وہ مرد مجرم ہیں — چاہے وہ مذہبی ہوں، سیاسی ہوں یا دنیا دار — جو اپنی دو بیویوں میں عدل نہ کریں
حدیثِ نبوی ﷺ:
"من كانت له امرأتان فمال إلى إحداهما جاء يوم القيامة وشقه مائلٌ”
(سنن ابی داود، حدیث 2133)
ترجمہ: "جس کے دو بیویاں ہوں اور وہ ایک کی طرف جھکاؤ رکھے (یعنی اس کے ساتھ عدل نہ کرے)، تو وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اُس کا آدھا جسم لٹکا ہوا ہوگا۔”
یہ جرم کیوں سنگین ہے؟
اللہ تعالیٰ نے عدل کو تمام انسانی تعلقات کی بنیاد قرار دیا ہے، اور نکاح میں تو یہ اور زیادہ ضروری ہے۔
اگر ایک مرد دو بیویاں رکھتا ہے، تو وہ قانوناً، اخلاقاً، اور شرعاً دونوں کا ذمہ دار ہے۔
اگر وہ ایک کو زیادہ وقت دے، زیادہ مال دے، زیادہ محبت کا اظہار کرے اور دوسری کو نظرانداز کرے — تو یہ ظلم ہے، اور ظلم کا بدلہ قیامت میں چکایا جائے گا.
خواہ کوئی بھی ہو:
- عالمِ دین ہو مگر اپنی بیویوں میں عدل نہ کرے — وہ عند اللہ مجرم ہے۔
- سیاست دان ہو مگر ایک بیوی کو دنیا دکھانے کے لیے رکھے اور دوسری کو چھوڑ دے — وہ اللہ کے ہاں قابل مؤاخذہ ہے۔
- دنیادار ہو اور خواہشِ نفس کے تحت ایک بیوی کو ترجیح دے کر دوسری کو ظلم کا نشانہ بنائے — وہ قیامت کے دن ذلیل ہوگا۔
عدل کا دائرہ کیا ہے؟
عدل میں شامل ہے:
- رہائش میں برابری
- وقت کی مساوات
- نان و نفقہ، کپڑا، علاج
- رویہ، اخلاق، نرم دلی
- حتیٰ کہ رات گزارنے میں بھی انصاف
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
"فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً…”
ترجمہ: "اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ عدل نہ کر سکو گے تو ایک ہی (بیوی پر اکتفا کرو)…”
(سورۃ النساء: 3)
مردوں کو متنبہ کیا جا رہا ہے:
جو بیویوں کے درمیان عدل نہیں کرتے، وہ رب کے ہاں مجرم ہیں، چاہے دنیا انہیں نیک، کامیاب یا معتبر سمجھے۔
ان کی عبادت، تبلیغ، شہرت — سب بے وزن ہو سکتی ہے اگر انہوں نے گھر کے اندر ظلم کیا ہو۔
خلاصہ:
عدل نہ کرنے والا شوہر، ظالم ہے — اور ظالم کے لیے قرآن کا فیصلہ ہے: "اَللَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ”.
اور جس دن کوئی سایہ نہ ہوگا، اُس دن عدل کرنے والا مرد اللہ کے عرش کے سائے میں ہوگا۔