جماعت میں شمولیت کے 3 مراحل اور 2 اہم فوائد
ماخوذ: فتاوی علمیہ، جلد1۔كتاب الصلاة۔صفحہ279

جماعت میں شامل ہونے کا طریقہ

(باجماعت نماز میں مسبوق کے شامل ہونے کی کیفیت)

سوال:

باجماعت نماز میں وہ مقتدی جو تکبیر تحریمہ کے بعد اور سلام سے پہلے جماعت میں شامل ہو، وہ کس طرح جماعت میں شامل ہوگا؟
کیا وہ تکبیر کہہ کر رفع الیدین کرے، ہاتھ باندھ لے اور قیام کی سی حالت اختیار کرتے ہوئے امام کی پیروی کرے، چاہے امام قیام میں ہو یا غیر قیام (یعنی رکوع، سجدہ، تشہد) میں؟ یا پھر سیدھے امام کی موجودہ حالت کی پیروی کرے؟

(سوال از: محمد صدیق، ایبٹ آباد)

جواب:

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مسبوق (یعنی وہ مقتدی جو جماعت کے دوران شامل ہوتا ہے) کو درج ذیل طریقہ اختیار کرنا چاہیے:

➊ تکبیر تحریمہ کہے:
سب سے پہلے، وہ "اللہ اکبر” کہہ کر نماز میں شامل ہو، یعنی تکبیر تحریمہ کہے۔

➋ امام قیام کی حالت میں ہو:
اگر امام رکوع سے پہلے قیام کی حالت میں ہے، تو مسبوق:
◈ ہاتھ سینے پر باندھ لے۔
◈ سورۃ الفاتحہ آہستہ آواز سے (یعنی دل ہی دل میں) پڑھے۔

➌ امام غیر قیام کی حالت میں ہو (رکوع، سجدہ، تشہد وغیرہ):
اگر امام:
◈ رکوع
◈ سجدہ
◈ تشہد
وغیرہ کی حالت میں ہو، تو مسبوق کو چاہیے کہ:
◈ تکبیر کہتا ہوا اسی حالت میں امام کے ساتھ شامل ہو جائے۔

یعنی ہاتھ باندھ کر قیام کرنے کا کوئی ثبوت موجود نہیں۔

دلیل:

حدیث:

"الإِمَامُ ضَامِنٌ ، فَمَا صَنَعَ فَاصْنَعُوا”

"امام ضامن ہے، جیسے وہ کرے تم بھی ویسے ہی کرو۔”
(سنن الدارقطنی، جلد 1، صفحہ 22، حدیث 1214)

سند کا تجزیہ:

➊ محمد بن کلیب بن جابر
ابو زرعہ الرازی رحمہ اللہ نے فرمایا: ثقہ
(الجرح والتعدیل 8/68)
حافظ ابن حبان رحمہ اللہ نے انہیں کتاب الثقات (جلد 5، صفحہ 362) میں ذکر کیا۔

➋ موسیٰ بن شیبہ بن عمرو بن عبداللہ رحمہ اللہ
امام احمد رحمہ اللہ: "احادیثه مناکیر”
ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ: "صالح الحدیث”
(الجرح والتعدیل 8/147)
ابن حبان رحمہ اللہ: کتاب الثقات (جلد 9، صفحہ 158)

نتیجہ:

یہ راوی حسن الحدیث ہیں، انہیں "لین الحدیث” کہنا درست نہیں۔
باقی سند کے تمام راوی ثقہ ہیں، لہٰذا یہ حدیث حسن ہے۔

مؤید روایت:

سیدنا ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایات بھی اس کی تائید کرتی ہیں۔

فوائد:

فائدہ نمبر 1:
ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو بیان کر کے فرمایا:

"هذا تصيح لمن قال بالقراءة خلف الامام”

"جو شخص امام کے پیچھے قراءت کا قائل ہے، یہ حدیث اس کے لیے تصحیح ہے۔”
(الدارقطنی، حوالہ مذکور)

اس سے معلوم ہوا کہ ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ اس حدیث کو صحیح سمجھتے ہیں اور اسی بنا پر "تصحیح” والا استدلال کرتے ہیں۔

فائدہ نمبر 2:
اگر امام کتب و سنت کے خلاف کوئی عمل کرے، جیسے:
◈ رفع یدین ترک کرنا
◈ قبل از رکوع ہاتھ چھوڑ دینا
وغیرہ، تو اس کی پیروی قطعاً نہ کی جائے۔

دلیل:

"لَا طَاعَةَ لِمَخْلُوقٍ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ”

"اللہ کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی اطاعت جائز نہیں۔”
(شہادت، اپریل 2004ء)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1