دعاء کے بعد چہرہ پر ہاتھ پھیرنے کا مفصل حکم
ماخوذ : فتاویٰ الدین الخالص، جلد 1، صفحہ 230

دعا کے بعد ہاتھ چہرے پر پھیرنے کا حکم

سوال 

دعا کے بعد ہاتھ چہرے پر پھیرنے کا کیا حکم ہے؟

الجواب 

الحمد للہ، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد:

دعا کے بعد ہاتھ منہ پر پھیرنے سے متعلق احادیث

سائب بن یزیدؓ سے روایت ہے:
نبی ﷺ دعا کے وقت دونوں ہاتھ اٹھاتے اور پھر منہ پر پھیر لیتے تھے۔
ماخذ: ابو داود (1/209) حدیث (1497)، بیہقی، مشكوة (1/205) حدیث (2255)
تبصرہ: اس حدیث کی سند میں ابن لہیعہ ضعیف اور حفص بن ہاشم مجہول راوی ہیں۔

عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے:
نبی ﷺ جب دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتے تو منہ پر پھیرے بغیر نیچے نہ کرتے تھے۔
ماخذ: ترمذی
تبصرہ: اس کی سند میں حماد بن عیسی بہت ضعیف ہے۔

امام حاکم نے اسے مستدرک (1/536) میں روایت کیا اور سکوت کیا، یعنی کوئی حکم نہیں لگایا۔

دعا کے آداب اور ہاتھ کے باطن سے دعا کا حکم

عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"جب تو اللہ تعالی سے دعا کرے تو ہاتھ کے باطن (ہتھیلیوں) سے دعا کیا کر، ہاتھ کی پشت سے دعا نہ کیا کر، اور دعا کے بعد ہاتھوں کو منہ پر پھیر لیا کر۔”
ماخذ: ابو داود (1/209)، ابن ماجہ (1/181، حدیث 866)، حاکم (1/536)، طبرانی کبیر (3/98)، ابن نصیر – قیام اللیل (ص: 327)
تبصرہ: اس حدیث کی سند میں ابن حسان راسی منکر الحدیث ہے۔

بیہقی (2/212) اور حاکم (4/270) میں بھی اس مفہوم کی دیگر ضعیف روایات ہیں، جیسا کہ ارواء الغلیل (2/179، 180) میں ذکر ہے۔

صحابہ کے عمل سے استدلال

امام بخاری نے الأدب المفرد (ص: 159) حدیث (609) میں ذکر کیا:
ابراہیم بن منذر، محمد بن فلیح، ان کے والد، ابی نعیم (وہب) کے حوالے سے بیان کیا کہ
"میں نے ابن عمر اور ابن زبیرؓ کو دعا کرتے دیکھا، وہ اپنی ہتھیلیاں اپنے چہرے پر پھیر رہے تھے۔”
تبصرہ: اس کی سند صحیح یا حسن ہے، اور یہ حدیث مرفوع روایت کی تائید کرتی ہے۔

امام بیہقی کی رائے

سنن کبری (2/212) میں امام بیہقی فرماتے ہیں:
"دعائے قنوت کے بعد ہاتھوں کو منہ پر پھیرنے کی مجھے سلف میں سے کسی سے یاد نہیں۔”

دعا میں چہرے پر ہاتھ پھیرنے کی روایت

نماز کے علاوہ دعا میں یہ عمل بعض سے مروی ہے اور مرفوع روایت بھی آئی ہے، مگر سب ضعیف ہیں۔
نماز میں اس پر عمل نہ کسی صحیح حدیث سے، نہ اثر سے، نہ قیاس سے ثابت ہے۔
اس لیے بہتر یہی ہے کہ نماز میں ایسا نہ کیا جائے، بلکہ سلف کے طریقے پر عمل کیا جائے یعنی صرف ہاتھ اٹھائے جائیں۔

تابعین و محدثین کا عمل

ابن نصر روایت کرتے ہیں:
"میں نے ابو کعب کو دعا کے بعد ہاتھ چہرے پر پھیرتے دیکھا، میں نے پوچھا کہ آپ نے کس کو ایسا کرتے دیکھا ہے؟
انہوں نے کہا: حسنؒ کو۔”
محمد بن نصرؒ کہتے ہیں:
"میں نے اسحاقؒ کو دیکھا وہ اس عمل کو ان احادیث کی وجہ سے اچھا سمجھتے تھے۔”

محدثین کی آراء اور حکم

اگرچہ ان احادیث میں اکثر ضعیف ہیں، لیکن ان سے دعا کے بعد ہاتھ چہرے پر پھیرنے کی اباحت ثابت ہوتی ہے۔
بعض علماء نے اسے مکروہ قرار دیا ہے کیونکہ تمام مرفوع احادیث ضعیف ہیں۔

ائمہ کے اقوال

امام احمد بن حنبلؒ سے سوال کیا گیا:
"وتر میں دعائے قنوت کے بعد ہاتھ چہرے پر پھیرنے کا کیا حکم ہے؟”
فرمایا:
"میں نے اس بارے میں کچھ نہیں سنا۔”
ابو داودؒ کہتے ہیں:
"میں نے امام احمدؒ کو دیکھا، وہ یہ عمل نہیں کرتے تھے۔”

عیسی بن میمون اور صالح بن حسان کی روایات بھی ضعیف ہونے کی بنا پر قابل احتجاج نہیں۔

امام مالکؒ سے جب سوال ہوا تو فرمایا:
"مجھے اس کا علم نہیں۔”

عبداللہ بن مبارکؒ سے پوچھا گیا:
"ایک شخص ہاتھ اٹھا کر دعا کرتا ہے اور پھر انہیں منہ پر پھیر لیتا ہے؟”
جواب دیا:
"سفیانؒ نے اسے مکروہ کہا ہے۔”
ماخذ: قیام اللیل (ص: 367)، الصحيحة (2/146) حدیث (595)

العز بن عبد السلامؒ فرماتے ہیں:
"دعا کے بعد ہاتھوں کو چہرے پر پھیرنا جاہل ہی کرتا ہے۔”

امام نوویؒ نے المجموع میں لکھا:
"یہ عمل مندوب (مستحب) نہیں ہے۔”

شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ (22/519) میں فرماتے ہیں:
"چہرے پر ہاتھ پھیرنے کے متعلق ایک یا دو حدیثیں مروی ہیں، لیکن ان سے حجت قائم نہیں ہوتی۔”

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1