حدیث ’’جب امام پڑھے تو خاموش رہو‘‘ کے 2 ممکنہ مفاہیم
ماخوذ: 📗 فتاویٰ علمیہ، جلد 1، کتاب الصلاة، صفحہ 309

’’جب امام پڑھے تو خاموش رہو‘‘ والی حدیث کا مفصل تحقیقی جائزہ

حدیث کا متن:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جب امام قراءت کرے تو خاموش رہو”
(صحیح مسلم، جلد 1، صفحہ 73، حدیث نمبر 404/63)

الجواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حدیث کے راوی:

اس حدیث کو سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روایت کیا ہے، جو کہ:
✿ شیخ الاسلام
✿ محبوب المومنین
✿ المحدث
✿ الفقیہ
✿ المجاہد
✿ صحابی رسول ﷺ
تھے۔

اس حدیث کی تخریج درج ذیل کتب میں بھی موجود ہے:

صحیح مسلم: حدیث 404
ابن ابی داؤد: حدیث 604
سنن نسائی: حدیث 922، 923
تمام حوالہ جات کی تحقیق کے مطابق یہ حدیث "صحیح” ہے۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عمل:

عبدالرحمٰن بن یعقوب رحمۃ اللہ علیہ نے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ:
"میں امام کی قراءت سن رہا ہوں، تو کیا کروں؟”
انہوں نے جواب دیا:
"اسے (سورۃ الفاتحہ کو) اپنے دل میں (یعنی سراً) پڑھو۔”

اس کی تخریج درج ذیل کتب میں ہے:

مسند الحمیدی: حدیث 980 (نسخہ دیوبندیہ: حدیث 974)
◈ تحقیق: حسین سلیم اسد

◈ جلد 2، صفحہ 198، حدیث 1004

مسند ابی عوانہ: جلد 2، صفحہ 128
سندہ: نسخہ جدیدہ، جلد 1، صفحہ 357

اس سے کیا معلوم ہوا؟

یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ:
➊ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد
➋ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ
➌ سری نمازوں میں بھی
➍ جہری نمازوں میں بھی
➎ امام کے پیچھے سورۃ الفاتحہ پڑھنے کے قائل تھے۔

لہٰذا:

اس حدیث "جب امام پڑھے تو خاموش رہو” کے صرف دو ہی ممکنہ مفہوم ہو سکتے ہیں:

1۔ ماعدا الفاتحہ پر محمول:

یعنی:
◈ جہری نماز میں امام کی قراءت ہو رہی ہو تو
◈ مقتدی کو سورۃ الفاتحہ تو پڑھنی ہے
◈ لیکن اس کے علاوہ باقی قرآن نہیں پڑھنا

✅ یہی موقف امیرالمومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ کا بھی ہے۔
دیکھیے: جزء القرآءت، صفحہ 63، حدیث 264

2۔ حدیث منسوخ ہے:

یعنی اس پر اب عمل نہیں کیا جائے گا۔

اھلِ تقلید کا اصول:

آلِ تقلید کے ہاں ایک مشہور اصول یہ ہے:
"اگر حدیث کا راوی اپنی روایت کے خلاف عمل کرے یا اس کے خلاف فتویٰ دے، تو وہ حدیث منسوخ سمجھی جائے گی”

📘 مثال کے طور پر دیکھیے:
محمد منصور علی تقلیدی کی کتاب "فتح المبین”، صفحات 63-64

محدثین اور اہلِ الرائے کے اصولوں کے مطابق فیصلہ:

اصولِ محدثین کے مطابق:
پہلا مفہوم (ماعدا الفاتحہ) راجح اور قابلِ عمل ہے۔

اہلِ الرائے کے مطابق:
دوسرا مفہوم (حدیث منسوخ ہے) قابلِ قبول ہے۔

خلاصہ:

اصولِ محدثین اور اہل الرائے دونوں کی روشنی میں
اس حدیث "جب امام پڑھے تو خاموش رہو” سے
امام کے پیچھے سورۃ الفاتحہ نہ پڑھنے کا استدلال درست نہیں۔

(شہادت: فروری 2000ء)

ھذا ما عندي، واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1