جدیدیت کا نیا مذہب: سائنس یا سرمایہ دارانہ عقیدہ؟
تحریر: ڈاکٹر زاہد مغل

جدید انسان کا دعویٰ

جدید انسان کا دعویٰ ہے کہ اس نے مذہب کی "ڈاگمیٹزم” کو ترک کر کے اجتماعی زندگی کی بنیاد "سائنس” پر رکھی ہے، جس کے بارے میں اس کا ماننا ہے کہ یہ مذہب کی طرح نہ تو سخت گیر ہے اور نہ ہی جابرانہ۔ تاہم، یہ دعویٰ حقیقت میں صرف الفاظ کی حد تک ہے کیونکہ جدید اجتماعی زندگی جن سماجی علوم پر استوار ہوئی ہے، وہ اپنے طرزِ عمل اور ڈھانچے میں مذہب سے مختلف نہیں ہیں۔ ان سماجی علوم میں سب سے زیادہ اثر انگیز علم معاشیات ہے، جس کے مختلف نظریات اور سکول آف تھاٹز کا طرز عمل مذہبی اصولوں کی طرح ہے۔ یہ نظریات مذہب کی مانند انسانیت کی حقیقت، کچھ مخصوص اخلاقیات، انسانیت کے مسائل، ان کے حل کے لیے تعلیمات، اور پیروکاروں کے لیے ایک شاندار مستقبل کی بات کرتے ہیں، جبکہ مخالفین کے لیے سخت انجام کا وعدہ کرتے ہیں۔

لبرل یا نیوکلاسیکل معاشیات

لبرل یا نیوکلاسیکل معاشیات کے نظریہ کے مطابق:

انسان کی حقیقت کیا ہے؟

انسان ایک خود مختار اور خود غرض ہستی ہے جو اپنی آزادی کو بڑھانا چاہتا ہے۔

انسانیت کا بنیادی مسئلہ کیا ہے؟

انسانیت کا بنیادی مسئلہ لامحدود خواہشات اور محدود وسائل کی وجہ سے پیدا ہونے والی قلت (scarcity) ہے۔

اس مسئلے کا حل کیا ہے؟

اس کا حل زیادہ سے زیادہ پیداوار کے ذریعے efficiency حاصل کرنا اور سرمائے میں اضافے کی جدوجہد کرنا ہے۔

حل کے حصول کا طریقہ کیا ہے؟

فرد کو مارکیٹ کے نظام کے تابع کر دیا جائے، جہاں ہر شخص اپنی ذاتی خواہشات کی تکمیل کے لیے اپنی صلاحیتوں کو سرمایہ حاصل کرنے کے لیے استعمال کرے۔ لبرل ماہرینِ معاشیات کا ماننا ہے کہ مکمل مسابقت (perfect competition) پر مبنی مارکیٹ کا نظام خود بخود زیادہ سے زیادہ پیداوار کی ممکنہ حد تک کوشش کرتا ہے، کیونکہ جب ہر فرد اپنی ذاتی اغراض کے لیے سرمائے میں اضافے کی کوشش کرے گا تو مجموعی سرمایہ میں بھی اضافہ ہوگا۔

ریاستی پالیسی پیکج کیا ہے؟

لبرل ماہرین معاشیات کے مطابق ضروری ہے کہ:

  • دنیا کے تمام معاشروں کو مارکیٹ کے نظام کو اپنانے پر مجبور کیا جائے۔
  • لبرل سرمایہ دارانہ ریاستوں کا قیام ضروری ہے، کیونکہ ان کے بغیر مارکیٹ کا قیام، استحکام، بقا اور فروغ ممکن نہیں۔
  • یہ ریاستیں مقامی سطح پر لبرل سرمایہ دارانہ قوانین (مثلاً ہیومن رائٹس فریم ورک) نافذ کر کے معاشروں کو مارکیٹ کے نظام کے تابع کریں گی۔
  • پرائیویٹائزیشن، ڈی ریگولیشن، اور لبرلائزیشن کے ذریعے ذرائع پیداوار اور سرمایہ کی بڑھوتری کے نظام پر کارپوریشنز کے عالمی تسلط کو ممکن بنائیں گی۔
  • مقامی سطح پر ان طاقتوں کا خاتمہ کریں گی جو عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے لیے خطرہ بن سکتی ہیں۔
  • سرمایہ دارانہ علوم (سائنس اور سوشل سائنسز) کو فروغ دیں گی۔
  • ان ریاستوں کے اوپر عالمی نگرانی کے ادارے ہوں گے جو اس نظام کی حفاظت، ریگولیشن، اور فروغ میں معاون ہوں گے۔ (مثلاً آئی ایم ایف، ورلڈ بینک وغیرہ)۔

انسانیت اس نظام کو کیوں اپنائے؟

مارکیٹ کے نظام کے تسلط سے efficiency زیادہ ہوگی اور فرد اپنی ہر خواہش کو پورا کرنے میں آزاد ہوگا، یعنی وہ قائم بالذات (خود مختار) ہو جائے گا۔

سوشل ازم (ریاستی سرمایہ داری)

اسی طرح معاشیات کے دوسرے بڑے سکول آف تھاٹ یعنی سوشل ازم کا بھی ایک خاکہ پیش کیا جا سکتا ہے:

انسان کی حقیقت کیا ہے؟

انسان ایک خود مختار ہستی ہے، لیکن اس کی آزادی کا اظہار فرد کی ذات میں نہیں بلکہ ایک مخصوص طبقہ (کلاس) میں ہوتا ہے۔

انسانیت کا بنیادی مسئلہ کیا ہے؟

انسانیت کا بنیادی مسئلہ طبقاتی کشمکش ہے، جس کا مقصد استحصال کو ممکن بنانا ہے۔ اس کی بنیاد وسائل کی قلت (scarcity) ہے، جو لوگوں کو زیادہ سے زیادہ وسائل پر قبضہ کرنے پر مجبور کرتی ہے، اور اس کی وجہ سے انسانیت دو طبقات میں تقسیم ہو جاتی ہے۔

اس مسئلے کا حل کیا ہے؟

اس مسئلے کا حل scarcity کا خاتمہ ہے، مگر اس کے لیے طبقاتی کشمکش کا خاتمہ ضروری ہے۔

حل کے حصول کا طریقہ کیا ہے؟

سرمایہ کی نجی ملکیت ختم کر کے اجتماعی ملکیت کا نظام قائم کیا جائے جو زیادہ efficiency اور equity (یعنی منصفانہ تقسیم) کو ممکن بنائے۔

ریاستی یا سیاسی پالیسی پیکج کیا ہے؟

سوشلسٹ ریاست کا قیام اس طریقے سے ہوگا کہ:

  • مزدوروں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جائے تاکہ وہ موجودہ استحصالی طبقے سے دولت چھین کر اجتماعی ملکیت کا نظام قائم کر سکیں۔
  • استحصالی طبقے کے ساتھ جنگ و جدل ناگزیر ہے۔
  • استحصالی طبقے کے استحصال کے خلاف زیادہ سے زیادہ مزدور اس جدوجہد میں شامل ہوں گے۔
  • اس جدوجہد کے نتیجے میں سوشلسٹ ریاست کا قیام عمل میں آئے گا جو مزدوروں کی آمریت (یعنی اصل جمہوریت) ہوگی۔
  • یہ ریاست طویل عرصے تک سوشلسٹ تعلیمات کے مطابق ریاستی معاملات کو چلائے گی اور ذرائع پیداوار میں اضافہ کرے گی۔

انسانیت اس نظام کو کیوں قبول کرے؟

سوشلسٹ ریاست کی پالیسیوں کے نتیجے میں جب ذرائع پیداوار میں اضافہ ہوگا تو:

  • انسان scarcity پر قابو پا لے گا، اور طبقاتی کشمکش ختم ہو جائے گی۔
  • تمام طبقات، خاندان، مذہب، قومیتیں ختم ہو جائیں گی۔
  • ایک نیا انسان اور معاشرہ (کمیونسٹ معاشرہ) وجود میں آئے گا جہاں موجودہ اخلاقی قدریں بے معنی ہو جائیں گی، اور ریاست کا خاتمہ ہو جائے گا۔

سیکولر نظریات کی مشترکہ بنیاد

سیکولرازم کے یہ دونوں دھڑے اس بات پر متفق ہیں کہ ان کا مقصد انسان کو خود مختار بنانا ہے، فرق صرف طریقہ کار اور حکمت عملی کا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کہا جا سکتا ہے کہ سوشلسٹ اور لبرل دونوں سرمایہ داری کے مختلف روپ ہیں۔ ان کا مشترکہ بنیادی نظریہ ‘لا الہ الا الانسان’ ہے، جو روشن خیالی کی علمیت (Enlightenment) سے نکلنے والا ایک نیا الحاد ہے۔

نتیجہ

سماجی علوم، بالخصوص معاشیات، جدید انسان کے لیے ایک نیا مذہب بن چکے ہیں، جس کی بنیاد پر وہ اپنی ذاتی اور اجتماعی زندگی کو ویسے ہی مرتب کرتا ہے جیسے ایک مذہبی شخص اپنے مذہبی عقائد کی بنیاد پر کرتا ہے۔ دونوں کے درمیان فرق صرف عقیدے کے ماخذ کا ہے؛ ایک کا ماخذ خدا کا ارادہ ہے، جبکہ دوسرے کا خواہشات نفس۔ فیصلے عوام کی رائے کی بجائے سرمایہ دارانہ علمیت کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں، جیسا کہ اوپر دیے گئے خاکے سے ظاہر ہوتا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے