جنت میں رفاقت پانے کے 1 اہم ذریعہ: کثرتِ سجدہ

سجدے کا بیان

بہشت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ

حدیث کا واقعہ:

سیدنا ربیعہ بن کعب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ:

وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رات گزارتے تھے۔

آپ کے وضو کا پانی اور دیگر ضروریات (جیسے مسواک) لا کر دیتے تھے۔

ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہو کر ان سے فرمایا:

’’(کچھ دین و دنیا کی بھلائی) مانگ‘‘

سیدنا ربیعہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:

’’بہشت میں آپ کی رفاقت چاہتا ہوں‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’اس کے علاوہ کوئی اور چیز؟‘‘

انہوں نے عرض کیا:

’’بس یہی!‘‘

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’پس (اپنے مقصد کے حصول کے لیے) سجدوں کی کثرت سے میری مدد کر۔‘‘
(مسلم، الصلاۃ، باب فضل السجود والحث علیہ ، ۹۸۴.)

حدیث کا مفہوم و تشریح

جیسے ایک ماہر معالج مریض کو کہتا ہے کہ:

"میں تیرے لیے شفا کی کوشش کرتا ہوں، اور تو دوائی اور پرہیز کے ذریعے میری رہنمائی پر عمل کر کے میری مدد کر”،

اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ربیعہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا:

"میں تیرے مقصد (بہشت میں رفاقت) کے لیے دعا کرتا ہوں، اور تُو سجدوں کی کثرت سے میری کوشش میں میری مدد کر”۔

یہی وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے بہشت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت حاصل ہو سکتی ہے۔

اس حدیث سے حاصل ہونے والے مسائل

❀ اس حدیث سے یہ واضح ہوتا ہے کہ زندہ اولیاء و بزرگانِ دین سے ملاقات کے وقت اُن سے دعا کروانا جائز ہے۔

❀ یہ حدیث اس تصور کی تردید کرتی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہو کہ:

"میں تمام مخلوق کا حاجت روا اور مشکل کشا ہوں، اس لیے مجھ سے ہر قسم کی غیبی مدد مانگو”۔

❀ بلکہ اس کے برعکس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ربیعہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا:

"سجدوں کی کثرت سے میری مدد کر”۔

❀ یہ بات خود اس بات کا ثبوت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کسی کو اپنا شریک یا حاجت روا قرار نہیں دیا بلکہ عمل کی ترغیب دی۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1