کرے گا، اور اُن کے لیے بڑا دردناک عذاب ہوگا۔“
سید نا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من سئل عن علم يعلمه فكتمه الجم يوم القيامت بلجام من النار
سنن الترمذى كتاب العلم باب ما جاء في كتمان العلم، حدیث نمبر: 2649 ۔ سنن ابوداؤد، کتاب العلم، باب كراهية منع العلم، حدیث نمبر: 3658۔ سنن ابن ماجه، المقدمة ، باب من سئل عن علمه فكتمه، حدیث نمبر: 266 ۔ مسند احمد: 263/2، 305۔ علامہ البانی اللہ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔
”جس شخص سے کوئی علم دریافت کیا گیا جسے وہ جانتا ہے اور اس نے اسے چھپا لیا تو اسے قیامت کے روز آگ کی لگام پہنائی جائے گی ۔“
(17) تحريف:
تحریف بھی بدعت کے اسباب میں سے ہے اور بڑا مذموم فعل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے علمائے یہود کے لیے وعید شدید کا ذکر فرمایا جو تحریف کیا کرتے تھے:
﴿فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ يَكْتُبُونَ الْكِتَابَ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَٰذَا مِنْ عِندِ اللَّهِ لِيَشْتَرُوا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۖ فَوَيْلٌ لَّهُم مِّمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَّهُم مِّمَّا يَكْسِبُونَ﴾
[البقرة: 79]
”پس ویل ہے ان لوگوں کے لیے جو اپنے ہاتھ سے کتاب لکھ لیتے ہیں، پھر کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے، تاکہ اس کے بدلے کچھ مال حاصل کریں، پس ان کے لیے خرابی ہے، اپنے ہاتھوں سے لکھی ہوئی (کتاب) کے سبب، ان کے لیے خرابی ہے ان کی اپنی کمائی کے سبب ۔“
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ان یہیود علماء کی مذمت کی ہے جو تورات کی آیات کو بدل دیتے تھے لیکن دین اسلام آنے کے بعد ان لوگوں کو بھی شامل ہے جو بدعتوں کو صحیح ثابت کرنے کے لیے قرآن وسنت میں تحریف کرتے ہیں۔ اس میں ان یہود کی مذمت کی گئی ہے جو تورات کا علم نہیں رکھتے تھے، صرف ان کے پاس چند بے بنیاد تمنائیں تھیں، اور اب اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو قرآن کریم میں غور وفکر نہیں کرتے صرف حروف کی تلاوت کرتے ہیں، اور وہ لوگ بھی شامل ہیں جو دنیاوی مقاصد حاصل کرنے کے لیے قرآن کریم کے خلاف کوئی دوسری بات اپنے ہاتھ سے لکھ کر لوگوں میں رائج کرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی شریعت اور اللہ کا دین ہے۔ اور وہ لوگ بھی شامل ہیں جو قرآن وسنت کو چھپاتے ہیں، تاکہ ان کا مخالف حق بات پر ان سے استدلال نہ کرے ۔ انتہی
بدعت کے نقصانات:
ابتداع واحداث، باعث خسارہ وگھاٹا ہے۔ بلکہ سراسر گھاٹا ہے کہ اس سے فائدہ ہو ہی نہیں سکتا۔ ذیل کی سطور میں بدعت کے نقصانات کو بیان کیا جاتا ہے۔
(1) بدعت سے توبہ قبول نہیں ہوتی:
بدعتی آدمی بدعت کو نیکی سمجھ کر رہا ہوتا ہے، لہذا نہ وہ اسے گناہ سمجھ کر توبہ کرتا ہے، اور نہ ہی اس کی توبہ قبول ہوتی ہے۔ چنانچہ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”شیطان لعین کو گناہوں کی بہ نسبت بدعت زیادہ محبوب ہے کیونکہ گناہوں سے تو توبہ کر لی جاتی ہے لیکن بدعت سے تو بہ نہیں کی جاتی ۔ “
شرح السنة از امام بغوي: 216/1
اور سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
إن الله حجب التوبة عن صاحب كل بدعة
المعجم الأوسط للطبرانی: 62/8 ، حدیث نمبر: 4713۔ سلسلہ احادیث صحیحه حدیث: 1620
”اللہ تعالیٰ نے ہر بدعتی سے توبہ کو روک دیا ہے۔“
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”البتہ توبہ اس طور پر ممکن اور واقع ہے کہ اللہ تعالی اسے ہدایت دے کہ اس کی راہنمائی فرمائے یہاں تک کہ حق اس کے لیے آشکار ہو جائے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے بہت سارے کفار و منافقین اور اہل بدعت و ضلالت کو ہدایت عطا فرمائی ۔ “
مجموع فتاوی شیخ الاسلام ابن تیمیه: 9/10
(2) بدعت سے گناہ ملتا ہے:
سیدنا کثیر بن عبد اللہ بن عمرو بن عوف مزنی بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے میرے باپ نے (میرے باپ سے) میرے دادا نے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جس نے میری سنت سے کوئی ایک سنت زندہ کی اور لوگوں نے اس پر عمل کیا تو سنت زندہ کرنے والے کو بھی اتنا ہی ثواب ملے گا، جتنا اس سنت پر عمل کرنے والے تمام لوگوں کو ملے گا جبکہ لوگوں کے اپنے ثواب میں سے کوئی کمی نہیں کی جائے گی اور جس نے بدعت جاری کی اور پھر اس پر لوگوں نے عمل کیا تو بدعت جاری کرنے والے پر ان تمام لوگوں کا گناہ ہوگا، جو اس بدعت پر عمل کریں گے جبکہ بدعت پر عمل کرنے والے لوگوں کے اپنے گناہوں کی سزا سے کوئی چیز کم نہیں ہوگی (یعنی وہ بھی پوری پوری سزا پائیں گے)“ ۔
سنن ابن ماجه المقدمة، رقم: 209، 210۔ محدث البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
مزید اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
من سن فى الإسلام سنة سيئة فعمل بها بعده كتب عليه مثل وزر من عمل بها ولا ينقص من أوزارهم شي
صحیح مسلم: 704/2، 705
”جس نے اسلام کے اندر کوئی برا طریقہ ایجاد کیا اس پر خود اس کا گناہ ہو گا اور اس کے بعد اس پر عمل کرنے والے تمام لوگوں کا گناہ بھی ہوگا اس کے بغیر کہ ان کے گناہوں میں کوئی کمی واقع ہو۔“
(3) بدعت باعث لعنت ہے:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
من أحدث فيها حدثا أو أوى فيها محدثا، فعليه لعنة الله والملئكة، والناس أجمعين ، لا يقبل منه صرف ولا عدل
صحیح بخاری، کتاب الاعتصام باب اثم من آوی محدثا ، حدیث نمبر: 3706۔ صحیح مسلم، کتاب الحج، باب فضل المدينة ، ودعاء النبي ﷺ فيها بالبركة، حدیث نمبر: 1366
”جس نے مدینہ میں کوئی بدعت ایجاد کی یا کسی بدعتی کو پناہ دی، اس پر اللہ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے، اللہ تعالی اس کی کوئی فرض یا نفل عبادت قبول نہ فرمائے گا۔“
(4) بدعت کے آنے سے سنت اٹھ جاتی ہے:
حسان بن عطیہ محاربی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ما ابتدع قوم بدعة فى دينهم إلا نزع من سنتهم مثلها، ثم لا يعيدهاإليهم إلى يوم القيامة
سنن الدارمی: 45/1
”جب کوئی قوم اپنے دین میں کوئی بدعت ایجاد کرتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس جیسی ایک سنت اٹھا لیتا ہے پھر تا قیامت اسے ان تک واپس نہیں لوٹاتا ۔“
(5) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق کا خاتمہ:
اہل بدعت کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق ٹوٹ جاتا ہے جو کہ زبردست گھاٹا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
من رغب عن سنتي فليس منى
صحیح بخاری کتاب النکاح، رقم: 5063
”جو شخص میری سنت سے اعراض کرے وہ مجھ سے نہیں۔“
(6)بدعتی حوض کوثر سے دور ہٹا دیا جائے گا:
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
أنا فرطكم على الحوض، من ورد شرب ومن شرب لم يظمأ أبدا ، على أقرام أعرفهم ويعرفونني ثم يحال بيني وبينهم
صحيح البخاري، كتاب الرقائق، باب في حوض النبي ﷺ: 264/7۔ صحیح مسلم، کتاب الفضائل باب اثبات حوض نبينا ﷺ وصفاته: 1793/4، حدیث نمبر: 2290
”میں حوض کوثر پر تمھارا پیش رفت ہوں گا ، جو بھی آئے گا نوش کرے گا، اور جو بھی نوش کرے گا اسے پھر کبھی پیاس نہ لگے گی، اور میرے پاس کچھ لوگ ایسے آئیں گے جنھیں میں پہچانتا ہوں اور وہ مجھے پہچانتے ہوں گے، پھر میرے اور ان کے درمیان دیوار حائل کر دی جائے گی۔“
اور ایک روایت میں ہے کہ میں کہوں گا: إنهم مني ”یہ میرے امتی ہیں“ تو کہا جائے گا: إنك لا تدرى ما أحدثوا بعدك ”آپ نہیں جانتے کہ ان لوگوں نے آپ کے بعد کیا کیا بدعتیں ایجاد کر لی تھیں“ تو میں کہوں گا: سحقا سحقا لمن غير بعدي ”ایسے لوگوں کو مجھ سے دور ہٹاؤ جنھوں نے میرے بعد میرے دین میں تبدیلیاں کرلی تھیں ۔“
صحيح البخاري، كتاب الرقائق، باب في حوض النبي ﷺ ، حدیث نمبر: 6583
اور سیدنا شقیق سے بروایت سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
يا رب أصحابي أصحابي، فيقال: إنك لا تدري ما أحدثوا بعدك
صحيح البخاري، كتاب الرقائق، باب في حوض النبیﷺ حدیث نمبر: 6575۔ صحیح مسلم کتاب الفضائل، باب اثبات حوض نبینا ﷺ و صفاته، حدیث نمبر: 2297
” (کہ میں کہوں گا ) اے میرے رب ! یہ میرے اصحاب ہیں، یہ میرے اصحاب ہیں، تو کہا جائے گا: آپ نہیں جانتے کہ ان لوگوں نے آپ کے بعد کیا کیا بدعتیں ایجاد کر لی تھیں ۔“
نیز سیدہ اسماء بنت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
إني على الحوض حتى أنظر من ترد على منكم، وسيؤخذ ناس من دوني فأقول: يا رب منى ومن أمتي فيقال: هل شعرت ما عملوا بعدك، والله ما برحوا يرجعون على أعقابهم، فكان ابن أبى مليكة يقول: اللهم إنا نعوذ بك أن نرجع على أعقابنا وأن تفتن فى ديننا
صحيح البخاري، كتاب الرقائق، باب في حوض النبی ﷺ حدیث نمبر: 6593۔ صحیح مسلم کتاب الفضائل، باب اثبات حوض نبينا ﷺ و صفاته حدیث نمبر: 2293
”میں حوض کوثر پر ہوں گا تاکہ تم میں جو لوگ میرے پاس آتے ہیں انھیں دیکھوں اور جو کچھ لوگوں کو مجھ سے ہٹا دیا جائے گا تو میں کہوں گا: اے میرے رب ! یہ مجھ سے اور میری امت کے لوگ ہیں تو کہا جائے گا: آپ نہیں جانتے کہ ان لوگوں نے آپ کے بعد کیا عمل کیا؟ اللہ کی قسم ! یہ اپنی ایڑیوں کے بل پلٹ گئے تھے، چنانچہ حضرت ابن ابو ملیکہ رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے: اے اللہ ! ہم تجھ سے پناہ مانگتے ہیں کہ اپنی ایڑیوں کے بل پلٹیں یا اپنے دین میں فتنہ سے۔“
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
ألا ليذا دن رجال عن حوضى كما يذاد البعير الضال أناديهم ألا هلم فيقال إنهم قد بدلوا بعدك فأقول سحقا سحقا
صحیح مسلم: 218/1
”سنو! کچھ لوگوں کو میرے حوض سے بھگایا جائے گا جس طرح بھٹکے ہوئے اونٹ کو بھگایا جاتا ہے۔ میں انھیں آواز دوں گا: سنو، ادھر آؤ تو کہا جائے گا: انھوں نے آپ کے بعد تبدیلی کر دی تھی تو میں کہوں گا: دوری ہو، دوری ہو (بھگاؤ ، دور کرو ) ۔“
اہل بدعت کے ساتھ تعلق کا حکم:
اہل بدعت کے ساتھ میل جول گمراہی کا باعث ہے۔ چنانچہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:
﴿وَإِن تُطِعْ أَكْثَرَ مَن فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ﴾
[الأنعام: 116]
”اور اگر (اے پیغمبر!) آپ زمین میں بسنے والے اکثر لوگوں کی بات مانیں گے تو وہ آپ کو اللہ کی راہ سے گمراہ کر دیں گے۔ “
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ اپنی کتاب ”بدعت“ میں رقمطراز ہیں:
بدعتیوں کے پاس آنا جانا ، ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا حرام ہے، ہاں! اگر مقصد ان کو نصیحت کرنا اور ان کے اس فعل پر نکیر ہو تو جائز ہے۔ اس لیے کہ بدعتی سے ملنا جلنا ملنے والے پر بہت برا اثر چھوڑتی ہے جس کی برائیاں دوسروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں اور جب انھیں بدعت سے روکنے اور گرفت کرنے کی طاقت نہ ہو تو ان سے اور ان کی برائیوں سے ڈرانا ضروری ہے۔ اور ممکن ہونے کی صورت میں مسلم علماء کرام اور ان کے اولی الامر پر ان کی گرفت کرنا ، ان کی برائیوں سے انھیں باز رکھنا اور انھیں بدعتوں سے روکنا واجب ہے اس لیے کہ اسلام پر ان کے خطرات بہت سخت ہیں۔
پھر یہ جاننا ضروری ہے کہ کافر ممالک بدعت کی نشر و اشاعت میں بدعتیوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں مختلف طریقوں سے ان کی مدد کرتے ہیں۔ اس لیے کہ اس میں اسلام کا خاتمہ نظر آتا ہے اور اس کی صورت دوسروں کی نظریں بگاڑنا مقصد ہے۔ اللہ تعالیٰ سے ہم سوال کرتے ہیں کہ وہ اپنے دین کی مدد فرمائے اور اپنے کلمے کو بلند کرے اور دشمنوں کو رسوا کرے۔
امام اسماعیلی سلف صالحین کا قول نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
ويرون أهل الحديث مجانية البدعة والآثام وترك الغيبة إلا لمن أظهر بدعة وهو يدع إليها فالقول فيها ليس بعيبة عندهم
اعتقاد آلمه الحديث: 78
”گناہ اور غیبت سے بچتے تھے ہاں اس شخص کے بارے میں بات چیت کرتے جس کا بدعتی ہونا واضح ہو جاتا، اور وہ شخص اس بدعت کی دعوت بھی دیتا ہو۔ ایسے شخص (کی غیر موجودگی میں اس) کے بارے میں بات چیت کرنا اہل السنہ کے نزدیک غیبت نہیں ہے۔ “
امام بغوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”یقینا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اُمت کے فرقوں میں بٹ جانے اور ان میں خواہشات و بدعات کے پیدا ہو جانے کی بھی خبر دے دی ہے، اور نجات کا فیصلہ اس جماعت کے حق میں کر دیا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے طریقے پر چلے گی۔ اب یہ بات ایک مسلمان پر لازم ہے کہ جب کوئی شخص بدعات و خواہشات کو عقیدہ بنا کر سرانجام دے یا پھر وہ ایسا کرم کرے جو سنت کو کمزور کر دے تو اس سے قطع تعلقی کرے اور اس سے برأت و بیگانگی کا اظہار کرے اور اس کو زندگی و موت دونوں صورتوں میں چھوڑ دے (یعنی اس کے خوشی و غمی کے معاملات میں شریک نہ ہو) جب کبھی ملاقات ہو تو سلام بھی نہ کہے اور اگر وہ پہلے سلام کہے تو اس کا جواب نہ دے یہاں تک کہ وہ اس بدعت کو چھوڑ کر حق کی طرف لوٹ آئے ، امام بغوی نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا: تین دن سے زیادہ بات چیت چھوڑنا اس وقت حرام ہے جب اس کی وجہ سے محبت اور معاشرت پر منفی اثر ہو، مگر جب دین کے معاملہ میں ہو اور دین کے حق میں ہو تو تب یہ گناہ نہیں بلکہ خواہشات پرست لوگوں سے اس وقت تک بات چیت بند رکھی جائے جب تک وہ توبہ نہ کرلیں ۔“
شرح السنة: 223/1 ، 227
حسن بصری رحمہ اللہ کہتے ہیں زمانہ ماضی میں اہل سنت اقلیت میں تھے، آئندہ بھی وہ اقلیت میں ہی رہیں گے۔ یہ وہ ہیں جو نہ تو تکبر میں متکبر لوگوں کے ساتھی بنے اور نہ بدعت میں اہل بدعت کے ساتھی ہے بلکہ سنت پر رہ کر صبر کرتے رہے، یہاں تک کہ اپنے رب سے جا ملے اور تم بھی ایسے ہی ہو جاؤ۔
بحواله نجات یافته کون؟ ص: 149
امام فضیل بن عیاض رحمہ اللہ (متوفی 187ھ) نے فرمایا:
”یقینا اللہ کے فرشتے ذکر کے حلقے تلاش کرتے رہتے ہیں، لہذا دیکھو کہ تمھارا اُٹھنا بیٹھنا کس کے ساتھ ہے؟ بدعتی کے ساتھ نہ ہو کیونکہ اُن (بدعتیوں) کی طرف (رحمت سے) نہیں دیکھتا اور نفاق کی علامت یہ ہے کہ آدمی کا اٹھنا بیٹھنا بدعتی کے ساتھ ہو۔ “
الطيوريات: 318/2، ح: 258- حلية الاولياء: 104/8
قاضی فضیل بن عیاض رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:
”کہ میں کسی یہودی یا عیسائی کے ہاں کھانا کھاؤں یہ مجھے اس بات سے زیادہ پسند ہے کہ کسی بدعتی کے ہاں سے کھانا کھاؤں، کیونکہ جب میں یہودی و عیسائی کے ہاں کھانا کھاؤں گا تو اس بات میں میری پیروی نہیں کی جائے گی لیکن جب میں کسی بدعتی کے ہاں کھانا کھاؤں گا تو لوگ اس میں میری پیروی کریں گے، میں تو یہ چاہتا ہوں کہ میرے اور بدعتی کے درمیان لوہے کا قلعہ (یا پردہ) ہو، سنت کے مطابق تھوڑا سا عمل کرنا یہ بدعتی کے بہت سارے اعمال سے بہتر ہے، اور جو شخص بدعتی کے ساتھ بیٹھتا ہے تاکہ وہ اس بدعتی کو اللہ سے ڈرائے تو یہ صحیح ورنہ اس کو ڈرنا چاہیے کہ کہیں یہ بھی عذاب کی لپیٹ میں نہ آ جائے، اور بدعتی کو اپنے دین کے بارے میں نہ بتاؤ اور اپنے معاملات میں اس سے مشورہ بھی نہ لو ۔ “
حلية الأولياء: 301/8
ابن مفلح حنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”متوکل نے اپنے دور حکومت میں فتویٰ پوچھنے کے لیے امام احمد رحمہ اللہ کے پاس آدمی کو بھیجا کہ ہم حکومتی کاموں کے لیے عیسائیوں کو مزدور، ملازم رکھیں یا پھر بدعتی اور خواہش پرست لوگوں کو ملازم رکھیں؟ امام احمد بن حنبل نے فتوی دیا کہ عیسائیوں کو ملازم رکھنا بدعتیوں کو ملازم رکھنے سے بہتر ہے، پھر جب متوکل کا قاصد چلا گیا تو امام احمد کے پاس بیٹھے ہوئے لوگوں نے آپ سے سوال کیا۔ امام صاحب نے جواب دیا کہ یہود و نصاری تو ذلیل و رسوا کیے ہوئے ہیں اور ان کی برائی واضح ہے لیکن یہ اہل بدعت لوگوں پر ان کے دین کو غلط ملط کرتے ہیں اور ان سے ان کے صحیح دین کو چھپاتے ہیں ۔ “
الأدب الشرعية: 165
اہل بدعت کے شبہات اور ان کا ازالہ:
اہل بدعت اپنی ایجاد کردہ بدعات کو تقویت دینے کے لیے، بلکہ انھیں دین کا حصہ ثابت کرنے کے لیے چند شبہات پیش کرتے ہیں، جن کا ازالہ انتہائی ضروری ہے تاکہ سادہ لوح عوام ان خبیث لوگوں کی خباثت سے محفوظ رہ سکیں۔
پہلا مغالطہ اور شبہ:
بدعت سنت حسنہ ہے، جس کے شروع کرنے والے کو ماجور قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ سیدنا جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
من سن فى الإسلام سنة حسنة فعمل بها بعده كتب له مثل أجر من عمل بها ولا ينقص من أجورهم شيء و من سن فى الإسلام سنة سيئة فعمل بها بعده كتب عليه مثل وزر من عمل بها ولا ينقص من أوزارهم شي
صحیح مسلم: 704/2، 705
”جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ شروع کیا خود اسے اس کا اجر ملے گا اور ان تمام لوگوں کا اجر بھی جو اس کے بعد اس پر عمل کریں گے بغیر اس کے کہ ان لوگوں کے اجر میں کسی قسم کی کمی واقع ہو اور جس نے اسلام میں کوئی برا طریقہ شروع کیا تو اس کے اوپر اس کا اپنا گناہ ہوگا اور ان لوگوں کا بھی جنھوں نے اس کے بعد اس پر عمل کیا بغیر اس کے کہ ان لوگوں کے گناہ میں کسی قسم کی کمی واقع ہو۔“
جواب: اسلام مکمل بھی ہے اور محفوظ بھی ہے۔ اسلام میں اگر کسی نے قرآن وسنت کے طریقے کو اپنایا متروکہ سنت کو دوبارہ شروع کیا یہ حدیث اس کے لیے خوشخبری ہے اور جس نے اسلام میں کوئی برا طریقہ یا بدعت اختیار کی اُس کے لیے وعید ہے۔
دوسری بات یہ حدیث کا ٹکڑا ہے مکمل حدیث کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ قبیلہ مضر کے لوگوں کے فقر وفاقہ کو دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو صدقہ کی ترغیب دی ، صحابہ کرام نے اتنا صدقہ کیا کہ سب سے پہلے ایک انصاری صحابی ایک تھیلی لائے جس کی وجہ سے اُن کے ہاتھ تھک گئے ، اس کے بعد یکے بعد دیگرے غلے اور کپڑوں کے دو ڈھیر لگ گئے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے اُس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث مبارک ارشاد فرمائی تھی ۔ لہذا اس کو بدعت ایجاد کرنے کے لیے دلیل بنانا جہالت اور شریعت اسلامیہ سے ناواقفیت کے علاوہ کچھ نہیں ۔
دوسرا مغالطہ اور شبہ:
بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ کی تقسیم اور مزید سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا لوگوں کو ایک امام کے پیچھے تراویح پر جمع کرنا اور علیحدہ علیحدہ ائمہ کے پیچھے تراویح کو بدعت حسنہ قرار دینا اس امر کی دلیل ہے کہ بدعت حسنہ بھی ہوتی ہے اور مذمت تو بدعت سیئہ کی ہے نہ کہ حسنہ کی ۔
جواب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مسجد میں باجماعت تراویح پڑھانا، صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ لہذا اسے بدعت کہنا جہالت پر مبنی ہے۔
اور اگر سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو ایک امام پر جمع کیا تو وہ بھی قابل تعریف اور قابل عمل بات ہے۔ انھوں نے شریعت اسلامیہ میں کوئی بدعت ایجاد نہیں کی تھی، بلکہ سنت ہی سے باجماعت نماز پڑھنا ثابت تھی، اسی سنت کا احیاء کیا تھا تاکہ مسجد میں زیادہ جماعتوں کے بجائے ایک جماعت کروائی جائے ، اور یہی سنت طریقہ تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے:
عليكم بستني وستة الخلفاء الراشدين المهديين
مسند أحمد: 127/4 – سنن ابو داؤد: 13/5 – 15- سنن ترمذی، رقم: 2671۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
”تم میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑو۔“
پس سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا باجماعت تراویح پڑھنے کا حکم دینا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع ہو جانا ہمارے لیے حجت ہے۔
بعض لوگ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے قول نعمت البدعة هذه سے دھوکہ دیتے ہیں، کہ بات اچھی بھی ہوتی ہے۔ حالانکہ جس عمل کی نص قرآن وسنت میں موجود ہو، وہ بدعت کیسے ہوسکتی ہے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے یہ الفاظ لغوی طور تھے نہ کہ شرعی بدعت کے معنی میں کیونکہ شریعت میں بدعت سیئہ ہی ہوتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہر خطبہ میں ارشاد فر مایا کرتے تھے:
وكل يد عي ضلالة
صحیح مسلم کتاب الجمعة، رقم: 2005
”اور ہر بدعت گمراہی ہے۔“
اور سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں:
وكل بدعة ضلالة وإن رآها الناس حسنة
شرح السنة للمروزی، ص: 58، بتحقيقنا
”ہر بدعت گمراہی ہے، اگرچہ لوگ اس کو اچھا تصور کریں۔ “
اس اثر کی روشنی میں بدعت کی تقسیم سیئہ اور حسنہ کے لحاظ سے کرنا قطعی درست نہیں ہے۔
تیسرا مغالطہ اور شبہ:
بدعتی لوگ قرآن مجید کے ایک مصحف میں جمع کو بھی بدعت حسنہ کہہ کر بدعت کی ترویج کرنا چاہتے ہیں۔
جواب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا کہ:
لا تكتبوا عني غير القرآن
صحیح مسلم: 2298/4
”میری طرف سے قرآن کے سوا کچھ نہ لکھو۔ “
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خلفائے راشدین کے طریقے کو اپنانے کا حکم فرمایا ہے، لہذا انھوں نے قرآن مجید کو کتابی شکل میں جمع فرمایا اور اس پر تمام صحابہ کرام کا اجماع ہے۔ اور ہم پر فرض ہے کہ خلفائے راشدین اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اجماع پر عمل کریں، لہذا جمع قرآن کو بدعت قرار دینا کسی لحاظ سے بھی صحیح نہیں اور نہ ہی اس کو دلیل بنا کر دین اسلام میں نئی نئی بدعات و
خرافات ایجاد کرنے کی جرات کرنی چاہیے۔