حرام خور کی عبادت قبول نہیں ہوتی
یہ تحریر محترم ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی کی کتاب نماز مصطفیٰ علیہ الصلوۃ والسلام سے ماخوذ ہے۔

اکل حلال

عبادت کی قبولیت کے لیے یہ بھی شرط ہے کہ کھانا، پینا، پہننا حلال کمائی کا ہو، اگر حرام کی آمیزش ہوگی تو کوئی بھی عبادت مقبول نہیں ہوتی ۔

حرام خور کی عبادت قبول نہیں ہوتی:

سید نا ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’یقینا اللہ تعالیٰ پاک ہے، اور صرف پاک چیز کو قبول فرماتا ہے ، اور اس نے اپنے رسولوں کو یہ حکم فرمایا تھا:

(يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا ۖ إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ)

(المؤمنون: ٥١)

’’اے رسولو! تم پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ، اور نیک عمل کرو ۔ یقیناً میں اس کو جو تم عمل کرتے ہو خوب جاننے والا ہوں۔‘‘

اور یقیناً یہی حکم اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو بھی دیا ہے:

(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ)

(البقره : ۱۷۲)

’’اے ایمان والو! تم پاکیزہ چیزوں سے کھاؤ جو ہم نے تم کو دی ہیں ۔‘‘

پھر آپ ﷺ نے ایک ایسے شخص کا ذکر کیا:

((يطيل السفر أشعث أغبر يمد يديه إلى السماء ، فيقول يا رب يا رب ومطعمه حرام ، ومشربه حرام ، وملبسه حرام ، وغذي بالحرام فأنى يستجاب لذلك .))

’’جو لمبا سفر کر کے غبار آلود، اور پراگندہ بال آتا ہے، اور آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر دعائیں مانگتا ہے یا رب! یا رب ! کہتا ہے، مگر حال یہ ہے کہ اس کا کھانا حرام، اس کا پینا حرام، اس کے کپڑے حرام، اور اس کا جسم حرام کی غذا سے پلا ہوا ہے، پس کس طرح اس آدمی کی دعا قبول ہو سکتی ہے۔
صحیح مسلم، کتاب الزكوٰة، رقم : ١٠١٥ – مسند احمد: ۳۲۸/۲۔

حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں:

’’لقمہ حلال دعا اور عبادت کی قبولیت کا سبب ہے، اور لقمہ حرام عدم قبولیت کا ۔‘‘
تفسير ابن كثير: ۲۷۸/۱، طبع مکتبه قدوسيه، لاهور۔

سعید بن جبیر اور ضحاک فرماتے ہیں :

((كُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ))

’’تم پاکیزہ چیزوں سے کھاؤ۔‘‘

میں پاکیزہ چیزوں سے مراد رزق حلال ہے۔
مختصر تفسير ابن كثير : ٢٥٢/٤، طبع دار السلام، لاهور۔

حرام مال سے صدقہ قبول نہیں ہوتا:

سید نا عبد اللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’جو شخص حرام مال کمائے اور پھر اس سے صدقہ کرے تو وہ صدقہ قبول نہیں ہوتا اور اگر اس سے خرچ کرے تو اس میں برکت نہیں ہوتی ۔‘‘
مسند أحمد: ۳۸۷/۱- شرح السنة : ١٠/٨، رقم : ٢٠٣٠ – مستدرك حاكم: ٣٣/١-٣٤۔
حاکم نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے، اور ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1