جان بوجھ کر روزہ چھوڑنے کا حکم قرآن و حدیث کی روشنی میں
تحریر: قاری اسامہ بن عبدالسلام حفظہ اللہ

جان بوجھ کر روزہ چھوڑنے کی وعید

رمضان کے روزے اسلام کے بنیادی ارکان میں شامل ہیں، اور ان کا بلاعذر ترک کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔ جو شخص جان بوجھ کر روزہ چھوڑ دیتا ہے، اس کے بارے میں قرآن و حدیث میں سخت وعید آئی ہے۔

 قرآن کی روشنی میں

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

"فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ ٱلشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ”
(سورۃ البقرہ: 185)

ترجمہ:
"پس تم میں سے جو کوئی اس مہینے (رمضان) کو پائے، وہ اس کے روزے رکھے…”

اس آیت میں واضح حکم دیا گیا ہے کہ رمضان کے روزے فرض ہیں، اور ان کو چھوڑنا اللہ کے حکم کی نافرمانی ہے۔

 احادیث کی روشنی میں

(1) بغیر عذر روزہ چھوڑنے پر سخت وعید

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

"مَنْ أَفْطَرَ يَوْمًا مِنْ رَمَضَانَ مِنْ غَيْرِ رُخْصَةٍ وَلَا مَرَضٍ، لَمْ يَقْضِهِ صِيَامُ الدَّهْرِ وَإِنْ صَامَهُ”
(سنن ترمذی: 723، سنن نسائی: 2338، سنن ابن ماجہ: 1672)

ترجمہ:
"جس نے رمضان کا ایک روزہ بھی بغیر کسی عذر اور بیماری کے چھوڑ دیا، تو اگر وہ ساری زندگی بھی روزے رکھے تو وہ اس کی جگہ پورا نہیں کر سکتا۔”

یہ حدیث اس بات کو واضح کرتی ہے کہ جان بوجھ کر روزہ ترک کرنا بہت بڑا گناہ ہے، اور اس کا کفارہ ادا کرنا آسان نہیں۔

(2) جہنم میں عذاب کی وعید

نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

"رَأَيْتُ قَوْمًا تُرْضَخُ رُءُوسُهُمْ بِٱلصَّخْرِ، كُلَّمَا رُضِخَتْ عَادَتْ، فَقُلْتُ: يَا جِبْرِيلُ، مَنْ هَؤُلَاءِ؟ قَالَ: ٱلَّذِينَ كَانُوا يُفْطِرُونَ قَبْلَ تَحِلَّةِ صَوْمِهِمْ”
(صحیح ابن خزیمہ: 1986)

ترجمہ:
"میں نے (معراج کی رات) کچھ لوگوں کو دیکھا، جن کے جبڑے چیرے جا رہے تھے، تو میں نے پوچھا: اے جبرائیل! یہ کون ہیں؟
جبرائیلؑ نے کہا: ‘یہ وہ لوگ ہیں جو روزہ نہیں رکھتے تھے۔'”

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بلاعذر روزہ چھوڑنے والے قیامت کے دن سخت عذاب میں مبتلا ہوں گے۔

 آثارِ صحابہ و سلف صالحین

(1) ابن عباسؓ کا قول

حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں:

"مَنْ تَرَكَ صَوْمَ رَمَضَانَ مُتَعَمِّدًا، فَإِنَّهُ لَا يُجْزِيهِ صِيَامُ الدَّهْرِ”
(مصنف عبدالرزاق: 7472)

ترجمہ:
"جو شخص رمضان میں بلاعذر روزہ چھوڑ دے، وہ اگر ساری زندگی روزے رکھے تب بھی وہ اس کا بدل نہیں بن سکتا۔”

اس قول سے ثابت ہوتا ہے کہ رمضان کے روزے کی اہمیت بہت زیادہ ہے، اور اس کی تلافی ممکن نہیں۔

(2) امام ابن تیمیہؒ کا فتویٰ

امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:

"تَارِكُ صَوْمِ رَمَضَانَ مُتَعَمِّدًا فَاسِقٌ، فَإِنْ جَحَدَ وُجُوبَهُ فَهُوَ كَافِرٌ”
(مجموع الفتاویٰ: 25/265)

ترجمہ:
"جس نے بلاعذر رمضان کا روزہ ترک کیا، وہ فاسق اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ہے، اور اگر وہ اسے حلال سمجھے تو وہ کافر ہو جائے گا۔”

امام ابن تیمیہؒ کے مطابق، جو شخص روزہ فرض ہونے کا انکار کرے، وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔

4. جو شخص جان بوجھ کر روزہ چھوڑے، اس کا حکم

اگر روزہ چھوڑنے والا توبہ کرے:
اس پر قضا لازم ہوگی، یعنی جتنے روزے چھوڑے، بعد میں رکھنے ہوں گے۔
سچی توبہ کرے، ورنہ سخت پکڑ کا سامنا ہوگا۔

اگر کوئی روزے کا انکار کرے (یعنی اسے فرض نہ سمجھے):
ایسا شخص دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔
اسے دوبارہ اسلام قبول کرنے کے لیے کلمہ پڑھنا ہوگا۔

اگر سستی یا کاہلی کی وجہ سے چھوڑے:
یہ بہت بڑا گناہ ہے، لیکن کفر تک نہیں پہنچتا۔
صدق دل سے توبہ اور قضا لازم ہوگی۔

5. خلاصہ و نتیجہ

رمضان کا روزہ فرض ہے اور جان بوجھ کر چھوڑنا بہت بڑا گناہ ہے۔
حدیث میں ایسے لوگوں کو شدید عذاب کی وعید دی گئی ہے۔
چھوڑے گئے روزوں کی قضا لازم ہے، اور سچی توبہ ضروری ہے۔
اگر کوئی شخص روزے کی فرضیت کا انکار کرے، تو وہ کافر ہو جاتا ہے۔
اگر محض سستی سے چھوڑے، تو وہ فاسق ہے اور توبہ کے بغیر بخشش ممکن نہیں۔

لہٰذا، ہر مسلمان کو چاہیے کہ روزے کی پابندی کرے اور اس کی فرضیت کو معمولی نہ سمجھے، کیونکہ یہ اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1