جہری و سری نماز میں امام کے پیچھے سورۃ الفاتحہ کی قراءت سے متعلق تابعین کے 8 اقوال
یہ اقتباس شیخ بدیع الدین شاہ راشدی کی کتاب فاتحہ خلف الامام سے ماخوذ ہے۔

آثار تابعین رحمہم اللہ تعالیٰ

اثر نمبر 1

از سعید بن جبیر رحمہ اللہ

«عن عبدالله بن عثمان بن خيثم قال قلت لسعيد بن جبير اقرأ خلف الامام قال نعم و ان سمعت قرائته انهم قد احدثوا مالم يكونوا يمنعونه ان السلف كان اذا ام احدهم الناس كبر ثم انصت حتي يظن من خلفه قد قرأ بفاتحة الكتاب ثم قرأ فانصتوا»
(جزء القراءۃ للبخاری صفحہ 62)
عبداللہ بن عثمان بن خیثم کہتے ہیں کہ میں نے سعید بن جبیر سے کہا: کیا میں امام کے پیچھے قراءت کروں؟ انہوں نے کہا: ہاں، اگرچہ تو امام کی قراءت سن رہا ہو۔ ان لوگوں نے یہ نئی رسم نکالی ہے، ورنہ سلف صالحین کا یہ طریقہ تھا کہ اگر ان میں سے کوئی امام بنتا تو تکبیر کہہ کر خاموش رہتا یہاں تک کہ جب اس کو یقین ہو جاتا کہ مقتدیوں نے سورہ فاتحہ پڑھ لی ہے تب امام قراءت کرتا اور مقتدی خاموش رہتے۔
اس سے سلف صالحین کا طریقہ معلوم ہوا کہ وہ سب امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھتے تھے اور امام بھی کچھ دیر کیلئے خاموش رہتا تھا تاکہ مقتدی سکون سے سورہ فاتحہ پڑھ لیں۔ لیکن اس وقت لوگوں نے نیا طریقہ ایجاد کر لیا ہے کہ بغیر وقفہ کئے قراءت کرتے ہیں۔ یہ صحیح نہیں ہے۔
سعید بن جبیر کبار تابعین میں سے ہیں جن کی بیشتر صحابہ اور کبار تابعین سے ملاقات رہی ہے جیسے علامہ عبدالحی لکھنوی نے امام الکلام میں حافظ ابن حجر کی کتاب نتائج الافکار سے نقل کیا ہے۔

اثر نمبر 2

از مکحول رحمہ اللہ

«كان مكحول يقرأ فى المغرب والعشاء و الصبح بفاتحة الكتاب فى كل ركعة سرا قال مكحول اقرأ فى ما جهر به الامام اذا قرأ بفاتحة الكتاب و سكت سرا فان لم يسكت اقرأ بها قبله او معه او بعده ولا تتركها على حال»
(ابو داؤد صفحہ 127)
شام کے مشہور عالم اور تابعی امام مکحول مغرب، عشاء اور فجر کی ہر رکعت میں سورہ فاتحہ پڑھتے تھے۔ فرماتے تھے کہ جہری نماز میں ہر حال میں سورہ فاتحہ پڑھا کرو یعنی امام وقف کرنے کے دوران اور اگر امام وقف نہ کرے تو اس کی قراءت سے پہلے یا ساتھ ساتھ یا بعد میں، ہر حال میں سورہ فاتحہ پڑھا کرو، چھوڑا نہ کرو۔

اثر نمبر 3

از عروہ بن زبیر رحمہ اللہ

«عن هشام عن ابيه قال يا بني اقرأ و فى ما يسكت الامام و اسكتوا فى ما جهر و لا تتم صلاة لا يقرأ فيها بفاتحة الكتاب فصاعدا مكتوبه أو مسبحة»
(جزء القراءۃ للبخاری صفحہ 62-63)
ہشام بن عروہ اپنے والد عروہ بن زبیر سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: اے بیٹے! جب امام پڑھے تو خاموش رہا کر اور جب وہ وقف کرے تو پڑھا کر، اس لئے کہ سورہ فاتحہ کے بغیر کوئی نماز نہیں ہوتی چاہے فرض ہو یا نفلی۔ ہاں، سورہ فاتحہ کے ساتھ کوئی اور سورت ملا سکتے ہو۔

اثر نمبر 4

از ابو سلمہ رحمہ اللہ

«عن ابي سلمه قال للامام سكتان فاغتنموا القراءة فيهما بفاتحة الكتاب»
(جزء القراءۃ للبخاری صفحہ 62)
ابو سلمہ کہتے ہیں کہ امام کے لئے دو سکتے (وقف) ہوتے ہیں، ان دونوں میں سورہ فاتحہ پڑھنے کو غنیمت جانو۔
ناظرین! دو سکتے یہ ہیں:
1. سورہ فاتحہ پڑھ لینے کے بعد جیسے اثر نمبر 1 میں سعید بن جبیر کا قول گزرا۔
2. مکمل قراءت پڑھ لینے کے بعد رکوع کے لئے تکبیر کہنے سے پہلے کچھ دیر خاموش رہنا جیسے ابوداؤد وغیرہ میں حدیث ہے۔

اثر نمبر 5

از حسن بصری رحمہ اللہ

«عن الحسن انه كان يقول اقرأ خلف الامام فى كل ركعة بفاتحة الكتاب فى نفسك»
(مصنف ابن ابی شیبہ صفحہ 374 جلد 1)
حسن بصری سے روایت ہے کہ وہ کہا کرتے تھے: امام کے پیچھے ہر رکعت میں اپنے دل میں سورہ فاتحہ پڑھا کرو۔
اور امام ابن عبدالبر کی کتاب التمہید صفحہ 40 جلد 1 میں امام حسن بصری سے روایت ہے کہ:
«يقول اقرأ بأم القرآن جهر الامام او لم يجهر فاذا جهر ففرغ من أم القرآن فاقرأ بها انت»
یعنی امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھا کرو، امام جہری قراءت کر رہا ہو یا سری۔ اور جہری قراءت میں جب امام سورہ فاتحہ پڑھنے سے فارغ ہو جائے تب پڑھا کر۔

اثر نمبر 6

از عطاء رحمہ اللہ

«عن عطاء قال اذا كان الامام يجهر فليبادر بأم القرآن او يقرأ بعد ما يسكت فاذا قرأ فلينصتوا كما قال الله عز و جل»
(مصنف عبدالرزاق صفحہ 133 جلد 2)
عطاء بن ابی رباح کہتے ہیں کہ جب امام جہری قراءت کر رہا ہو تو اس کی قراءت سے پہلے پہلے مقتدی سورہ فاتحہ پڑھ لے یا اس کے خاموش ہونے کے بعد پڑھے۔ اور جب امام پڑھنا شروع کرے تو مقتدی خاموش رہے جیسے کہ اللہ نے حکم دیا ہے۔
یہ روایت جزء القراءۃ للبخاری صفحہ 631 میں بھی ہے۔

اثر نمبر 7

از مجاہد رحمہ اللہ

«قال مجاهد اذا لم يقرأ خلف الامام اعاد الصلاة»
(جزء القراءۃ للبخاری صفحہ 10)
امام مجاہد کہتے ہیں کہ جس شخص نے امام کے پیچھے سورہ فاتحہ نہیں پڑھی، اس کو چاہئے کہ نماز دوہرائے۔

اثر نمبر 8

از عامر شرحبیل رحمہ اللہ

امام عامر شرحبیل شعبی فرماتے ہیں کہ:
«القراءة خلف الامام فى الظهر والعصر نور الصلاة»
(الثقات لابن حبان صفحہ 39 جلد 6)
یعنی ظہر اور عصر میں امام کے پیچھے قراءت کرنا نور ہے۔
اور جزء القراءۃ للبخاری صفحہ 10 میں امام بخاری فرماتے ہیں:
«قال الحسن و سعيد بن جبير و ميمون بن مهران و مالا احصي من التابعين و اهل العلم انه يقرأ خلف الامام و ان جهر و كانت عائشه رضي الله عنها تأمر بالقراءة خلف الامام»
یعنی حسن بصری، سعید بن جبیر، میمون بن مہران اور دوسرے بے شمار تابعین اور اہل علم کہتے ہیں کہ مقتدی امام کے پیچھے قراءت کرے اگرچہ امام جہر سے قراءت کر رہا ہو۔ اور عائشہ رضی اللہ عنہا بھی قراءت خلف الامام کا حکم دیتی تھیں۔
اور صفحہ نمبر 14 طبع دہلی صفحہ نمبر 7 میں فرماتے ہیں:
«و كان سعيد بن المسيب و عروه والشعبي و عبيد الله بن عبدالله و نافع بن جبير و ابو المليح و القاسم بن محمد و ابو مجلز و مكحول و ملك بن عون و سعيد بن ابي عروبه يرون القراءة»
یعنی یہ سب تابعین امام کے پیچھے قراءت کے قائل تھے۔
ناظرین!
اتنی احادیث اور سلف صالحین کا عمل دیکھنے کے بعد کسی مسلمان کو اس مسئلے کے بارے میں کوئی شک و شبہ نہیں رہنا چاہئے، مگر اس کے باوجود بعض دوست اپنے خیالات کے مطابق کچھ دلیلیں پیش کر کے لوگوں کو ورغلاتے ہیں۔ یہاں ان دلائل کا ذکر کر کے ان کی کچھ حقیقت ظاہر کی جاتی ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1