حاجی نحر کے دن طوافِ افاضہ یعنی طوافِ زیارت کرے گا
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے:
أن رسول الله أفاض يوم النحر ثم رجع فصلى الظهر بمني
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نحر کے دن طوافِ افاضہ کیا پھر واپس لوٹ گئے اور منٰی میں نماز ظہر ادا کی ۔“
[مسلم: 1308 ، كتاب الحج: باب استحباب طواف الإفاضة يوم النحر ، ابو داود: 998 ، نسائي فى الكبرى: 155/6 ، أحمد: 34/2 ، ابن الجارود: 486 ، ابن حبان: 3882 ، حاكم: 475/1 ، بيهقي: 144/5]
(نوویؒ) علما نے اجماع کیا ہے کہ یہ طواف حج کا رکن ہے اور اس کے بغیر حج مکمل نہیں ہوتا۔
[شرح مسلم: 451/4]
(ابن قدامہؒ) طوافِ افاضہ حج کا رکن ہے اس کے بغیر حج مکمل نہیں ہوتا اور اس مسئلے میں کوئی اختلاف ہو یہ ہمارے علم میں نہیں ۔
[المغني: 311/5]
(ابن حزمؒ) طوافِ افاضہ کے وجوب پر اجماع ہے۔
[المراتب: ص/ 49]
(ابن تیمیہؒ) انہوں نے اسی کو ثابت کیا ہے۔
[كما فى التعليقات الرضية للألباني: 114/2]
(صدیق حسن خانؒ) اس طواف کا رکن ہونا تو در کنار بلکہ یہ واجب بھی نہیں ہے کیونکہ بیشتر احادیث سے یہ ثابت ہے کہ قارن کے لیے ایک طواف اور سعی کافی ہے۔
[الروضة الندية: 642/1]
طوافِ افاضہ کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ظہر کہاں ادا کی اس کے متعلق گذشتہ حدیث میں منٰی کا ذکر ہے جبکہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ایک روایت میں مکہ کا ذکر ہے۔ ان کے درمیان تطبیق میں اختلاف ہے۔
➊ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں جگہوں میں نماز پڑھائی کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی امام تھے ۔
➋ پہلے مکہ میں پڑھائی ، پھر منٰی میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ نفل نماز پڑھی۔
➌ امام ابن قیمؒ نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث کو ترجیح دی ہے کیونکہ وہ صحیحین میں ہے۔
[زاد المعاد: 326/1 – 327 ، التعليقات الرضية للألباني: 114/2 ، نيل الأوطار: 61/5]