جانوروں کو اکٹھا کرنے ، علیحدہ علیحدہ کرنے اور اوقاص کا بیان
تحریر: عمران ایوب لاہوری

جانوروں کو اکٹھا کرنے ، علیحدہ علیحدہ کرنے اور اوقاص کا بیان
زکوٰۃ (ادا کرنے کے) خوف سے متفرق جانوروں کو اکٹھا کر لینا اور ایک ریوڑ کے جانوروں کو متفرق کر دینا جائز نہیں۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں یہ لفظ ہیں:
ولا يجمع بين متغرف ولا يفرق بين مجتمع خشية الصدقة
[بخارى: 1450 ، كتاب الزكاة: باب لا يجمع بين مفترق ولا يفرق بين مجتمع]
الگ الگ کو جمع کرنے کی صورت یہ ہے کہ مثلا تین آدمی ہیں ہر ایک کی چالیس چالیس بکریاں ہیں۔ الگ الگ کی صورت میں ہر ایک کو ایک ایک بکری زکوٰۃ دینا واجب آتی ہے اس طرح مجموعی طور پر تین بکریاں دینی پڑیں گی مگر جب زکوٰۃ وصول کرنے والا ان کے پاس پہنچتا ہے تو وہ تینوں اپنی اپنی بکریاں جمع کر لیتے ہیں اور تعداد ایک سو بیسں (120) بن جانے کی وجہ سے تینوں پر صرف ایک بکری بطور زکوٰۃ ادا کرنا لازم ہو گا۔
جمع شدہ کو الگ کرنے کی صورت یہ ہے کہ دو آدمی اکٹھے ہیں۔ دو سو دو (202) بکریاں ان کی ملکیت میں ہیں اس طرح دونوں پر تین بکریاں زکوٰۃ میں دینا لازم ہے مگر جب زکوٰۃ وصول کرنے والا ان کے پاس پہنچتا ہے تو دونوں اپنی اپنی بکریاں الگ کر لیتے ہیں یعنی اب ہر ایک کے پاس ایک سو ایک (101) بکریاں ہیں۔ اس طرح ان میں سے ہر ایک کو صرف ایک ہی بکری ادا کرنی ہو گی۔
[فتح البارى: 368/3 ، تحفة الأحوذى: 295/3]
نصاب سے کم تعداد پر اور دو متعین مقداروں کے درمیانی اجزاء پر زکاہ واجب نہیں ہے
اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں نیز گذشتہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت میں یہ لفظ بھی ہیں:
ومن لم يكن معه إلا أربع من الإبل فليس فيها صدقة إلا أن يشاء ربها
”اور جس کے پاس صرف چار اونٹ ہوں ان میں زکوٰۃ واجب نہیں ہے ، الا کہ ان کا مالک چاہے ۔ “
اور اس حدیث میں یہ لفظ بھی ہیں :
فإذا كانت سائمة الرجل ناقصة عن أربعين شاة شاة واحدة فليس فيها صدقة إلا أن يشاء ربها
”جب آدمی کی چرنے والی بکریوں میں سے چالیس بکریوں سے ایک بکری بھی کم ہو تو ان میں زکوٰۃ واجب نہیں ، اِلا کہ اس کا مالک (ادا کرنا ) چاہے ۔“
[بخاري: 4154 ، كتاب الزكاة: باب زكاة الغنم]
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں یہ لفظ ہیں:
ان الأوقاص لا فريضة فيها
”اوقاص میں کوئی فریضہ زکوٰۃ نہیں ۔“
[أحمد: 240/5]
لفظ ”او قاص“ وقص کی جمع ہے جس کا معنی جمہور کے نزدیک (کسی بھی نصاب کی ) دو متعین مقداروں کا درمیانی حصہ ہے۔
[نيل الأوطار: 88/3]
(شوکانیؒ ) اس سے بالاتفاق کچھ بھی زکوٰۃ واجب نہیں ۔
[أيضا]
(صدیق حسن خانؒ) اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں (کہ وقص میں کوئی زکوٰۃ نہیں ) ۔
[الروضة الندية: 429/1]
(ابو حنیفہؒ) انہوں نے ایک قول کے مطابق گذشتہ مسئلے کی مخالفت کرتے ہوئے چالیس اور ساٹھ گائیوں کے درمیان مسنہ (جانور) کا چوتھا حصہ زکوٰۃ مقرر کر دی ہے۔
(جمهورؒ) اس (امام ابو حنیفہؒ کے موقف) کے مخالف ہیں اور پہلے موقف کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔
[الأم: 13/2 ، المجموع: 384/5 ، بدائع الصنائع: 28/2 ، الهداية: 99/1 ، المغنى: 30/4]
شراکت دار زکوٰۃ میں برابری کے ساتھ شریک ہوں گے
حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت میں یہ لفظ بھی موجود ہیں:
وما كان من خليطين فإنهما يتراجعان بينهما بالسوية
”جو جانور دو آدمیوں کے درمیان مشترکہ ہوں وہ مساوی طور پر زکوٰۃ کا حصہ نکالیں ۔“
[بخاري: 1451 ، كتاب الزكاة: باب ما كان من خليطين فإنهما يتراجعان بينهما بالسوية]
اس کا مطلب یہ ہے کہ جب زکوٰۃ وصول کرنے والا دونوں کے مجموعے پر واجب زکوٰۃ ایک بکری کی صورت میں وصول کر لیتا ہے تو یقیناََ یہ ایک آدمی کی بکریوں میں سے وصول ہوئی ہے حالانکہ اس کے ذمے تو نصف بکری ہے اور باقی نصف اس کے دوسرے ساتھی پر ہے۔ تو اب زکوٰۃ وصول کرنے والا دوسرے ساتھی سے نصف بکری کی قیمت وصول کر کے پہلے کے حوالے کر دے گا۔ اس طرح دونوں کی طرف سے ان پر واجب زکوٰۃ ادا ہو جائے گی ، کسی بھی کمی بیشی کی شکایت نہیں رہے گی ۔
[إرشاد السارى: 377/3 ، تحفة الأحوذي: 295/3]
زکوٰۃ میں بوڑھا ، بھینگا ، عیب دار ، عمر میں چھوٹا ، زیادہ کھانے والا ، پالتو جانور ، حاملہ اور سانڈ وصول نہیں کیا جائے گا
➊ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی تحریر میں یہ بات تھی:
ولا يخرج فى الصدقة هرمة ولا ذات عوار ولا تيس إلا أن يشاء المصدق
”زکوٰۃ کی مد میں بوڑھا ، بھینگا اور سانڈ نہ لیا جائے الا کہ زکوٰۃ دینے والا شخص (سانڈ ) خود دینا چاہیے۔“
[بخاري: 4154 ، كتاب الزكاة: باب زكاة الغنم ، أبو داود: 1567 ، ابن ماجة: 1800]
➋ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ایک حدیث میں یہ لفظ ہیں:
ولا يوخذ فى الصدقة هرمة ولا ذات عيب
”زکوٰۃ کی مد میں بوڑھا اور کوئی عیب دار جانور نہ لیا جائے ۔“
[صحيح: صحيح أبو داود: 1386 ، كتاب الزكاة: باب زكاة السائمة ، أبو داود: 1568 ، ترمذي: 621]
➌ حضرت عبد اللہ بن معاویہ غاضری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ولا يـعـطـى الهرمة ولا الدرنة ولا المريضة ولا الشَّرَط الليمة ولكن من أوسط أموالكم
”کوئی شخص بھی بطور زکوٰۃ بوڑھا ، عیب دار ، بیمار اور بدترین (یا چھوٹا ) جانور نہ دے ، بلکہ اپنے اوسط درجہ کے اموال میں سے زکوٰۃ دے ۔“
[صحيح: صحيح أبو داود: 1400 ، كتاب الزكاة: باب زكاة السائمة ، أبو داود: 1582 ، طبراني صغير: 201/1]
الدَّرِنَة: میلا کچیلا جانور اور امام خطابیؒ نے اس سے خارش زدہ بھی مراد لیا ہے۔
[القاموس المحيط درن معالم السنن: 37/2]
الشَّرَطَ اللَّيْمَةَ: چھوٹا اور بدترین مال ۔
اللئيمة یعنی دودھ دینے میں بخیل جانور۔
[النهاية لابن الأثير: 37/2]
➍ حضرت سفیان بن عبد اللہ ثقفی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے زکوٰۃ لینے والے کو حکم دیا کہ :
ولا تاخذ الأكولة ولا الربى ولا الما خض ولا فحل غنم
”زکوٰۃ میں بانجھ ، پالتو جانور ، حاملہ اور سانڈ وصول نہ کرو۔“
[موطا: 276/1 ، بيهقي: 100/4 ، مسند شافعي: 238/1 ، المحلى لابن حزم: 276/5]
یہ روایت مرفوع بھی بیان کی گئی ہے ۔
[ابن أبى شيبة: 134/3]
گھٹیا اور ردی قسم کی اشیاء و زکوٰۃ میں دینا جائز نہیں
ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
يايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُمْ مِّنَ الْأَرْضِ وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنْفِقُونَ وَلَسْتُمْ بِاخِدَيْهِ إِلَّا أَنْ تُغْمِضُوا فِيهِ [البقرة: 267]
”اے ایمان والو! اپنی پاکیزہ کمائی میں سے اور زمین سے تمہارے لیے ہماری نکالی ہوئی چیزوں میں سے خرچ کرو ۔ ان میں سے بری چیزوں کے خرچ کرنے کا قصد نہ کرنا کہ جسے تم خود لینے والے نہیں ہو ہاں اگر آنکھیں بند کر لو تو (یعنی جس طرح تم خود
ردی چیزیں لینا پسند نہیں کرتے ، اس طرح اللہ کی راہ میں بھی ایسی چیزیں خرچ مت کرو ) ۔“
گدھوں ، خچروں اور گھوڑوں پر زکوٰۃ نہیں
کیونکہ کتاب و سنت میں ان کی زکوٰۃ مقرر نہیں کی گئی لیکن یہ یاد رہے کہ اگر یہ جانور تجارت کے لیے ہوں تو پھر دیگر اموال تجارت کی طرح ان کی بھی قیمت لگا کر اڑھائی فیصد زکوٰۃ ادا کی جائے گی۔
پالتو جانوروں پر زکوٰۃ فرض نہیں
ایسے اونٹ ، گائے ، بھینسیں اور بکریاں جن کی پرورش گھر میں چارہ ڈال کر کی جاتی ہو تو ان میں زکوٰۃ واجب نہیں تا ہم ان سے حاصل شدہ آمدنی اگر کچھ جمع ہو جائے تو سال گزرنے پر دیگر اموال کیساتھ اس کی بھی زکوٰۃ دی جائے گی لیکن اگر یہ جانور بھی تجارت کے لیے ہوں تو ان سے بھی زکوٰۃ دی جائے گی۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1