حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو شہادت حسین کی خبر اور کربلا کی مٹی
تالیف: حافظ محمد انور زاہد حفظ اللہ

ذہبی میزان الاعتدال میں حماد بن سلمہ، عن ابان، عن شهر بن حوشب، عن حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ حضرت جبرائیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور حسین رضی اللہ عنہ تو میرے پاس تھے۔ وہ رونے لگے۔ میں نے انھیں چھوڑ دیا۔ وہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلے گئے۔ حضرت جبرایل علیہ السلام نے فرمایا: اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کیا تم اس سے محبت کرتے ہو؟ آپ نے جواب دیا ہاں۔ انھوں نے فرمایا میری امت امت قتل کرے گی اور اگر آپ چاہیں تو میں اس سرزمین کی مٹی لاکر آپ کو دکھا دوں جہاں یہ قتل کیے جائیں گے۔
ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے وہ مٹی دیکھی تو وہ کربلا کی مٹی تھی۔

تحقیق الحدیث :

اسناده ضعیف۔
اس کی سند ضعیف ہے۔ [ميزان الاعتدال 123/1 اخرجه أحمد فى فضائل صحابه جلد 2 ص 782۔]
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا چونکہ ماہر طبقات الارض تھیں اس لیے وہ پہچانتی تھیں کہ کون سی مٹی کس سر زمین کی ہے خواہ انھوں نے کبھی سر زمین عراق کا سفر بھی نہ کیا ہو۔ لیکن اگر وہ اس مٹی کو نہ پہچانتیں تو پھر یہ کہانی کیسے وجود میں آتی۔
ہاں ہم یہ ضرور سنتے اور پڑھتے آئے تھے کہ نبی کے علاوہ کسی انسان میں یہ قدرت نہیں کہ وہ کسی فرشتے کو دیکھ سکے۔ اگر فرشتہ انسانی صورت میں بھی آئے گا، تب بھی نبی کے علاوہ کسی کو یہ معلوم نہ ہو سکے گا کہ فرشتہ ہے۔ تاوقتیکہ وہ خود اس سے مطلع نہ کرے یا نبی اس کی اطلاع د ے۔ کجا کہ اس کا کلام سننا کیونکہ یہ غیر نبی کے لیے ممکن ہی نہیں۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو یہ بات کیسے معلوم ہوئی کہ جبرائیل تشریف فرما ہیں اور یہ مکالمہ ہو رہا ہے روایت کے الفاظ ہی ظاہر کر رہے ہیں کہ یہ چشم دیدار واقعہ ہے جو اس کے جھوٹ ہونے کی ایک واضح دلیل ہے۔
امام ذہبی نے یہ کہانی ابان بن ابی عیاش کے ترجمہ میں نقل کی ہے۔ امام ذہبی نے اس ابان پر کیا تبصرہ کیا ہے۔ وہ بھی ملاحظہ کر لیجیے۔
ابان بن ابی عیاش :
اس کی کنیت ابو اسماعیل ہے۔ بصرہ کا باشندہ ہے۔ اس صونی دینار زاہد بھی کہا جاتا ہے۔ یہ چھوٹے درجہ کا تابعی ہے۔ ابن عدی کہتے ہیں اس کا شمار ضعیف راویوں میں ہوتا ہے۔
امام شعبہ فرماتے ہیں اس کی روایت بیان کرنے سے بہتر تو یہ ہے کہ انسان گدھے کا پیشاب پی لے اور ایک بار فرمایا کہ اس کی روایت لینے سے بہتر یہ ہے کہ انسان زنا کرے (کیونکہ زنا سے عقیدہ تو خراب نہ ہو گا اور انسان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سر پر جھوٹ بولنے سے محفوظ رہے گا۔)
امام احمد اور یحییٰ بن معین کہتے ہیں یہ شخص متروک الحدیث ہے ابوعوانہ کہتے ہیں میں نے اس سے حسن بصری کی بہت سی روایات کی تھیں۔ لیکن اب میں ان کا بیان کرنا بھی حلال نہیں سمجھتا۔ جوزجانی کہتے ہیں یہ ساقط الاعتبار ہے۔ نسائی کہتے ہیں متروک ہے۔ ابن عدی لکھتے ہیں اس کی سب روایات منکر ہیں، ان منکرات میں سے ایک مذکورہ روایت بھی ہے۔
امام شعبہ فرماتے ہیں کہ اگر یہ ابان بن ابی عیاش جھوٹ نہ بولتا ہو تو میرا گھر اور میری سواری مساکین کے لیے صدقہ ہے (یعنی اگر اس کا چھوٹا نہ ہونا ثابت ہو جائے) اگر مجھے لوگوں سے شرم محسوس نہ ہوتی تو میں اس کی نماز جنازہ بھی نہ پڑھتا۔
یزید بن زریع فرماتے ہیں میں نے اس کی روایات ترک کر دی ہیں۔ امام سفیان ثوری فرماتے ہیں یہ حدیث میں بہت بھولتا ہے۔ یحییٰ بن سعید القطان اور عبد الرحمن بن مہدی اس کی روایات قبول نہ کرتے۔
علی بن المسر کا بیان ہے کہ میں نے اور حمزہ الزیات نے اس ابان سے سن کر پانچ سو احادیث لکھی تھیں۔ کچھ روز بعد میری حمزہ سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے فرمایا میں نے خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ میں آپ کے رو برو ابان کی احادیث پڑھ رہا ہوں۔ آپ نے پانچ یا چھ احادیث کے علاوہ سب سے انکار کر دیا (گویا ایک فی صد صحیح کا حساب بنا۔ یہ بھی غنیمت ہے۔ ورنہ بعد کے صوفیاء میں تو ایک فی صد کا حساب بھی نہیں بنتا۔)
احمد بن علی الابار کا بیان ہے کہ میں نے خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو آپ سے عرض کیا۔ کیا آپ ابان سے راضی ہیں؟ فرمایا نہیں۔
ابن حبان لکھتے ہیں کہ یہ بہت زاہد و متقی اور نیک انسان تھا۔ تمام رات نماز پڑھتا اور ہمیشہ روزہ رکھتا (گویا اپنے وقت کا قطب تھا) اس نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے چند روایات سنی تھیں اور حسن بصری کی مجلس میں شریک ہوتا۔ یہ اکثر اوقات حسن بصری کی ذاتی رائے اور قول کو حضرت انس رضی اللہ عنہ کے ذریعہ پیش کرتا ہے حتی کہ خود بھی اسے اس کا احساس نہیں ہوتا۔ [تهذيب الكمال 48/1 تهذيب التهذيب 97/1 الكاشف 70/1 تاريخ البخاري الكبير 353/1 تاريخ البخاري الصغير 53/2 الجرح والتعديل 295/2]
دراقطنی لکھتے ہیں۔ اس ابان کے باپ کا نام فیروز ہے۔ بصرہ کا باشندہ ہے۔ متروک ہے الضعفاء والمتر وکین ص 94۔ یحییٰ بن معین کہتے ہیں ابان کی روایات کچھ نہیں، ابوزعہ کہتے ہیں کہ اس نے حضرت انس، شہر اور حسن بصری سے کچھ باتیں سنیں۔ لیکن اسے تو اتنی بھی تمیز نہیں کہ کون سا قول کس کا ہے۔ [الجرح والتعدیل ج 1 ص 296۔]
اس ابان نے اس کہانی کو شہر کی جانب منسوب کیا ہے۔ اس نے یہ روایت شہر سے کہاں سنی اور کب سنی؟ اس لیے کہ شہر دمشق کا باشندہ ہے اور ابان بصرہ کا رہنے والا ہے۔ ہمارے نزدیک تو یہ بھی اس کا ایک جھوٹ ہے۔ ویسے بھی شہر صاحب کوئی اچھی شہرت کے مالک ہیں۔
شهر بن حوشب :
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور اسماء بنت یزید بن السکی رضی اللہ عنہما سے احادیث روایت کرتا ہے۔
امام احمد فرماتے ہیں : یہ اسماء بنت یزید سے اچھی احادیث روایت کرتا ہے۔ (یعنی بقیہ بے کار ہوتی ہیں)۔
ابوحاتم فرماتے ہیں: یہ حجت نہیں۔ نسائی اور ابن عدی کہتے ہیں قوی نہیں۔ ابن عوان کہتے ہیں: محدثین نے اس سے روایت لینی ترک کر دی ہے۔ ابوبکر الکرنی کا بیان ہے کہ یہ بیت المال میں ملازم تھا اس نے اس میں سے چند در بم چرا لیے جس پر ایک شاعر سے اس کی مذمت من اشعار بھی کہے۔
دولابی کہتے ہیں: اس کی روایات دیگر لوگوں کی طرح نہیں ہوتیں۔ یہ جب روایات بیان کرتا ہے تو اس کی تفصیل کچھ اس طرح پیش کرتا ہے کہ جیسے یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کی لگام تھامے ساتھ موجود رہا ہو۔
فلاس کہتے ہیں کہ نہیں بن سعید اس سے روایت نہ لیتے۔ شعبہ نے بھی اس کی روایت ترک کر دی ہے عباد بین منصور کا بیان ہے کہ یہ میرے ساتھ حج کو گیا۔ اس نے میری تھیلی چرا لی۔ گویا یہ آدمی چور تھا۔
ابن عدی کہتے ہیں: شہر کی کوئی روایت حجت نہیں ہوتی اور نہ اس کی روایت کو دین سمجھ کر اختیار کیا جا سکتا ہے۔ [ميزان الاعتدال ج 2 ص 284۔]
یعنی اس کہانی کا اگر راوی صرف شہر ہی ہوتا تب بھی یہ ناقابل قبول ہوتی۔ لیکن اس کی سند میں تو ابان جیسا خطرناک انسان موجود ہے۔ تاہم ا ب اس روایت کے منکر ہونے میں کیا شک و شبہ ہو سکتا ہے؟

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے