تہجد، وتر اور دعائے قنوت کی قضا اور بھولنے کا حکم
فتاویٰ علمائے حدیث، کتاب الصلاۃ، جلد 1 ص 154۔155

سوال

اگر تہجد کی نماز سفر، بیماری یا نیند کی وجہ سے رہ جائے اور وتر کا وقت بھی نہ رہے، تو کیا کرنا چاہیے؟ کیا نماز قضا کرنے سے گناہ ہوگا؟ اور اگر وتر نماز میں دعائے قنوت بھول جائے تو کیا کرنا چاہیے، سجدہ سہو کرے یا سلام پھیرے؟

جواب

تہجد کی نماز کا قضا کرنا:

اگر کسی شخص کی تہجد کی نماز سفر، بیماری یا نیند کی وجہ سے چھوٹ جائے، تو بہتر یہ ہے کہ دن میں اس کی قضا کر لے، کیونکہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:

﴿وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ‌ خِلْفَةً لِّمَنْ أَرَ‌ادَ أَن يَذَّكَّرَ‌ أَوْ أَرَ‌ادَ شُكُورً‌ا﴾
(الفرقان: 62)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کی تہجد کی نماز بیماری یا نیند کی وجہ سے رہ جاتی تو آپ دن میں بارہ رکعتیں ادا فرماتے۔
(مسلم، ترمذی)

ایک اور حدیث میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص کا تہجد کا وظیفہ چھوٹ جائے اور وہ ظہر کی نماز سے پہلے اس کی قضا کر لے، تو گویا اس نے رات کے وقت میں ہی اسے ادا کر لیا۔
(مسلم)

وتر کی قضا:

اگر وتر کی نماز کا وقت نکل جائے تو اس کی قضا ضروری ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

"جو شخص وتر بھول جائے یا سوتا رہ جائے تو جب یاد آئے یا بیدار ہو، تو اسے ادا کرے۔”
(ترمذی، ابو داؤد)

نماز قضا کرنے کا گناہ:

بلا عذر شرعی فرض نماز کو وقت سے مؤخر کرنا گناہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص پانچ نمازوں کو مقررہ اوقات میں ادا کرے، اللہ تعالیٰ اس کو بخش دے گا اور جنت میں داخل کرے گا۔ اور جو ایسا نہ کرے، وہ اللہ کی مشیت کے تحت ہوگا، اللہ چاہے گا تو معاف کرے گا یا عذاب دے گا۔
(ترمذی، ابو داؤد، موطا مالک)

دعائے قنوت بھولنے کا حکم:

دعائے قنوت نہ واجب ہے اور نہ رکن، اس لیے اگر دعائے قنوت بھول جائے تو نہ سجدہ سہو کرنا ضروری ہے اور نہ نماز دہرانے کی ضرورت ہے۔

(محدث دہلی، جلد نمبر 8، شمارہ نمبر 3)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے