حیلہ اسقاط کی 10 قباحتیں مستند دلائل کی روشنی میں
ماخوذ: فتاویٰ الدین الخالص، جلد 1، صفحہ 226

سوال

کیا مروجہ حیلہ اسقاط، جس میں قرآن پاک کو گھمایا جاتا ہے، شریعت مطہرہ میں کوئی اصل رکھتا ہے؟ یا یہ منافقین و مبتدعین کی گھڑی ہوئی چیز ہے جو مسلمانوں کو اصل دین سے ہٹانے کے لیے بنائی گئی ہے؟

الجواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

دین اسلام کا اصول: دلیل کی پیروی

دینِ اسلام ایک روشن اور واضح دین ہے، جس کی ہر بات دلیل پر مبنی ہے۔
اسلام میں بے بنیاد اقوال یا من گھڑت افعال کی کوئی گنجائش نہیں۔
شرعی مسائل میں صرف کتاب و سنت کی دلیل کو بنیاد بنایا جاتا ہے، نہ کہ کسی فقیر یا بزرگ کی بات کو۔

فدیہ کا شرعی حکم

فدیہ صرف اس شخص کے لیے مشروع ہے جو فوت ہو جائے اور اس کے ذمہ روزے باقی ہوں۔
نماز یا دیگر عبادات کا فدیہ دینا شریعت میں ثابت نہیں۔

مروجہ حیلہ اسقاط: ایک غیر شرعی عمل

اہل علم کی تصریحات:

◈ مولانا رشید احمد گنگوہی (فتاویٰ رشیدیہ، ص: 26):
"یہ مروج اسقاط لغو محض ہے، اس حیلہ ضائعہ میں کوئی خیر نہیں اور خیر القرون میں اس کا کوئی ذکر نہیں۔”

◈ مولانا رشید احمد لدھیانوی (احسن الفتاویٰ 1/348):
"مروج طریقہ حرام اور بدعت ہے، اس کا ذکر کتاب و سنت اور فقہ کی کتب میں نہیں۔”

قرآن و سنت کی روشنی میں

﴿اليَومَ أَكمَلتُ لَكُم دينَكُم وَأَتمَمتُ عَلَيكُم نِعمَتى وَرَ‌ضيتُ لَكُمُ الإِسلـٰمَ دينًا﴾ سورۃ المائدہ، آیت 3
"آج میں نے تمہارے لیے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنا انعام بھر پور کردیا اور تمہارے لیے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا۔”

﴿قَد كانَ لَكُم فى رَ‌سولِ اللَّـهِ أُسوَةٌ حَسَنَةٌ﴾ سورۃ الاحزاب، آیت 21
"یقینا تمہارے لیے رسول اللہ میں عمدہ نمونہ (موجود) ہے۔”

نبی کریم ﷺ کا ارشاد:
"ہر بدعت گمراہی ہے۔”

رد المختار کی صراحت:

رد المختار (1/492) میں ہے کہ:
"ولی پر حیلہ اسقاط واجب نہیں، خواہ میت نے وصیت کی ہو۔”

وصیت کی حدود:

◈ صرف انہی حقوق کی وصیت کی جا سکتی ہے جو میت کے ذمے ہوں۔
◈ وصیت ثلث ترکہ سے زیادہ نہ ہو۔

فقہاء کی تنقیدات

◈ وہبة الزحيلي (الفقه الاسلامي، 2/135):
"ایسے حیلے غیر مقبول ہیں کیونکہ نماز بدنی عبادت ہے، جو کھوکھلے طریقوں سے ساقط نہیں ہو سکتی۔”

◈ مولانا سرفراز خان (المنہاج الواضح، ص: 283):
دورِ قرآن اور حیلہ اسقاط:
رسول اللہ ﷺ، صحابہ، تابعین یا ائمہ مجتہدین کے دور میں اس کا کوئی ثبوت نہیں۔
روایت موضوع ہے، الفاظ رکیک ہیں، سند منقطع و باطل ہے۔

سمرقندی روایت کی تحقیق

دعویٰ:
فتاویٰ سمرقندیہ میں منسوب قول:
"عمرؓ نے دوران قرآن کیا اور فرمایا کہ اسے میت کی نجات کا ذریعہ بناؤ۔”

تحقیق:
یہ دعویٰ باطل ہے:
◈ فتاویٰ سمرقندیہ میں یہ عبارت موجود نہیں۔
◈ سند باطل ہے – راوی مجہول و منقطع ہیں۔
الفتوح کا مؤلف الواقدی جھوٹا و متروک ہے۔
◈ ابن جریج مدلس ہے، زہری سے روایت عن سے کر رہا ہے۔
◈ دیگر راوی: ایوب، سعید، جمیع بھی مجہول ہیں۔

فتاویٰ دارالعلوم دیوبند:

جلد 7، صفحہ 82 اور جلد 6، صفحہ 50:
"حیلہ اسقاط شریعت کے خلاف ہے، اس کی وصیت حرام ہے۔”

فیض الباری (1/302) از انور شاہ کشمیری:

تصریح:
"یہ حیلہ شارع، سلف اور علماء سے ثابت نہیں، بلکہ اکثر علماء نے اس کی تردید کی ہے۔”

مزید مراجعات:

التبیان از شیخ عبد السلام (ص: 196)
فتاویٰ دیوبند از مفتی محمد شفیع (1/122)
مراقی الفلاح (ص: 102)
مجموعۃ الرسائل للشامی (1/208-210)

شیخ محمد طاہر (النشاط، ص: 9) کے مطابق حیلہ اسقاط کی قباحتیں:

➊ شریعت میں عدمِ نقل:
اگر یہ پسندیدہ عمل ہوتا تو شارع حکم دیتا۔

➋ بدعت:
غیر لازم کو لازم کرنا بدعت ہے۔

➌ اصرار بر مستحب:
مستحب پر اصرار کرنا شرعی طور پر غلط ہے۔

➍ دھوکہ:
فقراء کو دینے کا ڈرامہ، مال واپس لیا جاتا ہے۔

➎ یتیموں و غائبین کا مال:
ان کا مال تقسیم کرنا حرام ہے۔

➏ زبردستی خرچ:
وارثوں کی رضامندی نہ ہونا، زبردستی خرچ کروانا۔

➐ فدیہ کی مقدار:
فدیہ ایک فقیر کو پورا دینا چاہیے، نہ کہ چند حصوں میں بانٹنا۔

➑ دوسرے کی ملکیت پر تصرف:
مال جب کسی کے ہاتھ میں آ جائے تو وہ اس کی ملکیت بن جاتا ہے، اس میں بغیر رضا کے تصرف ظلم ہے۔

➒ منافقت:
حلقے میں مال لٹانے والے زکوٰۃ بھی نہیں دیتے، یہ سب دکھاوا ہے۔

➓ دیگر منکرات:
بدعات، منکرات، حب مال، ریاکاری اور شریعت سے روگردانی پر مشتمل ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1