یہ مسلمانوں کا متفقہ اور اجماعی عقیدہ ہے کہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بلا فصل خلیفہ ہیں۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (661-728ھ) اس موضوع پر لکھتے ہیں:
"اہل سنت والجماعت کا یہ ایمان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلیفہ سیدنا ابو بکر ہیں، پھر سیدنا عمر، پھر سیدنا عثمان، اور پھر سیدنا علی۔ اگر کوئی شخص ان میں سے کسی بھی خلیفہ کی خلافت پر اعتراض کرتا ہے، تو وہ اپنے گھر کے گدھے سے بھی زیادہ بے وقوف ہے۔” (العقیدۃ الواسطیۃ لابن تیمیہ: 184)
امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ (م 233ھ) کہتے ہیں: "اس امت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بہتر شخص ابو بکر ہیں، پھر عمر، پھر عثمان، پھر علی۔ یہی ہمارا قول اور یہی ہمارا مذہب ہے۔” (تاریخ یحیی بن معین: 1620)
اجماع صحابہ کرام رضی اللہ عنہم
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: "اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام نے اجماع کیا اور سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ مقرر کیا۔” (المستدرک علی الصحیحین للحاکم: 3/80، سند: حسن)
امام شافعی رحمہ اللہ (150-204ھ) بیان کرتے ہیں: "مسلمانوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ خلیفہ صرف ایک ہونا چاہیے، تو انہوں نے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ مقرر کیا۔” (الاعتقاد للبیہقی: 522، سند: صحیح)
امام ابو الحسن الاشعری رحمہ اللہ (م 324ھ) لکھتے ہیں: "سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی امامت کے دلائل میں سے ایک یہ ہے کہ تمام مسلمانوں نے ان کی بیعت کی اور ان کی امامت کو تسلیم کر لیا۔” (الابانۃ عن اصول الدیانۃ: 251)
اجماع امت کی تصدیق
امام، حافظ، ثقہ، الرحّال، ابو محمد عبداللہ بن محمد بن عثمان الواسطی ابن السقاء محدث واسط (م 373ھ) کہتے ہیں: "مہاجرین و انصار نے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت پر اجماع کیا تھا۔” (تاریخ بغداد: 10/131-132، سند: صحیح)
حافظ ابو نعیم الاصبہانی رحمہ اللہ (336-430ھ) بیان کرتے ہیں: "ان رافضیوں سے کہا جائے گا جو مہاجرین و انصار کے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت پر متفق ہونے پر اعتراض کرتے ہیں، کہ کیا یہ بیعت تلوار کے زور پر ہوئی تھی؟ یا مال کے لالچ میں؟ یا کسی قبیلے کے دباؤ کی وجہ سے؟ ان میں سے کوئی وجہ ممکن نہیں، کیونکہ صحابہ کرام دین کی خیرخواہی میں معروف تھے۔ اگر کسی بھی وجہ سے بیعت پر مجبور کیا جاتا تو یہ مشہور ہو جاتا۔” (الامامۃ والرد علی الرافضۃ لابی نعیم الاصبہانی: 214-215)
امام حاکم رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "صحابہ کرام سے صحیح روایات میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ سب سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ‘اے خلیفہ رسول اللہ!’ کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔” (المستدرک علی الصحیحین للحاکم: 3/79)
حافظ بیہقی رحمہ اللہ (384-458ھ) نے ایک باب قائم کیا ہے: "مسلمانوں کے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت پر متفق ہو جانے اور ان کے امامت کے لیے مطیع ہو جانے کا بیان۔” (الاعتقاد للبیہقی: 486)
امت کے اتفاق کی وضاحت
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (661-728ھ) بیان کرتے ہیں: "جب امت نے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کو بغیر کسی جبر کے خوشی سے خلافت دی، اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی انہیں پسند کیا، تو یہ امت کی دینداری اور علم کا ثبوت ہے۔ اگر یہ فیصلہ زبردستی مسلط کیا گیا ہوتا، تو کہا جا سکتا تھا کہ انہیں اس حق پر مجبور کیا گیا ہے۔” (منہاج السنۃ لابن تیمیہ: 3/266-270)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (701-774ھ) لکھتے ہیں: "جو شخص ان دلائل پر غور کرے گا، اس کے سامنے یہ واضح ہو جائے گا کہ مہاجرین و انصار صحابہ نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کو خلافت کے لیے منتخب کرنے پر اجماع کیا تھا۔ نیز، اس حدیث کی حقیقت بھی واضح ہو جائے گی کہ ‘اللہ اور مؤمن ابو بکر کے سوا کسی کو قبول نہیں کرتے۔’” (البدایۃ والنہایۃ لابن کثیر: 5/250)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ (م 748ھ) لکھتے ہیں: "یہ عشرہ مبشرہ صحابہ کی سیرت پر میسر معلومات ہے۔ یہ قریش، مہاجرین، بدری صحابہ، اور بیعت رضوان والے صحابہ میں سب سے افضل ہیں، اور دنیا و آخرت میں اس امت کے سردار ہیں۔ اللہ رافضیوں کو برباد کرے، وہ کتنے گمراہ اور خواہشات کے غلام ہیں!” (سیر اعلام النبلاء للذہبی: 1/140-141)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اسی بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ: "جو بات اکثر جاہل شیعہ اور بد دماغ واعظین بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے بارے میں وصیت کی تھی، وہ جھوٹ اور بہتان ہے۔ صحابہ کرام انبیاء کے بعد سب سے بہتر مخلوق ہیں اور یہ امت قرآن کریم اور اجماع کے مطابق سب سے بہترین امت ہے۔” (البدایۃ والنہایۃ لابن کثیر: 7/225)
خلافت ِ ابو بکر رضی اللہ عنہ پر اجماعِ صحابہ کے تفصیلی دلائل
دلیل نمبر 1: سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو انصار صحابہ نے کہا: "ایک امیر ہم میں سے ہو اور ایک تم میں سے۔” اس موقع پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے اور فرمایا: "کیا تمہیں معلوم نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کو لوگوں کی امامت کا حکم دیا تھا؟ تم میں سے کون ہے جو ابو بکر رضی اللہ عنہ سے مقدم ہونا چاہتا ہے؟” انہوں نے جواب دیا: "ہم اس بات سے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آتے ہیں کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ سے آگے بڑھیں۔”
(ماخذ: مسند الامام احمد: 1/21، 396؛ سنن النسائی: 778؛ مصنف ابن ابی شیبہ: 2/330، 331، 14/567؛ طبقات ابن سعد: 2/224، 3/178-179؛ السنۃ لابن ابی عاصم: 1193؛ المعرفۃ والتاریخ لیعقوب بن سفیان الفسوی: 1/454؛ المستدرک للحاکم: 2/67؛ السنن الکبریٰ للبیہقی: 8/152؛ التمہید لابن عبد البر: 22/128-129)
اس روایت کی سند کو امام حاکم رحمہ اللہ نے "صحیح” قرار دیا ہے اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔ مزید برآں، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اس کی سند کو "حسن” کہا ہے۔ (فتح الباری: 12/153)
دلیل نمبر 2: سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: "میں نے اس دن سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ سے یہ کہتے ہوئے سنا: ‘منبر پر چڑھیں۔’ وہ مسلسل یہ بات دہراتے رہے یہاں تک کہ آپ رضی اللہ عنہ منبر پر چڑھ گئے، اور پھر تمام لوگوں نے آپ رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لی۔”
(ماخذ: صحیح بخاری: 2/1072، حدیث نمبر: 7219)
دلیل نمبر 3: سیدنا سالم بن عبید رضی اللہ عنہ کا بیان
سیدنا سالم بن عبید رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر مرض الموت میں بے ہوشی طاری ہوئی۔ جب افاقہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، "کیا نماز کا وقت ہو گیا ہے؟” صحابہ کرام نے عرض کیا، "جی ہاں۔” تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، "بلال رضی اللہ عنہ کو اذان کہنے کا حکم دو اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کو کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔”
پھر مہاجرین جمع ہوئے اور مشورہ کیا۔ انہوں نے کہا، "ہمیں اپنے انصار بھائیوں کے پاس لے چلو، تاکہ ہم ان کو بھی اس معاملہ میں شریک کریں۔” انصار نے کہا، "ایک امیر ہم میں سے ہو اور ایک امیر تم میں سے۔” اس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، "اس جیسی فضیلت کس کے لیے ہے؟ (اِذْ ھُمَا فِیْ الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا) (التوبہ: 40) یعنی جب وہ دونوں غار میں تھے، جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ ‘گھبراؤ نہیں، اللہ ہمارے ساتھ ہے’۔ وہ دونوں کون ہیں؟” پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ہاتھ بڑھایا اور سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کی، اور سب لوگوں نے اچھی اور مکمل بیعت کی۔
(ماخذ: السنن الکبریٰ للنسائی: 8109، 11219؛ الشمائل للترمذی: 397؛ سنن ابن ماجہ: 1234؛ مسند عبد بن حمید: 365؛ المعجم الکبیر للطبرانی: 6367)
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے (1541، 1624) "صحیح” قرار دیا ہے۔ حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اس کے راوی ثقہ ہیں۔” (مجمع الزوائد: 5/183)
بوصیری کہتے ہیں: "یہ سند صحیح ہے، اور اس کے راوی ثقہ ہیں۔” (مصباح الزجاجۃ: 1/146)
❀ اعتراض نمبر 1: سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی بیعت نہ کرنا
سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی تھی۔
(ماخذ: صحیح بخاری: 2/1010، حدیث نمبر: 6830)
جواب: اس روایت کی سند زہری کی تدلیس کی وجہ سے کمزور ہے۔ یاد رہے کہ یہ روایت صحیح بخاری کے موضوع سے باہر ہے، کیونکہ صحیح بخاری کی صرف مرفوع متصل احادیث کی صحت پر اجماع ہے، جبکہ یہ روایت موقوف ہے۔ جہاں زہری رحمہ اللہ نے سماع کی تصریح کی ہے، وہاں یہ واقعہ موجود نہیں ہے۔
❀ اعتراض نمبر 2: سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کا معاملہ
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے چھ ماہ بعد سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کی تھی۔
(ماخذ: صحیح بخاری: 2/609، حدیث نمبر: 4240، 4241؛ صحیح مسلم: 2/91-92، حدیث نمبر: 1759)
مسند ابی بکر المروزی (39) اور السنن الکبریٰ للبیہقی (6/300) میں ہے:
"ایک آدمی نے زہری رحمہ اللہ سے سوال کیا کہ علی رضی اللہ عنہ نے چھ ماہ تک بیعت کیوں نہیں کی؟ زہری نے جواب دیا، نہ ہی بنو ہاشم میں سے کسی نے بیعت کی تھی، یہاں تک کہ علی رضی اللہ عنہ نے بیعت کر لی۔”
جواب: حافظ بیہقی رحمہ اللہ اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
"یہ بات کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیعت چھ ماہ بعد کی، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا قول نہیں ہے، بلکہ یہ زہری رحمہ اللہ کا قول ہے۔ کچھ راویوں نے اسے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بیان کردہ قصے میں شامل کر دیا ہے، لیکن معمر بن راشد نے اسے یاد رکھا اور مفصل طور پر زہری کا قول قرار دیا، جو کہ حدیث سے منقطع ہے۔ ہم نے سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے ایک موصول حدیث روایت کی ہے، جس میں انہوں نے بیان کیا ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سقیفہ میں ہونے والی عام بیعت میں شامل ہو کر بیعت کر لی تھی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بعد میں عام بیعت کی ہو۔”
(ماخذ: الاعتقاد: صفحہ 180، نسخہ آخر: صفحہ 494)
دلیل نمبر 4: سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کا بیان
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو انصار کے خطباء کھڑے ہوگئے۔ ان میں سے ایک کہنے لگا، "اے مہاجرین کی جماعت! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی کسی مہاجر کو عامل مقرر کرتے تو اس کے ساتھ ہمارے لوگوں میں سے بھی کسی کو شامل کرتے۔ ہمارا خیال ہے کہ اس (خلافت کے) معاملے میں بھی دو امیر ہونے چاہئیں، ایک تم میں سے اور ایک ہم میں سے۔” انصار کے خطباء یہی بات دہراتے رہے، یہاں تک کہ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور فرمایا، "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مہاجرین میں سے تھے اور امام بھی مہاجرین میں سے ہی ہونا چاہیے، اور ہم ان کے معاون ہوں گے، جس طرح ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاون تھے۔”
اس پر سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور فرمایا، "اللہ تمہیں اچھا بدلہ دے! اے انصار کی جماعت! اللہ تمہارے قائل کو ثابت قدم رکھے۔” پھر فرمایا، "اگر تم اس کے علاوہ کوئی اور کام کرتے تو ہم تمہارے ساتھ صلح نہ کرتے۔” اس کے بعد زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا اور کہا، "یہ ہیں تمہارے خلیفہ، ان کی بیعت کرو۔” چنانچہ سب نے بیعت کی۔
پھر جب سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ منبر پر بیٹھ گئے اور انہوں نے لوگوں کے چہروں پر نظر دوڑائی تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو نہیں پایا۔ انہوں نے ان کے بارے میں پوچھا تو کچھ انصار ان کو لے آئے۔ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، "اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے بیٹے اور آپ کے داماد! کیا آپ مسلمانوں کی وحدت کو توڑنا چاہتے ہیں؟” سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا، "اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ! آپ پر کوئی ملامت نہیں۔” پھر انہوں نے بیعت کر لی۔
اس کے بعد سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کو نہ پایا تو ان کے بارے میں سوال کیا۔ لوگ ان کو بھی لے آئے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا، "اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی کے بیٹے اور آپ کے حواری! کیا آپ مسلمانوں کی وحدت کو توڑنا چاہتے ہیں؟” تو انہوں نے بھی اسی طرح جواب دیا، "اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ! آپ پر کوئی ملامت نہیں۔” پھر انہوں نے بھی بیعت کر لی۔
(ماخذ: مسند الامام احمد: 5/185-186؛ مسند الطیالسی: 603؛ المعجم الکبیر للطبرانی: 4785؛ المستدرک للحاکم: 3/76؛ السنن الکبریٰ للبیہقی: 8/143)
تصدیق اور توثیق
امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "میرے پاس امام مسلم بن حجاج آئے اور اس حدیث کے بارے میں سوال کیا۔ میں نے ان کو یہ حدیث ایک رقعہ میں لکھ دی اور ان پر پڑھی، تو انہوں نے کہا، ‘یہ حدیث اونٹ کے برابر ہے۔’ میں نے کہا، ‘اونٹ کے برابر؟ بلکہ یہ تو اشرفیوں کی تھیلی کے برابر ہے۔'”
(ماخذ: السنن الکبریٰ للبیہقی: 8/143، سند: صحیح)
حافظ حاکم رحمہ اللہ نے اسے بخاری و مسلم کی شرط پر "صحیح” قرار دیا ہے، اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو "صحیح” قرار دیا ہے۔
(ماخذ: سیر اعلام النبلاء: 2/433)
حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اس حدیث کو امام طبرانی اور امام احمد نے روایت کیا ہے، اور اس کے راوی صحیح بخاری کے راوی ہیں۔”
(ماخذ: مجمع الزوائد: 5/183)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ روایت ابو نضرہ منذر بن مالک بن قطعہ کی، ابو سعید سعد بن مالک بن سنان الخدری سے صحیح اور محفوظ روایت ہے۔ اس میں ایک اہم فائدہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے پہلے یا دوسرے دن سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بیعت کی۔ یہ بات درست ہے، کیونکہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو کبھی بھی کسی موقع پر نہیں چھوڑا اور ان کے پیچھے نماز پڑھتے رہے۔”
(ماخذ: البدایہ والنہایہ لابن کثیر: 5/210-211)
دلیل نمبر 5: سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
"جب سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کی سقیفہ میں بیعت کی گئی، تو اگلے دن سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ منبر پر بیٹھے۔ اس موقع پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ سے پہلے خطاب کیا۔ آپ نے اللہ کی حمد و ثناء کی اور پھر فرمایا، ‘یقیناً اللہ تعالیٰ نے تمہارے معاملے کو تم میں سے سب سے بہتر شخص اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی پر جمع کر دیا ہے، جو غار میں دوسرا تھا۔ لہٰذا، تم کھڑے ہو کر ان کی بیعت کرو۔’ لوگوں نے بیعتِ سقیفہ کے بعد سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کی عام بیعت کی۔”
(ماخذ: السیرۃ لابن ہشام: 6/82، سند: حسن)
دلیل نمبر 6: سید بن ابراہیم کا بیان
سید بن ابراہیم بیان کرتے ہیں کہ ان کے والد نے بتایا کہ ان کے والد عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے، اور محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کی تلوار توڑ دی۔ اس کے بعد سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیا اور لوگوں سے معذرت کی۔ انہوں نے فرمایا:
"میں امارت کے لیے ایک دن یا ایک رات بھی حریص نہیں رہا، نہ ہی میں نے خفیہ یا علانیہ اس کا مطالبہ کیا ہے۔”
مہاجرین نے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بات قبول کی، اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا:
"ہمیں صرف اس بات پر غصہ آیا تھا کہ ہمیں مشورہ سے پیچھے رکھا گیا، لیکن ہماری رائے ہے کہ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ خلافت کے ہم سے زیادہ مستحق ہیں۔ ہم آپ کی عزت اور شرف کو جانتے ہیں، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں ہی آپ رضی اللہ عنہ کو لوگوں کو نماز پڑھانے کا حکم دیا تھا۔”
(ماخذ: المغازی لموسیٰ بن عقبہ بحوالہ البدایہ والنہایہ لابن کثیر: 5/211، سند: صحیح)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس کی سند کو "جید” قرار دیا ہے۔ (البدایہ والنہایہ: 5/211)
دلیل نمبر 7: مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت
امام ابن ابی شیبہ روایت کرتے ہیں کہ زید بن اسلم اپنے والد اسلم سے بیان کرتے ہیں:
"جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کی گئی تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس مشورہ کے لیے جاتے اور پھر اپنے کام میں واپس آ جاتے تھے۔ جب یہ بات سیدنا عمر رضی اللہ عنہ تک پہنچی تو وہ آئے، یہاں تک کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچے اور کہا، ‘اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی! اللہ کی قسم! مخلوق میں سے آپ کے والد سے بڑھ کر ہمیں کوئی شخص محبوب نہیں، اور آپ کے والد کے بعد ہمیں آپ سے بڑھ کر کوئی محبوب نہیں۔ اللہ کی قسم! اگر یہ لوگ اب بھی آپ کے پاس جمع ہوئے تو میں ان پر اس گھر کو آگ لگا دوں گا۔’
جب عمر رضی اللہ عنہ نکلے تو وہ لوگ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے، انہوں نے کہا، ‘تم جانتے ہو کہ عمر رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے ہیں اور انہوں نے اللہ کی قسم کھائی ہے کہ اگر تم دوبارہ آئے تو وہ تم پر گھر کو آگ لگا دیں گے۔ اللہ کی قسم! جو انہوں نے قسم اٹھائی ہے، اسے پورا کریں گے، لہٰذا بھلے طریقے سے واپس چلے جاؤ، اپنی رائے سوچو اور دوبارہ میرے پاس نہ آؤ۔’ چنانچہ وہ لوٹ گئے اور سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کرکے واپس آ گئے۔”
(ماخذ: مصنف ابن ابی شیبہ: 14/566-567، سند: صحیح)
تجزیہ
یہ روایت واضح طور پر بیان کرتی ہے کہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر بیعت کی تھی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا یہ اقدام اجتہادی اور جذباتی تھا۔ ان کا مقصد صرف اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ ان لوگوں کا اکٹھ کسی ممکنہ فتنہ کا سبب نہ بنے، جس پر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ اس سے یہ نتیجہ ہرگز نہیں نکالا جا سکتا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو اہل بیت سے بغض تھا یا وہ ان کا گھر جلانا چاہتے تھے، کیونکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے خود کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اہل بیت ہمارے لیے سب سے زیادہ محبوب ہیں۔
قرآن مجید سے دلیل
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
(وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ آمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُم فِیْ الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمْ دِیْنَہُمُ الَّذِیْ ارْتَضَی لَہُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّہُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِہِمْ اَمْنًا یَّعْبُدُوْنَنِی لَا یُشْرِکُوْنَ بِیْ شَیْئًا۔۔۔) (النور: 24/55)
"اللہ تعالیٰ نے تم میں سے ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ انہیں ضرور زمین میں خلافت عطا کرے گا، جیسا کہ اس نے ان لوگوں کو خلافت عطا کی تھی جو ان سے پہلے تھے، اور وہ ان کے لیے ان کے دین کو ضرور مضبوطی دے گا جسے اس نے ان کے لیے پسند کیا ہے، اور وہ ان کے خوف کے بعد انہیں امن عطا کرے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے۔”
مفسرین کی آراء
امام عبدالرحمن بن عبدالحمید المہری رحمہ اللہ (م 192ھ) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
"میں سیدنا ابو بکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت کو قرآنِ کریم میں دیکھ رہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: (وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ آمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُم فِیْ الْاَرْضِ۔۔۔)”
(ماخذ: تفسیر ابن ابی حاتم: 10/191، سند: صحیح)
امام آجری رحمہ اللہ (م 360ھ) لکھتے ہیں:
"اللہ تعالیٰ ہم پر اور آپ پر رحم کرے! جان لو کہ سیدنا ابو بکر، سیدنا عمر، سیدنا عثمان اور سیدنا علی رضی اللہ عنہم کی خلافت کا ذکر اللہ تعالیٰ کی کتاب، سنتِ رسول، اقوالِ صحابہ اور اقوالِ تابعین میں موجود ہے۔ کوئی مسلمان، جسے اللہ تعالیٰ نے عقل دی ہے، اس میں شک نہیں کرسکتا۔ قرآنی دلیل یہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
(وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ آمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ…) (النور: 24/55)۔
اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کو پورا کیا اور ان کو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت اور حکومت عطا کی۔ انہوں نے فتوحات حاصل کیں، غنیمتیں حاصل کیں، کافروں سے جنگیں کیں، مرتدین کے خلاف لڑائی کی حتیٰ کہ ان کو ختم کر دیا۔ اسی طرح سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مرتدین کے خلاف جہاد کیا، جو تا قیامت برحق ہے۔”
(ماخذ: الشریعۃ للآجری: 564-565)
امام بیہقی رحمہ اللہ (م 458ھ) فرماتے ہیں:
"قرآنِ کریم میں سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ اور ان کے بعد کے خلفائے راشدین کی امامت کی دلیل موجود ہے۔ اللہ عزوجل فرماتے ہیں:
(وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ آمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ…) (النور: 24/55)
(اللہ تعالیٰ نے تم میں سے ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ انہیں ضرور زمین میں خلافت عطا کرے گا، جیسا کہ اس نے ان لوگوں کو خلافت عطا کی تھی جو ان سے پہلے تھے)۔”
(ماخذ: الاعتقاد للبیہقی: 483)
حدیث سفینہ
روایت: امام ابو داود الطیالسی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
حشرج بن نباتہ نے سعید بن جہمان کے واسطے سے سفینہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا:
"میری امت میں خلافت تیس سال ہوگی، پھر بادشاہت ہوگی۔”
سفینہ نے کہا: "تو شمار کر لو، سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت بارہ سال اور چھ ماہ تھی، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت بارہ سال تھی، پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خلافت نے تیس سال پورے کر دیے۔”
(سعید بن جہمان کہتے ہیں) میں نے پوچھا، "پھر سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا کیا معاملہ تھا؟” تو انہوں نے فرمایا، "وہ پہلے بادشاہ تھے۔”
(ماخذ: مسند الطیالسی: ص 151، ح: 1203؛ مسند الامام احمد: 5/221؛ سنن الترمذی: 2226، سند: حسن)
حدیث کی تصدیق
حشرج بن نباتہ کی متابعت: سنن ابی داود (4246) میں عبدالوارث بن سعید البصری (ثقہ، ثبت) نے اور مسند احمد (5/220-221) میں حماد بن سلمہ (ثقہ، ثبت) نے، نیز سنن ابی داود (4647) میں العوام بن حوشب الواسطی نے اس حدیث کی متابعت کی ہے۔
سعید بن جہمان کی توثیق: جمہور محدثین نے سعید بن جہمان کو ثقہ قرار دیا ہے:
➊ امام احمد بن حنبل (السنۃ للخلال: ص 419)
➋ امام یحییٰ بن معین (تاریخ یحییٰ بن معین: 3695)
➌ امام ابن عدی (الکامل: 3/402، "أرجو کہ لا بأس بہ”)
➍ امام یعقوب بن سفیان (المعرفۃ والتاریخ: 2/78)
➎ امام ترمذی (السنن: 2226، "تحسین حدیثہ”)
➏ امام ابن ابی عاصم (السنۃ: 1222، "بتصحیح حدیثہ”)
➐ امام ابن الجارود (المنتقی: 976، "بتصحیح حدیثہ”)
➑ امام ابن حبان (الثقات: 4/278)
➒ امام حاکم (المستدرک: 3/71، "بتصحیح سندہ”)
➓ حافظ ہیثمی (مجمع الزوائد: 9/366)
کسی محدث کا ضعف کا قول نہیں: کسی بھی ثقہ محدث نے سعید بن جہمان کو ضعیف قرار نہیں دیا ہے، اور اس کے برعکس امام بخاری (التاریخ الصغیر: 1/196) اور حافظ ساجی (تہذیب التہذیب: 4/14) کا قول کہ "لا یتابع علی حدیثہ” نقصان دہ نہیں ہے کیونکہ سعید بن جہمان کی توثیق ثابت ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کو اپنی کتاب "من تکلم فیہ وھو موثق أو صالح الحدیث” میں ذکر کیا ہے۔
حدیث کی توثیق میں مزید حوالہ جات
امام احمد بن حنبل (السنۃ للخلال: ص 419)، امام ابن حبان (6657)، امام ابن ابی عاصم (السنۃ: 1222)، اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ (مجموع الفتاویٰ: 35/18) نے اس حدیث کی تصحیح کی ہے۔ امام حاکم رحمہ اللہ (المستدرک: 3/71) اور بوصیری (اتحاف الخیرۃ: 8/276) نے اس حدیث کی سند کو "صحیح” کہا ہے۔
امام ترمذی رحمہ اللہ (سنن ترمذی: 2226) اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (موافقۃ الخبر الخبر: 1/141) نے اس حدیث کو "حسن” قرار دیا ہے، اور حافظ ابن حجر نے مزید فرمایا: "سعید بن جہمان صغیر تابعی اور صدوق راوی تھے۔”
حدیث سفینہ سے محدثین کا استدلال
امام اہل سنت، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے بارے میں میمونی بیان کرتے ہیں:
"میں نے امام احمد سے سنا، ان سے سوال کیا گیا کہ آپ کا خلافت کے بارے میں کیا خیال ہے؟ فرمایا، ‘ابوبکر، عمر، عثمان، علی رضی اللہ عنہم (ہی خلیفہ تھے)۔’ کہا گیا، ‘گویا کہ آپ حدیثِ سفینہ کی طرف جاتے ہیں؟’ فرمایا، ‘میں حدیثِ سفینہ کی طرف بھی جاتا ہوں اور ایک اور چیز کی طرف بھی، وہ یہ کہ میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو دیکھا ہے کہ وہ سیدنا ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے دور میں امیر المؤمنین کے نام سے موسوم نہیں ہوئے، نہ ہی آپ نے جماعت و جمعہ اور حدود قائم کی ہیں، لیکن سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد آپ نے یہ کام کیا ہے، معلوم ہوا کہ اس وقت آپ کے لیے وہ کام واجب ہوگیا تھا جو پہلے واجب نہ تھا۔'”
(الاعتقاد للبیہقی: 469، سند: صحیح)
مزید فرمایا: "خلافت کے بارے میں ہم حدیثِ سفینہ کی طرف جاتے ہیں۔”
(مسائل الامام احمد لعبداللہ: 1833)
امام ابوالحسن الاشعری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"یہ حدیث ائمہ اربعہ کی خلافت پر دلالت کرتی ہے۔”
(ماخذ: الابانۃ عن اصول الدیانۃ للاشعری: 251)
اسی طرح امام ابن حبان (صحیح ابن حبان: 6657)، امام ابن جریر طبری (صریح السنۃ: ح 7)، امام الآجری (الشریعۃ: 564)، اور امام بیہقی (الاعتقاد: 467) بھی اس حدیث سے خلفائے اربعہ کا اثبات کرتے ہیں۔
خلاصہ
حدیثِ سفینہ کی روایت، اس کے ثقہ راویان اور محدثین کی جانب سے اس کی توثیق اس بات کا قوی ثبوت فراہم کرتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت میں خلافت کی مدت تیس سال تک رکھی، جو سیدنا ابو بکر، عمر، عثمان، اور علی رضی اللہ عنہم کے دور پر مشتمل تھی۔ بعد میں خلافت کا یہ سلسلہ بادشاہت میں تبدیل ہوا۔ محدثین اور اماموں نے اس حدیث کو خلافت کی شرعی حیثیت کے حق میں مضبوط دلیل کے طور پر پیش کیا ہے، جس سے خلفائے راشدین کی خلافت کا استحقاق ثابت ہوتا ہے۔