جبری طلاق واقع نہیں ہوتی
تحریر: حافظ زبیر علی زئی، پی ڈی ایف لنک

الحمد لله ربّ العالمين والصلوة والسّلام على رسوله الأمين، أما بعد:

طلاق مکرہ یعنی جبری طلاق کا مطلب یہ ہے کہ بعض لوگ کسی شخص کو اسلحے وغیرہ کے زور پر پکڑ لیں،قتل اور مارکٹائی کی دھمکی دیں اور پھر جبر ، زور ظلم و زیادتی کے ذریعے سے اس بیچارے مجبور و مقہور کو حکم دیں کہ ابھی ہمارے سامنے اپنی بیوی کو طلاق دے دو اور وہ بیچارہ مجبور و مقہور شخص موت یا پٹائی کے خوف سے مجبور ہو کر اس حالت اضطرار میں اپنی بیوی کو طلاق دے دے، حالانکہ اس کی نیت طلاق دینے کی نہ ہو۔
شریعت اسلامیہ میں ایسی جبری طلاق ہرگز واقع نہیں ہوتی لیکن حنفیہ و دیو بند یہ بریلویہ تینوں فرقوں کا یہ موقف ہے کہ جبری طلاق واقع ہو جاتی ہے۔!
ایک شخص نے محمد تقی عثمانی دیوبندی صاحب سے سوال پوچھا:
”طلاق مکرہ کے بارے میں زید کہتا ہے کہ واقع نہیں ہوتی ، اور دلیل میں مشکوۃ کی حدیث:
’’لا طلاق و لا عتاق في اغلاق“
(سنن ابی داود ج اص ۳۰۵ طبع مکتبہ حقانیہ ملتان ) پیش کرتا ہے جبکہ حنفیوں کے نزدیک طلاق مکرہ واقع ہو جاتی ہے، لہذا حنفیوں کی کون سی حدیث سے دلیل ہے؟
اس سوال کا جواب مسئول مذکور (تقی عثمانی) نے درج ذیل الفاظ میں لکھا:
”حنفیہ کے نزدیک طلاق مکرہ واقع ہو جاتی ہے، حنفیہ کے دلائل درج ذیل ہیں:
الف: ۔۔۔ قوله صلى الله عليه وسلم ثلاث جدهن جد و هزلهن جد النكاح و الطلاق و الرجعة
(فتاوی عثمانی جلد دوم ص ۳۲۳-۳۲۵)

تقی عثمانی صاحب نے اپنے مذکورہ فتوے میں جو ’’دلائل‘‘ یعنی شبہات پیش کئے ہیں، ان پر علی الترتیب تبصرہ اور رد درج ذیل ہے:

◈رسول اللهﷺ کی جس حدیث کا حوالہ دیا گیا ہے، اس کا مفہوم درج ذیل ہے:
تین اشیاء ایسی ہیں اگر ان کو جان بوجھ کر یا ہنسی مذاق میں کرے (تو بھی) وہ درست ہو جائیں گی :
➊ نکاح
➋ طلاق
➌ رجعت
(سنن ابی داود مترجم ج ۲ ص ۱۹۷ ح ۴۲۸، ترجمه خورشید حسن قاسمی رفیق دارالافتاء دارالعلوم دیوبند)
حدیث کا ترجمہ و مفہوم آپ نے پڑھ لیا، اس روایت میں جبری طلاق کا نام ونشان نہیں ہے،
بلکہ صرف دو باتوں کا ذکر ہے:
➊ جان بوجھ کر طلاق دینا۔
➋ ہنسی مذاق میں طلاق دینا۔

جبری طلاق نہ تو جان بوجھ کر اپنی مرضی سے دی جاتی ہے اور نہ یہ ہنسی مذاق ہے، لہذا اس حدیث کو بے موقع و بے محل پیش کیا گیا ہے۔ ہمارے علم کے مطابق سلف صالحین اور غیر جانبدار فقہائے محدثین نے اس حدیث سے جبری طلاق واقع ہونے کا مسئلہ ثابت نہیں کیا ، لہذا محدثین کے خلاف صرف طحاوی کا استدلال ہے جو کہ سراسر غلط ہے۔

امام بغوی نے فرمایا:
’’اتفق أهل العلم على أن الطلاق الهازل يقع … و اتفق أهل العلم على ان طلاق الصبي و المجنون لا يقع “
اہل علم کا اس پر اتفاق ہے که ہنسی مذاق میں طلاق دینے والے کی طلاق واقع ہو جاتی ہے .. اور اہل علم کا اتفاق ہے کہ چھوٹے بچے اور مجنون کی طلاق واقع نہیں ہوتی ۔
(شرح السنہ ج ۹ ص ۲۲۰ تحت ح۶ ۲۳۵)

جب بعض لوگوں نے ہنسی مذاق والی طلاق پر قیاس کر کے جبری طلاق کو واقع قراردیا تو امام ابو عبداللہ محمد بن احمد الانصاری القرطبی (متوفی ۶۷۱ ھ ) نے فرمایا:
’’وهذا قياس باطل“
’’اور یہ قیاس باطل ہے۔‘‘
(الجامع لاحکام القرآن یعنی تفسیر قرطبی ج ۱۰ ص ۱۸۴)

تنبیه : ۔۔۔۔۔ روایت مذکورہ کے راوی عبد الرحمن بن حبیب بن اردک کو نسائی نے منکر الحدیث ، حافظ ذہبی نے ”صدوق فیه لین‘‘ اور حافظ ابن حجر نے ”لین الحدیث “ کہا ، جبکہ ابن حبان ، ترمذی تحسین حدیثہ اور حاکم نے بذریعہ صحیح ثقہ و صدوق قرار دیا، لہذا جمہور کوترجیح کے اصول سے یہ سند حسن ہے۔

عن عمر قال : أربع واجبات على كل من تكلم بهنّ العتاق والطلاق و النكاح والنذر .
بحوالہ احکام القرآن للجصاص (فتاوی عثمانی ۳۴۴/۲)

یہ روایت احکام القرآن للجصاص المعتزلی ( ج ۲ ص ۹۹) میں بغیر سند ہے اور جصاص سے ظفر احمد تھانوی دیوبندی نے اپنی اعلاء السنن (ج۱ص۱۷۹) میں نقل کر رکھی ہے۔

امام بخاری نے التاریخ الکبیر (۵۰۲/۶ ت ۳۱۱۶) میں سیدنا عمرؓ سے نقل کیا کہ
أربع مقفلات (صح) النذر والطلاق والعتق والنكاح
اور اسے بہیقی نے امام بخاری کی سند سے روایت کیا ہے۔
(السنن الکبری ج 2 ص ۳۴۱)

اس کی سند میں محمد بن اسحاق بن بیار صدوق مدلس ہیں اور روایت عن سے ہے، لہذا یہ سند ضعیف و مردود ہے۔

ایک روایت میں ہے کہ سیدنا عمرؓ نے فرمایا:
”أربع جائزات على كل أحد : العتاق والطلاق والنذور والنكاح.“
(سنن سعید بن منصور ۳۷۱/۱ ح ۱۶۱۰، مصنف ابن ابی شیبه ۵/ ۱۰۵ ح ۱۸۳۹۷)

اس کی سند میں حجاج بن ارطاۃ مدلس ہے اور سند عن سے ہے، لہذا ضعیف و مردود ہے۔ ایک اور روایت میں آیا ہے کہ سیدنا عمرؓ نے فرمایا:
’’ثلاث اللاعب فيهن والجاد راء : الطلاق والصدقة والعتاقة ، قال عبد الكريم و قال طلق بن حبيب : والهدي والنذر “
(مصنف عبدالرزاق ۱۳۳/۶ ح ۱۰۲۴۸، در منثور ۲۸۶/۱، اعلاء السنن ۱۷۹/۱۱)

اس روایت کی سند میں ابو امیہ عبدالکریم بن ابی المخارق ضعیف ہے۔
دیکھئے تقریب التہذیب (۴۱۵۶)

جمہور محدثین نے اسے ضعیف قرار دیا ہے اور باقی سند میں بھی نظر ہے۔
آپ نے دیکھ لیا کہ یہ سب روایتیں ضعیف و مردود ہیں ، لیکن ظفر احمد تھانوی نے اپنی دیو بندیت بچانے کے لئے یہ لکھ دیا:
’’و هذه طرق يقوي بعضها بعضًا “
اور یہ سندیں ایک دوسرے کی تقویت کرتی ہیں ۔ (اعلاء السنن ۱۷۹/۱۱)

تھانوی مذکور کا یہ دعویٰ سراسر غلط ہے اور مجھے الشیخ الصدوق عبد الاول بن حماد بن محمد الانصاری المدنی نے بذریعہ کتاب خبر دی ، کہا : میں نے اپنے والد ( شیخ حماد انصاری رحمہ اللہ ) کو فرماتے ہوئے سنا:

’’إن كتاب ” اعلاء السنن “ ملي بالموضوعات و أغلب أدلته أحاديث كذب أو ضعيفة .‘‘
’’بے شک کتاب : اعلاء السنن موضوع روایات سے بھری ہوئی ہے اور اس کی عام دلیلیں جھوٹی یا ضعیف روایات ہیں۔
(دیکھئے المجموع فی ترجمہ حماد الانصاری ج ۲ ص ۷۲۶ فقره: ۱۳۹)

شیخ عداب محمود المش نے اعلاء السنن کے بارے میں فرمایا:
’’و في هذا الكتاب بلایا و طامات مخجلة !“
اور اس کتاب میں مصیبتیں اور رسوا کن تباہیاں ہیں۔
(حاشیہ رواة الحديث الذین سکت علیہم ائمة الجرح والتعديل بين التوثيق و التجميل ص ۲۷)

یادر ہے کہ سیدنا عمرؓ کی طرف منسوب یہ سب روایات جبری طلاق کے موضوع سے غیر متعلق ہیں، کیونکہ ان میں طلاق المکرہ کا ذکر تک نہیں ہے اور موضوعات کی ترویج دینے والے لوگوں کا تحریفات کے ذریعے سے خود ساختہ مفہوم تر اشناعلمی میدان میں نا قابلِ قبول اور مردود ہوتا ہے۔

◈بحوالہ محمد بن الحسن الشیبانی ( یعنی ابن فرقد) اور عقیلی صفوان بن عمران الطائی سے روایت ہے کہ ایک آدمی سویا ہوا تھا تو اس کی بیوی ایک چھری لے کر اس کے سینے پر چڑھ گئی اور کہا: مجھے تین طلاق دے دو، ورنہ میں تجھے ذبح کر دوں گی ۔ پھر اس نے طلاق دے دی اور بعد میں نبی ﷺ کو بتایا تو آپ ﷺ نے فرمایا:
’’لا قيلولة في الطلاق “
(دیکھئے مرقاة المفاتح ۳۸۸/۶)

یہ روایت کتاب الضعفاء الكبير العقیلی (۲/ ۲۱۱، دوسرا نسخه ۵۹۶/۲-۵۹۷، تیسر انسخه ۱۲۶/۳- ۱۲۷) سنن سعید بن منصور (۱/ ۲۷۵ – ۲۷۶ ح ۱۱۳۰۔ ۱۱۳۱) اور العلل لابن الجوزی (۱۵۹/۲ ح ۱۰۷۴) وغیرہ میں موجود ہے اور اس کی سند دو وجہ سے سخت ضعیف ہے:
(۱) صفوان الاصم الطائی بذات خود ضعیف ہے۔
اسے امام بخاری ( تحفتہ الاقوياء :۱۷۲) اور عقیلی و غیر ہم نے ضعفاء میں شمار کیا ہے، بلکہ امام بخاری نے فرمایا:
”حدیثه منکر “
اس کی بیان کردہ حدیث منکر ہے۔
(کتاب الضعفا ص۵۶)

ابو حاتم الرازی نے فرمایا:
’’يكتب حديثه وليس بالقوي “
اس کی حدیث لکھی جاتی ہے اور وہ القوی نہیں ہے۔
(کتاب الجرح والتعدیل ۴۲۲/۴ ت ۱۸۵۱)

نیز انھوں نے طلاق مکرہ کے بارے میں اس کی روایت کو منکر قرار دیا۔
(ایضا ص ۴۲۲)

ابن حزم نے کہا:
’’وصفوان منکر الحديث‘‘
(المحلی ۲۰۳/۱۰ مسئله ۱۹۶۲)

◈غاز بن جبلہ مجروح راوی ہے، اسے بخاری نے ضعفاء میں ذکر کر کے فرمایا کہ طلاق مکرہ کے بارے میں اس کی حدیث منکر ہے ۔ (رقم ۳۰۵)

ابو حاتم الرازی نے فرمایا:
’’هو منكر الحديث“
وہ منکر الحدیث ہے۔الخ
(کتاب الجرح والتعدیل ۵۹/۷ ت ۳۳۷)

بہت سے علماء مثلاً امام بخاری ، ابو حاتم الرازی اور ابن الجوزی و غیر ہم نے اس روایت کو منکر و غیر صحیح قرار دیا ہے۔

ابن حزم نے کہا:
غازی بن جبلہ مغموز (یعنی مجروح) ہے ۔
(المحلی ۳/۱۰ ۲۰ مسئلہ: ۱۹۶۶)

تقی صاحب نے یہ عجیب و غریب بات لکھ دی ہے کہ ’’اور علامہ ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ نے ’’اعلاء السنن‘‘ج ۱ ص : ۱۲۵ میں اس بات پر دلائل دیئے ہیں کہ یہ حدیث سنداً قابل استدلال ہے ۔“
(فتاوی عثمانی ج ۲ ص ۳۲۴)

عرض ہے کہ ”اعلاء السنن‘‘ نامی کتاب (۱۷۷/۱۱) کے مذکورہ صفحے پر کسی قسم کے دلائل نہیں بلکہ الفاظ کی شعبدہ بازی ہے اور آخر میں بغیر دلیل کے اسے ”صالح للاحتجاج “ لکھ دیا گیا ہے۔ تقی صاحب یا ان کے متبعین ہمت کریں اور درج ذیل دونوں راویوں کی جمہور محدثین سے توثیق ثابت کر دیں:
➊ الغاز بن جبلہ
➋ صفوان الاسم الطائی
اور اگر ثابت نہ کر سکیں تو پھر یہ روایت ضعیف و مردود ہی ہے اور نا قابل احتجاج ہے یعنی اس سے حجت پکڑنا نا جائز ہے۔

◈ ’’مصنف عبد الرزاق میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ وہ مکرہ کی طلاق کو واقع قرار دیتے تھے، اور یہی مذہب‘‘

عرض ہے کہ یہ روایت ”طلاق المکرہ جائز“ کے الفاظ سے مروی ہے اور اس کے راوی ایوب السختیانی البصری (ولادت ۶۶ ھ ) کی سیدنا عبداللہ بن عمرؓ(وفات ۷۴ھ) سے ملاقات ثابت نہیں ہے، لہذا یہ سند منقطع ہونے کی وجہ سے ضعیف و مردود ہے۔

فائده : طحاوی حنفی کی ایک عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ (امام) ابوحنیفہ منقطع کو حجت نہیں سمجھتے تھے۔
دیکھئے شرح معانی الآثار(طبع ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ج ۲ ص ۱۶۴، باب الرجل يسلم في دار الحرب وعنده اكثر من اربع نسوة)

باقی رہے تابعین کے آثار تو ان کے صحیح ہونے میں بھی نظر ہے اور قرآن ، حدیث و آثار صحابہ کے بعد تابعین کے مختلف فیہ و باہمی متعارض آثار کی کیا ضرورت ہے؟!

◈ تقی صاحب نے لکھا ہے : ” اور اگر بالفرض ’’اکراہ“ ہی کے معنی میں لئے جائیں تو مصنف عبدالرزاق کی ایک روایت سے اس کا منسوخ ہونا سمجھ میں آتا ہے، اور وہ روایت یہ ہے:
”عن سعید بن جبير أنه بلغه قول الحسن ليس طلاق المكره بشي ..“
(فتاوی عثمانی ج ۲ ص ۳۲۵)

عرض ہے کہ اس کی سند میں معتمر بن سلیمان التیمی کے والد سلیمان التیمی مدلس تھے اور سماع کی تصریح نہیں ہے، لہذا ہماری سمجھ میں یہی آتا ہے کہ یہ روایت ضعیف ہے اور ضعیف روایت سے منسوخیت ثابت کرنا ہماری سمجھ سے باہر ہے۔

مذکورہ فتوے پر مختصر و جامع تبصرہ ختم ہوا اور اب وہ دلائل پیش خدمت ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جبری طلاق واقع نہیں ہوتی:

◈ قرآن مجید کی ایک آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر کسی مسلمان کو کافر لوگ پکڑ لیں اور طاقت کے ذریعے سے کفر کہنے پر مجبور کر دیں تو وہ شخص کافر نہیں ہوتا۔
(دیکھئے سورۃ اخل ۱۰۶۰)

مفسر قرآن امام ابو عبد اللہ القرطبی نے اس آیت سے اکیس (۲۱) مسئلے نکالے، جن میں سے ساتواں مسئلہ یہ ہے کہ امام شافعی اور ان کے ساتھیوں نے فرمایا:
”لا يلزمه شي“
اس پر (جبری طلاق میں سے) کوئی چیز بھی لازم نہیں ہوتی۔
(تفسیر قرطبی ۱۸۴/۱۰)

بلکہ قرطبی اور ان سے پہلے قاضی ابوبکر ابن العربی المالکی نے جبری طلاق کے بارے میں امام ابو حنیفہ کی طرف منسوب قیاس کو باطل(و هذا قياس باطل)قرار دیا۔
(ایضا ص ۱۸۴، احکام القرآن لابن العربی المالکی ج ۳ ص ۱۱۸۱)

مشہور تابعی امام عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ نے فرمایا:
الشرك أعظم من الطلاق
شرک طلاق سے بڑا ہے۔
(سنن سعید بن منصور / ۲۷۸ ح ۱۱۴۲، وسندہ صحیح وصحه الحافظ ابن حجر في فتح الباری ۳۹۰/۹ تحت ح ۵۲۶۹-۵۲۷۲)

جب حالت اکراہ میں کلمہ کفر کہنے سے آدمی کافر نہیں ہوتا تو اس طرح حالت اکراہ میں طلاق دینے سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔

◈ ثابت بن عیاض بن احنف رحمہ اللہ (ثقہ تابعی) کے اپنے بیان کردہ واقعے سے ثابت ہے کہ سید نا عبد اللہ بن عمر اور سید نا عبد اللہ بن الزبیرؓ نے فرمایا: جبری طلاق نہیں ہوتی ۔
(دیکھئے موطا امام مالک روایت یکی بن سکیکی ۱/ ۱۳۸۰۵۸۷، وسنده صحیح وله طریق آخر صحیح فی السنن الکبریللمسیقی ۷ / ۳۵۸ وسند صحیح)

◈ تابعین کرام میں جبری طلاق کے بارے میں اختلاف ہے۔
امام عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ جبری طلاق کو کچھ چیز نہیں سمجھتے تھے۔
(سنن سعید بن منصور ۱ / ۲۷۷ ۱۱۴۱، وسنده صحیح وله شاهد صحیح فی مصنف ابن ابی شیبه ۵/ ۴۹ ح ۱۸۰۲۸)

امام عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ بھی جبری طلاق کے قائل نہیں تھے۔
دیکھئے سنن سعید بن منصور (۲۷۶/۱ ح ۱۱۳۲، وسندہ حسن)

تابعین میں سے امام عامر الشعمی رحمہ اللہ بادشاہ کی طرف سے جبری طلاق کو جائز اور چوروں ڈاکووں کی طرف سے جبری طلاق کو ناجائز سمجھتے تھے۔
( سنن سعید بن منصور : ۱۱۳۶، وسنده صحیح ، ۱۱۳۷، وسنده صحیح)

یعنی وہ بھی حنفیہ کی مروجہ جبری طلاق کے واقع ہونے کے قائل نہیں تھے اور حافظ ابن حجر نے فرمایا:
’’و ذهب الجمهور إلى عدم اعتبار ما يقع فيه “
اور جمہور کے نزدیک ( بادشاہ ہو یا چور ڈاکو) جبری طلاق واقع ہونے کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔
(فتح الباری ۳۹۰/۹ طبع دار المعرفة)

فائدہ : سیدنا عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ مکرہ یعنی مجبور کی طلاق نہیں ہوتی۔
(سنن سعید بن منصور :۱۱۴۳، السفن الكبر فی المینی ۷ / ۱۳۵۸، مصنف ابن ابی شیبه: ۱۸۳۳۰)

اس روایت کی سند میں ایک راوی عبد اللہ بن طلحہ الخزاعی ہیں جنھیں درج ذیل علماء نے ثقہ و صدوق وغیرہ قرار دیا ہے:
➊ ابن حبان
➋ بخاری علق له فی صحیحہ
➌ ابن القیم (صح له في اعلام الموقعین ۳/ ۳۸)
➍ عینی (صح له فی عمدۃ القاری ۲۵۲/۲۰)
➎ ابن حزم نے سیدنا ابن عباسؓ کا ذکر کیا اور فرمایا:
یہ ابن عباس سے ثابت ہے۔ (المحلی ۲۰۴/۱۰ مسئله: ۱۹۶۶)

ابن حجر العسقلانی سكت على حديثه في فتح الباري .
(وسكوته ليس بشي عندنا و لكنه حجة عند الديوبندية!)

یادر ہے کہ امام عجلی سے اس راوی کی توثیق ثابت نہیں، لیکن سیدنا ابن عمر اور سیدنا عبد اللہ بن زبیرؓ وغیر ہما کے آثار (جن کا کوئی صحابی مخالف نہیں) سے ثابت ہوا کہ جبری طلاق کے واقع نہ ہونے پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا اجماع ہے۔

◈ امام مالک، امام شافعی ، امام احمد بن حنبل اور بہت سے اماموں کا یہ مسلک ہے کہ جبری طلاق واقع نہیں ہوتی اور یہی جمہور علماء کا مذہب ہے۔
(مجموع فتاوی لابن تیمیہ ۱۱۰/۳۳)

امام بخاری وغیرہ کی بھی یہی تحقیق ہے۔

امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا:
اہل مدینہ پر (جعفر بن سلیمان بن علی) الہاشمی حکمران تھا، پھر اس نے (امام ) مالک کو بلایا اور کہا:
’’تم وہ ہو جو اکراہ ( طلاق مکرہ کے واقع نہ ہونے ) اور بیعت کے باطل ہونے کا فتویٰ دیتے ہو؟!

پھر اس نے آپ کی ننگی پیٹھ پرسو کوڑے لگوائے حتی کہ آپ کا کندھا اُتر گیا اور آپ خود اپنے ہاتھ سے اپنے بٹن بند نہیں کر سکتے تھے۔
(آداب الشافعی لابن ابی حاتم ص ۱۵۶، وسندہ صحیح)

◈ حافظ ابن حزم نے اہل الرائے کے باطل قیاس کا رد قیاس سے بھی کیا ہے، کیونکہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ جبری خرید و فروخت نہیں ہوتی ۔ جب جبری خرید و فروخت نہیں ہوتی تو پھر جبری طلاق کس طرح ہو جاتی ہے؟
(دیکھئے المحلی ۳۳۲/۸ مسئلہ: ۱۴۰۶)

جبری طلاق کے سلسلے میں ایک اہم بات پیش خدمت ہے:
ایک روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
” لا طلاق ولا عتاق في اغلاق ‘‘
اغلاق (حالت جبر یا غصے ) میں نہ طلاق ہوتی ہے اور نہ غلام آزاد ہوتا ہے۔
(سنن ابی داود:۲۱۹۳ وسکت عند وصحه الحاكم ۲/ ۱۹۸ ح ۲۸۰۲ على شرط مسلم فتعقبه الذهبي)
اس روایت کی سند ضعیف ہے۔
دیکھئے (انوار الصحیفہ ص۸۳)

اگر یہ روایت صحیح حسن ہوتی تو اس سے دو مسئلے صاف طور پر ثابت ہو جاتے :
➊ جبری طلاق نہیں ہوتی
➋ غصے کی حالت میں طلاق نہیں ہوتی۔

چونکہ ہم اصول حدیث ، علم اسماء الرجال اور انصاف کے پابند ہیں ، لہذا اس ضعیف روایت سے استدلال نہیں کرتے ۔

خلاصة ا التحقیق: جبری طلاق واقع نہیں ہوتی جیسا کہ عموم قرآن اور اجماع صحابہؓ سے ثابت ہے اور اس سلسلے میں تقی عثمانی صاحب کا فتویٰ بالکل غلط ہے۔
(۸/ اگست ۲۰۱۱ء)

وما علينا إلا البلاغ

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے