إن الحمد لله نحمده، ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له ، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله . أما بعد:
پہلا حق: ایمان بالرسول
قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا آمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي نَزَّلَ عَلَىٰ رَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي أَنزَلَ مِن قَبْلُ ۚ وَمَن يَكْفُرْ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا﴾
(النساء: 136)
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”اے ایمان والو! اللہ پر، اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول پر اتاری ہے اور ان کتابوں پر جو اس سے پہلے اس نے نازل فرمائی ہیں ایمان لاؤ۔ جو شخص اللہ سے اور اس کے فرشتوں سے اور اس کی کتابوں سے اور اس کے رسولوں سے اور قیامت کے دن سے کفر کرے تو وہ بہت بڑی دور کی گمراہی میں جا پڑا۔ “
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ﴾
(الحجرات: 15)
اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ” (یاد رکھو) مومن تو وہ ہیں جو اللہ پر اور اس کے رسول پر (پکا) ایمان لائیں ۔ “
حدیث 1:
«عن أبى هريرة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: أمرت أن أقاتل الناس حتى يشهدوا أن لا إله إلا الله، ويؤمنوابى وبما جئت به فإذا فعلوا ذلك عصموا مني دمانهم وأموالهم إلا بحقها وحسابهم على الله»
صحیح مسلم، کتاب الايمان، رقم: 126
”حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مجھے حکم ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک جنگ جاری رکھوں، یہاں تک کہ وہ لا اله الا الله کی گواہی دیں، اور مجھ پر اور جو (دین) میں لے کر آیا ہوں، اس پر ایمان لے آئیں، سو جب وہ ایسا کرلیں، تو انہوں نے اپنی جان و مال کو مجھ سے محفوظ کر لیا، سوائے اس کے حق کے اور ان کا حسان اللہ کے سپرد ہے۔ “
حدیث 2:
«وعنه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: والذي نفس محمد بيده لا يسمع بى احد من هذه الأمة يهودى ولانصراني، ثم يموت ولم يؤمن بالذي أرسلت به، إلا كان من أصحاب النار»
صحیح مسلم، كتاب الإيمان باب وجوب الايمان برسالة نبينا محمد ﷺ الی جميع الناس ونسخ الملل بملته ، رقم: 386
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث بیان کرتے ہیں کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے! اس زمانے (یعنی میرے اور میرے بعد قیامت تک ) کا کوئی یہودی یا نصرانی (یا کوئی اور دین والا ) میرا حال سنے پھر ایمان نہ لائے اس پر جو چیز میں دے کر بھیجا گیا ہوں (یعنی قرآن ) تو وہ جہنم میں جائے گا۔ “
حدیث 3:
«وعن عبد الله قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما أصاب أحد قط هم ولا حزن، فقال: اللهم إني عبدك وابن عبدك وابن امتك، ناصيتي بيدك، ماض فى حكمك، عدل فى قضاء ك، استلك بكل اسم هو لك، سميت به نفسك، أو انزلته فى كتابك او علمته أحدا من خلقك او استأثرت به فى علم الغيب عندك، ان تجعل القرآن ربيع قلبي ونور صدرئ وجلاء غمي وذهاب همى إلا ذهب الله همه وحزنه، وأبدله مكانه فرجا . فقال: فقيل يا رسول الله! ألا نتعلمها؟ فقال: بلى ! يبتغي لمن سمعها أن يتعلمها»
مسند احمد، رقم: 3712، صحیح ابن حبان، رقم: 2372، مستدرك حاكم: 509/1، 510 عمل الليوم والليلة لابن السني رقم 336 الفرج بعد الشدة لابن أبي دنيا، رقم: 53، سلسلة الصحيحة، رقم: 199
”اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: جس بندے کو غم اور پریشانی لاحق ہو تو یہ دعا کرے: اے اللہ! میں تیرا بندہ ہوں۔ میں تیرے بندے اور تیری بندی کا بیٹا ہوں۔ میری پیشانی تیرے قابو میں ہے۔ میرے حق میں تیرا حکم جاری ہے۔ میرے بارے میں تیرا فیصلہ انصاف کے ساتھ ہے، میں تجھ سے تیرے ہر اس نام کے ساتھ سوال کرتا ہوں کہ جسے تو نے اپنے لیے پسند کیا ہے، یا اسے تو نے اپنی مخلوق میں سے کسی کو سکھا دیا ہو، یا تو نے اپنی کتاب میں اتارا ہے، یا اس کو تو نے اپنے ہاں غیب کے خزانوں میں مخفی رکھا ہے کہ قرآن کو تُو میرے دل کی بہار اور میرے سینے کا نور بنادے، اور قرآن کو میرے غم کو دور کرنے والا اور میرے دکھ کو مٹا دینے والا بنا دے، تو اللہ تعالیٰ اس کا غم اور دکھ دور کر دیتا ہے اور اس کی جگہ آسانی پیدا کر دیتا ہے۔ صحابی کہتے ہیں عرض کیا گیا، اے اللہ کے رسول! ہم اسے سیکھ نہ لیں؟ فرمایا کیوں ! جو شخص بھی سنے وہ اسے سیکھے یعنی یاد کر لے۔ “
حدیث 4:
«وعن أبى هريرة رضي الله عنه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إن مثلي ومثل الأنبياء من قبلي كمثل رجل بنى بيتا فاحسنه وأجمله إلا موضع لبنة من زاوية فجعل الناس يطوفون به ويعجبون له ويقولون: هلا وضعت هذه اللبنة؟ قال: فأنا اللبنة، وأنا خاتم النبيين»
صحیح بخاری کتاب المناقب، باب خاتم النبيين، رقم: 3535
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری اور مجھ سے پہلے گزرے ہوئے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے ایک آدمی نے ایک عمارت بنائی اور خوب حسین و جمیل بنائی مگر ایک اینٹ کی جگہ چھوڑی ہوئی تھی۔ لوگ اس عمارت کے گرد پھرتے اور اس کی خوبصورتی پر اظہار حیرت کرتے تھے مگر کہتے کہ اس جگہ اینٹ کیوں نہ رکھی گئی؟ تو وہ اینٹ میں ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں۔“
دوسرا حق: اطاعت رسول
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ﴾
(النساء: 80)
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”اور جس شخص نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔ “
وَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ﴾
(محمد: 33)
اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کا کہا مانو اور اپنے اعمال کو غارت نہ کرو۔ “
حدیث 5:
«وعن أبى سعيد رضي الله عنه قال: بعث على رضي الله عنه إلى النبى صلى الله عليه وسلم بذهيبة فقسمها بين الأربعة الأقرع بن حابس الحنظلي ثم المجاشعي، وعيينة بن بدر الفزاري، وزيد الطائي ثم أحد بني نبهان، وعلقمة بن علاثة العامري ثم أحد بني كلاب، فغضبت قريش والأنصار، قالوا يعطي صناديد أهل نجد ويدعنا – قال: إنما أتالفهم فأقبل رجل غائر العينين مشرف الوجنتين، ناتي الجبين كث اللحية، محلوق فقال: اتق الله يا محمد! فقال: من يطع الله إذا عصيت؟ أيأمنني الله على أهل الأرض فلا تأمنوني؟ فسأله رجل قتله أحسبه خالد بن الوليد فمنعه فلما ولى قال: إن من ضئضي هذا أو فى عقب هذا قوم يقره ون القرآن لا يجاوز حناجرهم يمرقون من الدين مروق السهم من الرمية يقتلون أهل الإسلام، ويدعون أهل الأوثان، لئن أنا أدركتهم لأقتلنهم قتل عاد»
صحیح بخاری کتاب احادیث الانبياء، رقم: 3344، صحیح مسلم، کتاب الزكوة، رقم: 2541
”اور سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے (یمن سے ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کچھ سونا بھیجا تو آپ نے اسے چار آدمیوں میں تقسیم کر دیا، اقرع بن حابس حنظلی ثم المجاشعی، عیینہ بن بدرفزاری، زید طائی بنونبهان والے اور علقمہ بن علاثہ عامری بنو کلاب والے، اس پر قریش اور انصار کے لوگوں کو غصہ آیا اور کہنے لگے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کے بڑوں کو تو دیا لیکن ہمیں نظر انداز کر دیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں صرف ان کے دل ملانے کے لیے انہیں دیتا ہوں۔ (کیونکہ ابھی حال ہی میں یہ لوگ مسلمان ہوئے ہیں) پھر ایک شخص سامنے آیا، اس کی آنکھیں دھنسی ہوئی تھیں، کلے پھولے ہوئے تھے، پیشانی بھی اٹھی ہوئی ، داڑھی بہت گھنی تھی اور سر منڈا ہوا تھا۔ اس نے کہا اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ! اللہ سے ڈرو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر میں ہی اللہ کی نافرمانی کروں گا تو پھر اس کی فرمانبرداری کون کرے گا؟ اللہ تعالیٰ نے مجھے روئے زمین پر دیانت دار بنا کر بھیجا ہے۔ کیا تم مجھے امین نہیں سمجھتے؟ اس شخص کی اس گستاخی پر ایک صحابی نے اس کے قتل کی اجازت چاہی، میرا خیال ہے کہ یہ سیدنا خالد بن ولید تھے، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس سے روک دیا۔ پھر وہ شخص وہاں سے چلنے لگا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس شخص کی نسل سے یا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ) اس شخص کے بعد اسی کی قوم سے ایسے لوگ جھوٹے مسلمان پیدا ہوں گے، جو قرآن کی تلاوت تو کریں گے، لیکن قرآن مجید ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ دین سے وہ اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے، یہ مسلمانوں کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے، اگر میری زندگی اس وقت تک باقی رہے تو میں ان کو اس طرح قتل کروں گا جیسے قوم عاد کا (عذاب الہی سے ) قتل ہوا تھا کہ ایک بھی باقی نہ بچا۔ “
حدیث 6:
«عن المقدام بن معديكرب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: ألا إني أوتيت الكتاب ومثله معه، ألا يوشك رجل شبعان على أريكته يقول: عليكم بهذا القرآن فما وجدتم فيه من حلال فاحلوه ما وجدتم فيه من حرام فحرموه»
سنن ابوداود، کتاب السنه، باب في لزوم السنة، رقم: 4604، سنن ابن ماجه، رقم: 12، مسند احمد: 130/4، رقم: 17213- محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خبردار! مجھے قرآن کے ساتھ اس جیسی ایک اور چیز بھی دی گئی ہے، عنقریب ایسے ہوگا کہ ایک پیٹ بھرا (آسودہ حال) آدمی اپنے تخت یا دیوان پر بیٹھا کہے گا کہ اس قرآن کو لازم پکڑو، جو اس میں حلال ہے اسے حلال جانو اور جو اس میں حرام ہے اسے حرام سمجھو۔ ۔“
حدیث 7:
«وعن عبد الله بن عمر رضي الله عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: من نزع يدا من طاعة الله فإنه يأتى يوم القيامة لا حجة له ومن مات وليس فى عنقه بيعة، مات ميتة الجاهلية»
مسند أحمد، رقم: 5551، صحیح مسلم کتاب الامارة، رقم: 4793
”اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: جس نے اپنا ہاتھ اللہ کی اطاعت سے کھینچا (اطاعت نہ کی ) پس اس کے لیے قیامت کے دن کامیابی کی کوئی دلیل نہیں ہوگی اور جو شخص بغیر بیعت کے مرا تو گویا جاہلیت کی موت مر گیا۔ “
حدیث 8:
«وعن أبى هريرة رضي الله عنه ، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: كل أمتي يدخلون الجنة إلا من أبى قالوا: يا رسول الله! و من يأبي؟ قال: من أطاعني دخل الجنة و من عصاني فقد أبى»
صحیح بخاری، کتاب الاعتصام بالكتاب و السنة، باب الاقتداء بسنن رسول الله ﷺ ، رقم: 7280
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میری امت کے سارے لوگ جنت میں جائیں گے سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے انکار کیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ! انکار کس نے کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوگا، جس نے میری نافرمانی کی اس نے انکار کیا (اور وہ جنت میں نہیں جائے گا)۔ “
تیسرا حق: اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم
قَالَ الله تَعَالَى: ﴿قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ﴾
(آل عمران: 31)
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”کہہ دیجیے! کہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو خود اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرما دے گا۔ “
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ﴾
(الأعراف: 158)
اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”اور اس کی پیروی کرو، تاکہ تم ہدایت پاؤ۔“
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ﴾
(الأعراف: 157)
اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”وہ جو اس رسول کی پیروی کرتے ہیں، جوامی نبی ہے، جسے وہ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ “
حدیث 9:
«وعن أبى هريرة رضي الله عنه قال: قال النبى صلى الله عليه وسلم: ما من الأنبياء نبي إلا أعطي من الآيات ما مثله آمن عليه البشر، وإنما كان الذى أوتيته وحيا اوحاه الله إلي، فأرجو أن أكون أكثرهم تابعا يوم القيامة»
صحیح بخاری کتاب فضائل القرآن باب كيف نزل الوحي و اول ما نزل، رقم4981 صحیح مسلم کتاب الایمان، باب وجوب الايمان برسالة نبينا محمد ﷺ رقم: 152/239
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: نبیوں میں سے ہر ایک نبی کو ایسے معجزات عطا کیے گئے کہ ان کے بقدر لوگ ایمان لائے۔ اور بے شک جو معجزہ مجھے عطا کیا گیا ہے وہ وحی (قرآن و حدیث) ہے جو اللہ تعالیٰ نے مجھ پر نازل فرمائی ہے۔ مجھے امید ہے کہ میرے پیرو کار روز قیامت سب سے زیادہ ہوں گے۔ “
حدیث 10:
«وعن سلمان قال: قال له بعض المشركين وهم يستهزئون به: إني أرى صاحبكم يعلمكم كل شيتي حتى الخرائة قال: أجل، أمرنا أن لا نستقبل القبلة، ولا نستنجي بأيماننا، ولا نكتفي بدون ثلاثة أحجار ليس فيها رجيع ولا عظم»
سنن ابن ماجه ، کتاب الطهاره باب الاستنجاء بالحجارة والنهي عن الروث والرمة، رقم: 316 واللفظ له، صحیح مسلم، رقم: 262
”اور حضرت سلمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بعض مشرکین ان کا مذاق اڑانے لگے ایک مشرک نے کہا: میں دیکھتا ہوں کہ تمہارا ساتھی (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) تمہیں سب کچھ سکھاتا ہے حتی کہ قضائے حاجت کے طریقے بھی (سکھاتا ہے)۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم (قضائے حاجت کے لیے ) قبلہ کی طرف منہ نہ کریں اور دائیں ہاتھ سے استنجا نہ کریں اور تین پتھروں سے کم استعمال نہ کریں، ان میں لید یا ہڈی شامل نہ ہو۔ “
حدیث 11:
«وعن ابن عمر رضي الله عنه قال: اتخذ النبى صلى الله عليه وسلم خاتما من ذهب فاتخذ الناس خواتيم من ذهب، فقال النبى صلى الله عليه وسلم: اني اتخذت خاتما من ذهب فنبذه، قال: إني لن ألبسه أبدا فنبذ الناس خواتيمهم»
صحیح بخارى كتاب الاعتصام بالكتاب والسنة باب الاقتداء بأفعال النبي ﷺ، رقم: 7298
”اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے کی انگوٹھی بنوائی تو تمام لوگوں نے بھی (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر) سونے کی انگوٹھی بنوالی۔ (ایک دن) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں نے (یہ) سونے کی انگوٹھی بنوائی تھی، اس کے بعد نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پھینک دیا اور فرمایا: میں اب اس کو کبھی نہیں پہنوں گا۔ تو تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنی اپنی انگوٹھیاں پھینک دیں۔ “
حدیث 12:
«وعن عمر رضي الله عنه ، أنه جاء إلى الحجر الأسود فقبلة، وقال: إني لأعلم أنك حجر لا تضر ولا تنفع، ولولا أني رأيت النبى صلى الله عليه وسلم يقبلك ما قبلتك»
صحیح بخاری، کتاب الحج، باب ما ذكر في الحجر والأسود، رقم: 1597
”اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ حجر اسود کے پاس آئے فرمایا: اللہ کی قسم مجھے خوب معلوم ہے کہ تو صرف ایک پتھر ہے جو نہ تو کوئی نفع پہنچا سکتا ہے نہ کوئی نقصان ، اور اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا۔ “
چوتھا حق: اختلافی امور میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ﴾
(النساء: 59)
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ اللہ اور رسول کی طرف۔ “
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا﴾
(النساء: 65)
اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”پس قسم ہے تیرے پروردگار کی ! یہ مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ تمام آپس کے اختلافات میں آپ کو حاکم نہ مان لیں۔ پھر جو فیصلہ آپ ان میں کر دیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کرلیں۔ “
حدیث 13:
«وعن العرباض بن سارية رضي الله عنه قال: صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم ثم أقبل علينا فوعظنا موعظة بليغة ذرفت منها العيون، و وجلت منها القلوب، فقال قائل: يا رسول الله! كأن هذه موعظة مودع فماذا تعهد إلينا؟ فقال: أوصيكم بتقوى الله و السمع و الطاعة و إن عبدا حبشيا فإنه من يعش منكم بعدى فسيرى إختلافا كثيرا فعليكم بسنتي و سنة الخلفاء المهديين الراشدين، تمسكوا بها و عضوا عليها بالنواجذ، وإياكم و محدثات الأمور فإن كل محدثة بدعة وكل بدعة ضلالة»
سنن ابی داود، كتاب السنة، رقم: 4607 – محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی، نماز کے بعد ہماری طرف توجہ فرمائی اور ہمیں بڑا موثر وعظ فرمایا جس سے لوگوں کے آنسو بہہ نکلے اور دل کانپ اٹھے ایک آدمی نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! آج آپ نے اس طرح وعظ فرمایا ہے جیسے یہ آپ کا آخری وعظ ہو، ایسے وقت میں آپ ہمیں کس چیز کی تاکید فرماتے ہیں، ہمیں کچھ وصیت بھی فرما دیجیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں تمہیں اللہ تعالیٰ سے ڈرنے، اپنے امیر کی بات سننے اور اس کی اطاعت کرنے کی وصیت کرتا ہوں، خواہ تمہارا امیر حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو (اور یاد رکھو) جو لوگ میرے بعد زندہ رہیں گے وہ امت میں بہت زیادہ اختلافات دیکھیں گے۔ ایسے حالات میں میری سنت پر عمل کرنے کو لازم پکڑنا اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کے طریقے کو تھامے رکھنا اور اس پر مضبوطی سے جمے رہنا نیز دین میں پیدا کی گئی نئی نئی باتوں (بدعتوں) سے بچنا کیونکہ دین میں ہرنئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ “
حدیث 14:
«وعن قبيصة ابن ذويب رضي الله عنه أنه قال جاءت الجدة إلى أبى بكر الصديق رضي الله عنه تسأله ميرانها فقال لها أبو بكر رضي الله عنه مالك فى كتاب الله شيء و ما عملت لك فى سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم شيئا فارجعي حتى أسأل الناس فسأل الناس فقال المغيرة بن شعبة رضي الله عنه حضرت رسول الله صلى الله عليه وسلم أعطاها السدس فقال أبو بكر رضي الله عنه: هل معك غيرك؟ فقام محمد بن مسلمة الأنصاري رضي الله عنه فقال: مثل ما قال المغيرة رضي الله عنه فانفذة لها أبوبكر الصديق رضي الله عنه»
سنن ابوداؤد، کتاب الفرائض باب في الجدة رقم 2894، سنن ابن ماجه ابواب الفرائض، باب ميراث الجده، رقم: 2824
”اور حضرت قبیصہ بن ذویب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک میت کی نانی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس میراث مانگنے آئی ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: قرآنی احکام کے مطابق میراث میں تمہارا کوئی حصہ نہیں اور نہ ہی میں نے اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث سنی ہے، لہذا واپس چلی جاؤ، میں اس بارے میں لوگوں سے دریافت کروں گا۔ چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے پوچھا تو حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میری موجودگی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نانی کو چھٹا حصہ دلایا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے پوچھا: کوئی اور بھی اس کا گواہ ہے؟ حضرت محمد بن مسلمہ انصاری رضی اللہ عنہ نے بھی اس حدیث کی تائید کی۔ چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نانی کو چھٹا حصہ دلا دیا۔ “
حدیث 15:
«وعن سعيد بن المسيب، أن عمر كان يقول: الديه للعاقلة، ولا ترث المرأة من دية زوجها شيئا، حتى قال له الضحاك بن سفيان: كتب إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن أورث امرأة أورث امرأة أثيم الضبابي من دية زوجها»
سنن ابن ماجه ابواب الديات، باب الميراث من الدية، رقم: 2642، سنن ابوداود، كتاب الفرائض، باب فى المرأة ترث من دية زوجها، رقم: 2927، سنن ترمذی، رقم: 1415۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور جناب سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ: دیت عاقلہ کو ملے گی اور عورت کو اپنے خاوند کی دیت (خون بہا) سے ترکے د وراثت والا حصہ نہیں ملے گا حتی کہ سیدنا ضحاک بن سفیان رضی اللہ عنہ نے انہیں خط لکھ کر بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جناب اشیم الضبابی کی بیوی کو اس کے خاوند کی دیت سے حصہ دلوایا تھا۔ (تو تب عمر رضی اللہ عنہ نے فوراً رجوع فرما لیا) ۔ “
حدیث 16:
«وعن أبى هريرة رضي الله عنه يقص يقول: فى قصصه من أدركه الفجر جنبا، فلا يصم، فذكرت ذلك لعبد الرحمن بن الحارث لأبيه فأنكر ذلك، فانطلق عبد الرحمن، وانطلقت معه حتى دخلنا على عائشة وأم سلمة رضي الله عنهما فسألهما عبد الرحمن عن ذلك، قال: فكلتاهما قالت: كان النبى صلى الله عليه وسلم يصبح جنبا من غير حلم ثم يصوم، قال: فانطلقنا حتى دخلنا على مروان فذكر ذلك له عبد الرحمن، فقال مروان: عزمت عليك إلا ما ذهبت إلى أبى هريرة فرددت عليه ما يقول، قال: فجئنا أبا هريرة وأبو بكر حاضر ذلك كله، قال: فذكر له عبد الرحمن، فقال أبو هريرة: أهما قالتاه لك؟ قال: نعم قال: هما أعلم، ثم رد أبو هريرة ما كان يقول فى ذلك إلى الفضل بن العباس، فقال أبو هريرة: سمعت ذلك من الفضل ولم أسمعه من النبى صلى الله عليه وسلم ، قال: فرجع أبو هريرة عما كان يقول فى ذلك، قلت لعبد الملك: أقالنا فى رمضان؟ قال: كذلك كان يصبح جنبا من غير حلم ثم يصوم»
صحیح مسلم، کتاب الصيام، باب صحة صوم من طلع عليه الفجر وهو جنب رقم: 2589
”حضرت ابوبکر بن عبد الرحمن بیان کرتے ہیں کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے اپنی روایات کے بیان میں، میں نے یہ روایت بھی سنی کہ جس کو فجر جنابت کی حالت میں پالے وہ روزہ نہ رکھے، میں نے یہ بات اپنے باپ عبدالرحمن بن حارث کو بتائی انہوں نے اس کا انکار کیا، تو عبدالرحمن چلے اور میں بھی ساتھ تھا حتی کہ ہم حضرت عائشہ اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے ، عبدالرحمن نے ان دونوں سے یہ مسئلہ پوچھا، ان دونوں نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بغیر احتلام کے صبح کے وقت جنبی ہوتے اس کے باوجود آپ روزہ رکھ لیتے ، ابوبکر کہتے ہیں پھر ہم مروان کے پاس گئے تو عبدالرحمن نے اس بات کا تذکرہ اس سے بھی کیا ، تو مروان نے کہا، میں تمہیں قسم دیتا ہوں، تم ضرور حضرت ابوہریرہ کے پاس جاؤ اور ان کے قول کی تردید کرو، تو ہم ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، ابوبکر پورے واقعہ میں ساتھ رہا، عبدالرحمن نے ابوہریرہ کو یہ واقعہ سنایا، تو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا: کیا ان دونوں نے یہ بات کہی ہے؟ عبدالرحمن نے کہا، ہاں! ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا وہ دونوں بہتر جانتی ہیں۔ پھر ابو ہریرہ نے اپنے قول کی نسبت فضل بن عباس رضی اللہ عنہما کی طرف کی کہ میں نے تو یہ بات فضل سے سنی تھی، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنی ، اس پر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اپنے فتویٰ (قول) سے رجوع کرلیا، ابن جریج نے عبدالملک سے پوچھا: کیا ان دونوں (ازواج) نے في رمضان کہا تھا، انہوں نے کہا، ایسے ہی کہا کہ آپ بلا احتلام صبح کے وقت جنبی ہوتے تھے، پھر روزہ رکھ لیتے تھے۔ “
پانچواں حق: رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی معاملہ میں مخالفت نہ کی جائے
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿لَّا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُم بَعْضًا ۚ قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنكُمْ لِوَاذًا ۚ فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾
(النور: 63)
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”رسول کے بلانے کو اپنے درمیان اس طرح نہ بنالو جیسے تمہارے بعض کا بعض کو بلانا ہے۔ بے شک اللہ ان لوگوں کو جانتا ہے جو تم میں سے ایک دوسرے کی آڑ لیتے ہوئے کھسک جاتے ہیں۔ سنو! جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہیے کہ کہیں ان پر کوئی زبر دست آفت نہ آ پڑے یا انہیں درد ناک عذاب نہ پہنچے ۔ “
حدیث 17:
«وعن أياس بن سلمة بن الأكوع أن آباه حدثه أن رجلا أكل عند رسول الله صلى الله عليه وسلم بشماله فقال: كل بيمينك قال: لا استطيع قال: لا استطعت ما منعه إلا الكبر، قال: فما رفعها إلى فيه»
صحیح مسلم، کتاب الاشربة، رقم: 2021
”اور حضرت ایاس بن سلمہ بن اکوع اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنے بائیں ہاتھ سے کھانا شروع کیا تو آپ نے فرمایا: اپنے دائیں ہاتھ سے کھاؤ۔ اس نے کہا، یہ میرے بس میں نہیں ہے، آپ نے فرمایا: تیرے بس میں نہ رہے۔ حضرت سلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، یہ اس نے محض تکبر کی بنا پر کہا تھا، اس لیے بعد میں اپنے منہ تک نہ اٹھا سکا۔ “
حدیث 18:
«وعن عبد الله عن النبى صلى الله عليه وسلم أنه قرأ النجم فسجد ، فما بقي أحد إلا سجد، إلا رجل رأيته أخذ كفا من حصى فرفعه فسجد عليه، وقال: هذا يكفيني، فلقد رأيته بعد قتل كافرا بالله»
صحیح بخاری، کتاب مناقب الأنصار، باب مالقى النبي وأصحابه من المشركين بمكة ، رقم: 3853 ، صحيح مسلم، کتاب المساجد، باب سجود التلاوة، رقم: 1297
”اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ نجم پڑھی اور سجدہ کیا ، اس وقت آپ کے ساتھ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سجدہ کیا۔ صرف ایک شخص کو میں نے دیکھا کہ اپنے ہاتھ میں اس نے کنکریاں اٹھا کر اس پر اپنا سر رکھ دیا، اور کہنے لگا: کہ میرے لیے بس اتنا ہی کافی ہے۔ میں نے پھر اسے دیکھا کہ کفر کی حالت میں وہ قتل کیا گیا۔“
حدیث 19:
«وعن عبد الله بن عمر، قال: أقبل علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: يا معشر المهاجرين! خمس إذا ابتليتم بهن، وأعوذ بالله أن تدركوهن: لم تظهر الفاحشة فى قوم قط، حتى يعلنوا بها، إلافشافيهم الطاعون والأوجاع التى لم تكن مضت فى أسلافهم الذين مضوا ولم ينقصوا المكيال والميزان إلا أخذوا بالسنين وشدة المؤونة وجور السلطان عليهم. ولم يمنعوا زكاة أموالهم، إلا منعوا القطر من السماء، ولو لا البهائم لم يمطروا . ولم ينقضوا عهد الله وعهد رسوله، إلا سلط الله عليهم عدوا من غيرهم، فأخذوا بعض ما فى أيديهم. ومالم تحكم أئمتهم بكتاب الله، ويتخيروا مما انزل الله إلا جعل الله بأسهم بينهم»
سنن ابن ماجة ، كتاب الفتن ، باب العقوبات، رقم: 4019، سلسلة الصحيحة، 132 رقم: 106
”اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ہی ایک طویل حدیث مروی ہے، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے مہاجرین کے گروہ! پانچ باتیں ہیں جب تم ان میں مبتلا ہو جاؤ، اور میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ تم ان میں مبتلا ہو جاؤ۔ (اب ان پانچ باتوں کا بیان ہے ) جب کسی قوم میں علانیہ فسق و فجور ہوتا ہے۔ (جیسے زنا، شراب خمر وغیرہ) تو ان میں طاعون آتا ہے، (یعنی وباء) اور ایسی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں کہ اگلے لوگوں میں وہ بیماریاں کبھی نہیں ہوئی تھیں ۔ اور جب کوئی قوم تول اور ماپ میں کمی کرتی ہے تو ان پر قحط اترتا ہے اور سخت مصیبت پڑتی ہے اور بادشاہ وقت ان پر ظلم کرتا ہے۔ اور جب کوئی قوم اپنے مال کی زکوۃ نہیں دیتی تو اللہ تعالیٰ ان پر بارش روک دیتا ہے، اور اگر دنیا میں چوپائے نہ ہوتے تو بالکل بارش نہ ہوتی۔ اور جب کوئی قوم اللہ اور اس کے رسول کا عہد توڑتی ہے (یعنی اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی حدیث پر عمل کرنا چھوڑتی ہے ) تو اللہ تعالیٰ ان پر ایک دشمن مسلط کرتا ہے جو ان کی قوم کا نہیں ہوتا اور ان کے ہاتھوں کے بعض مال کو وہ چھین لیتا ہے۔ اور جب مسلمان حاکم اللہ تعالیٰ کی کتاب پر نہیں چلتے اور اللہ نے جو نازل فرمایا اس کو اختیار نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ ان کے اندر لڑائی ڈال دیتا ہے۔ “
حدیث 20:
«وعن ابن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: انذنوا للنساء بالليل إلى المساجد، فقال ابن له: يقال له واقد: إذن يتخذنه دغلا، قال: فضرب فى صدره، وقال: أحدثك عن رسول الله وتقول، لا»
صحیح مسلم کتاب الصلاة، باب خروج النساء الى المساجد اذا لم يترتب عليه فتنة وانها لا تخرج مطيبة، رقم: 442
”اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عورتوں کو رات کو مسجدوں کی طرف نکلنے کی اجازت دو۔ تو ان کے بیٹے نے کہا، جس کو واقد کہا جاتا ہے تب وہ اس کو خیانت وفساد کا ذریعہ بنالیں گی۔ راوی نے بتایا یہ سن کر ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اس کے سینہ پر مارا اور کہا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بتا رہا ہوں اور تو کہتا ہے نہیں۔ “
چھٹا حق: ترک بدعات
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ﴾
(آل عمران: 85)
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”اور جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے اس کا دین قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں سے ہوگا۔ “
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا﴾
(المائدة:3)
اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”آج کے دن پورا میں نے کیا تمہارے لیے تمہارا دین اور پوری کی تم پر نعمت اپنی اور پسند کیا تمہارے لیے دین اسلام کو ۔ “
حدیث 21:
«وعن العرباض ابن سارية قال: صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم، ثم أقبل علينا بوجهه فوعظنا موعظة بليغة، ذرفت منها العيون، ووجلت منها القلوب. فقا رجل: يا رسول الله! كأن هذه موعظة مودع فاوصنا، فقال: أوصيكم بتقوى الله، والسمع والطاعة، وإن كان عبدا حبشيا، فإنه من يعش منكم بعدي فسيرى اختلافا كثيرا، فعليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهدتين، تمسكوا بها وعضوا عليها بالنواجد، وإياكم ومحدثات الأمور، فإن كل محدثة بدعة، وكل بدعة ضلالة»
مسند أحمد: 126/4، سنن أبوداؤد، كتاب السنة، رقم: 4607، سنن ترمذی، ابواب العلم، رقم: 2676 سنن ابن ماجة المقدمة، رقم: 42- محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: ایک روز رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی اور پھر ہماری طرف متوجہ ہوکر ایسا درد بھرا خطبہ ارشاد فرمایا کہ ہم زار و زار رونے لگے اور ہمارے دل تھرا گئے۔ ایک شخص نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! آپ کا یہ (درد بھرا) خطبہ تو الوداعی خطبہ معلوم ہوتا ہے۔ پس ہمیں آخری وصیت تو بتاتے جائیں۔ حضور صلى الله عليہ وسلم نے فرمایا سنو! میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ اللہ سے ڈرتے رہو اور (اپنے مسلمان سردار، حاکم کی بات) سننا اور فرماں برداری کرنا اگرچہ وہ (سردار ) حبشی غلام ہو۔ میرے بعد جو زندہ رہے گا وہ (دین میں) بڑے بڑے اختلافات دیکھے گا۔ خبردار! تم (اس وقت) میری جانی پہچانی سنتوں اور میرے ہدایت پائے ہوئے خلفائے راشدین کے طریقوں کو چمٹ جانا۔ خوب مضبوط پکڑنا اور دانتوں اور داڑھوں سے پکڑنا (کہ سنت چھوٹ نہ جائے ) اور دین کے اندر نئے نئے کاموں سے بچتے رہنا کیونکہ ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ “
حدیث 22:
«وعن سمرة، عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: إذا حدثتك حديثا، فلا تزيدن على، وقال: أربع من أطيب الكلام، وهن من القرآن، لا يضرك بأيهن بلات: سبحان الله، والحمد لله، ولا إله إلا الله، والله أكبر ثم قال: لا تسمين غلافك أفلح ولا نجيحا ولا رباحا ولا يسارا»
مسند احمد: 11/5، رقم: 20126۔ شیخ شعیب نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب میں تمہیں کوئی حدیث بیان کروں تو اس پر کچھ بھی زیادہ نہ کرنا اور ارشاد فرمایا: چار خوبصورت کلامیں ہیں اور وہ قرآن سے ہیں، ان میں سے پہلے جس کا بھی ورد کرو کوئی مضائقہ نہیں ۔ سبحان الله، والحمد لله، ولا إله إلا الله، والله أكبر ۔ پھر ارشاد فرمایا: اپنے بچوں کے یہ نام نہ رکھنا، افلح ، بیج ، رباح اور بیسار۔“
حدیث 23:
«وعن أنس، قال: جاء ثلاثة رهط إلى بيوت أزواج النبى صلى الله عليه وسلم يسألون عن عبادة النبى صلى الله عليه وسلم ، فلما أخبروا كأنهم تقالوها فقالوا: وأين نحن من النبى صلى الله عليه وسلم ، قد غفر له ما تقدم من ذنبه وما تأخر، فقال احدهم: أما أنا فأنا أصلى الليل أبدا، وقال آخر: أنا أصوم الدهر ولا أفطر، وقال آخر: أنا اعتزل النساء فلا اتزوج ابدا، فجاء إليهم رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: انتم الذين قلتم كذا وكذا؟ أما والله إني لأخشاكم لله وأتقاكم له، لكني أصوم وأفطر، وأصلى وأرقد، وأتزوج النساء، فمن رغب عن سنتي فليس مني»
صحيح ، بخاری کتاب النکاح باب الترغيب فى النكاح، رقم: 5063 صحیح مسلم، رقم: 1401
”اور حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ تین حضرات (علی، عبداللہ بن عمرو بن عاص، عثمان بن مظعون ) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے گھروں کی طرف آپ کی عبادت کے متعلق پوچھنے آئے ، جب انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بتایا گیا تو جیسے انہوں نے اسے کم سمجھا اور کہا کہ ہمارا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا مقابلہ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تو تمام اگلی پچھلی لغزشیں معاف کر دیں گئی ہیں ، ان میں سے ایک نے کہا کہ آج سے میں ہمیشہ رات بھر نماز پڑھا کروں گا، دوسرے نے کہا کہ میں ہمیشہ روزے سے رہوں گا اور کبھی ناغہ نہیں ہونے دوں گا ، تیسرے نے کہا کہ میں عورتوں سے جدائی اختیار کرلوں گا اور کبھی نکاح نہیں کروں گا ، پھر رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور ان سے پوچھا کیا تم نے ہی یہ باتیں کہی ہیں؟ سن لو! اللہ تعالیٰ کی قسم ! اللہ تعالیٰ سے میں تم سب سے زیادہ ڈرنے والا ہوں ، اور میں تم سب سے زیادہ پرہیز گار ہوں لیکن میں اگر روزے رکھتا ہوں تو افطار بھی کرتا رہتا ہوں ، نماز بھی پڑھتا ہوں (رات میں ) سوتا بھی ہوں اور میں عورتوں سے نکاح کرتا ہوں۔ میرے طریقے سے جس نے بے رغبتی کی وہ مجھ میں سے نہیں ہے۔ “
حدیث 24:
وعن عائشة، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من أحدث فى امرنا ماليس فيه فهورة
صحیح بخاری، کتاب الصلح، رقم: 2697
”اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے ہمارے دین (اسلام) میں (اپنی طرف سے) کوئی نئی بات ایجاد کی جو اس میں سے نہیں، تو وہ مردود ہے۔ “
ساتواں حق: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر خواہی
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَلَا عَلَى الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ مَا يُنفِقُونَ حَرَجٌ إِذَا نَصَحُوا لِلَّهِ وَرَسُولِهِ ۚ مَا عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِن سَبِيلٍ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ﴾
(التوبة:91)
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”اور نہ ان لوگوں پر جو وہ چیز نہیں پاتے جو خرچ کریں، جب وہ اللہ اور اس کے رسول کے لیے خلوص رکھیں، نیکی کرنے والوں پر (اعتراض کا) کوئی راستہ نہیں اور اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔ “
حدیث 25:
«وعن تميم الداري، أن النبى صلى الله عليه وسلم قال: الدين النصيحة قلنا: لمن؟ قال: لله ولكتابه ولرسوله ولائمة المسلمين وعامتهم»
صحیح مسلم، کتاب الايمان، رقم: 196
”اور حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: دین خیر خواہی کا نام ہے ۔ ہم نے کہا کس کے لیے؟ فرمایا اللہ کے لیے اور اس کی کتاب کے لیے اور اس کے رسول کے لیے اور آئمہ مسلمین اور تمام مسلمانوں کے لیے۔“
حدیث 26:
«وعن عثمان رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من مات وهو يعلم أنه لا إله إلا الله دخل الجنة»
صحیح مسلم، کتاب الايمان، رقم: 136
”اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص اس حالت میں مرا کہ وہ لا إله إلا الله کا علم رکھتا ہو تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔ “
حدیث 27:
«وعن عبد الله بن عمرو أن النبى صلى الله عليه وسلم قال: بلغوا عني ولو آية، وحدثوا عن بني إسرائيل، ولا حرج، ومن كذب على متعمدا فليتبوأ مقعده من النار»
صحیح بخاری کتاب احادیث الانبياء، رقم: 3461
”اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: میرا پیغام لوگوں کو پہنچاؤ! اگرچہ ایک ہی آیت ہو اور بنی اسرائیل کے واقعات تم بیان کر سکتے ہو، اس میں کوئی حرج نہیں اور جس نے مجھ پر قصداً جھوٹ باندھا تو اسے اپنے جہنم کے ٹھکانے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ “
حدیث 28:
«وعن أبى هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: المرء على دين خليله فلينظر احدكم من يخالل»
سنن ترمذی ابواب الزهد، رقم: 2378 ، مسند أحمد: 334/2، 8398، مستدرك حاکم، رقم: 7319، سلسلة الصحيحة، رقم: 927
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، تو تم میں سے ہر کوئی دیکھے کہ وہ کس سے دوستی رکھتا ہے۔ “
آٹھواں حق: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿قُلْ إِن كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّىٰ يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ﴾
(التوبة:24)
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”آپ کہہ دیجیے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے کنبے قبیلے اور تمہارے کمائے ہوئے مال اور وہ تجارت جس کی کمی سے تم ڈرتے ہو اور وہ حویلیاں جنہیں تم پسند کرتے ہو اگر یہ تمہیں اللہ سے اور اس کے رسول سے اور اس کی راہ میں جہاد سے بھی زیادہ عزیز ہیں تو تم انتظار کرو کہ اللہ تعالیٰ اپنا عذاب لے آئے اللہ تعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ “
حدیث 29:
«وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا يؤمن عبد حتى أكون احب إليه من أهله وماله والناس أجمعين»
صحیح مسلم، کتاب الايمان، رقم: 168
”اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: کوئی بندہ مومن نہیں ہوتا جب تک اس کو میری محبت، گھر والوں اور مال اور سب لوگوں سے زیادہ نہ ہو۔ “
حدیث 30:
«وعن عبد الله بن هشام قال: كنا مع النبى صلى الله عليه وسلم وهو آخد بيدعمر بن الخطاب فقال له عمر: يا رسول الله، لأنت احب إلى من كل شيء إلا نفسي، فقال النبى صلى الله عليه وسلم له: لا والذي نفسي بيده حتى أكون احب إليك من نفسك: فقال له عمر: فإنه الآن والله لأنت أحب إلى من نفسي فقال: النبى صلى الله عليه وسلم الآن يا عمر»
صحیح بخاری کتاب الایمان والنذور: رقم: 6632
”اور حضرت عبداللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ، وہ کہتے ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ کو پکڑے ہوئے تھے۔ تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اے اللہ کے رسول! آپ مجھے میری جان کے سوا ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! (تو مومن) نہیں، یہاں تک کہ میں تیری جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں تو عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا اللہ کی قسم ! اب یقیناً آپ مجھے میری جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں ، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اب اے عمر! اب (بات بنی ہے)۔ “
حدیث 31:
«وعن أنس عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: ثلاث من كن فيه وجد بهن حلاوة الإيمان: أن يكون الله ورسوله احب إليه مما سواهما، وان يحب المرء لا يحبه إلا لله، وأن يكره أن يعود فى الكفر كما يكره أن يقذف فى النار»
صحیح بخاری کتاب الایمان ، رقم 16 کتاب الاكراه، رقم: 6941، صحيح مسلم، کتاب الايمان رقم 165
”اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین باتیں جس میں ہوں اس نے ایمان کی لذت اور چاشنی پالی۔ (1) اللہ اور اس کا رسول اس کی طرف سب سے زیادہ محبوب ہوں (2) اور وہ کسی سے صرف اللہ کے لیے محبت کرے (3) اور وہ کفر میں لوٹنا اتنا ہی ناپسند خیال کرے جیسے کہ اس کو آگ میں ڈالا جانا نا پسند ہے۔ “
حدیث 32:
«وعن أنس، قال: جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله: متى الساعة؟ قال: ما أعددت للساعة؟ قال: حب الله ورسوله، قال: فإنك مع من أحببت، قال أنس: فما فرحنا بعد الإسلام، فرحا أشد من قول النبى صلى الله عليه وسلم: فإنك مع من أحببت قال أنس: فأنا أحب الله ورسوله، وأبا بكر وعمر فأرجوا أن أكون معهم، وإن لم أعمل بأعمالهم»
صحیح بخاری کتاب الادب، رقم: 6171، صحیح مسلم، كتاب البر والصلة رقم: 6713
”اور حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول قیامت کب آئے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو نے قیامت کے لیے کیا تیاری کی ہے؟ اس نے کہا اللہ اور رسول کی محبت۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ قیامت کے دن تو اپنے محبوب کے ساتھ ہی ہوگا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم کو اسلام قبول کرنے کے بعد سب سے زیادہ خوشی اس بات کی ہوئی کہ آدمی اپنے محبوب کے ساتھ ہوگا ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: کہ میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما سے محبت رکھتا ہوں ، اور مجھے امید ہے کہ میں انہی کے ساتھ ہوں گا۔ اگرچہ میں ان جیسے اعمال نہ کر سکا۔ “
نواں حق رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و تعظیم کرنا
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ﴾
(الفتح: 9)
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”اور اس (رسول صلی اللہ علیہ وسلم ) کی مدد کرو اور اس کا ادب کرو۔ “
حدیث 33:
«وعن أنس بن مالك قال لما نزلت هذه الآية: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ﴾ إلى قوله: ﴿وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ﴾ (الحجرات: 2)، وكان ثابت بن قيس بن الشماس رفيع الصوت، فقال: أنا الذى كنت أرفع صوتي على رسول الله صلى الله عليه وسلم ، حبط عملي، أنا من أهل النار وجلس فى أهله حزينا، فتفقده رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فانطلق بعض القوم إليه، فقالوا له: تفقدك رسول الله صلى الله عليه وسلم ، ما لك؟ فقال: أنا الذى أرفع صوتي فوق صوت النبي، واجهر بالقول، حبط عملي وأنا من أهل النار فاتوا النبى صلى الله عليه وسلم فأخبروه بما قال، فقال: لا ، بل هو من اهل الجنة»
مسند احمد: 137/3، رقم: 399 ، صحیح مسلم، رقم: 188/119
” اور سیدنا ثابت بن قیس انصاری رضی اللہ عنہ کئی دن تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں نظر نہ آئے، اس پر ایک شخص نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول! میں اس بابت آپ کو بتاؤں گا۔ چنانچہ وہ حضرت ثابت رضی اللہ عنہ کے مکان پر آئے، دیکھا کہ وہ سر جھکائے ہوئے بیٹھے ہیں۔ پوچھا کیا حال ہے؟ جواب ملا بُرا حال ہے، میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر اپنی آواز بلند کرتا تھا، میرے اعمال برباد ہو گئے اور میں جہنمی بن گیا۔ یہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور سارا واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنایا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے ایک زبردست بشارت لے کر دوبارہ حضرت ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: نہیں، بلکہ وہ اہل جنت سے ہے۔ “
حدیث 34:
«وعن أنس بن مالك قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا صلى الغداة جاء خدم المدينة بآنيتهم فيها الماء، فما يؤتى بإناء إلا غمس يده فيه، وربما جاءه فى الغداة الباردة فيعمس يده فيها»
صحیح مسلم کتاب الفضائل، باب قرب من الناس، رقم: 2324
”اور حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب صبح کی نماز پڑھتے تو مدینہ منورہ کے خادم اپنے پانی والے برتن لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے اور ان برتنوں میں پانی ہوتا تو جو برتن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا جاتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا دست مبارک اس میں ڈالتے ۔ پس بہت دفعہ آپ ٹھنڈی صبح میں تشریف لاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا دست مبارک اس میں ڈالتے ۔ “
حدیث 35:
«وعن أنس بن مالك قال: دخل علينا النبى صلى الله عليه وسلم فقال عندنا فعرق، وجاءت أمن بقارورة، فجعلت تسلت العرق فيها، فاستيقظ النبى صلى الله عليه وسلم فقال: يا أم سليم! ما هذا الذى تصنعين؟ قالت: هذا عرقك نجعله فى طيبنا، وهو من أطيب الطيب»
صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب طيب ريحه، رقم: 2331
”اور حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ہاں تشریف لائے اور آرام فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسینہ آیا تو میری والدہ ایک برتن لے کر آئیں اور اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پسینہ جمع کرنا شروع کر دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہو گئے اور ارشاد فرمایا: اے ام سلیم! یہ کیا کر رہی ہو؟ اس نے کہا کہ یہ آپ کا پسینہ ہے جسے ہم اپنی خوشبو میں ڈال لیتے ہیں اور یہ سب سے طیب خوشبو بن جاتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو نے صحیح کیا۔ “
حدیث 36:
«وعن عياش بن أبى ربيعة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا تزال هذه الأمه بخير ما عظموا هذه الحرمة حق تعظيمها فإذا قيعوا ذلك هلكوا»
سنن ابن ماجه باب الحرمة رقم 3110، المشكاة، رقم: 2727
”اور حضرت عیاش بن ابی ربیعہ مخزومی کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یہ امت اس وقت تک بھلائی میں رہے گی جب تک اس شہر کی تکریم اور تعظیم کرتی رہے گی جب وہ اس کی عظمت کو ضائع کردیں گے تو ہلاک ہوجائیں گے۔ “
دسواں حق: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بکثرت درود وسلام پڑھنا
قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا﴾
(الأحزاب:56)
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”یقینا اللہ اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم (بھی ) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام (بھی ) بھیجتے رہا کرو۔ “
حدیث 37:
«وعن أبى بن كعب قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا ذهب ثلنا الليل قام، فقال: يا أيها الناس اذكروا الله اذكروا الله، جائت الراجفة، تتبعها الرادفة، جاء الموت بما فيه، جاء الموت بما فيه، قال: أبى قلت: يا رسول الله! إني أكثر الصلاة عليك فكم أجعل لك من صلاتي؟ فقال: ما شئت، قال: قلت: الربع، قال: ما شئت، فإن زدت فهو خير لك، قلت: النصف؟ قال: ما شئت فإن زدت فهو لك، قال: قلت: فالقلتين؟ قال: ما شئت، فإن زدت فهو خير لك، قلت: أجعل لك صلاتي كلها؟ قال: إذا تكفى همك ويغفر لك ذنبك»
سنن الترمذى، كتاب صفة القيامة والرقائق والورع، رقم: 2457، سلسلة الصحيحة، رقم: 954
”اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بکثرت بھیجنا چاہتا ہوں۔ میں اوقات ذکر میں کتنا وقت درود کے لیے وقف کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جتنا تیرا جی چاہتا ہے، میں نے عرض کیا کہ وقت کا چوتھا حصہ درود کے لیے وقف کرلوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جیسے تیرا جی چاہے، اور اگر تو اس سے زیادہ وقت صرف کرے تو وہ تیرے لیے بہتر ہے۔ میں نے عرض کیا، اگر آدھا وقت درود پڑھتا رہوں؟ آپ نے فرمایا: اور اگر تو زیادہ پڑھے تو تیرے حق میں بہتر ہے۔ میں نے کہا دو تہائی پڑھوں؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: جیسے تیرا جی چاہتا ہے، اور اگر تو اس سے بھی زیادہ پڑھے تو تیرے لیے اور بھی بہتر ہو، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا پھر تو میں سارا وقت آپ پر درود ہی کا وظیفہ پڑھا کروں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر تو تیرے سب غم (دین و دنیا) چھٹ جائیں گے اور تیرے سب گناہ مٹ جائیں گے۔ “
حدیث 38:
«وعن أبى هريرة: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من صلى على واحدة، صلى الله عليه عشرا»
صحیح مسلم، کتاب الصلاة، رقم: 912
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص مجھ پر ایک بار درود بھیجے گا اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا۔ “
حدیث 39:
«وعن عبد الله بن مسعود أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إن أولى الناس بي يوم القيامة اكثركم على صلاة»
سنن ترمذی ابواب الوتر، رقم: 484، صحیح ابن حبان، رقم: 908۔ ابن حبان نے اسے ”صحیح“ کہا ہے۔
”اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن میرے سب سے زیادہ قریب وہ ہوگا جو مجھ پر سب سے زیادہ درود پڑھے۔ “
حدیث 40:
«وعن أبى هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: رغم أنف رجل ذكرت عنده فلم يصل على»
سنن ترمذی، ابواب الدعوات، رقم: 3545، المشكاة، رقم: 927- محدث البانی نے اسے حسن صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: رسوا ہو وہ آدمی جس کے سامنے میرا نام لیا جائے اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے۔ “
وصلى الله تعالى على خير خلقه محمد وآله وصحبه أجمعين