’’جب امام پڑھے تو خاموش رہو‘‘ والی حدیث کا مفصل تحقیقی جائزہ
حدیث کا متن:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جب امام قراءت کرے تو خاموش رہو”
(صحیح مسلم، جلد 1، صفحہ 73، حدیث نمبر 404/63)
الجواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حدیث کے راوی:
اس حدیث کو سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روایت کیا ہے، جو کہ:
✿ شیخ الاسلام
✿ محبوب المومنین
✿ المحدث
✿ الفقیہ
✿ المجاہد
✿ صحابی رسول ﷺ
تھے۔
اس حدیث کی تخریج درج ذیل کتب میں بھی موجود ہے:
◄ صحیح مسلم: حدیث 404
◄ ابن ابی داؤد: حدیث 604
◄ سنن نسائی: حدیث 922، 923
تمام حوالہ جات کی تحقیق کے مطابق یہ حدیث "صحیح” ہے۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عمل:
عبدالرحمٰن بن یعقوب رحمۃ اللہ علیہ نے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ:
"میں امام کی قراءت سن رہا ہوں، تو کیا کروں؟”
انہوں نے جواب دیا:
"اسے (سورۃ الفاتحہ کو) اپنے دل میں (یعنی سراً) پڑھو۔”
اس کی تخریج درج ذیل کتب میں ہے:
◈ مسند الحمیدی: حدیث 980 (نسخہ دیوبندیہ: حدیث 974)
◈ تحقیق: حسین سلیم اسد
◈ جلد 2، صفحہ 198، حدیث 1004
◈ مسند ابی عوانہ: جلد 2، صفحہ 128
◈ سندہ: نسخہ جدیدہ، جلد 1، صفحہ 357
اس سے کیا معلوم ہوا؟
یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ:
➊ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد
➋ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ
➌ سری نمازوں میں بھی
➍ جہری نمازوں میں بھی
➎ امام کے پیچھے سورۃ الفاتحہ پڑھنے کے قائل تھے۔
لہٰذا:
اس حدیث "جب امام پڑھے تو خاموش رہو” کے صرف دو ہی ممکنہ مفہوم ہو سکتے ہیں:
1۔ ماعدا الفاتحہ پر محمول:
یعنی:
◈ جہری نماز میں امام کی قراءت ہو رہی ہو تو
◈ مقتدی کو سورۃ الفاتحہ تو پڑھنی ہے
◈ لیکن اس کے علاوہ باقی قرآن نہیں پڑھنا
✅ یہی موقف امیرالمومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ کا بھی ہے۔
دیکھیے: جزء القرآءت، صفحہ 63، حدیث 264
2۔ حدیث منسوخ ہے:
یعنی اس پر اب عمل نہیں کیا جائے گا۔
اھلِ تقلید کا اصول:
آلِ تقلید کے ہاں ایک مشہور اصول یہ ہے:
"اگر حدیث کا راوی اپنی روایت کے خلاف عمل کرے یا اس کے خلاف فتویٰ دے، تو وہ حدیث منسوخ سمجھی جائے گی”
📘 مثال کے طور پر دیکھیے:
محمد منصور علی تقلیدی کی کتاب "فتح المبین”، صفحات 63-64
محدثین اور اہلِ الرائے کے اصولوں کے مطابق فیصلہ:
اصولِ محدثین کے مطابق:
پہلا مفہوم (ماعدا الفاتحہ) راجح اور قابلِ عمل ہے۔
اہلِ الرائے کے مطابق:
دوسرا مفہوم (حدیث منسوخ ہے) قابلِ قبول ہے۔
خلاصہ:
اصولِ محدثین اور اہل الرائے دونوں کی روشنی میں
اس حدیث "جب امام پڑھے تو خاموش رہو” سے
امام کے پیچھے سورۃ الفاتحہ نہ پڑھنے کا استدلال درست نہیں۔
(شہادت: فروری 2000ء)
ھذا ما عندي، واللہ أعلم بالصواب